تاریخ کا اک مخدوش جھروکہ، ٹلہ جوگیاں

کعنان

محفلین
تاریخ کا اک مخدوش جھروکہ، ٹلہ جوگیاں

محمد کاشف علی، اتوار 13 نومبر 2016

648340-w-1478602979-426-640x480.jpg

لوک روایات کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ مخصوص سماج کی مشترکہ یاداشت ہوتی ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہے بھلے اس میں جزئیات کی آمیزش ہوتی رہے۔

طبعیاتی اصولوں کے بمو جب وقت کی لہریں ہمہ وقت متحرک رہتی ہیں، سمت کوئی بھی ہو۔ پر گواہ ہے ہر وہ یاتری ٹلہ جوگیاں کا کہ تاریخ میں ٹلہ منجمد سا ہو کر رہ گیا ہے۔ جیسے ٹلے کے لئے وقت رک سا گیا ہو، جیسے تاریخ ٹلہ پہنچ کر ہچکیاں لے رہی ہو، جیسے اک اور سویا ہوا محل، جیسے کوئی منظر کوہستان نمک کی زمین سے تجسیم ہو رہا ہو۔ اب ٹلہ، تاریخ کا ماتم کدہ اور ہمارے رویوں کا نوحہ ہے۔ داغستان کا رسول حمزہ توف اپنی کتاب ’’میرا داغستان‘‘ میں ایک لوک شاعر ابو طالب کی زبانی تحریر کرتا ہے کہ،


"اگر ہم اپنے ماضی کو گولی سے ماریں گے تو ہمارا ماضی ہم پر توپ داغے گا
(ویسے یاد رہے ٹلہ وہی مقام ہے جہاں سے آزمائشی طور پر 1998ء میں غوری میزائل داغا گیا تھا)۔

چشم تصور کو جووا کیا جائے تو جوگیوں کا ایک کنبہ ملے گا۔ ٹلہ پر تپسیا کرتے، یوگ کرتے اور اپنے اپنے جاپ کرتے ہوئے۔ وقت کی لہریں آتی جاتی رہیں اور جوگیوں کی روحیں جسموں کی قید سے آزاد ہوتی رہیں پر ٹلہ پھر بھی آباد رہا کہ ٹلہ ہندوستان بھر کے جوگیاں کا مرکز حیات تھا اور پھر 1947ء کا بٹوارہ ہوا تو ایک ریاست ہندو ہو گئی، دوسری مسلمان تو جوگی کیا کرتے؟ وہ ہندو بھی تھے، مسلمان بھی اور سکھ بھی یا شاید سب کچھ تھے یا شاید کچھ بھی نہیں۔ تو بس وقت وہیں رک سا گیا اور ٹلہ پھر آباد نہ ہو پایا۔

0-image-1478600363.jpg

میرے گرو اور پاکستان میں تحقیقی و تاریخی سیاحت کو رواج دینے والے سلمان رشید ٹلہ کی تاریخ کو اختصار کی گرہ لگاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ پہلے پہل یہ کوہستانی مقدس معبد پہلی صدی قبل مسیح میں گرو گورکھ ناتھ نے آباد کیا تھا۔ جس کو کن پھٹے جوگیوں کے فرقے کا بانی خیال کیا جاتا ہے۔ مغل بادشاہ اکبر نے سولہویں صدی عیسوی میں دو بار اس مقدس پہاڑ کا رخ کیا اور اس کے لئے جاگیر بھی وقف کی، اٹھارویں صدی نے احمد شاہ ابدالی کو جوگیوں کی اس تعلیم و کمیں گاہ کو تباہ کرتے دیکھا مگر ابدالی کے جاتے ہی جوگی لوٹ آئے۔

