اسکین دستیاب تاریخ یوسفی المعروف بہ عجائبات فرنگ یوسف کمبل پوش

شمشاد

لائبریرین
صفحہ کتاب 55، پی ڈی ایف 61

غفلت رکھتا ہے۔ اگر کوئی عورت زنا کار ہوئی تمام عمر اسی میں رہی، کوئی اُس کو نہ سمجھاوے کہ راہ راست پر آوے۔ اگر کوئی لڑکا یتیم ہوت اہے ، کوئی شخص نہ اُس کو روٹی کپڑا دیتا ہے نہ پڑھاتا ہے۔ ان صورتوں میں خاک انتظام ہو۔ امورِ ملکی کا کیا سرانجام ہو۔ صاحبان انگریزوں کی عقل پر آفرین اور مرحبا کہ کیا اچھی باتوں کا رواج دیا۔ اپنی قوم سے کسی لڑکے کو بے علم و ہنر نہیں رکھتے ہیں۔ ہر ایک کے لیے ایک طرز جدا معاش دیکھا۔ بعد ان سیروں کے ملک فرانس کے دیکھنے کا شوق ہوا۔

چھبیویں تاریخ نومبر کی بوچڑ صاحب کے ساتھ ایک گاڈی پر سوار ہو کر کنارے دریا کے آیا۔ بوچڑ صاحب کے بھائی ہندوستان میں آتے تھے۔ ننکو نوکر اپنے کو اُن کے سپرد کیا۔ اُس نے بروقتِ رخصت بہت رنج کیا کہ تم نے مجھ کو اس شہر میں اکیلا چھوڑا۔ دل جدائی گوارا نہیں کرتا۔ میں اُس کو تسلی دلاسا دے کرجہاز پر سوار ہو کر چلا۔ نام اس جہاز کا گران ترک، زرنگار بنا تھا۔ ہر قسم کا کھانا پینا اُس پر موجود اور مہیا۔ کپتان جہاز کا نہایت خلیق اور شفیق حال غربا۔ راہ میں ایک رات طوفان آیا۔ جہاز ڈگمگایا۔ کپتان صاحب نے لنگر ڈالا۔ اُس پر بھی کچھ فائدہ مرتب نہ ہوا۔ اکثر صاحبوں اور بی بیوں کا حال حرکتِ جہاز سے پریشان ہوا۔ کوئی زیادتی ابکائی اور قے سے بیہوش اور ہراساں۔ کوئی دورانِ سرِ سے مصروفِ شور و فغاں۔ لڑکے بیچارے اور زیادہ حیران۔ خلاصہ یہ کہ جہاز پر شورِ قیامت بپا تھا مگر عنایت ایزدی سے بندہ اپنے حال پر رہا۔ جب وقتِ صبح ہوا، جہاز قریب جزیرہ بلون (۱) کے پہونچا۔ کنارہ اُس کا دیکھ کر میں بہت خوش ہوا، اس لیے کہ کنارہ اُس کا پل کی طرح لٹھوں سے پٹا تھا صاحب لوگ مع بی بیوں کے اس پر چلتے پھرتے۔ دور سے صاف دکائی دیتے۔ بند جہاز سے اُتر کر محصول گھر میں گیا۔ پروانہ اپنا وہاں کے اہلکاروں کو


صفحہ کتاب 56، پی ڈی ایف 62

دکھایا۔ بعد اس کے ایک سرا میں جا کر اُترا۔ ایک رات دن سیر و تماشا دیکھتا رہا۔ دوسرے دن صبح ہی اُٹھ کر گاڈی میل کوچ پر سوار ہو کر دارالسلطنت پارس (۱) کو روانہ ہوا۔ مواضع اور دہات راہ میں دیکھتے جاتے بہ نسبت دہات لندن کے خوبی اور آبادی میں بہت کم تھے۔ گاڈی میل کوچ بہت بڑی انگریزی میل کوچ سے زیادہ تھی۔ چھ گھوڑے اُس میں جتے مگر انگریزی گھوڑوں سے قوت میں کم اور آہستہ آہستہ چلتے۔ راہ میں نشیب و فراز اور کیچڑ چہلا تھا۔ اس لیے کہ مینہ برسا تھا اور برستا۔ گاڈیبان گھوڑوں کو ہانکتے ہانکتے تمام منزل تھک گیا۔ ہم تین شخصوں نے شریک ہو کر گاڈی میں مقام کیا کہ اُس میں تین آدمیوں کی جگہ بآشائش ہوتی ہے۔ کرایہ پر لیا تھا۔ تس پر بھی گاڈی کے تکان سے بچاؤ نہ ہوا۔ جاڑی کے خوب شدت تھی۔ راہ میں ہر چیز میسر آتی، کتنے گانوں کے بعد ایک موضع آبادان پایا کہ عمارت اس کی بلند اور نام اس کا آمین (۲) تھا۔ میں نے اپنے دوست سے کہہ کر وہاں مقام کیا اور اس شہر کی سیر کو چلا۔ لڑکے فقیروں کے پیچھے لگے سوال کرتے ساتھ چلے۔ یہ رسم وہاں کی برخلاف لندن کے نظر آئی۔ وہاں کبھی نہ دیکھی تھی۔ اُس شہر میں ایک کلیسا دیکھا۔ تین سو بیاسی فٹ اونچا تھا۔ تمام شہر اس پر سے نظر آتا۔ تصویریں شاگردوں حضرت عیسیٰ ؑ اور مقدسوں کی رکھیں۔ میں نے ویسی تصویریں کہیں نہیں دیکھیں۔ آئینہ جوڑیوں کے بہت صاف ایک روغن سے جلا دیے شفاف۔ اس زمانہ میں وہ روغن نہیں ملتا ہے بلکہ بن ہی نہیں سکتا۔ اُس کلیسا کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ بعد سیر کے سرا میں مقام کیا۔

غرض کہ پہلی تاریخ دسمبر کی دارالسلطنت پارس میں پہنچا۔ نزدیک بازار بادشاہی کے سرائے ڈلی میں اُترا۔ دوسرے دن شہر کا تماشا دیکھنے چلا۔ پہلے بازار بادشاہی میں آیا۔ اُس کا آدھ کوس کا گھیرا تھا۔ حال اُس کا سنا کہ زمانۂ سابق میں مکان بادشاہی تھا۔ گردشِ زمانہ سے اُس نے مفلس ہو کر بیچا، چنانچہ وہی مکان اب بازار ہوا۔ اسی سبب سے نام اس کا


صفحہ کتاب 57، پی ڈی ایف 63

بازار بادشاہی رہا۔ دو طرفہ دکانیں سنگ مرمر کی تھیں۔ بعضو ں میں جواہرات، بعضی شال دو شالوں کشمیری سے بھریں۔ کسی میں کپڑے رنگا رنگ رکھے۔ پھول اُن کے رنگوں سے شرماتے۔ راہ بازار کی، مابین دوکانوں، کے واسطے محافظت مینہ اور غبار کے شیشوں سے پٹی، عجب لطافت اور کیفیت رکھتی۔ قہوہ خانوں میں چھت پر زرستون سنگِ مرمر کے تھے۔ اندر ان کے میز پتھر کی رکھی۔ برابر ان کے کرسیاں زرنگار بچھیں۔ پریاں فرانس کا قہوہ پلانے کے لیے بیٹھیں۔ میں وہ مقام عشرت افزا دیکھ کر سرا میں آیا۔

دوسرے دن کلیسائے نیو ٹروم (۱) میں گیا۔ اُس شہر میں بہتر اُس سے کلیسا نہ تھا۔ عمارت اُس کی نہایت وسیع اور عالیشان۔ دوسری طرف باغِ جنت نشان۔ اُس میں ہر ملکاور ہر قسم کے جانور موجود اوور نمایاں۔ شمار ان کا نہیں یاراے زبان۔ ایک جانور عرب کا نظر آیا کہ لنائی قد میں قریب بیس ہاتھ کے تھا۔ اگلا دھڑ اس کا بلند، پچھلا پست، اُس سے دو چند شکل اس کی ملی ہوئی شیر و آہو سے تھی۔ زراف اس کو کہتے ہیں بزبانِ عربی۔ اس کی صورت دیکھنے سے مجھ کو عبر و ہیبت آئی۔ آیک کغہرے میں سپید ریچھ بیٹھے وہ بھی بجائے تماشے کے تھے۔ رنڈیاں وہاں بیٹھیں، روٹی اور مٹھائی بیچتیں جو مسافر سیر کو جاتا ہے اُن سے روٹی مٹھائی مول لے کر ریچھوں کو کھلاتا ہے، وہ خوش ہوتے ہیں اور روٹی کھاتے ہیں۔

چوتھے دن باغ بادشاہی میں گیا۔ پھولوں کو کھلا ہوا، میوؤں سے بھرا پایا۔ ہر قسم کے پھول تھے۔ کثرت میوؤں سے درخت جھکے۔ پریزاد فرانس کے خوش رفتار، باغ میں عجب بہار، غرض کہ وہ قطعہ روکشِ بہشتِ بریں تھا۔ گل بوٹوں سے سراپا رنگیں تھا۔ دماغ اُس کی بو سے تازہ ہوا۔ دل شگفتگی اُس کی سے کھلا۔

پانچویں دن پارس کی میوزیم میں گیا۔ وہاں کا تماشا دیکھا۔ ایک روغن مل کر ہر طرح کے جانوروں کو زندے کی طرح کھڑا کیا تھا۔ ہرگز زندہ مردہ میں سواے حس و حرکت کے


صفحہ کتاب 58، پی ڈی ایف 64

فرق نہ ہوتا۔ یہاں کئی جانور ایسے خوب دیکھے کہ لندن میں نہ تھے۔ چنانچہ اُن میں سے ایک ہاتھ اور شیر اور زراف تھا۔ عجیب وضع سے کھڑا تھا اور بیان اُس جگہ کا مناسب نہ دیکھا بعینہ لندن کا سا تھا۔

چھٹے دن میں بوچڑ صاحب کے ساتھ کھانا کھاتا۔ ایک بوڑھا، بہرا سرا میں اُترا تھا۔ شام پین پی کو رہ مست ہوا۔ مجھ سے اور ولیم بوچڑ صاحب سے کہنے لگا۔ آؤ ہم تم مل کر ناچ گھر چلیں۔ وہاں کا سیر و تماشا دیکھیں۔ اُس مکان کو اُن کی زبان میں اپرہ (۱) کہتے ہیں۔ ہم اس کے کہنے پر راضی ہو کر ناچ گھر چلے وہاں جا کر سب مصروفِ تماشا ہوئے۔ دو رنڈیاں کہ ناچنے گانے میں یکتائے زماں تھیں۔ رقص و سماع میں مشغول ہوئیں۔ ایسے کرتب دکھاے کہ سب سرور میں آے مگر مجھ کو ایک امر اُن کا پسند نہ آیا۔ وہ یہ کہ اُنہوں نے ناچتے وقت ایسا کپڑا مہین ریشمی پہنا کہ تمام بدن خصوص جسم نہانی ان کا صاف نظر آتا۔ ناچتے ناچتے جب پاؤں اُٹھاتیں، گویا لوگوں کو شرمگاہ اپنی دکھاتیں۔ مرد رنڈی سب تماشا دیکھتے۔ اس امر نامناسب کو خلافِ حیا نہ سمجھتے۔ یہ ماجرا خلافِ عقل نظر آیا۔ میں نے اکثر انگریزوں کا حال سُنا کہ ہندوستان کی کسبیوں سے بسبب پہننے ننگی پوشاک اور کپڑے باریک چست کے نفرت کرتے ہیں اور اسی وجہ سے ان کا راگ اور گانا نہیں سنیں۔ پر وہاں کوئی مانع نہ ہوا کہ ان کو اس حرکت بیجا سے باز رکھتا۔ قصہ مختصر وہ بوڈھا ساتھی ہمار ادیکھنے ہنروں ناچ اور مقام مخصوص اُن کے سے اور پینے شراب سے ایسا بے حال و بے خود ہوا کہ شور و غل مچاتا۔ اُس محفل میں حکم بادشاہی سواے ناچنے گانے والوں کے کسی کے بولنے کا نہ تھا۔ جب وہ بوڈھا چلانے لگا دو تین آدمی عزت دار قوم نے منع کیا۔ وہ بہرا اُن ناچنے والیوں کے دریائے عشق میں ایسا ڈوبا تھا کہ ہرگز شنوا نہ ہوا۔ جب ہم نے دیکھا کہ وہ نہیں سنتا ہے اور رنگِ مجلس بدلتا ہے بلکہ اپنے نکالے جانے کا بھی باعث ہوتا ہے، اشارے کنائے سے


صفحہ کتاب 59، پی ڈی ایف 65

سمجھایا۔ شور و غل سے اس کو باز رکھا اور اپنے دل میں عہد کیا کہ اس کے ساتھ اب کہیں نہ جاویں گے۔ ہمراہی اس کے سے آپ کو بچاویں گے۔ رات بھر ناچ کے تماشے میں رہے صبح ہی اپنے مقام پر آئے۔

ساتویں دن پھر ایسا ہی امر پیش آیا یعنی جب وہ بوڈھا کھانا کھا چکا اور شراب پی کر مست ہوا مجھ سے اور بوچڑ صاحب سے کہنے لگا آج میرے ساتھ کنسٹ (۱) میں چلو، وہاں کی سیر دیکھو، ہم نے تکرار کی کہ تمہارے ستھ جانے سے دل میں انکار کی۔ تم بالطبع مست ہوتے ہو۔ کسی کا کہنا نہیں سنتے ہو۔ ایسا مبالغہ کیا کہ ساتھ جانا پڑا، مقام عذر نہ رہا۔ ناچار ہمراہ ہوئے، کنسٹ گئے۔ وہ ایک مکان عالیشان بہت نفیس تھا۔ چند رائیسوں امیرروں قوم نے شریک ہو کر اس کو بنوایا۔ کوچ عمدہ رکھے ہوئے۔ اس پر بچھونے اطلس و مخمل کے بچھے ہوئے۔ آٹھویں دن رات بھر مرد و زن کا جماؤ ہوتا ہے۔ ہر کوئی بجانے باجوں کا کمال دکھلاتا ہے اور شراب پی کر اپنی اپنی معشوقہ کا ہاتھ پکڑ کر ناچتا ہے۔ جب میں وہاں پہونچا فرانسیس کی پریوں کو دیکھا کہ کوچوں پر بیٹھی باجے بجاتیں۔ کیا خوب باجے تھے کہ آواز اُن کی مردے جی اٹھتے۔ اتنے میں دورِ جام شروع ہوا۔ بعد اس کے ہر ایک مست ہو کر ایک ایک پری کا ہاتھ پکڑ کر ناچنے لگا۔ چونکہ بندہ تمام عمر کبھی ناچا نہ تھا ان صاحبوں کے سامنے اجنبی معلوم ہوتا۔ مگر اس حیلہ سے کامیاب مطلب تھا۔ اُس بڈھے نے بھی ہاتھ ایک بڑھیا کا کہ مٹاپے اور قد میں اس سے دگنی تھی، پکڑ کر ناچنا شروع کیا۔ بوجھ اس بڑھیا کا بھاری تھا۔ تھوڑی دیر میں تھک کر ہانپتے ہوئے کوچ پر بیٹھا اور سویا۔ میں نے اور بوچڑ صاحب نے تمام شب خوشی سے بسر کی۔ مگر وہ رات ایسی جلد کٹی کہ تھوڑی سی معلوم ہوئی۔ فقیر نے یہ شعر حسب حال پڑھی؂

امشب مگر بوقت نمی خواندایں خروس
عشاق بس نہ کردہ ہنوز از کنار و بوس


صفحہ کتاب 60، پی ڈی ایف 66

بالجملہ وہ شب ایسے لطف سے بسر ہوئی کہ بادشاہوں کو باوجود سامان کے میسر نہیں آتی۔ ہندوستان میں ایسی مجلس پریوں کی، خواب میں بھی نہیں دکھائی دیتی۔ صبح ہی اپنے مقام پر آیا۔

آٹھویں دن اپنے ہمراہیوں سے پیشتر جاگا۔ ایک شخص اٹھارہ برس کے سن کا شیشہ شراب بیر آگے رکھتا۔ قہوہ وغیرہ ملا ملا کر اُس کو پیتا۔ میں دیکھ کر متحیر ہوا کہ یہ کون ایسا ہے جو علی الصباح شراب بیر پیتا ہے۔ یہ وقت لال شراب پینے کا ہے اس لیے کہ شرابِ سرخ اس وقت پینا فائدہ اور رواج رکھتا ہے۔ میں اسی خیال میں تھا کہ اُس نے آپ ہی کہا آؤ شراب بیر پیو۔ میں نے کہا اس وقت معاف رکھو۔ ثابت ہوا کہ وہ امیر زادہ تھا۔ باپ اُس کے نے تحصیلِ علم کے واسطے فرانس میں بھیجا تھا۔ وہ یاہں آ کر ایسے امور بے جا میں پھنسا۔ شغل علم سے باز رہا۔ پرھ اُس نے کہا ہمارے ساتھ چلو۔ سیر عجائبات اس ملک کی دیکھو۔ میں نے اقبال کیا۔ بوچڑ صاحب کو ساتھ لے کر ہمراہ اُس کے چلا۔ جاتے جاتے اُس جگہ لے گیا کہ در و دیوار شیشے کا تھا۔ جو کوئی گمنام زہر کھا کر مرتا ہے یا تلوار بندوق سے اپنے تئیں ہلاک کرتا لاش اس کی اس مکان میں رکھتے ہیں۔ فوارے کی راہ حوضوں سے پانی اُس پر چھڑکتے ہیں۔ بعد تین چار روز جب تعفن آتا ہے اور کوئی وارث مردہ نہیں پیدا ہوتا ہے کہیں نہ کہیں دفن کر دیا جاتا ہے۔ اگر وارث اُس کا ہوتا ہے، ایام مقررہ سے پہلے لاش لے جاتا ہے، چنانچہ اُس وقت بھی لاش ایک رنڈی کی پڑی تھی۔ مجھ کو اس سے عبرت آئی۔ پارس میں چند روز رہا۔ کوئی دن ایسا نہ ہوا کہ دو تین آدمیوں نے اپنے تئیں نہ ہلاک کیا۔

