رضوان
محفلین
پاکستان میں تاریخ نویسی کے مسائل
ماضی پر کنٹرول کرنے کا مطلب ہے کہ زمانہ حال پر اپنے ماضی کے مطابق قابو پایا جائے، کیونکہ ماضی کے تعلق سے اقتدار کو قانونی جواز دیا جاتا ھے۔ معاشرہ کے بااقتدار اور طاقتور ادارے کہ جن میں ریاست، چرچ، سیاسی جماعتیں، اور ذاتی مفادات شامل ہیں۔ یہ ذرائع ابلاغ اور ذرائع پیداوار پر اپنا تسلط رکھتے ہیں، اس لئے چاہے وہ اسکول کی نصاب کی کتابیں ہوں، یا کارٹون و فلموں کا مسودہ ہو، یا ٹیلیوژن کے پروگرام، یہ سب ین کے لئے کام آتے ہیں۔
ماضی میں تاریخ کا کام یہ تھا کہ وہ حکمران طبقوں کے کارناموں کو محفوظ کر کے، معاشرہ میں ان کی عزت و وقار میں اضافہ کرتی تھی۔ ہی لوگ رعیت کے سرپرست، راہنما، اور مسیحا ہوتے تھے کہ جو لوگوں کو مصیبت سے بچاتے اور انکا تحفظ کرتے تھے۔ لوگوں کی فلاح و بہبود کا انحصار ان ہی لوگوں پر ہوا کرتا تھا۔ لیکن اب وقت کے ساتھ ساتھ صورت حال بدل گئی ہے خاص طور سے جب نو آبادیاتی نظام ٹوٹا اور ممالک آزاد ہوئے، تو انکے ساتھ ہی راہنماؤں کا ایک طبقہ بھی وجود میں آیا۔ کیونکہ نوآبادیاتی دور میں شاہی خاندان اور پرانے حکمراں اور انکی نسلیں ٹوٹ پھوٹ کر بکھر گئی تھیں، اس لئے آزادی کے بعد ہندوستان میں مغل خاندان کے دعوےدار نہیں ابھرے، اور نہ ہی دوسرے ملکوں میں ان خاندانوں کو کوئی اہم سیاسی جگہ ملی۔ آزادی کے بعد راہنماؤں کی جو کلاس ابھری، ان کی راہنمائی کا دعوٰی اس بات پر تھا کہ انہوں نے جدوجہد آزادی میں حصہ لیا ہے، قربانی دی ہے، قید و بند کی صعوبتیں اٹھائی ہیں، اس لئے ان بنیادوں پر انکا حق ہے کہ وہ سیاسی اقتدار کو سنبھالیں۔ چونکہ ان کی لیڈر شپ کی بنیاد ان کی سیاسی جدوجہد پر تھی، اس لئے “جدوجہد آزادی کی تاریخ“ کو خوب بڑھا چڑھا کر لکھا گیا۔ یہ صورت حال خاص طور سے پاکستان میں زیادہ شدت کے ساتھ ابھری، اور ان راہنماؤں کے کارناموں کو خوب اجاگر کیا گیا۔
آذادی کی تاریخ کے سلسلہ میں اہلِ برطانیہ جس نقطہ نظر کے حامی ہیں، اس کے تحت نو آبادیات میں آذادی کی کوئی جدوجہد نہیں ہوئی تھی، بلکہ مقامی رہنماؤں اور برطانوی حکمرانوں کے درمیاں انتقال اقتدار کی بات ہوئی تھی۔ اس لیے اس عمل کو وہ ٹرانسفر آف پاور یا انتقال اقتدار کہتے ہیں جو کہ پر امن طور سے ہوا۔ اگر اس نقطہ نظر کو تسلیم کر لیا جائے تو اس صورت میں ،، جدوجہد آذادی کے مجاہد،، اسکرین سے غائب ہو جاتے ہیں۔ اور آذادی کی جنگ بے معنی ہو جاتی ہے۔ کیونکہ پر امن تصفیہ اور اقتدار کی منتقلی کے بعد برطانیہ خاموشی سے رخصت ہو گیا۔ اس کے ردِ عمل میں بریصغیر کے مورخ اس نقطہ نظر کو دہراتے ہیں کہ اقتدار پر امن طریقہ سے منتقل نہیں ہوا۔ بلکہ یہ عوامی دباؤ کے نتیجہ میں ہوا، اس لیے ہندوستان اور پاکستان کی آذادی کوئی تحفہ نہیں ہے، بلکہ یہ ان کا حق تھا کہ جسے بزور طاقت برطانیہ سے چھینا ہے۔
نئے آذاد ہونے والے ملکوں کی طرح پاکستان کو بھی یہ مسئلہ در پیش ہے کہ وہ اپنی تاریخ کی تشکیل نو کیسے کرے؟ پاکستان کی تاریخ نویسی میں دو اہم مسائل یہ ہیں کہ نوآبادیاتی دور کو کسطرح سے بیان کرے؟ اور تقسیم کو کیسے درست اور صحیح ثابت کرے؟ ان ملکوں کے لیے جو نو آبادیات رہی ہیں اور جن پر غیر ملکی قبضہ اور تسلط رہا ہے ۔ان کے لیے یہ دور باعث شرمندگی، اور قومی رسوائی کا ہے، کیونکہ اس میں انکی سیاسی شکستیں ہیں، ثقافتی کم تری ہے، معاشی بد حالی ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ معاشرے کی ٹوٹ پھوٹ ہے۔ نو آبادیاتی دور نے نہ صرف ان کے تاریخی تسلسل کو توڑ دیا بلکہ ان کی تاریخ میں اجنبی اور غیر ملکی عناصر کو داخل کر دیا کہ جس نے ان کیروایات اور اداروں کو بکھیر کر رکھ دیا۔
