کعنان
محفلین
تاریخ کا اک مخدوش جھروکہ، ٹلہ جوگیاں
محمد کاشف علی، اتوار 13 نومبر 2016
لوک روایات کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ مخصوص سماج کی مشترکہ یاداشت ہوتی ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہے بھلے اس میں جزئیات کی آمیزش ہوتی رہے۔
طبعیاتی اصولوں کے بمو جب وقت کی لہریں ہمہ وقت متحرک رہتی ہیں، سمت کوئی بھی ہو۔ پر گواہ ہے ہر وہ یاتری ٹلہ جوگیاں کا کہ تاریخ میں ٹلہ منجمد سا ہو کر رہ گیا ہے۔ جیسے ٹلے کے لئے وقت رک سا گیا ہو، جیسے تاریخ ٹلہ پہنچ کر ہچکیاں لے رہی ہو، جیسے اک اور سویا ہوا محل، جیسے کوئی منظر کوہستان نمک کی زمین سے تجسیم ہو رہا ہو۔ اب ٹلہ، تاریخ کا ماتم کدہ اور ہمارے رویوں کا نوحہ ہے۔ داغستان کا رسول حمزہ توف اپنی کتاب ’’میرا داغستان‘‘ میں ایک لوک شاعر ابو طالب کی زبانی تحریر کرتا ہے کہ،
"اگر ہم اپنے ماضی کو گولی سے ماریں گے تو ہمارا ماضی ہم پر توپ داغے گا"۔
(ویسے یاد رہے ٹلہ وہی مقام ہے جہاں سے آزمائشی طور پر 1998ء میں غوری میزائل داغا گیا تھا)۔
چشم تصور کو جووا کیا جائے تو جوگیوں کا ایک کنبہ ملے گا۔ ٹلہ پر تپسیا کرتے، یوگ کرتے اور اپنے اپنے جاپ کرتے ہوئے۔ وقت کی لہریں آتی جاتی رہیں اور جوگیوں کی روحیں جسموں کی قید سے آزاد ہوتی رہیں پر ٹلہ پھر بھی آباد رہا کہ ٹلہ ہندوستان بھر کے جوگیاں کا مرکز حیات تھا اور پھر 1947ء کا بٹوارہ ہوا تو ایک ریاست ہندو ہو گئی، دوسری مسلمان تو جوگی کیا کرتے؟ وہ ہندو بھی تھے، مسلمان بھی اور سکھ بھی یا شاید سب کچھ تھے یا شاید کچھ بھی نہیں۔ تو بس وقت وہیں رک سا گیا اور ٹلہ پھر آباد نہ ہو پایا۔
الیگزینڈر کنینگھم (1893-1814) برطانوی راج میں ایک آرمی افسر تھا، پر دل اسکا تاریخ کھوجنے میں لگا رہتا تھا خاص کر اسے قدیم تاریخ اور آثارِ قدیمہ سے لگاؤ تھا اور وہ انڈین آرکیالوجیکل سروے کا پہلا ڈائریکٹر بھی تھا۔ اُس کا یہ خیال ہے کہ یہ مقدس پہاڑی سب سے پہلے سورج دیوتا بالناتھ سے منسوب کی گئی تھی۔ تب سے اسے ٹلہ بالناتھ بھی کہا جاتا ہے۔ الیگزینڈر کنینگھم کا ہی خیال ہے کہ گرو گورکھ ناتھ 15 ویں صدی عیسوی میں گزرا ہے اور اسی خیال کو برطانوی دور کے افسران و ماہرین ڈینزل چارلس ابٹسن ( 1847 1908 ) اور ایڈورڈ ڈوگلس میکلیگن (1864-1952) وغیرہ نے بھی قبول کیا ہے مگر سلمان رشید قدیم تاریخ اور لوک روایات کی بنیاد پر استدلال کرتے ہیں کہ گرو گورکھ ناتھ کا اور ٹلہ کا ذکر اُجین کے راجہ بھرتری اور سیالکوٹ کے راجہ سلواہن کے ادوار اور ان کے حوالوں سے ملتا ہے اور دونوں کا زمانہ پہلی صدی قبل مسیح کا ہے۔
راجہ بھرتری تو خود راج پاٹ تیج کر، اپنے بھائی وکرم جیت کو تاج و تخت سونپ کر واردِ ٹلہ ہوا جبکہ کے راجہ سلواہن کا بیٹا پورن، گرو گورکھ ناتھ کا بھگت بنا تھا۔ آج بھی سیالکوٹ کی تاریخی اور ثقافتی کہانی تب تک مکمل نہیں ہوتی جب تک پورن بھگت کا قصہ سماعتوں کی گلیوں سے ہو کر نہ گزرے۔ لوک روایات کے بیانیے میں مبالغہ تو ہوسکتا ہے مگر قدیم ہند کی تاریخ نگاری لوک روایات سے ہی اتنی ضخیم ہوئی ہے۔ لوک روایات کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ مخصوص سماج کی مشترکہ یاداشت ہوتی ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہے بھلے اس میں جزئیات کی آمیزش ہوتی رہے۔
یہ مقدس پہاڑ ٹلہ گورکھ ناتھ سے ٹلہ بالناتھ بنا اور پھر عالم میں ٹلہ جوگیاں کا نام پایا،
مغل بادشاہ اکبر کا وقائع نویس ابوالفضل اسے ٹلہ بالناتھ کے نام سے ہی ’’آئینِ اکبری‘‘ میں جگہ دیتا ہے اور اسی کے مطابق اکبر نے 1581ء میں اس جوگیوں کے اس مقدس پہاڑ کی یاترا کی۔