نویں تاریخ دسمبر کی پکچر آف اڈس میں گیا۔ وہ تصویر خانہ تھا۔ ایسا مکان کہ بلندی میں آسمان سے باتیں کرتا۔ ستون اُس کے زرنگار اور مطلا فرش اس کا شفاف خوش رنگ لکڑی کا پل کی طرح پٹا ہوا۔ اگر کوئی عاقل اچانک اُس پر قدم رکھتا، یقین ہے کہ بسبب چکناہٹ


صفحہ کتاب 61، پی ڈی ایف 67

کے پھسل پڑتا۔ اُس مکان میں تصویریں مصوروں کامل اگلے زمانہ کی زیب پذیر تھیں۔ سب کی سب بے نظیر تھیں۔ اُستادوں کے ہاتھ کی بنیں۔ بموجب تخمینہ قریب دو لاکھ کے نظر آئیں۔ اس جائے عشرت فزا کو دیکھ کے میں بہت خوش ہوا۔ بعد ازاں ایک گاڑی کرایہ کر کے مع بوچڑ صاحب کے اُس پر سوار ہو کر پیالس برسیل (۱) کو چلا۔ وہ مقام پارس سے چھ کوس فاصلہ رکھتا۔ مکان جشن اگلے بادشاہ کا تھا۔ وہاں آ کر مع اپنی بیویوں کے جشنِ جمشیدی کرتا۔ یعنی شراب پی کر اُن کے ساتھ عیش و نشاط میں مشغول ہوتا۔ راہ میں جابجا آبادی و سبزی نظر آئی۔ دلِ حزیں نے اس سے شگفتگی بہم پہونچائی۔ دو گھڑی دن رہے وہاں پہونچا۔ گرد اُس کے پہاڑ اور سبزۂ مینا رنگ تھا۔ قریب اُس کے ایک باغ جنت آثار بوجھ پھلوں سے جھکے ہوئے درختِ میوہ دار، پھول اُس کے رنگا رنگ۔ غیرت دہِ کارنامۂ ارژنگ۔ حوضوں پُر آب میں تصویریں عجیب و غریب قائم و برپا۔ اُن کے منہ سے فوارہ پانی کا اُبلتا بعض حوض میں مرغابیاں اور چڑیاں دریائی تیر رہیں۔گویا وہ چشمۂ حیات تھا اُن کے تئیں۔ اُس باغ کے دیکھنے سے دل میں طاقت آئی، آنکھوں نے طراوت پائی۔ اُسی کے پاس ایک مکان گنبدار۔ اندر اُس کے کرسیاں سنگِ مرمر کی ترشی ہوئیں آبدار۔ بیچوں بیچ اُس کے حوض لبریز۔ پانی کا فوارہ اُس میں جاری تھا۔ اگلے بادشاہ اس کو عرقِ انگور سے بھرتے۔ نازنینوں کے ستھ پیتے۔ بعد اس کے مکانِ جشنِ بادشاہی نظر آتا۔ سوائے زر تابدار۔ چھت اور دیوار اس کی مینا کار۔ پاے نگاہ، شفافی اس کی سے پھسلتا ہر بار۔ میزاک ڈال سنگِ مرمر کی بچھے تھے۔ ہر ایک لاکھ لاکھ روپیہ سے قیمت زیادہ رکھتے اور سامانِ شاہانہ ایسا کہ عقل میں وصف اُس کا نہ آ سکتا۔ حق یہ کہ وہ مکان روضۂ تاج بی بی سے لاکھوں درجے بہتر تھا۔ عمارتوں لندن اور ہندوستان سے کہیں خوب تر تھا۔ کوئی بادشاہوں زماں سے اب مجال نہیں رکھتا ہے کہ ویسا


صفحہ کتاب 62، پی ڈی ایف 68

مکان بنوائے۔ الحاصل وہ مکان حلقۂ زمین میں جوں نقشِ نگیں ہے یا بروے زمیں بہشت بریں ہے۔

گیارہویں دن بوچڑ صاحب کے ساتھ گاڈی پر سوار ہو کر بایشش (۱) میں گیا۔ وہ گورستان فرنسیسیوں کا تھا۔ شہر سے دو کوس فاصلہ رکھتا۔ دروازے اُس کے پر پھول والیاں بڑے تکلف سے ہار پھول بیچنے میں مشغول تھیں۔ جو کوئی اپنے دوستوں کی قبر پر جاتا، ہار اُن سے مول لے کر قبروں پر چڑھاتا۔ فقیر کو اس بات سے رسوم ہندوستان کا خیال آیا کہ وہاں بھی یہی طریقہ تھا۔ جب اُس کے اندر پہونچا قبریں سنگِ مرمر کی بنی دیکھیں طیار۔ اُن پر ایک چھوٹی سی کوٹھری کھڑکی دار۔ اُس میں دو بتیاں مومی اور کتاب نماز کی اور تصویر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اور پھولوں کے ہار۔ جو کوئی اپنے دوست کے قبر پر جاتا ہے، کھڑکی کھول کر اندر کوٹھری کے بیٹھ کر کتاب نماز پڑھتا ہے۔ ثواب اُس کا مردہ کی روح پر پہونچتا ہے۔ عود وغیرہ خوشبو کے لیے جلاتا ہےئ۔ طرفہ تکلف یہ دیکھا کہ ہر قبر کے پاس درخت پھولوں کا تھا۔ درختوں سرو کا سایہ ہر قبر پر رہتا۔ دھوپ کا ہرگز گذر نہ ہوتا۔ دو قبریں سنگِ مرمر کی الا ڈالوزیا کی بہت مضبوطی بنی تھیں۔ شبیہیں ان کی پتھر پر لکھیں۔ وہ دونوں عاشقی معشوقی میں مثل لیلا و مجنوں یکتائے زمانہ ہوے ہیں۔ حالات اُن کے افسانہ زبان ہوئے ہیں۔ اس نواح میں اب جوکوئی کسی پر عاشق ہوتا ہے اُن کی قبر پر جا کے پھولوں کا ہار چڑھاتا ہے اور کتاب نماز پڑھکر ثواب ان کی روح پر بھیجتا ہے۔ دو تین قبریں اور جرنیل لشکر بونے پاٹ کی نظر آئیں۔ بہت مستحکم اور مضبوط تھیں۔ سبب زیادتی سنگ مرمر کا یہ معلوم ہوا کہ وہاں سے قریب ملک انٹلی اور پہاڑ مرمر کا تھا۔ اُس سے یہ پٹھر کُھد کُھد کر آتا۔ بندہ جہاں میں پھرا پر ایسا قبرستان لطیب کسی قوم کا نہ دیکھا۔ قبرستان نہیں گلستان ہے۔ بظاہر مُردوں کے لیے بہشت کا سامان ہے۔ یہ بال دل کو پسند آئی اور قوموں میں نہ ہونے سے اس رسم سے


صفحہ کتاب 63، پی ڈی ایف 69

طبیعت غم کھائی۔ انگریز کہتےہیں خاک مردوں کو تکلف ضرور نہیں۔ کیا اس سے اُن کو نجات ہے۔ یہ صحیح میں بھی جانتا ہوں۔ لیکن اگر قبروں پر پھول رکھیں خوشبوئیں جلائیں کیا قباحت کی بات ہے۔ خوشبو ایسی چیز ہے کہ جانور، پرندہ مثل زنبور سیاہ زنبورِ عسل اُس پر مائل ہوتے ہیں۔ ہندو اپنے بتوں پر ہار پھول چڑھاتے ہیں۔ مسلمان قبروں پر پھول لے جاتے ہیں۔ خوشبوئیں جلاتے ہیں۔ پس یہ رسم ہر مذہب میں خوشنما ہے۔ ظاہر ارواح کو اس سےلطف ہوتا ہے۔

بارہویں دن پتہیم (۱) میں گیا۔ وہ خاص مدفن بادشاہوں فرانسیس کا تھا۔ عمارت عالی رکھتا۔ صورت اُس کی یہ کہ گنبد در گنبد مانند چھلکے پیاز کے بنا۔ اندر اُس کے تصویریں عمدہ کھچی ہوئیں، خوشنما سیدھی گول چکردار بنی تھی۔ لوگوں کو اوپر چڑھنے میں کیفیت اندر گنبد کے نظر آتی۔ سب سے اوپر چھت شیشے کی۔ محافظت گرد و غبار کےلیے بنائی۔ وہاں سے تمام عمارتیں شہر کی نظر آئی۔ اندر مکان کے تہ خانہ تھا کہ تابوت بادشاہوں کا اُس میں دفن کیا۔ نگہبان اُس مکان کا مجھ کو اندر لے گیا۔ اپنے دامن پر ایک لکڑی ہاتھ سے پکڑ کر ماری۔ توپ کی سی آواز کان میں آئی، معلوم ہوا کہ یہ بسبب مکان گنبددار کے وہ شور تھا۔ قبر بادشاہوں کی دیکھ کر مجھ کو عبر آئی کہ کیا کیا صورت تہ زمین سمائی۔ یہ بادشاہ کہ فرماں روا تھے۔ اب کوئی نشان سلطنت کا نہیں رکھتے۔ والٹیر (۳) جو بڑا عالم اپنے علم کا تھا۔ آخر بسبب زیادتی علم کے بے دین ہوا تھا۔ اُس کی قبر بھی وہیں تھی۔ اُس پر تصویر اُس کی کھڑی۔

تیرھویں دن کتاب خانہ بادشاہی میں گیا۔ ہر علم اور ہر زبان کی کتابوں کا ڈھیر تھا۔ برابر رکھی ہوئیں بطرزِ خوشنما کہ کوئی عمرِ نوح پاوے اور رات دن ان کی سیر کرے، ہرگز ان کی نہایت کو نہ پہونچے۔ ان لوگوں کو شاباش اور آفریں جنہوں نے خونِ جگر کھا کر کتابیں جمع کیں۔

چودھویں دن اُس مکان میں گیا کہ تصویریں آدمیوں اور جانوروں کی اور ایک


صفحہ کتاب 64، پی ڈی ایف 70

عضوان دونوں کے موم سے بنائے ہیں۔ ایسا ثابت ہوتا کہ تصویر آدمیوں کی بات کیا چاہتی ہیں۔ تمام اعضا ایسے بنے کہ سرِ مُو فرق نہ رکھتے۔ ہاتھ چومیے بنانے والوں کے کہ کیا کمال کیا تھا۔ جو لڑکا شوق ڈاکٹری کا رکھتا ہے۔ مدتہا وہاں رہ کر ہر عضو مومی کو بغور دیکھتا ہے۔ یہ بات خلاف عقل نظر آئی کہ محافظہ وہاں کی ایک عورت تھی۔ اُس نے ہر عضو تصویر مجھ کر دکھلایا۔ بعضا ان میں سے ایسا کہ قابل دیکھنے رنڈی کے نہ تھا۔ صاحبان عقل سے بعید نظر آیا کہ اس خدمت پر اُس کو مقرر کیا۔

پندرہویں دن ایک مکان میں گیا۔ وہاں صد ہا آدمی قالیچے شطرنجیاں بُن رہے تھے۔ بناوٹ میں تصویر عمدہ کھینچتے۔ دریافت ہوا کہ وہ سب مصور تھے۔ تصویریں قالین اور دریوں پر ایسی معلوم ہوتیں کہ کسی مصور کامل نے تصویر کاغذ پر کھینچی ہیں۔ اُن کی کاری گری دیکھ کر متحیر ہوا۔ حال ان کا پوچھا۔ ظاہر ہوا کہ واسطے فرش دیوان عام شاہ فرانسیس کے بُنتے ہیں اور کہیں نہیں بیچتے۔ زبانِ فرانسیسی میں اس کام کر ٹپسٹری (۱) کہتے ہیں۔ اُس کے بعد کونسل کے مقام پر گیا۔ ایک مکانِ فلک بنیاد دیکھا۔ ستون سنگ مرمر کے ایک ڈال راست اس میں لگے۔ صاحبانِ کونسل اپنے رتبہ کے موافق جابجا بیٹھے۔ ہر ایک کے نمبر لکھے۔ اُس مکان کی شکست و ریخت کے لیے مزدور لگے تھے۔ میں یہ حال دیکھ کر باہر نکلا۔ پانی برسنے لگا۔ سارے کپڑے تر ہوئے مگر گرتے پڑتے گھر چلے۔ راہ میں دو رنڈیاں ایک خوبصورت دوسری کریہ الہئیت ملیں۔ میری وضع خلاف اُس شہر کے دیکھ کر ترک ترک کہتی، تماشا دیکھتی پیچھے دوڑی آتیں۔ اکبار پاؤں پھسلا دونوں لڑکھڑا کر گریں۔ میں نے قریب جا کر زنِ جمیلہ کا ہاتھ پکڑ کر اُٹھایا۔ بدشکل کو ویسے ہی چھوڑا۔ وہ بڑی محنت سے اُٹھ کر اپنی بولی میں کچھ کہنے لگی۔ مگر اُس زبان سے مجھ کو آگہی نہ تھی۔ آخر اُس نے ایک دھکا دیا مجھ کو زمین پر گرایا۔ دوسری عورت خوبصورت نے جس کو میں نے اٹھایا تھا میری طرف ہو کر اُس سے مقابلہ کیا۔


صفحہ کتاب 65، پی ڈی ایف 71

میں جان بچانی غنیمت سمجھا۔ وہاں سے بھاگا۔ لڑکے کیچڑ بھرے ہوئے کپڑے اور بیگانہ وضع دیکھ کر تالیاں دیتے پیچھے میرے دوڑتے آتے۔ بہزار خرابی بھاگتے بھاگتے سرا میں پہنچا۔ میرا حال دیکھ کر سب ہمراہی ہنسنے لگے۔ میں سخت نادم و شرمندہ ہوا۔ پانوں میں چوٹ آئی تھی۔ اس سبب سے دو ایک دن قیام کیا۔ بعد اس کے اُس امیر زادہ کے ساتھ جو صبوحی شراب بیر پیتا تھا سیر کو چلا۔ مٹھائی بیچنے والیوں کی دوکان پر گیا۔ دیکھا کہ رنڈیاں خوبصورت تھال مٹھائی کے سلیقہ کے ساتھ جماے ہوئے بیچ رہی ہیں۔ جب مجھ سے چار چشم ہوئیں، بے اختیار ہو گیا۔ دل ہاتھ سے کھو گیا۔ انہوں نے مجھ سے کہا قِسم مٹھائی سے جو چاہو سو لو۔ میں نے جواب دیا تمارے لبِ نوشیں کلام شیریں کے سامنے مٹھائی کی کیا اصل ہے۔ یہ اصل وہ نقل ہے تم خود شہد ہو۔ اس سے زیادہ کیا مٹھائی ہے بھلا سچ کہو۔ یہ سن کر وہ بہت ہنسیں اور باتیں معشوقانہ فرمائیں۔ اپنے پاس عنایت سے بٹھلایا۔ بندہ ان کی شیریں گفتاری سے چاشنی یاب ہوا۔ جب چلنے کا ارادہ کیا انہوں نے پھر بٹھلایا۔ میں نے کہا مکھی کو اُسی قدر شہد پر بیٹھنا چاہیے کہ پھنس نہ جاوے۔ میں بھی اگر زیادہ ٹھہروں گا، پھنس جاؤں گا۔ پھر میں نے چلتے وقت تھوڑی مٹھائی مول لی اور روانہ ہوا۔ وہی امیر زادہ اور کتنے مکانوں میں لے گیا۔ بیان اُن کا نہیں ہو سکتا۔ حق یہ ہے کہ فرنگستان پرستان ہے۔ ہر ایک شخص حسن و جمال میں غیرتِ مہرِ درخشاں جو کوئی یہاں آتا ہے۔ وطن کو اپنے بھول جاتا ہے؂

سیہ چشم سبزانِ رنگین نگاہ
بشورِ نمک از شکر باج خواہ
رہِ مایہ دارانِ ایمان زنند
بخر وار بیعِ دل و جان کنند