پاکستان نے اس کا آسان حل یہ نکالا کہ چونکہ نوآبادیاتی دور کا ہندوستان کے ماضی سے تعلق ہے۔ کیونکہ اس وقت پاکستان کا وجود نہیں تھا، لہزا اس دور کے بارے میں تحقیق کرنا اور اس کے اثرات کا تجزیہ کرنا ہندوستانی مورخوں کا کام ہے۔ لیکن نو آبادیاتی دور کے بارے میں جگہ جگہ جن خیالات کا اظہار ہوا ہے، اس میں اس دور کو منفی انداز میں نہیں دیکھا گیا۔ ایک نقطہ نظر تو یہ ہے کہ انگریزوں کے زمانے میں ہندو اور مسلمان دو متضاد قومیں توازن کے ساتھ رہ رہیں تھیں۔ جب تک وہ رہے مسلمانوں کو تحفظ ملا رہا۔ دوسرا اس دور کے بارے میں پنجاب کے لوگوں کا نقطہ نظر یہ ہے کہ برطانوی دور حکومت میں اس صوبے نے معاشی طور پر کافی ترقی کی۔ اور اب جب کہ ہمارے حکمراں نااہل و ناکام ثابت ہوگئے ہیں، تو ان کی روشنی میں لوگوں کو نوآبادیاتی زمانہ پر امن، خوش حال اور سکون کا نظر آرہا ہے۔
بہر حال نوآبادیاتی دور سے ہٹ کر پاکستانی مورخوں کے لیے اور بہت سے مسائل ہیں۔ پاکستانی مورخ ان مسائل کے بارے میں لکھ تو رہے ہیں، مگران کے نقطہ نظر میں حکمرانوں کے سیاسی مفادات پوری طرح سے نظر آتے ہیں کہ جن کی روشنی میں وہ تاریخ کی تشکیل کر رہے ہیں۔
جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماضی پر کنٹرول کرنے کا مطلب ہے کہ زمانہ حال پر اپنے ماضی کے مطابق قابو پایا جائے، کیونکہ ماضی کے تعلق سے اقتدار کو قانونی جواز دیا جاتا ھے۔ معاشرہ کے بااقتدار اور طاقتور ادارے کہ جن میں ریاست، چرچ، سیاسی جماعتیں، اور ذاتی مفادات شامل ہیں۔ یہ ذرائع ابلاغ اور ذرائع پیداوار پر اپنا تسلط رکھتے ہیں، اس لئے چاہے وہ اسکول کی نصاب کی کتابیں ہوں، یا کارٹون و فلموں کا مسودہ ہو، یا ٹیلیوژن کے پروگرام، یہ سب ین کے لئے کام آتے ہیں۔
ماضی میں تاریخ کا کام یہ تھا کہ وہ حکمران طبقوں کے کارناموں کو محفوظ کر کے، معاشرہ میں ان کی عزت و وقار میں اضافہ کرتی تھی۔ ہی لوگ رعیت کے سرپرست، راہنما، اور مسیحا ہوتے تھے کہ جو لوگوں کو مصیبت سے بچاتے اور انکا تحفظ کرتے تھے۔ لوگوں کی فلاح و بہبود کا انحصار ان ہی لوگوں پر ہوا کرتا تھا۔ لیکن اب وقت کے ساتھ ساتھ صورت حال بدل گئی ہے خاص طور سے جب نو آبادیاتی نظام ٹوٹا اور ممالک آزاد ہوئے، تو انکے ساتھ ہی راہنماؤں کا ایک طبقہ بھی وجود میں آیا۔ کیونکہ نوآبادیاتی دور میں شاہی خاندان اور پرانے حکمراں اور انکی نسلیں ٹوٹ پھوٹ کر بکھر گئی تھیں، اس لئے آزادی کے بعد ہندوستان میں مغل خاندان کے دعوےدار نہیں ابھرے، اور نہ ہی دوسرے ملکوں میں ان خاندانوں کو کوئی اہم سیاسی جگہ ملی۔ آزادی کے بعد راہنماؤں کی جو کلاس ابھری، ان کی راہنمائی کا دعوٰی اس بات پر تھا کہ انہوں نے جدوجہد آزادی میں حصہ لیا ہے، قربانی دی ہے، قید و بند کی صعوبتیں اٹھائی ہیں، اس لئے ان بنیادوں پر انکا حق ہے کہ وہ سیاسی اقتدار کو سنبھالیں۔ چونکہ ان کی لیڈر شپ کی بنیاد ان کی سیاسی جدوجہد پر تھی، اس لئے “جدوجہد آزادی کی تاریخ“ کو خوب بڑھا چڑھا کر لکھا گیا۔ یہ صورت حال خاص طور سے پاکستان میں زیادہ شدت کے ساتھ ابھری، اور ان راہنماؤں کے کارناموں کو خوب اجاگر کیا گیا۔
