سید شہزاد ناصر
محفلین
ملکہ خیزران بڑی شان وشوکت کے ساتھ اپنے محل میں بیٹھی ہوئی تھی کہ اس کی لو نڈی نے آکر عرض کی ملکہ عالم !محل کی ڈیوڑی پر ایک نہایت ہی خستہ حال غریب عورت کھڑی ہے اور آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر کچھ کہنا چاہتی ہے۔ ملکہ نے کہا اس عورت کا حسب نسب دریافت کرو اور یہ بھی معلوم کرو اسے کس چیز کی ضرورت ہے لونڈی نے باہر آکر اس غریب عورت سے بہت پو چھا اس نے اپنا نام نسب اور خاندان کا پتہ سب کچھ بتا دیا لیکن اس نے یہ نہ بتایا کہ وہ ملکہ سے کیوں ملنا چاہتی ہے اس کا بس ایک ہی جواب تھا کہ جو کہنا چاہتی ہے ملکہ سے بس زبانی ہی کہے گی ۔لونڈی نے اندر آکے ملکہ کو عورت کا جواب سنایا تو وہ بہت حیران ہو ئی اس وقت حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنھما کی پڑپوتی زینب بنت سلمان بھی ان کے پاس بیٹھی تھیں وہ بنو عباس کی خواتین میں بہت دانا تسلیم کی جا تی تھیں ملکہ نے ان سے مشورہ کیا کہ کیا اس عورت کو اندر آنے کی اجازت دوں یا ملنے سے انکار کر دوں ۔انہوں نے فرمایا ضرور بلواؤ دیکھیں تو سہی کیا چاہتی ہے ۔چنانچہ ملکہ نے لونڈی کو حکم دیا کہ اس کو اندر آنے کی اجازت دے دی جائے ۔چنانچہ تھوڑی دیر میں ایک پھٹے پرانے کپڑے پہنے ایک انتہائی شکستہ حالت عورت کھڑی ہے اس کے دل کش خدوخال سے معلوم ہو تا تھا کہ کو ئی شریف زادی ہے لیکن میل کچیل اور بوسیدہ کپڑوں نے اس کی حالت گداگروں جیسی بلکہ اس سے بھی ابتر بنا رکھی ہے ،وہ عورت پہلے تو ملکہ کا کرو فر دیکھ کر ٹھٹکی پھر فورا ہی جرأت کر کے ملکہ کو سلام کیا اور کہنے لگی ’’اے ملکہ !میں مروان بن محمد کی بیٹی مزنا ہوں جو خاندان بنو امیہ کا آخری تاجدارتھا۔جوں ہی یہ بات اس کے منہ سے نکلی تو ملکہ خیزران کا چہرا ہ فرط غضب سے سرخ ہو گیا اور اس نے اکڑ کے کہا
’’اے بدبخت عورت! تجھ کو یہ جرأت کیسے ہو ئی کہ تو اس محل کے اندر قدم رکھے ؟
کیا تو نہیں جا نتی کہ تیرے خاندان نے عباسیوں پر کیسے ظلم ڈھائے اے سنگ دل کیا تو وہ دن بھول گئی ہے کہ جب بنو عباس کی بوڑھی عورتیں تیرے پاس التجاء لے کر گئیں تھی کہ تو اپنے باپ سے سفارش کر کہ میرے شوہر (مہدی) کا چچا امام محمد بن ابراھیم کی لاش دفن کرنے کی اجازت لے دے۔ کم بخت عورت خدا تجھے غارت کرے تو نے ان معزز اور مظلوم خواتین پر ترس کھانے کی بجائے انہیں ذلیل کر کے محل سے نکلوا دیا تھا ۔کیا تیری یہ حرکت انسانیت کی توہین نہیں تھی ؟مانا کہ آپس میں دشمنی تھی لیکن پھر بھی ایک بے بس اور لاچار دشمن کے ساتھ ایسا سلوک جائز نہ تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے تم سے حکومت چھین لی اور تمہیں ذلیل کیا ۔مزنا! خیریت اسی میں ہے کہ تم فورا یہاں سے چلی جا ؤ ۔‘‘
مزنا؛ ملکہ کی باتیں سن کر بالکل مرعوب نہ ہو ئی بلکہ اس نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور بولی ’’بہن! اپنے آپ سے باہر نہ ہو جو کچھ میں نے کیا خدا سے اس کی سزا پا لی ۔خدا کی قسم جو کچھ تم نے کہا وہ سچ ہے اسی کی پاداش میں خدا نے مجھے ذلیل کر کے تمہارے سامنے لا کھڑا کیا۔کیا تمہیں معلوم نہیں کہ کسی وقت میں تجھ سے زیا دہ شوخ اور شریر تھی دولت اور حشمت میرے گھر کی لونڈی تھی مجھے اپنے حسن پہ ناز تھا اور تکبر نے مجھے اندھا کر دیا تھا مگر تم نے دیکھا کہ جلد ہی زمانے نے اپنا ورق الٹ ڈالا خدا نے اپنی تمام نعمتیں مجھ سے چھین لیں اور اب میں ایک فقیر سے بدتر ہو ںکیا تم چاہتی ہو کہ تمہارے ساتھ بھی یہی کچھ ہو ؟