جاے فضل و کمال ہے۔ کانِ حسن و جمال ہے ملک پارس، دارالسلطنت فرانس نہایت


صفحہ کتاب 66، پی ڈی ایف 72

آبادان ہے اور ولایت جوں گلستان۔ مگر راہ کوچہ و بازار کا انتظام لندن سا نہ تھا۔ یعنی لندن میں ایسی سڑک بنی ہے۔ دونوں طرف سے بلند بیچ میں نیچی ہے۔ دو طرفہ راہ بلند پر آدمی آتے جاتے ہیں۔ راہ پست بیچ کی سے جانور اور گاڈی لے جاتے ہیں۔ یہاں سب راہ برابر ہے۔ یکساں سراسر ہے۔ آدمی اور جانور کی راہ میں کچھ فرق نہیں۔ بلکہ برسات میں بسبب نشیب و فراز فرش سنگی کی راہیں قابلِ آمد و رفت نہیں رہتیں۔ کہیں کہیں پانوں پھسلتے ہیں۔ آدمی اور جانور گرتے ہیں۔ مگر جب سے فلپ شاہ (۱) بادشاہ تخت پر بیٹھا ہے۔ راہوں کی طیاری میں جہدِ بلیغ رکھتا ہے۔ سابق اکثر جاروشنی چراغ و فانوس کی ہوتی تھی۔ بادشاہ موصوف وہاں آپ گیس روشن کرواتا ہے۔ عدل و انصاف کا پتلا ہے۔ بہت رسمیں بیجا جو پہلی تھیں اس نے اپنے عہد دولت سے موقوف کروا دیں۔ جیسے قمار بازی وغیرہ وہاں کے لوگوں کی عادت تھی۔ اُس نے بالکل اٹھا دی۔ ہر امر میں احتیاط و ہسشیاری رکھتا ہے۔ اس کی تدبیر سے راستہ بھی مثلِ لندن کے طیار ہوت اہے۔ مکانِ قواعد اور سلاح خانہ میں گیا۔ بارہ ہزار سپاہیوں کو قواعد میں مشغول پایا۔ پیادے فرانسیس کے قواعد اور قد اور چستی چالاکی میں پیادوں انگلش سے کم تھے۔ دل کا حال نہیںمعلوم کہ شجاعت کم یا زیادہ رکھتے۔ سوا داڑھی موچھ والے البتہ ہیبت ناک تھے۔ قد و قامت میں دراز اور چالاک نظر آتے۔ گھوڑے اُن کے ضعیف البنیان۔ نہ مثل گھوڑوں انگلستان کے۔ گاڈیوں میں بھی گھوڑے چھوٹے لگے۔ لندن میں ایسے گھوڑے دیکھے کہ سُم اُن کے اونٹوں کے سے اور پٹے ہاتھی کے سے تھے۔ جس قدر صفائی اور صیقل لندن کے ہتھیاروںمیں دیکھی یہاں کی فوج کے ہتھیاروں میں نہ تھی۔ جب ان سیروں سے فارغ ہوا۔ گاڈی میل کوچ سے مقام کیا۔ کرایہ پر ٹھہرا کر دو تین صاحبوں کے ساتھ سوار ہوا اور لندن چلا۔ راہ میں گانوں آباد فرانسیس کے دیکھے۔ ہر ایک دیوار شہر پناہ رکھتی اور ہر ایک میں قلعہ اور خندق۔ قلعے میں پل بنے تھے۔ جو گاڈی اس پر سے


صفحہ کتاب 67، پی ڈی ایف 73

جاتی۔ سبکی و گرانی اس کی اُس پل سے دریافت ہوتی۔ کوئی جب تک پروانہ سند پاس نہ رکھتا ہو۔ اس میں چہرہ اور خال و خط اس کا نہ لکھا ہو۔ شہروں فرانسیس میں نہیں جا سکتا ہے (۱)۔ چلتے چلتے بندہ جزیرۂ بلون میں پہنچا۔ وہاں مچھلی پکڑنے والوں کے جہاز جمع تھے۔ بسبب افراط کے مچھلی بہت ارزاں بیچتے۔ آب و ہوا وہاں کی اچھی۔ بارش، برف کی زیادتی۔ یہ جزیرہ کنارے سمندر کے عجب جائے عشرت فزا تھا۔ زمانہ قدیم سے بسا تھا۔ تین طرف سے دیوار شہر پناہ تھی۔ مگر ایک سمت جدھر حال سے آبادی ہوئی خالی۔ ایک قلعہ قدیمی بھی اُس میں تھا۔ وہاں پہنچ کر بوچڑ صاحب کا دل مائلِ قیام ہوا۔ بپاسِ خاطر ان کی، آٹھ روز مقام کیا۔ ہر روز سیر و تماشے میں رہتا۔ اسی عرصہ میں مجھ سے اور ایک عورت خوبصورت سے نہایت محبت ہوئی، مگر خالی اغراضِ نفسانی سے تھی۔ سن اس کا پندرہ سولہ برس کا۔ عقل و دانائی میں وحید و یکتا۔ اکثر اس کے ساتھ دریا کنارے سیر کرنے جاتا۔ ایک روز میں اور وہ مصروف تماشا اور کوئی مخلِ صحبت نہ تھا۔ اس نے شیشۂ ساعت نکال کر کوکا۔ حال ساعتوں دن کا دریافت کیا۔ گھڑی بیش قیمت تھی۔ میں نے یہ بات کہی۔ تم ہندیوں پر بے مروتی اور بے رحمی کا طعنہ دیتی ہو۔ اگر اس وقت میں تم کو دریا میں ڈال دوں اور گھڑی چھین لوں تو کیا کرو، کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ اُس نے جواب دیا کہ میں نے خوب سمجھ کر تم سے اتحاد کیا۔ اتنی عقل و تمیز رکھتی ہوں کہ جواہر کو پتھر سے جدا کروں۔ آٹھ دن کے بعد بمقتضاے ضرورت اُس نازنین سے جدا ہو کر جہاز گران ترک پر سوار ہوا۔ اگرچہ مفارقت اس کی کا سخت قلق تھا۔ مگر چار ناچار صبر کیا۔ رات کو ہوا موافق تھی۔ جہاز چل نکلا اور سریع السیر ہوا۔ بندہ دو تین ہمراہیوں کے ساتھ اس پر بیٹھا تھا اور لوگ بھی اس میں تھے۔ رات کا کھانا کھا کر باتیں کرنے لگے۔ کسو نے شراب پی کر کچھ قصور کیا تھا، اس کا تذکرہ آیا۔ کوئی کہتا، قابل، تعزیر ہے، کوئی کہتا، سزاوار بخشش اُس کی تقصیر ہے۔ ایک شخص ظاہر میں بہت متقی اور دیندار تھا، علم


صفحہ کتاب 68، پی ڈی ایف 74

رکھتا۔ وہ بھی اس کے حق میں باتیں طرح طرح کی کہتا۔ بندہ خاموش بیٹھا سنتا تھا۔ کسی کی بی بی خوبصورت اس دیندار کے پاس بیٹھی تھی۔ جب سب لوگوں کو نیند آئی میں نے بھی اس کی باتیں سنتے سنتے کپڑا منہ پر رکھ کر قصداً اپنے تئیں نیند میں ڈالا۔ اس مرد دانا نے چپ دراست نظر کر کے بزعم خود سبھوں کو سوتا پایا۔ دروازہ کمرے کا بند کیا اور اس عورتِ غیر کی سے مشغول لذات نفسانی ہوا۔ میں اپنے دل میں سوچا، یہ وہی شخص ہے جو دو گھڑی پیشتر دینداری کی باتیں کہتا۔ آپ ہی گناہ میں ڈوبا۔ عجب حال اہل دنیا کا۔

ولایت کے سب سامان اور باتیں اور رسمیں اچھی ہیں۔ مگر بعضی رسمیں خلاف آئین ہیں۔ ایک اُن میں سے مقدمہ خاوند جورو کا ہے۔ بنظر انصاف دیکھا چاہیے کہ مرد بہزار محنت و مشقت وجہ معاش حاصل کرتا ہے۔ حقوق والدین سے کہ ان سے زیادہ حق کسی کا نہیں، غافل ہوتا ہے، دل و جان سے بی بی کی خاطر داری میں مصروف رہتا ہے۔ سخت حیف ہے کہ وہ بی بی اور سے ملتفت ہوئے۔ ننگ و ناموس شوہر برباد کرے۔ ہزاروں لعنت اس مرد ملون پر کہ پرائی جورو سے مرتکب مباشرت ہو۔ منھ کالا اس عورت کا کہ غیر مرد سے مشغول لذت ہو۔ یہ رسم اس ملک کی اپنےمزاج کے پسند نہ آئی۔ اس لیے کہ اس میں بہت فساد ہے اور برائی۔

قصہ مختصر بعد چند روز کے لندن میں پہونچ کر قدیمی مکان پر اُترا اور شہر کی سیر میں مشغول ہوا۔ لی بیس یہودی ایک کلیسا میں لے گیا۔ وہاں کی عبادت کرنے والوں کا عقیدہ یہ تھا کہ حضرت عیسٰے علیہ السلام نہیں ہیں خدا کے بیٹھے۔ بلکہ رسول ہیں خدا کے بھیجے۔ اسی طرح انگریزوں میں کئی مذہب دیکھے بلکہ ہر قوم میں سینکڑوں مذہب ہوے۔

میں نے خوب غور کیا، مذہبوں کا پردہ پایا۔ ہر ایک ہوا و حرص دنیا میں پھنسا ہے۔ مذہب کا نام رکھ لیا ہے۔ عمل اپنے طریقہ پر کوئی نہیں کرتا ہے۔ آخر بعد تحقیقات کے یہ ثابت ہوا کہ


صفحہ کتاب 69، پی ڈی ایف 75

مذہب سلیمانی ہی سب مذہبوں سے اچھا ہے ۔ کلیہ اس کا یہ ہے کہ حق تعالٰی کو وحدہ لا شریک جانے۔ جو کچھ معاش محنت و مشقت سے پیدا کرے کچھ اپنے خرچ میں لاوے باقی خدا کی راہ پر بانٹ دے۔ خدا نے جہاں میں پیدا کیں اقسام کی نعمتیں۔ بندوں کے لیے ہیں تاکہ کھاویں اور بانٹیں۔ جنت و دوزخ اسی دنیا میں موجود ہیں نہ اور کہیں۔ جس کی عمر رنج و مصیبت میں گزرے اس کو دوزخ ہے یہیں۔ جس کی زندگی چین و آرام سے بسر ہوتی ہے اس کو ہے بہشتِ بریں۔ خدا تعالٰی رحیم و کریم ہے۔ عدل و انصاف میں نہیں کوئی اس کا سہیم۔ یہ بات خلاف عدل و داد کے ہے کہ زندگی چند روزہ انسان کے لیے بہشت و دوزخ آبا کرے۔ اس زندگی چند روزہ میں اور مصیبتیں کیا کم ہیں۔ سینکڑوں مکروہات و غم ہیں۔ چڑیا اور جانوروں کو باوصف بے عقلی کے اپنے بچوں سے اتنی محبت ہوتی ہے کہ اُڑ کر دور سے دانہ لا کر کھلاتے ہیں اور اس کو بہر صورت تکلیفوں سے بچاتے ہیں۔ حق تعالٰی جو ستر درجے ما باپ سے زیادہ محبت اپنے بندوں سے رکھتا ہے کیوں کر عقل میں سماتا ہے کہ دوزخ میں ڈالے گا۔ آدمی زاد جب پیدا ہوا۔ فکر دودھ کا ہوا، جب کچھ بڑھا۔ محنت تحصیل ہنروں اور نوشت و خواند میں پڑا۔ جب اس سے فراغت پا کر سن بلوغ کو پہونچا، جورو کے پھندے میں پھنسا۔ سب چوکڑی بھولا۔ جب کہ عیال دار ہو اور زیادہ جکڑ گیا۔ عزیز و قریب والدین سب کو بھولا۔ ماں باپ کے مرنے کا غم طرہ اس پر ہوا۔ جب پچاس برس کا ہوا، کوئی بینائی سے معذور ہوتا ہے، کوئی کانوں سے نہیں سنتا ہے۔ اس سے زیادہ عذات اور کیا ہو گا کہ ساری عمر بندے کی مصیبت میں گزری۔ اس کا نام دوزخ ہے۔ خداوند کریم و رحیم نے دوزخ اور کہیں بنائی کہ اُس میں بندوں کو ڈالے۔ خلاصہ مذہب سلیمانی کا یہ ہے سوا اس کے گمرہی ہے۔ ہر ایک مذہب برائے نام ہے۔ جو خدا کی راہ پر خرچ کرتا ہے۔ غریبوں مسکینوں کی پرورش مدنظر رکھتا ہے، مردم آزاری سے باز رہتا ہے، وہی بندہ مقبول ہے کوئی مذہت رکھتا ہووے۔ اے یوسف


صفحہ کتاب 70، پی ڈی ایف 76

حلیم یہ قصہ بے پایاں ہے۔ زبان کو نہیں تاب بیاں ہے۔ سر رشتہ سخن کا توڑ، باگ قلم کی طرف مطلب کے موڑ۔

پچیسویں تاریخ دسمبر کی تھی۔ اس روز عید انگریزوں (۱) کی ہوئی۔ پر ان صاحب نے جو کپتان جہاز کے تھے۔ میری دعوت کی۔ بموجب طلب ان کے قریب شام ان کے مکان پر گیا۔ کتنے صاحبوں اور بی بیوں سے جو شریک دعوت تھے، فائز ملاقات ہوا۔ ساری رات عیش و عشرت میں رہا، صبح ہی رخصت ہو کر اپنے گھر آیا۔ بعد چند روز کے تین دن تک مثل کہرہ کے ایسا برف پڑتا رہا کہ روزِ درخشاں رات کی طرح تاریک ہوا۔ کچھ نہ دکھائی دیا۔ پانی دریائے سرپن ٹین (۲) کا جم گیا۔ فرش مرمر سپید کا سا نظر آتا۔ زن و مرد لوہے کی جوتیاں پہن کر اس پر دوڑتے پھرتے (۳)۔ اس پار سے اس پار آتے جاتے۔ میں نے ایسا ماجرا کبھی نہ دیکھا تھا۔ اچنبھا سمجھ کر دیکھ رہا تھا۔ آخر یادگاری کے لیے میں بھی کبھی اس پار آتا کبھی اس پار جاتا۔ اس عرصہ میں آگس چیخہ یعنی خرانہ کے مکان میں آگ لگی۔ جو قریب مکان کمپنی کا تھا۔ لوگ سراسیمہ ہو کر دوڑے۔ آگ بجھانے میں مصروف ہوئے۔ ایک کل پانیکی سامنے لا کر کھڑی کی۔ نل اس کے مقابل آگ کےکیے اور دیر تک گھماتے رہے، مگر بسبب برودت کے پانی کل کے اندر جم گیا تھا ہرگز رواں نہ ہوا۔ جب بہت لوگوں نے محنت کی، کل کے اندر گرمی پہنچائی۔ تب پانی نلوں کی راہ سے بہ نکلا۔ آگ کو بجھایا۔ لیکن بجھتے بجھتے سارا اسباب جل گیا۔ چند روز بعد کپتان لاڈ صاحب نے میری دعوت کی۔ نہایت مہربانی میرے حال پر فرمائی۔ ازراہ عنایت مکان ڈوک صدر لین بھائی شاہ کا تماشا دکھانے اپنے ساتھ لے گیے۔ عمارت رفیع الشان، نقش و نگار بے پایاں نظر آئے۔ کمرے اس کے بہت بڑے تھے۔ دروازے اس کے مکان بادشاہی سے زیادہ اونچے۔ آتش خانہ سنگ مرمر کے ترشے عجیب و غریب بے تھے۔ میں نے باوجود سیاحت کے ویسے کہیں نہیں دیکھے۔ محافظ


صفحہ کتاب 71، پی ڈی ایف 77

مکان سے پوچھا کہ ان آتشدانوں کی ساخت میں کیا خرچ ہوا۔ اس نے کہا ایک ایک کے ترشنے میں اسی ہزار روپیہ صرف ہوا۔ اسی بات سے دریافت کیا چاہیے کہ اور صنعتوں میں کیا لاگت آئی ہو گی۔ جس کے فقط آتشدانوں کے تراشنے میں اتنی مزدوری اٹھی۔ وہ مکان دیکھ کر بندہ بہت محظوظ ہوا۔

ماہ جنوری میں ایک دن برنڈن صاحب سے کہ اگلے دنوں میں شاہ اودھ کے نوکر تھے، ملاقات ہوئی۔ بہت تپاک سے مل کر اپنے گھر لے جا کر میری ضیافت کی۔ دیر تک دوستانہ باتیں رہیں اور عجائبات اور خوبیاں لندن کی بیان ہوئیں۔ بعد اس کے ذکر اس پل کا آیا کہ انگریزوں نے دریائے ٹیم (۱) کے نیچے بنوایا۔ وہ قریب ان کے مکان کے تھا۔ میں نہایت مشتاق دیکھنے کا ہوا۔ آخر ان کے ساتھ پل دیکھنے چلا۔ وہاں جا کر عجب حال دیکھا۔ اوپر ایک دریا جس میں جہازوں کا لنگر پڑا ہوا تھا، بہتا، نیچے اس کے انگریزوں نے پل بنوایا۔ دو طرفہ اس میں راہ آدمیوں کی۔ بیچ میں گاڈی بگھیوں کی۔ تھوڑے دن پیشتر ایک مقام پر ٹوٹ گیا تھا۔ پانی اس طرف سے اندر اس کےآیا تھا۔ ٹپنل صاحب جو وہاں کے نگہبان تھے، کہنے لگے۔ اگر تم کو خوف نہ آتا ہو تو اس جگہ چلو۔ میں اپنے ساتھ لے چلوں۔میں نے جواب دیا، بسم اللہ میں مستعد ہوں۔ کپڑے اوٹے جوٹے موٹے پہنے۔ دس آدمیوں نے پلیتے روشن کر لیے۔ اس مقام پر پہونچ کر دیکھا عجب اندار کا تھا کہ عقل میں نہ آتا۔ جہاں درز پڑی تھی مرمت جاری تھی۔ پیچوں میں لگا کر اینٹ اس جگہ تک پہونچاتے۔ ایک ایک مزدور چھ روپیہ روزینہ پاتے۔ اس پل کی طیاری میں چوبیس کرور روپیہ خرچ ہوا اور اب تک ہوتا جاتا ہے۔ ایک بازار بھی وہاں بنا چاہتا ہے۔