شیر شاہ سوری نے سولہویں صدی کے وسط میں جرنیلی سڑک سے منسلک دینہ میں قلعہ روہتاس جو بنوا رکھا تھا تو اس کے بعد جب مغل شاہان یہاں سے گزرا کرتے تو یقیناً قیام تو کرتے ہوں گے اور کچھ ٹلہ کی زیارت بھی کرتے ہوں گے، بہر کیف تاریخ میں نورالدین جہانگیر بادشاہ کا ذکر تو مل ہی جاتا ہے کہ وہ ایک بار تو جوگیوں کے مقدس پہاڑ تک آیا۔
خیر جی قصہ مختصر کرتے ہیں کہ پہلی صدی قبل مسیح میں ٹلہ آباد بھی ہو گیا اور سن 1947ء میں جہاں ہمیں آزادی نصیب ہوئی وہاں یہ ٹلہ بھی اپنی آخری سانسیں چھوڑ گیا، ٹلہ اسی بے رنگی کی ایک داستان ہے وگرنہ بیساکھی کا میلہ اس کا ایک اجلا رنگ ہوا کرتا تھا۔
جناب! اب تاریخ کے دریچے سے نکلتے ہیں اور سیاحت کی گلی میں مڑتے ہیں۔ مبادًا یوگی بابا ناراض ہو جائیں۔ جوگیوں کے ٹلے کو کئی راستے جاتے ہیں پر میں تو صرف ایک راہ پر آپ کی انگلی تھام سکتا ہوں کہ مجھے ذاتی طور پر ایک راہ کا ہی پتا ہے، تو کوہستان نمک کے جاہ و جلال کی تجسیم قلعہ رہتاس کے جنوب میں کوئی 25 کلومیٹر کے فاصلے پر بھیٹ گاؤں پڑتا ہے جہاں تک کوئی بھی سواری آپ کو لے جائے گی کیونکہ سرمئی سڑک اچھی حالت میں ہے۔
اب آپ نے ٹلہ کی بلندی پر جانا ہے جو سطح سمندر سے قریباً 3200 فٹ بلند ہے اور آپ بھیٹ گاؤں سے اوپر، اوپر اور اوپر کی طرف قدم بقدم اس سانپ کی مانند لکیر پر چلتے ہیں جہاں سے چرواہے اور لکڑہارے گزرتے ہیں۔ کچھ تو گھاس پھونس ہے ارد گرد مگر جوں جوں آپ بلندی کو زیر کرنا شروع کرتے ہیں تو پھلائی، کیکر اور جنگلی زیتون کے درخت بھی آپ کے منظر کا حصہ بن جاتے ہیں۔ جبکہ ٹاپ پر چند ایک چیڑ اور پیپل کے درخت بھی صدیوں کی داستان بن کر ایستادہ ہیں۔ ٹریک سخت جان تو نہیں مگر گرم موسم میں بالکل مناسب نہیں۔ عموماً اس کو دو سے اڑھائی گھنٹوں میں مکمل کیا جاسکتا ہے۔ اوپر ٹاپ پر جا کر محکمہ جنگلات کا ایک ریسٹ ہاؤس نظر آیا جو کہ قدامت میں جدت کا ایک پیوند ہے۔
ٹلہ مشرقی کوہستان نمک کا سب سے بلند مقام ہے، آپ یہاں سے بلندی سے عقاب کی نظر سے پورے کوہستان نمک کا 360 کے زاویے سے نظارہ کر سکتے ہیں۔ جہاں سے آپ کہان ندی بھی دیکھتے ہیں اور دریائے جہلم کو بھی۔ یہاں کا منظر وسعت انگیز ہے شاید اسی وجہ سے مجھے بھیٹ گاؤں کے اک چرواہے نے بتایا تھا، ’’ٹلے سے پورا پاکستان نظر آتا ہے‘‘ اور اس چرواہے کا پاکستان شاید کوہستان نمک ہی تھا کہ وہ زندگی میں چند بار ہی کوہستان نمک سے باہر گیا تھا۔
ٹلہ تاریخ کے مختلف اوراق کے ایک مجموعے کا نام ہے کہ یہاں مختلف ادوار کی یادگاریں ہیں۔ مندر بھی ہیں، سمادھیاں، جوگیوں کی غاریں بھی ہیں، ایک عظیم تالاب اور گرو نانک کی بیٹھک بھی ہے۔ ایک لوح سنگ مرمر کے مطابق یہاں شیو شنکر، ماں امبے درگا رانی، بابا گرونانک، گرو گورکھ ناتھ، گرو بابا مچھندر، گرو نوناتھوں، گرو سدھ بالک ناتھ اور گرو بھیرو ناتھ کے استھان موجود ہیں۔ تاریخی روایات کے بموجب گرو نانک ناتھ نے یہاں چلہ کیا تھا تو اسی کی یاد میں ایک یادگار بنائی گئی جو قائدِ پاکستان کے مزار سے مشابہہ ہے یا یوں کہنا چاہیے کہ مزار قائد گرو نانک کی یادگار سے مشابہت رکھتا ہے کہ گرو کی بیٹھک قائد کے مزار سے بہر کیف قدیم ہے۔
سن 1947ء کی تقسیم، جو وقت کی ضرورت تھی، نے تو بس ٹلہ کو ویران ہی کیا تھا پر میری قوم کے احمقوں نے تو ٹلہ کو برباد بھی کیا، خزانوں کی تلاش میں اور لاپرواہی کے کینسر سے۔
نوٹ: بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
محمد کاشف علی یونیورسٹی آف گجرات ، پنجاب میں شعبہ تاریخ سے بحیثیت لیکچرار منسلک ہیں۔
ح