الیگزینڈر کنینگھم
(1893-1814) برطانوی راج میں ایک آرمی افسر تھا، پر دل اسکا تاریخ کھوجنے میں لگا رہتا تھا خاص کر اسے قدیم تاریخ اور آثارِ قدیمہ سے لگاؤ تھا اور وہ انڈین آرکیالوجیکل سروے کا پہلا ڈائریکٹر بھی تھا۔ اُس کا یہ خیال ہے کہ یہ مقدس پہاڑی سب سے پہلے سورج دیوتا بالناتھ سے منسوب کی گئی تھی۔ تب سے اسے ٹلہ بالناتھ بھی کہا جاتا ہے۔ الیگزینڈر کنینگھم کا ہی خیال ہے کہ گرو گورکھ ناتھ 15 ویں صدی عیسوی میں گزرا ہے اور اسی خیال کو برطانوی دور کے افسران و ماہرین ڈینزل چارلس ابٹسن ( 1847 1908 ) اور ایڈورڈ ڈوگلس میکلیگن (1864-1952) وغیرہ نے بھی قبول کیا ہے مگر سلمان رشید قدیم تاریخ اور لوک روایات کی بنیاد پر استدلال کرتے ہیں کہ گرو گورکھ ناتھ کا اور ٹلہ کا ذکر اُجین کے راجہ بھرتری اور سیالکوٹ کے راجہ سلواہن کے ادوار اور ان کے حوالوں سے ملتا ہے اور دونوں کا زمانہ پہلی صدی قبل مسیح کا ہے۔


0-image-1478600547.jpg

راجہ بھرتری تو خود راج پاٹ تیج کر، اپنے بھائی وکرم جیت کو تاج و تخت سونپ کر واردِ ٹلہ ہوا جبکہ کے راجہ سلواہن کا بیٹا پورن، گرو گورکھ ناتھ کا بھگت بنا تھا۔ آج بھی سیالکوٹ کی تاریخی اور ثقافتی کہانی تب تک مکمل نہیں ہوتی جب تک پورن بھگت کا قصہ سماعتوں کی گلیوں سے ہو کر نہ گزرے۔ لوک روایات کے بیانیے میں مبالغہ تو ہوسکتا ہے مگر قدیم ہند کی تاریخ نگاری لوک روایات سے ہی اتنی ضخیم ہوئی ہے۔ لوک روایات کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ مخصوص سماج کی مشترکہ یاداشت ہوتی ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہے بھلے اس میں جزئیات کی آمیزش ہوتی رہے۔

یہ مقدس پہاڑ ٹلہ گورکھ ناتھ سے ٹلہ بالناتھ بنا اور پھر عالم میں ٹلہ جوگیاں کا نام پایا،
مغل بادشاہ اکبر کا وقائع نویس ابوالفضل اسے ٹلہ بالناتھ کے نام سے ہی ’’آئینِ اکبری‘‘ میں جگہ دیتا ہے اور اسی کے مطابق اکبر نے 1581ء میں اس جوگیوں کے اس مقدس پہاڑ کی یاترا کی۔
شیر شاہ سوری نے سولہویں صدی کے وسط میں جرنیلی سڑک سے منسلک دینہ میں قلعہ روہتاس جو بنوا رکھا تھا تو اس کے بعد جب مغل شاہان یہاں سے گزرا کرتے تو یقیناً قیام تو کرتے ہوں گے اور کچھ ٹلہ کی زیارت بھی کرتے ہوں گے، بہر کیف تاریخ میں نورالدین جہانگیر بادشاہ کا ذکر تو مل ہی جاتا ہے کہ وہ ایک بار تو جوگیوں کے مقدس پہاڑ تک آیا۔


0-image-1478600607.jpg

خیر جی قصہ مختصر کرتے ہیں کہ پہلی صدی قبل مسیح میں ٹلہ آباد بھی ہو گیا اور سن 1947ء میں جہاں ہمیں آزادی نصیب ہوئی وہاں یہ ٹلہ بھی اپنی آخری سانسیں چھوڑ گیا، ٹلہ اسی بے رنگی کی ایک داستان ہے وگرنہ بیساکھی کا میلہ اس کا ایک اجلا رنگ ہوا کرتا تھا۔