بعد ان سیروں کے ایک دن خیال آیا۔ جو روپیہ میں زادِ راہ کے لیے لایا تھا، بہت خرچ ہوا، تھوڑا سا باقی رہا۔ اب مصلحت یہی ہے کہ یہاں سے چل دیجیے۔ جب یہ بھی اُٹھ جائے


صفحہ کتاب 72، پی ڈی ایف 78

گا نہ رہنے میں لطف ہے نہ جانا بن پڑے گا۔ یہ سوچ کر اٹھارہویں تاریخ جنوری کی روانگی کا عزم مصمم کیا۔ اس وقت سے وہاں کی ہر چیز کمال محبت سے دیکھتا تھا اور دل سے کہتا ایک دن وہ ہو گا کہ دیکھنے ان پریوں اور بازار اور گاڈیوں اور راہوں دلکش اور دوست آشناؤں سے جدا پڑوں گا جیسے مردے کے لیے سامان تجہیز و تکفین کا کرتے ہیں۔ اپنے سامانِ سفر میں مستعد تھا اور خشکی کی راہ سے ارادہ سفر کا کیا۔ بوچڑ صاحب اور دوستوں نے راہ دریا سے چلنے کو کہا۔ مگر میں نے سوچا۔ دیکھی ہوئی راہ کیا فائدہ پھر دیکھنا۔ آخر اٹھارہویں جنوری کو خشکی کی راہ سے اور اسباب بھاری اپنا بوچڑ صاحب کو سونپا کہ کسی کے جہاز پر رکھ کر ہندوستان میں میرے پاس بھیج دینا۔ اسباب ضروری ایک پٹاری چرمی میں رکھ کر اپنے ساتھ لیا۔ ایک جام شراب وین دوستوں کے ساتھ پی کر گاڈی میل کوچ پر سوار ہوا۔ وقت روانگی بوچڑ صاحب، راچر صاحب اور کئی دوست افسوس کھا کر رنج جدائی سے رونے لگے۔ میں بھی وہاں سے چلتے وقت ایسا ملول ہوا جیسے حضرت آدم بہشت سے نکلے۔ چونکہ ملتے ملاتے دوستوں سے رخصت لیتے مجھ کو دیر ہوئی، گاڈی میل کوچ آدمیوں سے بھر گئی۔ کہیں جگہ باقی نہ رہی۔ ناچار کوچوان کے پاس بیٹھا مگر دل پر مفارقت دوستوں کا قلق تھا۔ برف ایسا برستا کہ تمام راہ میں میری داڑھی مونچھ پر جم گیا۔ ڈیڑھ پہر رات گئے کرکوز انڈر (۱) میں پہونچا۔ وہ مقام لندن سے چوبیس کوس تھا۔ وہاں سے ایک مزدور نے میرا اسباب میل کوچ سے اتار کر اپنی گاڈی پر رکھ کر مجھ کو ساتھ لے کر سرائے فلٹن میں پہنچایا۔ میرے نوکر نے کہا کیا کیا کھانا لاؤں۔ میں نے کہا سردی مارا، برف کا ستایا ہوں۔ آتش پرستی کروں گا۔ پہلے آگ لا۔ ا س کے پاس بیٹھ کر تاپوں گا۔ اس نے آتشدان میں آگ جلائی۔ قریب اس کے بیٹھ کر ایسی مجھ کو آرام آئی کہ آگ مجھ کو مثل آتش پرست عزیز ہو گئی۔ ہر شخص گاڈی سے اتر کو خوشی میں مشغول ہوا مگر مفارقت میں ان دوستوں اور شہر جنت نشاں سے رنجیدہ اور چپ بیٹھا تھا۔


صفحہ کتاب 73، پی ڈی ایف 79

ایک شخص جبالڑ (۱) کو اپنی نوکری پر جاتا تھا۔ مجھ کو رنجیدہ دیکھ کر قریب آ بیٹھا۔ ہنگامہ صحبت گرم کیا۔ میں نے اس کی میٹھی باتیں سن کر غم کو دل سے مٹا دیا۔ اس کے ساتھ شراب شیرین دوستوں کو یار کر کے پی اور ان کے حق میں دعا دی۔ پھر وہاں سے شہر لندن کی محبت سے دل اٹھایا۔ دوپر رات کو دھویں کے جہاز پر سوا ر ہوا۔ نام اس کا مکس تھا۔ حال جہاز والوں کا بسب برف کے متغیر ہوا۔ برف سطح جہاز پر چار چار انگل جم گیا۔ رسیاں جہاں کی برف جمیں ٹکڑا بلور کا معلوم ہوتیں۔ یہاں تک کہ صبح ہی جہاز جزیرہ فال مت (۲) میں پہونچا۔ چاروں طرف اس کے پہاڑ تھا۔ وہاں طوفان جہاز کو آفت نہیں پہونچاتا ہے مگر بغیر ہواے موافق کے جہاز وہاں سے نہیں ہلتا ہے۔ پہاڑوں پر سبزی تھی۔ دل کو اس سے راحت آتی۔ رستے بازار کے لطیف تمام تھے۔ آدمی خوبصورت و خوش کلام تھے۔ وہاں سے لاڈنیکم صاحب مع اپنی میم صاحب کے اور ولیم سیڈ صاحب اور کئی صاحب مع بی بیوں اپنی کے سوار جہاز پر ہوئے۔ جہاز مصر کی طرف چلا۔ بعد دو ایک دن کے ایک شہر میں پہونچا۔ نام اس کا ویگو (۳)تھا۔ حاکم وہاں کے اسپانیل تھے، وہ بھی ہیں قوم انگریزوں سے۔ جہاز اس جزیرے میں خط پہونچانے کے لیے ٹھہرا۔ خطوط کو اس طرف ایک چھوٹی ناؤ پر لاد کر روانہ کیا۔ بندہ بھی اس شہر کی سیر کو اس پر سوار ہو کر کنارے اترا۔ شہر دیکھا، پر سبزہ و گلہائے خنداں مگر بسبب بے انتظامی اور لڑئی بھڑائی کے ویران۔ ایک قلعہ پرانا تھا ٹوٹا پھوٹا ہوا۔ توپوں کو کھود کر زمین میں گاڑا۔ مجھ کو دیکھنے ویرانے ملک اور بے سرو سامانی سپاہ سے لکھنؤ یاد آیا۔ دائیں بائیں پھرا، دو رنڈیوں حسین کو دیکھا۔ کمر ان کی مانند چیتے کی کمر کے تھے۔ آنکھ بوں ان کی ہرن کی سی۔ دل اگرچہ صورت دیکھنے ان کے سے نہ بھرا۔ مگر خیال روانگی جہاز کا آیا کہ مبادا جہاز رواں ہوئے۔ اسی سوچ میں تھا کہ جہاز کی توپ کا دھماکہ کان تلک پہونچا۔ یہ دستور ہے کہ جب جہاز کا لنگر کھولتے ہیں لوگوں کی اطلاع کے واسطے توپ چھوڑتے ہیں۔ تاکہ جو کوئی کہیں گیا


صفحہ کتاب 74، پی ڈی ایف 80

ہوئے جلدی سے چلا آئے۔ اپنے تئیں جہاز پر پہونچائے۔ توپ کی آواز سنتےہی گرتے پڑتے میں جہاز پر آیا۔ جہاز وہاں سے چل نکلا۔ رات کو طوفان آتا۔ ہواے مخالف کا غلبہ ہوا۔ مگرجہاز تباہی سے بچ کر بخیریت رواں تھا۔ مجھ کو خیال زندگی کا آیا کہ اسی طرح جہاز عمر بہا جاتا ہے۔

ستائیسویں جنوری 1838ء کے شہر لزبن (۱) میں پہونچا۔ وہ ہے دارالسلطنت پرتکیزوں کا۔ وہاں جہاز تھے اور بھی کئی۔ ایک ڈونگی پرتکیزوں کی ہمارے جہاز کو راہ بتانے آئی۔ لزبن کنارے دریا ٹیکس (۲) کے ہے۔ دائیں طرف اس کے شہر اور پہاڑ جانب چپ کے ہے۔ ڈونگی پرتکیزی اس لیے رہنمائی جہاز کو مقرر تھی کہ اس دریا میں کہیں پانی تھوڑ اتھا۔ کہیں اندازہ سے بیشتر۔ جب جہاز ہمارا وہاں پہونچا، ہوا کا زور تھا مگر استادی کپتان سے جہاز سلامت رہا۔ ہمارےکپتان اور ناخداے پرتکیز سے کسی بات پر تکرار ہوئی۔ یہ تو ڈم ڈم کہتے اکثر طرف ثانی کہتا فوٹر فوٹر۔ پہلے پرمٹ کی جگہ نظر آئی۔ وہ ایک میدان چٹانوں پتھر سے برابر تھا۔ اس میں ایک گھوڑا مع سوار کے پتھر سے تراشا کھڑا کیا۔ نیوٹن صاحب سوداگر میرے دوست تھے۔ وہ اس شہر میں تشریف رکھتے۔ جب میرے آنے کی خبر پائی۔ بہت تکلف سے دعوت میری کی۔ کئی طرح کا کھانا میرے لیے پکوایا۔ جب اس کو کھایا۔ دل کو بھایا۔ پھر سیر شہر کو چلا۔ وہاں کے آدمیوں کو کج اخلاق پایا۔ حسن و جمال عورتوں کا بہ نسبت لندن کے کم تھا۔ بار برداری کی گاڈیوں میں بیل لگے تھے۔ رستے بازار کے صاف ستھرے تھے مگر دکانیں بمقابلہ لندن اور فرانس کے بد قرینے۔ ایک کلیسا عجب وضع کا بنا تھا۔ تصویریں حضرت عیسیٰ اور مریم اور حواریوں کی نفیس بنی ہوئی رکھیں۔ ان پر کام سونے کا۔ دو تین باغ دیکھے، بہت اچھے تھے۔ حاکم اور فرماں روا وہاں کے مثل لندن۔ ایک رنڈی کم سن تھی۔ تناسب اعضا اور جمال بدنی نہیں رکھتی تھی۔ بلکہ فربہ اور جسیم تھی۔ کنارے دریا کے ایک
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ کتاب 75، پی ڈی ایف 81

مکان بنواتی۔ وہ نہایت خوش قطع اور نادر تھا۔ بسبب کمی روپیہ کے ان دنوں بننا اس کا موقوف تھا۔ میں نے اس کو خوب دیکھا۔

ایک دن ناچ گھر کا تماشا دیکھنے گیا۔ شہزادی حاکمہ بھی آئی۔ میری قریب بیٹھی۔ شوہر اس کا ایک امر زادہ۔ بہت خوبصورت اور وجیہ ہمراہ تھا۔ سن و سال میں بیس برس کا۔بندہ آدھی رات تک کیفیت دیکھتا رہا۔ پھر اٹھ کر باہر آیا اور ملاح سے کہا کہ ناؤ پر سوار کر کے مجھ کو جہاز تک پہونچا دے۔ ان نے انکار کر کے کہا کہ رات کو ہمارے شہر میں کسی کو ناؤ پر نہیں چڑھاتے۔ اکبارگی مینھ بھی برسنے لگا۔ تب میںمجبور ہو کر سرا میں شب باش ہوا۔ صبح اٹھ کر پھر سیر کو چلا۔ مکانات دیکھے، اوندھے پڑے۔ حال ان کا پوچھا لوگوں نے کہا اسی برس کا عرصہ ہوا کہ یہاں ایک بڑا زلزلہ آیا تھا۔ ساٹھ ہزار آدمی اس میں مر گئے۔ بہت مکان اس میں گر گئے۔ پانی دریا کا اپنے ٹھکانے سے ہٹ گیا تھا۔ بعد اس کے اس آبادی کا جو تم دیکھتے ہو، اتفاق ہوا۔ یہ حال دیکھ کر گھبرایا۔

دوسرے دن تیسرے پہر تک پھر سیر کرتا رہا۔ بعد اس کے جہاز وہاں سے رواں ہوا۔ میں اس پر سوار ہوا۔ کتنے صاحب اور بی بیاں اور بھی تھیں۔ بی بی اسمٹ بھی مع دونوں بیٹیوں پریزاد کے اس پر سوار ہوئیں۔ حرکت جہاز سے دونوں پریاں متلی اور ابکائی میں گرفتار ہوئیں۔ جہاز پر چڑھ کر نہایت بیزار ہوئیں۔ سچ ہے سواری جہاز کی عورتوں کو بہت ایذا دیتی ہے۔ مجھ کو ان کی بے چینی سے بے قراری تھی۔ دو تین دن میں جہاز جاتے جاتے تیسرے پہر کو قریب شہر کندس (۱) کے ٹھہرا۔ کئی اسپانیوں (۲) نے کشتیوں کو ہمارے جہاز پاش پہونچایا۔ اکثر صاحب واسطے سیر شہر کے ناؤ پر سوار ہوے۔ ہم بھی مدت سے مشتاق اس شہر کے دیکھنے کے تھے۔ ناؤ پر چڑھے بعد اس کے مینھ آیا۔ ہر شخص جہاز پر پھر گیا۔ مگر بندہ ناؤ پر بیٹھا رہا۔ اسپانیل جو ملاح تھے اپنی زبان میں باہم باتیں کرتے اور میرے منہ کی طرف دیکھتے۔ بلا



صفحہ کتاب 76، پی ڈی ایف 82

تحاشا ناؤ کو کنارے لیے جاتے۔ ہر چند میں نے کنارے جانے سے انکار کیا۔ پر انہوں نے میری بات نہ سنی۔ ظاہراً معلوم ہوتا کہ کنارے لے جا کر گھڑی اور اسباب طلائی میرا چھین لیتے اور جان سے ہلاک کرتے۔ ناگاہ جہاز کے چھوٹے کپتان نے میرے حال پر رحم کیا۔ چھوٹی ناؤ پر سوار ہو کر میری ناؤ کو خار آہنی سےاپنی طرف کھینچ کر جہاز پر پہونچایا اور اس آفت سے مجھ کو بچایا۔ بشبب مینھ کے اس شہر میں جانے کا اتفاق نہ پڑا۔ مگر سمنے سے بخوبی نظر آتا۔ عمارت عالیشان ، وہاں حسن و جمال کی کان تھی۔لاڈ بیرن شاعر نے وہاں کے حسن کی تعریف کی ہے۔ دادِ سخنوری دی ہے۔

اکیسویں تاریخ جنوری 1838ء؁ کے دو گھڑی رات رہے میں جاگا۔ جہاز کے قریب بڑا سا پہاڑ نظر آیا۔ میں متحیر ہوا کہ یہ پہاڑ کہاں سے آیا۔ پوچھنے سے معلومہوا کہ یہی ہے قلعہ جبالڑکا۔ یہ شہر سابقاً ترک کے عمل میں تھا۔ جبالٹر مخفف ہے جبال ٹائر کا۔ ٹائر نام حاکم کا تھا۔ یہ قلعہ اسی نام پر مشہور ہوا۔ پس جبال ٹائر (۱) کہلایا۔ اب بشبب کثرت استعمالکے جبالٹر نام پڑ گیا۔ ترک سے انگریزوں کے قبضہ میں آیا۔ جب جہاز وہاں پہونچا۔ سب لوگ ناؤ پر سوار ہوئے۔ قلعہ کی سیر کو چلے۔ بی بی اسمٹ کی دو بیٹیاں بھی اتریں۔ میں نے ان سے کیفیتیں جہاز کی پوچھیں۔ انہوں نے کہا ہم نے توبہ کہ پھر جہاز پر نہ سوار ہوں کبھی۔ قلعہ کے دروازے پر ایک چوکیدار بیٹھا تھا۔ سب کو اندر جانے دیا مگر مجھ کو روکا۔ اس وجہ سے کہ میں پروانۂ سند نہ رکھتا۔ میں نے کہا اپنی خوشی سے تیرے پاس بیٹھا ہوں۔ کہیں نہیں جاتا ہوں۔ مگر میرے کھانے پینے کی فکر کر۔ بعد دو گھڑی کے ایک انگریز آیا۔ میری وضع سے حال لیاقت دریافت کر کے دلاسا دینے لگا اور ایک بلند کرسی پر بٹھلا کر کہا تم کچھ رنج اور فکر نہ کرو، میں حاضر ہوں تمہاری خدمت گزاری کو۔ ناگاہ پرنکل صاحب میرے دوست نظر آئے۔ ولایت سے ہندوستان آتے تھے۔ مجھ کو اس حال میں دیکھ کر تسلی دینے لگے کہ ہم جاتے ہیں