آذادی کی تاریخ کے سلسلہ میں اہلِ برطانیہ جس نقطہ نظر کے حامی ہیں، اس کے تحت نو آبادیات میں آذادی کی کوئی جدوجہد نہیں ہوئی تھی، بلکہ مقامی رہنماؤں اور برطانوی حکمرانوں کے درمیاں انتقال اقتدار کی بات ہوئی تھی۔ اس لیے اس عمل کو وہ ٹرانسفر آف پاور یا انتقال اقتدار کہتے ہیں جو کہ پر امن طور سے ہوا۔ اگر اس نقطہ نظر کو تسلیم کر لیا جائے تو اس صورت میں ،، جدوجہد آذادی کے مجاہد،، اسکرین سے غائب ہو جاتے ہیں۔ اور آذادی کی جنگ بے معنی ہو جاتی ہے۔ کیونکہ پر امن تصفیہ اور اقتدار کی منتقلی کے بعد برطانیہ خاموشی سے رخصت ہو گیا۔ اس کے ردِ عمل میں بریصغیر کے مورخ اس نقطہ نظر کو دہراتے ہیں کہ اقتدار پر امن طریقہ سے منتقل نہیں ہوا۔ بلکہ یہ عوامی دباؤ کے نتیجہ میں ہوا، اس لیے ہندوستان اور پاکستان کی آذادی کوئی تحفہ نہیں ہے، بلکہ یہ ان کا حق تھا کہ جسے بزور طاقت برطانیہ سے چھینا ہے۔
نئے آذاد ہونے والے ملکوں کی طرح پاکستان کو بھی یہ مسئلہ در پیش ہے کہ وہ اپنی تاریخ کی تشکیل نو کیسے کرے؟ پاکستان کی تاریخ نویسی میں دو اہم مسائل یہ ہیں کہ نوآبادیاتی دور کو کسطرح سے بیان کرے؟ اور تقسیم کو کیسے درست اور صحیح ثابت کرے؟ ان ملکوں کے لیے جو نو آبادیات رہی ہیں اور جن پر غیر ملکی قبضہ اور تسلط رہا ہے ۔ان کے لیے یہ دور باعث شرمندگی، اور قومی رسوائی کا ہے، کیونکہ اس میں انکی سیاسی شکستیں ہیں، ثقافتی کم تری ہے، معاشی بد حالی ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ معاشرے کی ٹوٹ پھوٹ ہے۔ نو آبادیاتی دور نے نہ صرف ان کے تاریخی تسلسل کو توڑ دیا بلکہ ان کی تاریخ میں اجنبی اور غیر ملکی عناصر کو داخل کر دیا کہ جس نے ان کیروایات اور اداروں کو بکھیر کر رکھ دیا۔
پاکستان نے اس کا آسان حل یہ نکالا کہ چونکہ نوآبادیاتی دور کا ہندوستان کے ماضی سے تعلق ہے۔ کیونکہ اس وقت پاکستان کا وجود نہیں تھا، لہزا اس دور کے بارے میں تحقیق کرنا اور اس کے اثرات کا تجزیہ کرنا ہندوستانی مورخوں کا کام ہے۔ لیکن نو آبادیاتی دور کے بارے میں جگہ جگہ جن خیالات کا اظہار ہوا ہے، اس میں اس دور کو منفی انداز میں نہیں دیکھا گیا۔ ایک نقطہ نظر تو یہ ہے کہ انگریزوں کے زمانے میں ہندو اور مسلمان دو متضاد قومیں توازن کے ساتھ رہ رہیں تھیں۔ جب تک وہ رہے مسلمانوں کو تحفظ ملا رہا۔ دوسرا اس دور کے بارے میں پنجاب کے لوگوں کا نقطہ نظر یہ ہے کہ برطانوی دور حکومت میں اس صوبے نے معاشی طور پر کافی ترقی کی۔ اور اب جب کہ ہمارے حکمراں نااہل و ناکام ثابت ہوگئے ہیں، تو ان کی روشنی میں لوگوں کو نوآبادیاتی زمانہ پر امن، خوش حال اور سکون کا نظر آرہا ہے۔
بہر حال نوآبادیاتی دور سے ہٹ کر پاکستانی مورخوں کے لیے اور بہت سے مسائل ہیں۔ پاکستانی مورخ ان مسائل کے بارے میں لکھ تو رہے ہیں، مگران کے نقطہ نظر میں حکمرانوں کے سیاسی مفادات پوری طرح سے نظر آتے ہیں کہ جن کی روشنی میں وہ تاریخ کی تشکیل کر رہے ہیں۔
جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