جناب! اب تاریخ کے دریچے سے نکلتے ہیں اور سیاحت کی گلی میں مڑتے ہیں۔ مبادًا یوگی بابا ناراض ہو جائیں۔ جوگیوں کے ٹلے کو کئی راستے جاتے ہیں پر میں تو صرف ایک راہ پر آپ کی انگلی تھام سکتا ہوں کہ مجھے ذاتی طور پر ایک راہ کا ہی پتا ہے، تو کوہستان نمک کے جاہ و جلال کی تجسیم قلعہ رہتاس کے جنوب میں کوئی 25 کلومیٹر کے فاصلے پر بھیٹ گاؤں پڑتا ہے جہاں تک کوئی بھی سواری آپ کو لے جائے گی کیونکہ سرمئی سڑک اچھی حالت میں ہے۔


0-image-1478600640.jpg

اب آپ نے ٹلہ کی بلندی پر جانا ہے جو سطح سمندر سے قریباً 3200 فٹ بلند ہے اور آپ بھیٹ گاؤں سے اوپر، اوپر اور اوپر کی طرف قدم بقدم اس سانپ کی مانند لکیر پر چلتے ہیں جہاں سے چرواہے اور لکڑہارے گزرتے ہیں۔ کچھ تو گھاس پھونس ہے ارد گرد مگر جوں جوں آپ بلندی کو زیر کرنا شروع کرتے ہیں تو پھلائی، کیکر اور جنگلی زیتون کے درخت بھی آپ کے منظر کا حصہ بن جاتے ہیں۔ جبکہ ٹاپ پر چند ایک چیڑ اور پیپل کے درخت بھی صدیوں کی داستان بن کر ایستادہ ہیں۔ ٹریک سخت جان تو نہیں مگر گرم موسم میں بالکل مناسب نہیں۔ عموماً اس کو دو سے اڑھائی گھنٹوں میں مکمل کیا جاسکتا ہے۔ اوپر ٹاپ پر جا کر محکمہ جنگلات کا ایک ریسٹ ہاؤس نظر آیا جو کہ قدامت میں جدت کا ایک پیوند ہے۔


0-image-1478600835.jpg


0-image-1478600715.jpg


0-image-1478600680.jpg

ٹلہ مشرقی کوہستان نمک کا سب سے بلند مقام ہے، آپ یہاں سے بلندی سے عقاب کی نظر سے پورے کوہستان نمک کا 360 کے زاویے سے نظارہ کر سکتے ہیں۔ جہاں سے آپ کہان ندی بھی دیکھتے ہیں اور دریائے جہلم کو بھی۔ یہاں کا منظر وسعت انگیز ہے شاید اسی وجہ سے مجھے بھیٹ گاؤں کے اک چرواہے نے بتایا تھا، ’’ٹلے سے پورا پاکستان نظر آتا ہے‘‘ اور اس چرواہے کا پاکستان شاید کوہستان نمک ہی تھا کہ وہ زندگی میں چند بار ہی کوہستان نمک سے باہر گیا تھا۔


0-image-1478600772.jpg

ٹلہ تاریخ کے مختلف اوراق کے ایک مجموعے کا نام ہے کہ یہاں مختلف ادوار کی یادگاریں ہیں۔ مندر بھی ہیں، سمادھیاں، جوگیوں کی غاریں بھی ہیں، ایک عظیم تالاب اور گرو نانک کی بیٹھک بھی ہے۔ ایک لوح سنگ مرمر کے مطابق یہاں شیو شنکر، ماں امبے درگا رانی، بابا گرونانک، گرو گورکھ ناتھ، گرو بابا مچھندر، گرو نوناتھوں، گرو سدھ بالک ناتھ اور گرو بھیرو ناتھ کے استھان موجود ہیں۔ تاریخی روایات کے بموجب گرو نانک ناتھ نے یہاں چلہ کیا تھا تو اسی کی یاد میں ایک یادگار بنائی گئی جو قائدِ پاکستان کے مزار سے مشابہہ ہے یا یوں کہنا چاہیے کہ مزار قائد گرو نانک کی یادگار سے مشابہت رکھتا ہے کہ گرو کی بیٹھک قائد کے مزار سے بہر کیف قدیم ہے۔