صفحہ کتاب 77، پی ڈی ایف 83

تمہاری تدبیر کے لیے۔ یہ کہہ کر وہاں کے حاکم پاس گئے۔ میرے لیے پروانہ لکھوا کر چھڑا لائے اور سرا میں اپنےمقام پر لے گئے۔ تعریف مہربانی انگریزوں کی کای کروں۔ یاراے زبان نہیں رکھتا ہوں۔ پرنکل صاحب سے اور مجھ سے فقط شناسائی تھی۔ نہ رتبہ اتحاد و فرطِ دوستی۔ پاس شناسائی سے انہوں نے مجھ کو چھڑایا۔ ہندوستان میں ایسی محبت اپنے ہم جنسوں سے کوئی نہیں کرتا۔ میں جب تک دم میں دم رکھتا ہوں۔ دم شکر گزاری ان کے کا بھرتا ہوں۔ قلعہ جبالڑ کا یہ حال دیکھا کہ توپ کے گولوں کا انبار تھا۔ ہر چہار طرف اس کے توپیں لگیں۔ آدمی مقرر ہیں، چوکی پہرے کی تھیں۔ گرد قلعہ کے پہاڑ ہیں۔ ان کے گرد دریاے قہار۔ دریا میں چاروں طرف جہاز جنگی حفاظت کےلیے رہتے ہیں مستعد اور تیار۔ بلندی قلعہ کی چودہ سو فٹ کی۔ ایک مکان اور اس کے سواے ہے۔ اس کے گرد بھی توپیں ہیں۔ اونچائی اس کی گیارہ سو پچیس فٹ کی ہے۔ اس پر جہاز تینتیس کوس کے فاصلے کے نظر آتے ہیں۔ پہاڑ میں بڑے غار ہیں۔ انگریزوں نے اسے تراش کر عمار سنگی بنائی ہے استوار۔ اس میں لوہے کی گاڈیوں پیچدار پر توپیں لگائی ہیں۔ جدھر کل گاڈی کی پھیرتے ہیں، منھ توپ کا بھی ادھر پھر جاتا ہے۔ سو ان کے اور بھی توپیں ہیں۔ چاروں طرف پہاڑ کے سمندر ہے مگر ایک طرف سوکھی رہگذر ہے۔ ادھر سے قریب شہر اسپانیل (۱) ہے۔ وہاں سے پاؤ کوس پر عمل اسپانیل کا ہے۔ جب چاہتے ہیں اس راہ خشک کو بھی پانی لا کر بند کر دیتے ہیں۔ کسی غیر قوم آدمی کو رات کے رہنے کا وہاں حکم نہیں۔ دن کو اسپانیل یہاں کی سیر کو جاتے ہیں۔ یہاں کے رہنے والے بھی عمل اسپانیل میں کھیتی کرتے ہیں۔ دن ہیکو چلے آتے ہیں۔ لارڈ بنکم صاحب حستِ اتفاق ان دونوں اس قلعہ میں آیا تھا۔ قلعہ دار مراسم مہمانداری میں بہ دل و جان مصروف ہوا۔ قواعد پلٹون نمبر تینتیس، چھیالیس، باون، اکیاسی، بیاسی کی دکھلائی۔ لارڈ صاحب نے قواعد دیکھ کر بہت خوش ہوکر عنایت مبذول فرمائی۔ جو مسافر وہاں پہونچے، چاہیے کہ ضرور قلعہ کو دیکھے۔ اگر بارہ لاکھ آدمی اس پر حملہ کریں۔ میری عقل



صفحہ کتاب 78، پی ڈی ایف 84

ناقص میں یہ ہے کہ ہرگز فتحیاب نہ ہوئیں۔ بلکہ سابق اسپانیل اور فرانسیس اور پرتکیز نے مل کر اس کو گھیرا تھا۔ دو تن برس تک لڑتے رہے مگر فتحیاب نہ ہوئے۔ آخر ناامید پھر گئے۔ غرض کہ ایسا قلعہ مستحکم روے زمین میں کہیں نہیں ہے۔ ہم نے کرایہ جہاز کا کرلوزاندے جبا لٹر تک ایک سو اسی روپیہ دیے۔ وہاں سے اسپٹ فابہ جہاز پر وسوار ہو کر تیسری فروری کو آگے چلے۔ کرایہ جہاز کا جبرالٹر سے مالٹا (۱) تک کا ایک سو تین روپیہ ٹھہرائے۔ وقت روانگی جہاز کے دو تین عورتیں اسپین کی نظر آئیں۔ جمال میں غیرتِ مہرتاباں تھیں۔ دل میرے سے بے اختیار شور اٹھا کہ پھر ان کا دیکھنا کاہے کو میسر آوے گا۔ راہ میں جہاز پر سے پہاڑ اسپین کے نظر آتے۔ زیادتی برف باری سے سپید ہوئے تھے۔

چوتھی فروری کو جہاز ہمارا قریب شہر الجر (۲) کے کہ کوہستان ہے پہونچا۔ سابق وہ عمل عرب میں تھا۔ اہل عرب امانہ حکومت اپنی میں جہازوں کو لوٹتے۔ آدمیوں کو جان سے مار ڈالتے۔ جو کوئی زندہ رہتا اس کو غلام بنا کر زندگی بھر نہ چھوڑتے۔ اس سبب سے جہاز اس راہ سے نہ جاتے۔ اسی خیال سے فرانسیس اس شہر کو اپنے قبض و تصرف میں لائے۔ اب جہاز اس راہ سے بخیریت جاتا ہے۔ کوئی مزاحمت نہیں پہونچاتا ہے۔

ساتویں فروری کو جہاز قریب اس قلعہ کے پہونچا کہ ڈرزٹا (۳) نام رکھتا۔ خوب مضبوط بنا۔ اس کے برابر ایک شہر بسا۔ جھول، نام بہت آباد عمل عرب میں تھا۔ اس سے ایک شہر لطافت بنیاد خوب آباد توئس (۴) نام رکھتا۔ چند روز پیشتر وہاں عربوں سے لڑتے تھے۔ دونوں طرف سے ہزاروں آدمی کام آئے۔ سوا اس کے اور شہر بہتیرے دیکھے کہ بہت آباد اور عرب کے عمل میں تھے۔ اس کے بعد شہر حبش (۵) اور اٹلی (۶) اور اٹنا (۷) پہاڑ نظر آیا۔ اس سے شعلہ آگ کا نکلتا۔ مگر بہ جہت دوری اور تاریکی ابر غلیظ کے دھویں کی صورت دکھائی دیتا۔



صفحہ کتاب 79، پی ڈی ایف 85

آٹھویں فروری 1838ء؁ کو ڈیڑھ پہر رات گئے، مالٹا میں پہونچا۔ جہاز سے اترا۔ دوسرا جہاز ملیرر نام اسکندریہ (۱) تک ایک سو بیس روپیہ کرایہ پر ٹھہرا کر اسباب اپنا اس پر لے گیا۔ اس وقت سب صاحبان عالیشان نے میری سفارز کی چٹھی کرنیل لو صاح رزیڈنٹ لکھنؤ کے نام پر لکھ کر مرحمت فرمائی۔ لارڈ بنکہم صاحب نے بھی چھٹی میں بہت طرح سے سعی کی۔ اس صاحبوں کی خوبیوں کو میں بیان نہیں کر سکتا ہوں کہ مجھ مسافر پر کیا کیا عنایت فرمائی۔ میں ملیزر جہاز کے کپتان سے دوپہر کی رخصت لے کر مالٹا کی سیر کرنے چلا۔ کپتان صاحب نے مجھ سے چلتے وقت کہا کہ اگر تم کو آنے میں عرصہ کھچے گا۔ جہاز روانہ ہووے گا، تم کو یہیں رہنا پڑے گا۔ میں ڈرتے ڈرتے سیر کو گیا۔ شہر دیکھا آباد خجستہ بنیاد۔ فرش بازار سنگ مرمر سے بنا۔ دو طرفہ میوہ فروشوں کی دوکان پر میوہ چنا۔ زیادتی میوہ جات سے بازار باغ معلوم ہوتا ۔ دیکھتے دیکھتے کلیسائے سنٹ جان تک پہونچا۔ وہ بہت قدیمی رومن کا بنایا ہوا تھا۔ عمارت اس کی بلند، کنگرے فلک پیوند۔ تصویریں حواریوں وغیرہ کی رکھیں۔ بندگی کے لیے کھڑے تھے صاحبان دین۔ دوسری طرف ایک مکان میں گیا۔ وہاں پادریوں نے ترک دنیا کر کے رہنا اختیار کیا۔ گوشہ تنہائی میں تجرد سے موافقت کر کے تعلقات دنیا سے ہاتھ اٹھایا۔ ان کے معتقد اور مرید کھانا بھیجتے ہیں اور غذائے نفیس ان کو کھلاتے ہیں۔ دنیا داروں سے ان کو زیادہ موٹا اور فربہ پایا۔ سمجھا کہ گوشہ کو بیٹھنا محض کھانوں لطیف اور زیادتی معتقدوں کے لیے تھا۔ ان سے یہ حرکت بد نظر آئی۔ ماباپ نے کس محنتوں سے ان کی پرورش کی۔ اس خیال سے کہ بوڑھاپے میں ہمارے کام آویں۔ افسوس کہ وہ جوان ہو کر اس سعادت سے باز رہیں بلکہ آپ اوروں کے ٹکڑوں پر نظر لگاویں۔ میرے نزدیک بہتر وہ شخص ہے کہ باوجود تعلق دنیوی اور بارِ عیال و اطفال کے فکر عاقبت سے غافل نہ ہو۔ سوائے اپنی جورو کے اور کسی عورت پر مائل نہ ہو۔ عذابِ خدا تعالٰی سےہمیشہ ڈرتا


صفحہ کتاب 80، پی ڈی ایف 86

رہے۔ حتی الامکان بندگان خدا سے نیکی کرتا رہے۔ درحقیقت وہ پادری گوشہ نشین مانند سانڈوں بنارس کے موٹے تازے نظر آئے۔ بے محنت باربرداری کے دانہ گھاس غیروں کا کھا کر موٹے ہوتے ہیں۔ بعد اس کے اور تین مکانوں عالیشان کی سیر کی۔ عمارت ان کی پسند طبیعت آئی۔ پھر وہاں سے اس سرا میں کہ لارڈ بنکہم صاحب تشریف رکھتے تھے گیا۔ ان سے اور ان کی بی بی رخصت چاہنے والا ہوا۔ دونوں صاحبوں نے اس فقیر کو شراب دین پلائی۔ جدائی میری سے رنجش خاطر بہم پہونچائی، مجھ کو بھی رقعت آئی۔ اس لیے کہ جہاز پر ہر روز لارڈ صاحب اور بی بی ان کی شراب وین پلاتی تھیں اور باتوں عنایت آمیز سے دل میرا خوش فرماتی تھیں۔ خدا ان کو آفات زمانہ سے بچاوے اور ہمیشہ روز عیش و عشرت دکھلاوے۔ ناگاہ آواز توپ جہاز کی کان میں آئی۔ داماندوں نے روانگی جہاز کی خبر پائی۔ بندہ مضطرب ہو کر لارڈ صاحب کے پاس سے اٹھ کر کنارے دریا کے آیا۔ لنگر جہاز کا کھلا دیکھا اور قریب روانگی کے تھا۔ ایک اور جہاز جنگی ایشیہ نام وہیں قیام رکھتا۔ نول صاحب کپتان اس کے نے مجھ کو بڑی اصرار سے جہاز پر بلایا اور اس کا تماشا دکھلایا۔ چور اسی ضرب توپ اس میں لگیں۔ جہاز مضبوطی میں جوں قلعہ آہنیں۔ ازانجا کہ ہمارا جہاز آمادۂ روانگی تھا، زیادہ ٹھہرنا مناسب نہ جانا۔ ایک دو کلمہ کہہ سن کر اپنے جہاز پر سوار ہوا، کپتان نے کہا۔ اگر تم آنے میں ایک لحظہ دیر کرتے، جہاز روانہ ہوتا۔ تم ہر گز ہم تک نہ پہونچتے مانند پادریوں سائل نان طلب کے یہیں اوقات گزاری کرتے۔ بندہ درگاہ الٰہی میں شکر بجا لایا اور جہاز پر سوار ہو کر آگے چلا۔

تیرھویں تاریخ فروری 1838ء؁ کےجہاز ہمارا شہر اسکندریہ میں پہونچا۔ جہاز سے اتر کر مع دوست و احباب روانہ شہر ہوا۔ کنارے دریا کے لڑکے عرب کے گدہے کرائے کے لیے ہوئے کھڑے تھے۔ ہر وضع و شریف کو ان پر سوار کر کر لے جاتے۔ ہر چند ابتدا میں



صفحہ کتاب 81، پی ڈی ایف 87

اس سواری سے نفرت ہوئی۔ لیکن بموجب ہر ملکے و ہر رسمے کے آخر ہم نے بھی گدھوں کی سواری کی اور سرا کی راہ لی ۔ گلی کوچے تنگ اور راہی بہت تھے۔ اس لیے لڑکے گدہے والے آگے بجائے بچو بچو کے یمشی یمشی پکارتے۔ لوگوں کو آگے سے ہٹاتے، نہیں تو گذرنا اس راہ سے دشوار تھا۔ بندہ راہ بھر اس شہر کا تماشا دیکھتا چلا۔ کنارے شہر کے محمد علی (۱) شاہ مصر کے دو تین مکان بنائے ہوئے نظر آئے۔ ایک قلعہ قدیمی تھا۔ وہیں اس میں توپیں ناقص از کار رفتہ پڑیں۔ محمد علی شاہ بادشاہ مصر کا ہے۔ بہتر برس کی عمر رکھتا ہے۔ بہت صاحب تدبیر و انتظام ہے۔ جہاز جنگی اس کے پُر استحکام۔ صفائی اور سب باتوں میں مثلِ جہازِ انگریزی۔ مگر افسروں جہاز کی پوشاک نفاست میں بہ نسبت جہازیوں انگریزی کے کم تھی۔ عقل شاہ مصر پر صد ہزار آفریں کہ ایسی باتیں رواج دیں۔ غرض کہ دیکھتا بھالتا گدہے پر سوار سرا میں پہونچا۔ اسباب اتارا۔ پھر سیر کرنے کنارے دریا کے آیا۔ کپتان ملریز جہاز کے سے ملاقات ہوئی۔ اس نے نہایت اشتیاق سے یہ بات فرمائی کہ آؤ میں نے ذکر تمہارا یہاں کے بڑے صاحب سے کیا ہے اور تمہاری تلاش میں تھا۔ بندہ بپاس خاطر ان کی ہمراہ ہو کر بڑے صاحب کی ملاقات کو گیا۔ بڑے صاحب اور میم اُن کی نے نہایت عنایت فرمائی اور وقت شام کے دعوت کی۔ بندے نے قبول کر کے مان لی۔ بعد اس کے صاحب موصوف سے یہ غرض عرض کی کہ میں ارادہ رکھتا ہوں، یہاں کے مکانوں اور جائبات کو دیکھوں۔ کوئی آدمی ہوشیار اپنا میرے ساتھ کیجیے کہ ایسے مکانات اور اشیاء عجیب مجھ کو دکھلاوے۔ انہوں نے ایک آدمی رفیق اپنا میرے ساتھ کیا۔ نام اس کا مصطفیٰ تھا کہ یہ شخص اچھی طرح سے سب مکان تم کو دکھلائے گا۔ میں نے مصطفی کے ساتھ باہر آ کر پوچھا۔ وطنتیرا کہاں ہے اور نام تیرا کیا۔ اس نے کہا وطن میرا حبش ہے اور نام مصطفی۔ ہندی زبان میں بات کی۔ مجھے حیرت تھی کہ رہنے والا حبش کا ہے اردو زبان کیونکر جانتا ہے ۔ پھر اس نے چٹھی نیک نامی


صفحہ کتاب 82، پی ڈی ایف 88

اپنی کی دکھلائی۔ اُس میں تعریف چستی اور چالاکی اس کی لکھی تھی کہ یہ شخص بہت کاروان اور دانا ہے۔ ساتھ ہمارے ہندوستان، ایران، توران، انگلستان، فرانسیس میں پھرا ہے۔ میں نے چٹھی دیکھ کر اس سے حال لندن کا پوچھا کہ آیا وہ شہر تجھ کو کچھ بھایا۔ کہا وصف اس کا ہرگز نہیں قابل بیان ہے۔ فی الواقعی وہ ملک پرستان ہے۔ جن کا میں نوکر تھا انہوں نے لندن میں تین ہزار روپے مجھ کو دیے تھے۔ میں سب پریزادوں کی صحبت میں صرف کیے۔ یہ سن کر ہم سب ہنسے اور اس کے ساتھ باہر آئے۔ وہ باہر نکل کر دوڑا۔ عرب بچوں کو جد گدہے کرائے کے اپنے ساتھ رکھتے، دو چار لات مکے مار کر اپنے ساتھ مع تین گدہوں تیز قدم کے لایا۔ مجھ کو اور ہیڈ صاحب اور پرنکل صاحب کو ان پر سوار کر کے چلا اور گدہوں کو ہانک کر دوڑایا۔ اتنے میں ہیڈ صاحب کا گدھا ٹھوکر کھا کر گرا اور ہیڈ صاحب کو گرایا۔ وہ بچارے گر کر بہت نادم اور شرمندہ ہوئے۔ مصطفی نے دو تین کوڑے اس گدہے والے کو مارے۔ وہ بلبلا کر زمین پر گرا۔ زمیں چھلا اچھل کر ہیڈ صاحب کے کپڑوں پر پڑا۔ وہ بہت ناخوش ہوئے اور جس سرا میں اترے تھے، پھر گئے۔ میں نے مصطفی سے کہا اس قدر ظلم و بدعت بے جا ہے۔ کہا قوم عرب بدذات اور شریر ہوتے ہیں۔ بغیر تنبیہ کے راستی پر نہیں آتے۔ میں نے کہا تم بھی اسی قوم سے ہو۔ انہیں کی سی خلقت رکھتے ہو، جواب دیا۔ اگرچہ وطن میرا بھی یہی ہے۔ مگر میں نے اور شہروں میں رہ کر خُو یہاں کی سر سے دور کی ہے۔ پھر میں نے مصطفی سے کہا۔ میرا قصد ہے حمام میں نہانے کا۔ وہ ایک حمام میں لے گیا اندر اس کے حوض بھرا پنای کا تھا۔ راہ فواروں سے پانی بہتا۔ کئی ترک کنارہ اس کے بیٹھے لطف کر رہے تھے۔ کوئی قہوہ، کوئی چپک پیتا۔ بندہ نے موافق قاعدہ مقرر کے وہاں جا کر کپڑے نکالے۔ پانچ چھ حمامی مالش بدن میں مشغول ہوئے۔ اپنی زبان میں کچھ گاتے جاتےمگر مضامین اس کے میری سمجھ میں نہ آتے۔ جب وہ ہنستے، میں بھی ہنستا، جب وہ چپ رہتے، میں بھی چپ رہتا۔