اچھا خوش رہو، میں جاتی ہو ں۔اتنا کہہ کر مزنا نے تیزی سے باہر کا رخ کیا لیکن ابھی چند قدم جا نے ہی پائی تھی کہ خیزران نے دوڑ کر اسے پکڑ لیا اور چاہا کہ گلے سے لگا لے لیکن مزنا نے پیچھے ہٹ کر کہا خیزران سنو! تم ملکہ ہو اور میں ایک غریب اور بے کس عورت… میرے کپڑے بوسیدہ اور غلیظ ہیں میں اس قابل نہیں کہ ملکہ مجھ سے بغل گیر ہو ۔خیزران نے آبدید ہ ہو کرلو نڈیوں حکم دیا کہ مزنا کو نہلا دو اور اعلی درجہ کی پو شاک پہنا دو اور پھر اسے عطر میں بسا کر میرے پاس لے آؤ۔لونڈیوں نے ملکہ کے حکم کی تعمیل کی اس وقت مزنا کو دیکھ یوں معلوم ہو ا کہ چاند بادل سے نکل آیا ہے خیزران بے اختیا ر مزنا سے لپٹ گئی ، پاس بیٹھایا اور پوچھا دستر خوان بچھواؤں ؟مزنا نے کہا ملکہ آپ پوچھتی کیا ہیں آپ کے محل میں مجھ سے زیا دہ کوئی بھوکا ہو گا فوراً دستر خواں بچھا دیا گیا ،مزنا سیر ہو کر کھا چکی تو ملکہ نے پوچھا ۔آج کل تمہارا سرپرست کون ہے؟ مزنا نے سرد آہ بھر کر کہا! آج کس میں ہمت ہے کہ میری سرپرستی کرے مدتوں سے در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہوں کوئی رشتہ دار بھی دنیا میں موجود نہیں کہ اس کے ہاں جا کر پڑوںبس کچھ قرابت ہے تو وہ اسی گھرانے (بنو عباس )سے ہے ۔خیزران نے فوراً کہا مزنا! آزردہ مت ہو آج سے تم میری بہن ہو میرے بہت سے محل ہیں تم ان میں سے ایک محل پسند کر لو اور یہیں رہو جب تک میں جیتی ہو ں تمہا ری ہر ضرورت پو ری کروں گی۔چنا نچہ مزنا نے ایک عالی شان محل پسند کیا اور خیزران نے اس میں تمام ضروریا ت زندگی اور لو نڈیاں غلام مہیا کر دیے ساتھ ہی پانچ لاکھ درہم نقد بھی اس کے حوالے کر دیے کہ جس طرح جی چاہے خرچ کر ۔شام کا خلیفہ مہدی حرم میں آیا اور دن بھر کے حالات پو چھنے لگا ملکہ خیزران نے اسے آج کا واقعہ تفصیل سے سنانا شروع کیا جب اس نے بتایا کہ میں نے مزنا کو اس طرح جھڑکا اور وہ قہقہہ لگا کر شان بے نیازی سے واپس چلی گئی تو خلیفہ فرط غضب سے بے تاب ہو گیا اور اس نے ملکہ کی بات کاٹ کر کہا ’’خیزران تم پہ ہزار افسوس ،کہ خدا نے جو تمہیں نعمتیں عطاء کی ہیں تم نے ان کا شکریہ ادا کرنے کا ایک بیش بہا موقع ہاتھ سے کھو دیا تمہاری یہ حرکت ایک ملکہ کے شایان شان نہیں تھی ۔‘‘
خیزران نے کہا ’’امیر المومنین! میری پو ری بات تو سن لیں اس کے بعد اس نے جب مزنا سے اپنے حسن سلوک کی تفصیل بتائی تو مہدی کا چہرہ چمک اٹھا اس نے خیزران کی عالی ظرفی کو بہت سراہا اور کہا آج سے میری نظر میں تمہاری قدر دو چند ہو گئی ہے ۔پھر اس نے اپنی طرف سے بھی مزنا کو اشرفیوں کے سو توڑے بھیجے اور ساتھ ہی کہلا بھیجا کہ آج میری زندگی کا سب سے بڑا یوم مسرت ہے کہ اس نے ہمیں تمہاری خدمت کی تو فیق دی ،اب تم اطمینان سے یہاں رہو ۔
اس کے بعد مزنا طویل عرصہ تک زندہ رہی مہدی کی وفات ۱۶۹ھ بمطابق ۷۸۵ء ہوئی اس کے بعد اس کا بیٹا ہادی بھی اس کی خدمت کرتا تھا ہا دی کے بعد۱۷۰ھ۷۸۶ء میں ہارون الرشید خلیفہ بنا تو اس نے بھی مزنا کو ماں کے برابر سمجھا ،اس کے عہد خلافت کی ابتدا میں مزنا نے وفات پائی تو ہارون الرشید بچوں کی طرح بلک بلک کے رویا اور اس کے جنازہ کو شاہانہ شان شوکت سے قبرستان پہنچایا ۔
ربط