سن 1947ء کی تقسیم، جو وقت کی ضرورت تھی، نے تو بس ٹلہ کو ویران ہی کیا تھا پر میری قوم کے احمقوں نے تو ٹلہ کو برباد بھی کیا، خزانوں کی تلاش میں اور لاپرواہی کے کینسر سے۔

نوٹ: بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
محمد کاشف علی یونیورسٹی آف گجرات ، پنجاب میں شعبہ تاریخ سے بحیثیت لیکچرار منسلک ہیں۔


ح
 
2002 میں ٹلہ جوگیاں جانے کا اتفاق ہوا۔ نہایت شاندار اور بہت پرسکون جگہ ہے۔ اس پورے علاقے میں شہد کی چھوٹی مکھی کے بہت زیادہ چھتے تھے اور ہم تین آوارہ گردوں کے ٹولے نے ان سے انصاف بھی خوب کیا تھا۔
سن 1947ء کی تقسیم، جو وقت کی ضرورت تھی، نے تو بس ٹلہ کو ویران ہی کیا تھا پر میری قوم کے احمقوں نے تو ٹلہ کو برباد بھی کیا، خزانوں کی تلاش میں اور لاپرواہی کے کینسر سے۔
پاکستان کی تین بڑی فائرنگ رینجز میں سے ایک ٹلہ میں ہے۔ صاحب تحریر شاید اس سے واقف بھی ہوں پھر بھی ایسا کہنا عجیب لگ رہا ہے۔
 

کعنان

محفلین
ٹلہ جوگیاں، بھرتری ہری اور اقبالؔ
عامر ریاض
5565_45776170.jpg

علامہ اقبالؔ کی شاعری کی کتاب ’’بال جبریل‘‘ 1935 میں چھپ کے آئی تو بہت سے لوگوں نے یہ سوال ضرور سوچا ہو گا کہ آخر یہ ’’بھرتری ہری‘‘ کون ہے؟ اس فلسفی شاعر اور گرائمر کے ماہر شخص کا شعر اقبال نے بال جبریل میں شائع کیوں کیا تھا۔ شعر تو آپ سب نے ہی پڑھا ہو گا جو اُردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ ترجمہ اقبال کا اپنا ہے یا نہیں، اس بارے اقبال پر تحقیق کرنے والے محققین کو بتانا چاہیے۔

البتہ قیاس یہی ہے کہ اقبال نے ہی اس کا ترجمہ کیا ہے۔ یہ بھی بتانا چاہیے کہ 20 ویں صدی کے چوتھے عشرے میں اقبال نے بھرتری ہری کو یاد رکھنا کیوں ضروری گردانا۔ پہلے آپ شعر پڑھیں: پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر مردِ ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر بھرتری ہری کے کام یعنی کچھ شاعری اور دیگر چیزیں تو ملتی ہیں مگر ان کی عظمت و شہرت کی تصدیق 7 ویں صدی میں ہمارے خطہ میں آنے والے چینی سیاح زینگ ون (Yi-Jing) نے کی تھی۔
چین میں اس وقت ’’تانگ‘‘ پادشاہی تھی۔ وہ ’’بدھ‘‘ مذہب کا پیروکار جوگی سیاح تھا جو ہر اس جگہ جانا چاہتا تھا جہاں یہ مذہب پھیلا تھا۔ بس اسی تلاش میں وہ ہمارے خطہ میں بھی سفر کرتا رہا۔ بھرتری ہری کی شاعری کی تین کتب ’’ستک ترے‘‘ ملتی ہیں جن میں ہر ایک سو اشعار پر مشتمل ہے۔ اس کے کئی تراجم انگریزی میں ہو چکے ہیں۔