صفحہ کتاب 83، پی ڈی ایف 89

میں نے کہا مصطفی سے کہ ان سے کہہ دے موافق رسم اس ملک کے بدن ملیں۔ کسی طرح سے کمی نہ کریں۔ ان رسموں سے مجھ کو پرہیز نہیں۔ مذہب سلیمانی میں ہر امر موقوف ہے۔ ایک وقت کا۔ ایک وقت وہ ہوا کہ میں جہاز میں میلا کچیلا تھا۔ ایک وقت یہ ہے کہ نہا رہا ہوں۔ میں ان کو راضی کروں گا خوب سا انعام دوں گا۔ انہوں نے بموجب کہنے کے بدن خوب سا ملا اور اچھی طرح نہلایا۔ بعد فراغت کے ایک اور مکان میں لے گئے۔ اس میں فرش صاف تھا۔ گرد اس کے تکیے لگے۔ اس پر بٹھلا کر پوشاک پہنائی۔ مجھ کو اس سے راحت آئی۔ بعد ایک دم کے تین لڑکے خوبصورت کشتیاں ہاتھ میں لے کر آئے۔ ایک میں قہوہ، دوسری میں شربت، تیسری میں قلیاں چپک رکھلائے۔ فقیر نے شربت اور قہوہ پیا۔ حقہ چپک کا دم کھینچا۔ پرھ ایک خوشبو مانند عطر کے مانگ لگائی۔ بتیاں اگر وغہر جلائی۔ حمام کیا بجائے خود ایک بہشت تھا۔ دل میں خیال آیا اگر شاہدِ شیریں ادا غم زدہ ہو، یہ مقام غیرت دہِ روضۂ رضواں کا ہو۔ دو گھڑی وہاں ٹھہرا پھر باہر نکل کر کئی روپیے حمامیوں کو دے کر بڑے صاحب کے مکان پر آیا۔ نام ان کا ٹن بن صاحب تھا۔ کپتان صاحب جنہوں نے میری تقریب کی تھی وہ بھی موجود تھے۔ جابجا کی باتیں اور ذکر رہے۔ بعد اس کے میں نے ٹن بن صاحب سے پوچھا کہ یہاں افسران فوج سے تمہاری ملاقات ہے یا نہ۔ انہوں نے کہا، آگے مجھ سے ان سے بہت دوستی تھی۔ مگر ان کی حرکتوں سے طبیعت کو نفرت ہوئی۔ اس واسطے اُن سے ملاقات ترک کی۔ اکثر وہ لوگ میرے مکان پر آ کر شراب برانڈی پیتے اور چپک کے اتنے دم کھینچتے کہ مکان دھویں سے سیاہ ہوتا۔ لاچار میں نے ان سے کنارہ کیا۔ اے عزیزانِ ذی شعور۔ اگر جناب رسول مقبول اجازت شراب نوشی کی دیتے۔ یہ لوگ شراب پی کر مست ہو کر کیاکیا فساد برپا کرتے۔ باوجود ممانعت کے یہ حرکتیں کرتے ہیں۔ اگر منع نہ ہوتا خدا جانے کیا فتنہ و غضب نازل کرتے۔ لڑلڑ مرتے۔ چنانچہ راہ میں اکثر ترک دیکھنے میں آئے۔ قہوہ



صفحہ کتاب 84، پی ڈی ایف 90

خانوں میں شراگ بھی ہوتی ہے اس کو لے کر پیتے تھے۔

دوسرے دن گدہے پر سوار ہو کر شہر کا تماشا دیکھنے گیا۔ آدمیوں کے میلے اور کثیف کپڑے پہنے پایا۔ اکثروں کو نابینا دیکھا۔ سبب اس کا یہ قیاس میں آیا کہ اس شہر میں ہوا تند چلتی ہے، مٹی کنکریلی اڑ کر آنکھوںمیں پڑتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ لوگ وہاں کے اپنی اولاد کی ایک آنکھ یااگلے دانت بخوفِ گرفتاری نوکری فوج محمد علی شاہ کے پھوڑ توڑ ڈالتے ہیں۔ اس عیب سے نوکری بادشاہی سے کہ بدتر غلامی سے ہے، بچاتے ہیں۔ لباس وہاں کے لوگوں کا میرے پسند نہ آیا۔ کثیف اور کالا مانند لباس مشعل چیوں کے تھا۔ قواعد پلٹنوں کی دیکھی۔ مثل قواعد فوض انگریزی کے تھی۔ ہر ایک سپاہی کے کندھے پر بندوق فرانسیسی۔ سب جوان جسیم اور موٹے مگر قد و قامت کے چھوٹے۔ کپڑے پرانے، سڑیل پہنے۔ افسر ان کے بھی ویسے ہی کثیف پوش تھے۔ اگر ایسے لوگ توانا اور قوی فوج انگریزی میں ہوں۔ بادشاہ روے زمین کے مقابلہ میں عاجز ہوں اور زبوں۔ مگر یہاں خرابی میں مبتلا تھے۔ کوئی کسی کو نہ پوچھتا کوئی شخص نوکری فوج شای میں بخوشی نہیں قبول کرتا ہے۔ شاہ مصر زبردستی نوکر رکھتا ہے اس لیے کہ خوفِ مضرت و ہلاکت و قلتِ منفعت ہے۔ لوگ اپنی اولاد کو عیبی کرتے ہیں۔ یعنی آنکھ یا دانت توڑتے ہیں تاکہ نوکریٔ سپاہ سے بچیں۔ نوکر ہونے کے ساتھی دائیں ہاتھ پر سپاہی کے بموجب حکم شاہی کے داغ دیا جاتا ہے۔ پھر عمر بھر اُسی نوکری میں رہتا ہے۔ ماں باپ عزیز و اقربا پاس نہیں جا سکتا ہے۔ چھاؤنی فوج کی مانند گھر سوروں کے مٹی اینٹ سے بنی۔ ہر ایک کوٹھری میں سوا ایک آدمی کے دوسرے کی جگہ نہ تھی۔ اونچاؤ اس کا ایسا کہ کوئی آدمی سیدھا کھڑا نہ ہو سکتا۔ کھانے یا یہ حال تھا کہ شام کو گوشت چاول کا ہریسہ سا پکتا۔ طباقوں میں نکال کر رکھ دیتے۔ ایک طباق میں کئی آدمیوں کو شریک کر کے کھلاتے معاذ اللہ یہ نوکری کیا بدتر ہے۔ اکبارگی اپنے تئیں دریا یا کنویں میں گرانا بہتر ہے۔


صفحہ کتاب 85، پی ڈی ایف 91

اس شاہِ والا شان سے یہ امر بعید نظر آتا ہے کہ لوگوں کو زبردستی سے نوکر رکھتا ہے اور ان پر جبر کرتا ہے۔

خیر بندہ تماشا دیکھتے ہوئے باہر شہر کے گیا۔ ایک گورستان دیکھا اس میں ہزاروں قبریں نظر آئیں۔ دیکھنے والے کو باعث حیرت تھیں۔ میں نے لوگوں سے پوچھا اس قدر زیادہ قبروں کا سبب کیا۔ دریافت ہوا کہ یہاں اکثر وبا آتی ہے، ہزاروں آدمیوں کو ہلاک کرتی ہے۔ مکینوں کی اسی سے آبادی ہے۔ اسکندریہ آباد کیا ہوا اسکندر کا ہے۔ وقت آباد کرنے کے ایک بڑا سا پتھر کھڑا کیا تھا۔ اب تلک قائم اور کھڑا ہے۔ راہوں اور کوچوں میں تنگی ہے۔ اس سبب سے بیشتر وبا آتی ہے۔ آدمی وہاں کے مفلس و پریشان اکثر تھے۔ بعضے راہ میں فاقہ مست اور خراب پڑےہوئے مثلِ شگانِ بازار ہندوستان کے۔ دیکھنے ان کے سے سخت متنفر ہوا۔ آگے بڑھا ۔ ایک اور پرانا تکیہ دیکھا، وہاں فرانسیسوں نے محمد علی شاہ کی اجازت سے قبروں کو کھودا ہے۔ مُردوں کو شیشہ کے صندوق میں رکھا پایا ہے ظاہراً ہزار دو ہزار برس پہلے مُردوں کو شیشے کے صندوقوں میں رکھ کے دفن کرتے تھے۔ نہیں مردے صددوقوں میں کیوں کر نکلتے۔ اگرچہ عمارت اس شہر کی شکستہ ویران تھی۔ مگر آبادی زمانہ سابق سے خبر دیتی۔ کئی وجہوں سے ثابت ہوتا کہ یہ شہر اگلے دنوں میں پُر عمارت اور خوب آباد ہو گا۔ اس واسطے کہ جابجا اینٹ کا اور پتھر کا نشان تھا۔ زمین کے نیچے سے اکثر سنگِ مرمر نکلتا۔ ان دنوں کئی مکان کوٹھی فرانسیسوں اور انگریزوں کے خوب طیار ہوئے ہیں۔ سو ان کے اور سب مکان ٹوٹے پھوٹے ہیں۔

پندرہویں تاریخ فروری 1838ء؁ کو میں اور پرنکل صاحب، ہیڈ صاحب اور ہل صاحب باورچی سرائے مصر کی کشتی پر سوار ہو کر شہر محمدی کو چلے۔ یہاں سے حال سنیے۔ ناؤ نہر محمدی میں رواں ہوئی۔ کیفیت اس کی اس طرح پر کہ سابق میں وہ تھی۔ محمد علی شاہ نے



صفحہ کتاب 86، پی ڈی ایف 92

اپنے زمانہ سلطنت میں کھدوائی۔ مردوں اور رنڈیوں کو زور ظلم سے پکڑا، نہر کھودنے میں لگایا۔ سات دن میں اسکندریہ سے محمد تک نہر کو کھدوایا۔ یہاں سے وہاں تک فاصلہ چوبیس کوس کا تھا۔ اس محنت شاقہ رات دن کی میں قریب ساٹھ ہزار آدمیوں کے مرے۔ اب اس نہر میں ناؤ آتی جاتی ہے۔ راہ نہر میں کنارے شہر کے ویرانی گانوں کے دہات صوبہ اوودھ سے یاد دلاتی۔ بسبب ظلم شاہ مصر کے رعیت برباد ہوئی بلکہ بسی اجڑ گئی۔ تمام راہ میں دیکھا گیا۔ زمین قابل زراعت کو اُفتادہ پایا۔ عامل ترددِ زراعت میں رہتے ہیں مگر لوگ بہ سبب سخت گیری اور جب ان کے کاشتکاری سے کنارہ کرتے ہیں۔ شاہِ مصر اگرچہ ہر بات میں مردِ دانا ہے پر رعیت پر سخت ظلم کرتا ہے۔ ہر شخص اس کے ہاتھ سے دست باخدا ہے۔

فقیر چار روز میں اسکندریہ سے محمدی پہونچا۔ پرمٹ گھاٹ پر ناؤ سے اسباب اتارا۔ محمدی میں صدہا زن و مرد نابینا نظر آئے۔ بہتیرے لڑکے بغل میں دابے میلے کپڑے پہنے بیٹھے۔ آدمیت سے مطلق بہرہ نہ رکھتے اور میل بدن کے سبب سے ہر ایک کے کپڑے پہنے بیٹھے۔ آدمیت سے مطلب بہرہ نہ رکھتے اور میل بدن کے سبب سے ہر ایک کے کپڑے میں جوں پڑی۔ چنانچہ وہ لوگ جوں مانے میں مشغول تھے۔ یہ حال دیکھ کر مجھ کو نفرت آئی، طبیعت گھبرائی۔ ایک اور امر عجیب دیکھا۔ جس کشتی پر نشان ترکوں کا دیکھتے۔ ایذا دے کر محصول زیادہ لیتے۔

سبحان اللہ جس کو حق تعالٰی صاحب اقبال کرتا ہے۔ ہر ایک اس کا پاس کرتا ہے اور ڈرتا ہے۔ جزیرہ انگریزوں کا چھوٹا اور ان کے ملکوں کے سامنے کیا اصل رکھتا۔ مگر بہ سبب اقبال بے زوال انگریزوں کے، یہان کو لوگ ڈرتے ہیں۔ کس طرح کی تکلیف ایور ایذا اُن کے متوسلوں کو نہیں پہنچا سکتے ہیں۔ محمدی میں ہر چیز کی تجارت ہوتی ہے۔ خلقت خرید و فروخت اسباب کی کرتی ہے۔ میں یہاں سے کشتی رودِ نیل پر سوار ہوا۔ مصر کو چلا۔ پانی نیل کا شیریں اور ہاضمِ طعام ہے بلکہ مثل معجون کے مقوی اعضاء ریئسہ اندام ہے۔ اسی سبب سے



صفحہ کتاب 87، پی ڈی ایف 93

وہاں کے لوگوں کو توانائی میں اوروں سے زیادہ پایا۔ کنارے نیل کے سبزہ زمرد رنگ نظر آیا۔ سبزہ کنارے گنگا کا اس کو دیکھ کر یاد آیا۔ حق یہ ہے کہ ایسا سبزہ اور میٹھا پانی اس کا ہرگز نہ تھا۔ ملاح عربی بہ نسبت ہندیوں کے ناؤ چلانے میں زیادہ مہارت رکھتے ہیں۔سر سے پاؤں تک فقط ایک کرتا پہنتے ہیں۔ وقت ناؤ کھینچنے کے اس کو بھی کمر سے لپیٹتے ہیں۔ بے شرم و حجاب ننگے ہوتے ہیں۔ اس لیے ہندوستان یا انگلستان کی رنڈیوں کو ان کی ناؤ پر سوار ہونا نہ چاہیے۔ کشتی ہماری استادی ملاحوں عرب کی سے لطف سے رواں تھی کہ اسی عرصہ میں ایک کشتی علم انگریزی کی نظر آئی۔ اس پر ایک شخص بیٹھا پیالہ شراب کا ہاتھ میں لیے شراب پیتا۔ آیک آدمی نے ہماری ناؤ پر سے اس کو پکارا۔ وہ زبان انگریزی سن کر بہت خوش ہوا۔ اپنی کشتی ہماری کشتی کے پاس لایا اور دست بدست ہماری کشتی پر آیا۔ نشے میں ایسا مست تھا کہ وقت آنے کے کپڑا اس کا پانی نیل میں بھیگ گیا۔ ایک پیالہ شراب وین ہم کو پلائی۔ اسی کے ہاتھ کی کھینچی تھی بعد اس کے اپنی ناؤ پر معشوقہ مصری کے پاس گیا۔ ظاہرا وہ شخص فقط تفریح طبع کے لیے پھرتا تھا۔ مجھ کو پینے جام وین سے لطف اٹھا کہ سابق ہرگز نہ تھا۔ دل مثل آئینہ زنگ زدودہ کے صاف ہوا۔ کنارے نیل کے بہت جانور ہیں۔ جو شائق شکار بیشتر ہیں۔ چاہیے کہ وہاں شکار کریں اور تماشا نیل کا دیکھیں۔ بندہ نے بھی شکار بطخ و قاز وغیرہ کا کیا۔ بہت محظوظ ہوا۔

اٹھارویں تاریخ فروری کو دو گھڑی رات گئے مصر (۱) میں پہونچے، شکرانہ خدا کا بجا لائے۔ گرد مصر کے دیوارِ شہر پناہ عظیم الشان ہے۔ شام سے پھاٹک بند ہوتا ہے اس وقت اندر جانے کا کسی کو نہ امکان ہے۔ ہم سخت متحیر ہوئے کہ اندر شہر کے کیوں کر پہونچے۔ ہل صاحب مصر کی سرا کے باورچی ایک راہ جانتے تھے، اُدھر لے گئے۔ ہم سب دیوار پر چڑھے، اندر شہر کے کودے۔ خدا نے بڑا فضل کیا کہ چوکیداروں نے نہیں دیکھا۔ ورنہ بلا



صفحہ کتاب 88، پی ڈی ایف 94

تحاشا گولی مارتے۔ شاہ مصر سے اجازت اس کی رکھتے۔ ہم ہل صاحب کے ساتھ ان کی سرا میں گئے۔ میز پر کھانا کھانے بیٹھے۔ کئی انگریز ترکی لباس پہنے کھا رہے تھے۔ ہم ابتداً ان کو ترک سمجھے، جب وہ کلام کرنے لگے، انگریز ثابت ہوئے۔ ملازم شاہ مصر کے تھے۔ تمغہ بادشاہی نمایاں رکھتے۔ مگر دو شخص نوجوان بیس برس کے بے تمغہ تھے۔ ان سے فقری نے پوچھا کہ تم یہاں کیوں اور کس لیے آئے۔ جواب دیا سیر کے لیے۔ باپ ہمارا صاحب دولت و حشمت ہے۔ ہم کو سیر ملکوں کی اس کی اجازت ہے۔ چنانچہ ہم سیر ملکوں کے لیے پھرتے ہیں۔ تلاش کسی بات کی نہیں رکھتے ہیں۔ مجھ کو اس پات سے حیرت آئی کہ اس عمر میں لڑکے ہندوستان کے کھیل کود میں مشغول رہتے ہیں۔ لہو و لعب میں ایسے مبتلا کہ اپنے تئیں نہیں پہچانتے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں کہ باوجود ثروت و عیش کے اپنے اوپر تکلیف گوارا کر کے شہروں میں پھرتے ہیں۔ تجربہ نیک و بد زمانہ کا حاصل کرتے ہیں۔ انہیں باتوں سے انگریز جہاں میں قابض اور مسلط ہوئے ہیں۔ میں نے ان کی صحبت میں سے کئی پیالے شراب وین پی کر دل کو راحت دی۔ پھر نیند آئی سو رہا۔ صبح اٹھا۔ عمارت سرا کی دیکھ رہا تھا۔ اتنے میں ملاح نیل نے آ کر ہل صاحب سے انعام مانگا۔ ہل صاحب نے اس کو گالیاں دیں اور مارا۔ ایک خر مہرہ انعام نہ دیا۔ مجھ کو اس بات سے رنج ہوا مگر ملاح کے عوض لڑنا مناسب نہ سمجھا۔ بعض انگریز مردم آزار، سنگدل جو ہندوستان یا عربستان یا اور جگہ جاتے ہیں۔ بے وجہ ناحق لوگوں کو ستاتے ہیں۔ بخوفِ شاہ انگلستان لوگ ان کی خاطر کر جاتے ہیں۔ مگر عمل انگریزی میں ظلم و جبر نہیں کر سکتے ہیں۔ ہل صاحب عملداری انگریز میں اگر ملاح کو مارتے، وہ بھی ایسا گھونسا اُن کے منھ پر مارتا کہ دانت ٹوٹتے مگر یہاں پاسداری شاہ انگلش سے کوی کو طاقت مقابلہ کی نہیں۔ عالی ظرف باوجود اقتدار و اختیار کے کسی کو نہیں ستاتے ہیں۔ اگر ایک شخص کوتاہی دست یا خوف حاکم کے سے ایذا رسانی سے باز رہے۔ اس کی کوئی کیا تعریف



صفحہ کتاب 89، پی ڈی ایف 95

کرے کہ اور کے خوف سے ہے۔ قابل تعریف وہ ہے کہ باوصف حکومت و اختیار کے کسی کو نہ ستاوے بلکہ مطیع ہونے اور فرماں برداری آدمیوں کا شکر خدا کی درگاہ میں بجا لاوے۔ عجز و انکسار کو مصاحب دائمی کرے۔ خلاصہ یہ ہے کہ انتیسویں تاریخ 1838ء؁ (1838 میں فروری کی 29 تاریخ نہیں تھی)کے بموجب رسم اس ملک کے ہم گدہے پر سوار ہوئے اور عنایت پرنکل صاحب سے ایک چوبدار بادشاہی راہ بتانے کے لیے ساتھ لے کر بازار کا تماشا دیکھنے چلے۔ ہر ایک دوکان اور تنگی راہ وہاں کی اور خرید و فروخت اشیا کی مثل بنارس کے تھی۔ مگر ساخت بازار میں البتہ صورت دوسری یعنی یہاں درمیان دوکانوں کے چھپر گھاس پھوس کا ڈالا ہے۔ بہ سبب اس کے مینھ اور غبار سے صحن بازار کا بچتا ہے۔ دوکانیں حلوائیوں اور باورچیوں کی مانند دوکانوں ہندوستان کے آباد۔ نان بائیوں کی دوکان پر ترک و عرب روٹی کھا رہے تھے دل شاد۔ چھوارا بیچنے والے دوکانوں پر بیٹھے چھوارا بیچتے۔ مکھیوں کے ان کے پاس ہجوم تھے۔ راہ میں ہندوستان کی طرح جابجا اسباب عمدہ رکھے۔ کسی طرف سے بگھیوں کے رستے نہ تھے۔ ایک آدھ راہ سے بگھی شاہ مصر کی بدشواری جا سکتی۔ قصابوں کی یہ صورت تھی کہ میلے کپڑے پہنے اور ایک چتھڑا میلا گوشت پر ڈالے گوشت بیچ رہے تھے۔ آبادی شہر مصر کی ایسی ہے کہ شہر بھر کی چھت ایک دوسری سے ملی ہے۔ اگر کوئی چھت پر چڑھے۔ سب چھتوں پر بے تکلف جا سکے۔ اس کثرتِ آبادی سے یہ بات ثابت ہوتی کہ فصل گرمی میں نہایت گرمی ہوتی ہو گی۔

سیر کرتے ہوئے ایک قدیمی مکان میں گیا۔ زبانی لوگوں کے ثابت ہوا کہ فرعون کے زمانہ کا بنا تھا۔ بلندی اس گنبد اس مکان کا جامع مسجد شاہجہان آباد سے زیادہ۔ گردا گرد اس کے دیوار پختہ ایستادہ۔ مکان عالیشان تھا۔ در و دیوار میں جا بجا نشانِ خون نمایاں۔ بہت سے تابوت وہاں رکھے ۔ عبرت ہوتی ان کے دیکھنے سے۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا کہ در و دیوار میں خون لگنے کا سبب کیا۔ لوگوں نے بیان کیا کہ ایک قوم عرب نام اس کا

(شمشاد کی طرف سے نوٹ : 1838 میں فروری کی 29 تاریخ نہیں تھی۔
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
صفحہ 182
مقدمہ
ان دیکھے جہانوں کی تلاش و جستجو اور نئی دنیا کی سیر انسانی فطرت کا خاصّہ ہے۔ چنانچہ اس جبّلی تشنگی کو بجھانے کے لیے بنی نوع انسان نے تہذیب وتمدن کی ہوا لگنے سے پہلے ”سفر“ اختیار کیا اور نئے جہانوں کی تلاش میں سرگرداں ہو گیا۔ کرۂ ارض کے کونے کونے کی خاک چھانی اور اسی جبّلت کے تحت ترقی و تبدّل کے ان گنت مراحل طے کرتا ہوا مہذّب دنیا سے روشناس ہوا۔ بقول شخصے ”سفر وسیلۂ ظفر ہے“ ‘ اور اس ظفرمندی نے انسان کو بلند سے بلند تر مقام تک پہنچایا ہے۔ انسان کی کہانی کا پہلا ورق ”سفر“ کی دشواریوں کا غماز ہے کہ حضرت آدم کا جنت سے نکالا جاناہی عظیم سفر کا استعارہ ہے۔ یہ سفر آج بھی جاری وساری ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ چنانچہ سفر کا تعلق انسان کی ابتدا سے ہے اور اس کی انتہا پر یہ سلسلہ اختتام پذیر ہو گا۔
دنیا کی ہر بڑی او ر زندہ قوم کے افراد نے سفر کیے ہیں اور اپنے مشاہدات و تجربات کو قلم بند کرنے کی سعی بھی کی ہے۔ چنانچہ ادبیاتِ عالم میں بڑی تعداد میں سیاح ہی نہیں ہیں ، بلکہ ان کے سفرنامے بھی شیرازہ بندی کے عمل سے گزرے ہیں۔ بطورِ خاص مسلمانوں نے بے شمار سفرنامے تحریر کیے ہیں کہ یہ مذہب نئے جہانوں کی سیر کی اجازت دیتا ہے تاکہ سیروسیاحت کے ساتھ ساتھ تبلیغ و اشاعتِ اسلام کا فر یضہہ بھی انجام دیا جاسکے اور پھر اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک رکن جسے فرض کی حیثیت حاصل ہے، سفر سے ہی متعلق ہے یعنی—”سفرِ حج“، چنانچہ ہر سال ہزار ہا فرزندگانِ توحید اس فرض کی ادائیگی کے لیے رختِ سفر باندھتے ہیں اور عازم ِ مکّہ ہوتے ہیں۔ حج کا یہ سفر ظاہری و باطنی دونوں کیفیات سے عبارت ہے، اس کے علی الرغم اہل ِ طریقت کا تمام فلسفہ مصطلحاتِ سفر سے ہی متعلق ہے۔ یہاں سالک راہ ِ حق پر سرگرداں ہوتا ہے اور سفر کی صعوبتوں سے گزرتا ہوا بلندی ٔ فکر و نظر سے ہم کنار ہوتا ہے۔ سفر الی اللہ کا یہ سلسلہ مسافر،

183 صفحہ
منزل اور راہ کے متعلقات کی باطنی اصطلاحوں سے مزین ہے اور سفر کا اختتام فنا فی اللہ پر ہوتا ہے ۔ چنانچہ صوفیوں کے تمام سلاسل میں سفرا ور متعلقاتِ سفر کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ بقول خواجہ میر دردؔ :
مانندِ فلک دل متوطن ہے سفر کا
معلوم نہیں اس کا ارادہ ہے کدھر کا
سیاروں اور ستاروں کی بے کراں خلا میں گردش بھی سفر کا ہی سلسلہ ہے اور یہ سلسلہ مالک ِ دو جہاں کے ” کن فیکون“ کی ادائیگی سے جاری ہے۔ کائنات لمحہ بہ لمحہ پھیلتی جا رہی ہے اور یہ پھیلاؤ بھی ، سفر کی علامت ہے۔اس سفر کا خاتمہ دراصل تمام کائنات کا خاتمہ ہے۔ چنانچہ ہم سب اس عظیم الشان سفر کا حصہ ہیں۔
سفر کا مقصد تحصیلِ علم بھی ہے او رمشاہدۂ قدرت بھی ۔ نئے جہانوں کی سیر بھی ہے اور مختلف تہذیب و تمدن سے روشناسی کا ذریعہ بھی۔ تبلیغِ مذہب بھی ہے اور تلاشِ معاش بھی ، مقاماتِ مقدسہ کی زیارت بھی ہے اور محض سیروسیاحت بھی۔ یہاں تحیرو تجسّس، تحریکِ سفر کا سبب بنتے ہیں۔ یہی تحیرو تجسّس انسان کو آمادہ ٔ سفر کرتے ہیں اور وہ سفر کی صعوبتوں سے بہ آسانی گزر جاتا ہے۔ دیدۂ بینا سفر کو لطافت و ندرت عطا کرتا ہے اور مشاہدہ کی گہرائی و جزئیات نگاری تحریری مرقعوں کی صورت میں جلوہ گر ہوتے ہیں اور ہمیں یہ گمان ہوتا ہے کہ ہم سیاح کی انگلی تھامے نو دریافت شدہ جہانوں سے گزرتے جا رہے ہیں اور صرف گزرتے ہی نہیں جا رہے بلکہ وہ قدم قدم ٹھہرتا ہوا منظر در منظر ہمیں حیرت و استعجاب میں مبتلا کرتا جا رہا ہے ۔ چنانچہ سفر نامے کے خصائص میں ”پرکھ، کھوج، تفحص، تحقیق، تردّد اور تفتیش“ کی خاص اہمیت ہے اور یہاں تقابل و تجزیے کے ذریعے ایک ایسی دیدہ زیب فضا قائم کی جاتی ہے کہ جس کی دلفریبی میں گم ہو کر قاری و سامع دنیا و مافیا سے بیگانہ ٔ محض ہوکر اس سفر کا حصہ بن جاتا ہے۔
سفر نامے سوانحی کوائف کے ساتھ ساتھ تاریخی و جغرافیائی معلوما ت کی کھتونی ہوتے ہیں۔ سفرنامہ نگار اپنے حالات و خیالات کو ہی قلم بند نہیں کرتا بلکہ بالواسطہ طور پر تاریخ نگاری کے فریضے کو بھی انجام دیتا ہے کہ جس دور میں سفرنامہ نگار مصروفِ سفر ہوتا ہے، اس دور کے تاریخی واقعات پر

184 صفحہ
بھی تبصرہ کرتا جاتا ہے۔ نیز نئے علاقوں اور ممالک کی سیر کے پس منظر میں وہاں کی آب وہوا، جغرافیائی حالات، تہذیب و معاشرت اور انسانی زندگی کے معمولی واقعات کو بھی صفحۂ قرطاس کی زینت بناتا جاتا ہے۔ ایک اچھے سفرنامے میں جغرافیہ اور تاریخ کی آمیزش ہوتی ہے۔ سیاح بھانت بھانت کی تہذیبوں سے ٹکراتا ہے اور مختلف النوع انسانی گروہوں سے ملتا ہے اور انسان شناسی اور انسان فہمی کے نئے مدارج طے کرتا ہے۔ ایک کامیاب سیاح کی آنکھ تعصّبات سے مبّرا ہوتی ہے۔ وہ محدود فضا سے نکل کر لامحدود دنیاؤں میں پہنچ جاتا ہے اور اس کے مشاہدے اور مطالعے میں بے پناہ وسعت در آتی ہے۔ بوسیدگی اور فرسودگی سے اسے نجات مل جاتی ہے۔ اس کے نت نئے تجربے ، اس کی شخصیت میں خوشگوار تبدیلیاں پیدا کرتے ہیں اور وہ قاری کو بھی اس میں شامل کر لیتا ہے۔ چنانچہ سفر نامے کا مطالعہ دراصل فہم و ادراک میں تحرّک و تبدّل پیدا کر دیتا ہے اور قاری زیادہ بڑی اور عظیم دنیا سے ہمکنار ہوتا ہے۔
سفرنامہ ایک نوع کی ”خودنوشت“ ہے کہ اس میں سیاح اپنی زندگی کے حالات قلم بند کرتا ہے یوں خودنوشت بھی دراصل زندگی کے سفر کی ہی روداد ہے۔ اس حیثیت سے سفرنامے کی اہمیت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ایک کامیاب سفر نامہ سیاحت اور ادب کی خوبصور ت آمیزش سے عبارت ہے۔ ذوقِ سفر سیّا ح کو آمادۂ سفر کرتا ہے اور وہ اپنے قوتِ مشاہدہ کی بدولت زندگی کے سردوگرم کو نہایت باریک بینی سے دیکھتا ہے اور ہر منظر، عمارت اور ملک کے حالات پیشِ نظر رکھتا ہے۔ یہ کام قوتِ باصرہ کا ہے اور پھر سیّاح ان جزئیات کو خوبصورت اور دلکش اسلوب میں پیش کرتا ہے۔ زبان وبیان پر اس کی قدرت اور اسلوب پر اس کی گرفت سفرنامے کو ادبی رنگ عطا کرتی ہے اور یوں تمام مناظرو مقامات متحرک ہو جاتے ہیں اور سیاح کا تجربہ قاری کا تجربہ بن جاتا ہے۔
ایک کامیاب سفرنامہ میں خارجی واقعات کے ساتھ ساتھ داخلی احساسات و فکری میلانات کی آمیزش بھی ہوتی ہے۔ سیاح تقابل و تجزیہ کے ذریعے مختلف و متضاد تہذیبوں پر اظہارِ خیال کرتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے اپنے نظریۂ حیات کی تبلیغ و اشاعت بھی کرتا ہے۔ سیاح کے یہ تبصرے اگر غیر جانبدار ہوئے تو ایک خوشگوار فضا وقوع پذیر ہوتی ہے۔ ورنہ سفرنامہ محدود ذہنی و فکری خیالات کا مجموعہ ہو کر رہ جاتا ہے۔

185 صفحہ
سفرنامے میں وقائع نگاری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ دراصل ایک کامیاب سفرنامہ واقعات کی ایک سلسلہ وار کڑی ہوتا ہے، ہم سیاح کی نظر اور قلم کے ذریعے دنیا جہاں کی سیر ہی نہیں کرتے بلکہ وہاں پیش آنے والے واقعات کے بھی چشم دید گواہ بن جاتے ہیں ۔ وہ ہمیں اپنے ساتھ دیس بدیس لیے پھرتا ہے اور ہم گھر بیٹھے ہی سات سمندر پار کی سیر کر آتے ہیں۔ سفرنامہ نگار جن ملکوں ، شہروں ، بازاروں اور گلی کوچوں سے گزرتا ہے، وہاں پیش آنے والے واقعات ، مشاہدات وتجربات اور وہاں پائے جانے والی مخلوقات (انسان اور دیگر) کے متعلق بھی معلومات فراہم کرتا چلا جا تا ہے۔ بلکہ سیاسی ، سماجی اور تہذیبی حالات پر بھی اظہار خیال کرتا چلا جاتا ہے اور یوں واقعہ نویسی کے ساتھ ساتھ تجزیاتی اسلوب کے ذریعے اپنی تحریر کو زیادہ مؤثر اور اہم بنا دیتا ہے۔
روایتی اور غیر روایتی سفرناموں کے سلسلے میں مشفق خواجہ کا یہ اقتباس غور طلب ہے:۔
”روایتی سفرنامہ ہمیں مقاماتِ سفر سے متعارف کراتا ہے اور غیرروایتی سفر نامہ کیفیتِ سفر سے۔ مقاماتِ سفر کی تفصیل لکھنے والا زماں و مکاں کا اسیر ہوتا ہے۔ جبکہ کیفیاتِ سفر قلم بندکرنے والا زماں و مکا ں سے ہٹ کر بھی سوچتا ہے اور یہی چیز اس کے سفرنامے کو معلومات کا گنجینہ بننے سے بچاتی ہے اور اس کا رشتہ ادب سے قائم کرتی ہے۔ “ (مشفق خواجہ، دیباچہ موسموں کا عکس از جمیل زبیری ص ۱۰)
زمان ومکاں سے بلند ہوکر سوپنے والا سیاح تاریخ نویسی کے ساتھ سفرنامےکو ایک وسعت عطا کرتا ہے اور یہی وسعت ایسے سفرنامے کو ادب عالیہ بنا دیتی ہے۔
٭٭٭
برصغیرِ ہندو پاک سے متعدد سیاح ، آوارہ گرد اور مسافر، سیروسیاحت ، تلاش حق اور نئے جہانوں کی سیر، کی غرض سے رختِ سفر باندھتے رہے ہیں(حالانکہ خود برصغیر دنیا کے سیاحوں کی تلاش و جستجو کاایک اہم مرکز رہا ہے۔ ) ان میں سے بیشتر سیاح مسلمان تھے، بطورِ خاص انیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں کئی مسافروں نے برطانیہ (لندن) کی راہ اختیار کی۔ انگریز برصغیر کے حاکم تھے اور انسانی جبلّت ہے کہ محکوم حاکموں سے مرغوب و متاثر ہوتے ہیں اور ان کی ہر ادا کے