اپنے زبیر شفیع غوری بڑے گنی انسان ہیں۔ انہوں نے یہ بتا کر حیران کر دیا کہ جب وہ جوانی میں ’’ٹلہ جوگیاں‘‘ کی زیارت کو گئے تھے تو وہاں بھرتری ہری کی سمادھی موجود تھی۔ یہ ٹلہ جوگیاں ہمارے ہزاروں برس کی تاریخ کا اک نادر نمونہ ہے جو ہماری روایتی عدم توجہ کا شکار ہے۔ یہ ٹلہ کتنی صدیوں سے کان چھدوانے یعنی ’’کن پھٹے‘‘ جوگیوں یا یوگیوں کا ٹھکانہ ہے کہ باوا گورکھ ناتھ کے ماننے والے تو ایشیا بھر میں پھیلے ہوئے تھے۔ بال ناتھ اور بھرتری ہری صاحب ان کے شاگرد خاص تھے۔ یہ بات تو ہر پنجابی جانتا ہے کہ رانجھا بھی کن چھدوانے اسی ٹلہ پر گیا تھا اور وارث شاہ نے اس بارے مہر تصدیق لگا دی ہوئی ہے۔ ہمارا پرانا علم، فلسفہ و تاریخ تو قصوں کہانیوں ہی میں محفوظ ہے کہ پورن بھگت کے قصہ میں بھی سیالکوٹی شہزادے کو کنوئیں سے نکالنے گورکھ ناتھ ہی آئے تھے۔

اب ذرا غور تو کریں کہ ٹلہ جوگیاں کو بہت سے رستے جاتے ہیں کہ چاہے آپ پنڈی کے نزدیک لاہور آتے ہوئے ’’مندرہ‘‘ سے اندر جائیں تو چاہے قلعہ روہتاس سے ہوتے ہوئے تھوڑا آگے چلے آئیں۔ مگر نہ تو اب تک وہاں پنجاب ٹورازم والوں نے ٹھکانہ بنایا ہے نہ ہی سڑک۔ البتہ اس قدر بلندی پر واقع ہونے کی وجہ سے اس مقام عظیم کو پنجاب کے کتنے ہی شہروں جیسے منڈی بہائو الدین ، چکوال، گجرات اور جہلم سے دیکھا جا سکتا ہے۔ اب بال جبریل تو 1935 میں شائع ہوئی تھی اور تین سال بعد اقبال راہی ملک عدم ہوئے مگر جانے سے قبل وہ ہمیں بھرتری ہری کا پتہ یاد دلاتے گئے۔ اب ہم اقبال کو محض ’’کوزے‘‘ میں بند کرنے کی جستجو میں لگے رہیں تو اس میں اقبال کا تو کوئی قصور نہیں۔ یوگا کرنے والے یوگیوں یا جوگ جگانے والے جوگیوں کی ہر کوئی عزت تو کرتا ہے مگر 1891 میں انگریزوں نے ان بارے اعدادوشمار اکٹھے کیے۔ اس زمانے میں جب 2 لاکھ 14 ہزار جوگیوں بارے اعدادوشمار اکٹھے ہوئے تو معلوم ہوا ان کی بڑی تعداد یعنی 92 ہزار تو پنجاب ہی میں ہیں جبکہ ان میں 40 ہزار سے زائد مسلمان جوگی ہیں۔

ٹلہ جوگیاں، بھرتری ہری، وارث شاہ اور اقبال، یہ ہمارا وہ تسلسل ہے جو کچھ لوگوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا مگر علم و عرفان کے اسی تسلسل نے ہمیں پیار محبت اور فقر سے جوڑے رکھا ہے کہ ہزارہا جنگوں اور مارکٹائیوں کے باوجود ہم انسانیت کو آج بھی مقدم رکھتے ہیں۔ بس اسی تسلسل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ تحریر لکھی گئی ہے کہ پھول کی پتی سے واقعی ہیرے کا جگر کٹ سکتا ہے۔

ح
 
Top