186 صفحہ
تمنائی، چنانچہ اس خطۂ خاص سے خاصی تعداد میں اپنے حاکموں کے ملک کی سیرو سیاحت ، تہذیب و تمدن ، رسم و رواج ، تاریخ و جغرافیہ کے قریبی مطالعے کے لئے لوگوں نے رختِ سفر باندھا اور ہزار ہا مصیبتوں اور پریشانیوں سے دوچار ہوتے ہوئے کامیاب و کامران وطنِ عزیز واپس لوٹے۔
”یوسف خان کمبل پوش“ سے قبل انگلستان کا سفر اختیار کرنے والوں نے اپنے سفرنامے فارسی زبان میں تحریر کئے۔ لہٰذا ”تاریخِ یوسفی المعروف بہ عجائباتِ فرنگ“ ، جو ہمارا موضوع ہے۔ اُردو کا پہلا سفرنامہ ہے حالانکہ کمبل پوش نے اسے پہلے فارسی ہی میں تحریر کیا تھا، بعدازاں اردو کے قالب میں ڈھالا۔ کمبل پوش سے قبل کے سیّاحوں کی تفصیلات ہمیں اسلامیہ کالج کلکتہ کے پروفیسر عبدالقادر کے ایک مضمون ، بہ زبان انگریزی سے دستیاب ہوتی ہیں۔ موصوف کے اس مضمون کا عنوان Early MuslimVisitors of Europe From India ہے ۔ ان کے مطابق محمد قباد بیگ پہلا مسافر تھا جو عازمِ یوروپ ہوا، اس کے بعد میر محمد حسین لندنی ، اعتصام الدین، ابوطالب اصفہانی (لندنی) وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔ یہ سبھی اٹھارویں اور انیسویں صدی کے درمیانی عرصے میں عازمِ سفر ہوئے۔
تحسین فراقی نے اپنے پُر مغز مقدمے ( عجائباتِ فرنگ) میں کمبل پوش سے قبل یورپ کے سفر پر جانے والے کئی سیّاحوں کا تذکرہ کیا ہے۔ نیز ان کے سوانحی کوائف پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان سیّاحوں کے سفرنامے بہ زبان فارسی لکھے گئے۔ ان سفرناموں میں نہایت تفصیل کے ساتھ اسفار کی روداد بیان کی گئی۔ ایسے اسفار میں میر محمد حسین لندنی ، شیخ اعتصام الدین تاج الدین (شگرف نامۂ ولایت ۱۷۶۵ء کا مصنف) اور ابو طالب اصفہانی (مسیر طالبی فی البلاد افرنجی ۱۷۹۹ ء کا مصنف) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ آخرالذکر دو سّیاحوں کے سفرناموں کا تحسین فراقی نے قدرے تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ خاص طور پر ان واقعات و حادثات اور سیاحتی مقامات کا تذکرہ کیا ہے جو کمبل پوش کے سفرنامے میں بھی موجود ہیں تاکہ تقابل و تجزیہ سے کمبل پوش کے سفرنامے کی اہمیت و افادیت کا اندازہ ہو سکے۔ ان دونوں سیاحوں نے ہندوستان کے سیاسی و سماجی حالات کی ابتری ، نظم و نسق کی کمی ، عوام کی بدحالی ، امراء اور حاکموں کی عوام کی طرف سے چشم پوشی اور انگریزوں کے روز بروز بڑھتے ہوئے عمل دخل اور تسلط پر بھی خامہ فرسائی کی ہے

187 صفحہ
ایسے ہی خیالات کا اظہار کمبل پوش بھی اپنے سفرنامہ میں کرتا ہے۔ اعتصام الدین اور ابوطالب اصفہانی کے سفرنامے تجسّس کےساتھ ساتھ حیرت زاواقعات سے پُر ہیں۔ دورانِ سفر پیش آنے والے واقعات، مشاہدات اور تجربات بھی نہایت تفصیل و جزئیات کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔ لندن کی تعریف کے سلسلے میں یہ سیّاح یک زبان ہیں۔ وہاں کی تہذیب و تمدن ، ترقی اور طرزِ معاشرت کی تعریف کرتے ہوئے ان کی زبان نہیں تھکتی۔ گمان ہوتا ہےکہ وہ انگریزوں کی ہر شے سے حد درجہ متاثر و مرعوب ہیں چنانچہ ان کی مداحی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔ مذہب و عقائد کے تذکرے میں ان کے کچھ اعتراضات ہیں او ر وہ ان پر بے لاگ تبصرے بھی کرتے ہیں۔
اُس دور کے رواج کے مطابق یہ دونوں سیّاح مذہبی مناظرات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں عیسائی مبلغین سے ان کے بحث ومباحث دلچسپی کے باعث ہیں۔ عیسائی مذہب پر ان کی آرا خاصی دلچسپ اور معنی خیز لگتی ہیں۔ پادریوں سے ملاقاتیں اور مفکرانہ و فلسفیانہ مباحث ان اسفار میں دل چسپی پیدا کر دیتے ہیں۔ ابوطالب اصفہانی نے (کمبل پوش کی طرح) انگریزی تہذیب و معاشرے کی محض خوبیوں پر ہی اظہار خیال نہیں کیا بلکہ اس کی کج ادائیوں او ر خامیوں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ ا س اعتبار سے یہ سفرنامے اہمیت کے حامل ہیں اور چونکہ فارسی زبان میں تحریر کیے گئے چنانچہ کمبل پوش کے پیش روؤں کی حیثیت سے ان کی اہمیت دو چند ہے۔ شگرف نامہ اور مسیر طالبی کے ترجمے اُردو میں ہوئے مگر دیگر فارسی اسفار کے ترجمے شائع نہ ہو سکے۔ گمان ِ غالب ہے کہ کمبل پوش نے ان سفر ناموں کا مطالعہ کیا ہو گا اور اپنے سفر نامے کی ترتیب و تالیف میں ان سے استفادہ بھی کیا ہوگا۔
٭٭٭
اُردو میں سفرناموں کا نقشِ اوّل ” تاریخِ یوسفی المعروف بہ عجائبات فرنگ“ از یوسف خاں کمبل پوش ہے۔ نقشِ اوّل ہونے کے باوجود یہ سفرنامہ فنِ سفرنامہ نگاری کے جدید معیارات پر پورا اُترتا ہے۔ اس کا اسلوب، اندازِ بیان ، تحیرو تجسّس اور حیرت انگیز معلومات نے اسے آج بھی قابلِ مطالعہ بنایا ہوا ہے۔ کمبل پوش کی صاف گوئی او ر سچائی کے ساتھ ساتھ عجائبات عالم دیکھنے اور دکھانے کی لگن خاص طور پر قابل غور ہے۔ ”عجائباتِ فرنگ“ پر مفصّل اظہارِ خیال سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم یوسف خاں کمبل پوش سے متعلق سوانحی ، علمی و ادبی معلومات حاصل کرلیں۔

188 صفحہ
یوسف خاں کمبل پوش کے حالاتِ زندگی پردہ ٔ خفا میں ہیں۔ اس کے سالِ پیدائش و وفات پر بھی وقت کی گرد جمی ہوئی ہے۔ اُس دور کے تذکروں اور تاریخِ ادب کی کتابوں میں اس کا ذکر نہ ہونے کے برابر ہے۔ چنانچہ جو چند احوال اس سے متعلق مختلف کتابوں میں دستیاب ہیں ان کے اقتباسات درج ہیں۔
سیّد محسن علی کے تذکرے”سراپا سخن“ میں کمبل پوش کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے:۔
(۱)”یوسف خاں یوسفؔ تخلص، ولد رحمت خاں باشندۂ لکھنؤ، شاگرد خواجہ حیدر علی آتش ؎۱
اسی تذکرے میں پاؤں کی ردیف کے تحت اشعار درج کرتے ہوئے سیّد محسن علی نے یہ الفاظ دہرائے ہیں:۔
(۲)”یوسف خاں یوسف ولد رحمت خاں غوری باشندۂ لکھنؤ “۲؎
کمبل پوش کے ایک معاصر تذکرہ نگار عبداغفور نساخ نے کم و بیش ان ہی تفصیلات کا اندراج کیا ہے، ملاحظہ ہو:۔
(۳)”یوسف تخلص، یوسف خاں ولد رحمت خاں غوری باشندۂ لکھنؤ شاگرد آتش ۳؎
اس دو ر کے ایک اہم ادبی تاریخ نویس اور خطبہ خواں گار سیس دتاسی نے قدرے تفصیل کے ساتھ یوسف خاں کمبل پوش سے متعلق معلومات فراہم کی ہیں۔ چنانچہ ۲ دسمبر ۱۸۶۱ ء کے گیارہویں خطبے میں رطب اللسان ہے:۔
(۴)”۱۰ اگست گزشتہ لکھنؤ میں یوسف خاں بہادر کا انتقال ہوا۔ یہ عیسائی ہونے کے ساتھ ہی اُردو زبان کے بڑے عمدہ انشاپرداز تھے۔ ان کا لقب کمبلی پوش مشہور تھا۔ موصوف واجد علی شاہ کے توپ خانے میں تقریباً ۳۰ سال خدمت انجام دے چکے تھے۔ انہوں نے اُردو میں”سیرو

۱؎ سیّد محسن علی: سراپا سخن۱۸۷۵ ء ص ۸۲ (بحوالہ تحسین فراقی)
۲؎ ایضاً ص ۳۶۵
۳؎ عبدالغفور نساخ: سخن شعرا ۱۸۷۴ ء ص ۵۷۰ (بحوالہ تحسین فراقی)

189 صفحہ
سفر“ کے نام سے اپنا سفر نامہ لکھا ہے۔ یہ سفر نامہ دہلی میں ۱۸۴۷ ء میں شائع ہوا۔ اسٹورٹ ریڈ نے اس سفرنامے کا مقابلہ Morier کی کتاب Haji Baba in England
سے کیا ہے۔ اس ضمن میں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یوسف خاں بہادر ہندوستانی نہیں تھے بلکہ اطالوی تھے۔ یہ مسلمان بھی نہیں تھے ۔بلکہ کیتھولک مسیحی تھے اور مرتے دم تک کیتھولک عقائد پر قائم رہے۔ اصل میں ان کا نام Delmerich تھا اور کہا جاتا ہے کہ ان کا فلورنس کے مشہور Medicis خاندان سے تعلق تھا ۔ کوئی پندرہ سال ہوئے کہ یوسف خاں بہادر سیاحت کی غرض سے انگلستان، فرانس، اسپین، پرتگال اور جرمنی گئے تھے۔ واپسی پر ترکی اور عربستان کے راستے ہندوستان واپس آئے میں نے ابھی جس سفرنامہ کا ذکر کیا ہے وہ دراصل انہی ملکوں کے حالات پر مشتمل ہے۔ انہوں نے یہ سفر نامہ خود اُردو میں لکھا تھا۔ ۱؎
گارسیں دتاسی کی ”تاریخِ ادبیات ہندوی و ہندستانی “ کے دوسرے ایڈیشن ، جس کی تاریخ طباعت ۱۸۷۱ ء ہے، کی تیسری جلد میں کمبل پوش سے متعلق یہ اقتباس درج ہے:۔
(۵) یوسف خاں لکھنوی، اس کے والد کا نام رحمت خاں غوری تھا۔ خواجہ حیدر علی آتش کا شاگرد تھا۔ ہندوستانی میں شعر کہتا تھا۔ اس کا لقب ’کمبل پوش‘ ہے محسن نے اپنے تذکرے میں کمبل پوش کے اشعار نقل کیے ہیں۔ وہ سلطنتِ اودھ میں ملازم تھا۔ اس نے ۱۸۳۷۔۱۸۳۸ء میں انگلستان اور فرانس کا سفر کیا۔ اس نے اُردو زبان میں اپنے سفر کے حالات قلم بندکیے۔ ایچ۔ ایس۔ ریڈ صاحب نے اس سفرنامے پر ایک مضمون تحریر کیا ہے۔ جس میں انہوں نے اس سفرنامہ کا موازنہ مورئر Morier کے”حاجی بابا اِن انگلینڈ“ سے کیا ہے۔ مضمون نگار نے

۱؎ خطباتِ گارسیں دتاسی ۱۸۵۰ء۔ ۱۸۶۹ء ص ۱۹۔۳۱۸

190 صفحہ
کمبل پوش کی بے جاجزئیات نگاری پر اعتراض کیا ہے اور ان کے خیال میں ایسی تفاصیل کا درج کرنا ضروری تھا جن سے بلاشبہ یورپ کی ایشیا پر برتری ثابت ہوتی۔ ۱؎
کمبل پوش کے حالاتِ زندگی کا سب سے اہم ، بنیادی اور بڑا مآ خذ اس کی اپنی تصنیف ہے۔ سفر کی ابتد ا سے قبل ”حالِ مؤلف “ کے تحت اس نے چند جملے اپنی ذات کی نذر کیے ہیں۔ یہ جملے حسب ذیل ہیں:۔
(۶)”یہ فقیر بیچ سن اٹھارہ سو اٹھائیس عیسوی مطابق سن بارہ سو چوالیس ہجری کے حیدر آباد وطن خاص اپنے کو چھوڑ کر عظیم آباد، ڈھاکہ، مچھلی بندر، مندراج، گورکھپور، نیپال ، اکبر آباد، شاہجہان آباد وغیرہ دیکھتا ہوا بیت السطنت لکھنؤ میں پہنچا یہاں بمددگاری نصیبے اور یاوری کپتان خاںمنکنس صاحب بہادر کی ، ملازمت نصیرالدین حیدر بادشاہ سے عزت پانے والا ہوا۔ شاہ سلیمان جاہ نے ایسی عنایت اور خاوندی میرے حال پُر اختلال پر مبذول فرمائی کہ ہر گز نہیں تابِ بیان اور یارائے گویائی۔ رسالہ ٔ خاص سلیمانی میں عہدہ جماعہ داری کا دیا۔ بعد چند روز کے صوبہ داری اسی رسالے کی دے کر بڑھایا۔ بندہ چین سے زندگی بسر کرتا اور شکرانہ منعمِ حقیقی کا بجا لاتا۔ ناگاہ شوق تحصیل علم انگریزی کا دامن گیر ہوا۔ بہت محنت کرکے تھوڑے دنوں میں اسے حاصل کیا۔ بعد اس کے بیشتر کتابوں تواریخ کی سیر کرتا۔ دیکھنے حال شہرو ں اور راہ و رسم ملکوں سے محظوظ ہوتا۔ اکبارگی سن اٹھارہ سو چھتیس عیسوی میں دل میرا طلب گار سیاحی ٔ جہاں خصوص ملک انگلستان کا ہوا۔ شاہ سلیمان جاہ سے اظہار کرکے رخصت دو برس کی مانگی۔ شاہ گردوں بارگاہ نے بعد عنایت و انعام اجازت دی۔ عاجز تسلیمات بجا لایا اور راہی منزلِ مقصود کا ہوا۔ ۲؎

۱؎بحوالہ تحسین فراقی ص ۵۲
۲؎عجائبات فرنگ (نولکشور) ص ۳، ۴

191 صفحہ
بیسویں صدی کے دو ادبی تاریخ نویسوں کے یہاں بھی کمبل پوش اور اس کی تصنیف سے متعلق معلومات ملتی ہیں۔ حالانکہ یہ تمام معلومات ”تاریخِ یوسفی“ سے ہی اخذ کی گئی ہیں۔ مگر ان کی اولیت اور بعدازاں تاریخ نویسوں کی اُردو کے اس پہلے سفرنامے سے متعلق خاموشی کے سبب ان کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔
احسن مارہروی کی کتاب”تاریخ نثر اُردو“ (نمونۂ منثورات، ۱۹۲۹ء) میں کمبل پوش کے سفرنامے کی چند سطور (حالِ مؤلف) نقل کرتے ہوئے احسن مارہروی نے تبصرۂ کیفیت کے عنوان سے یہ اقتباس تحریر کیا ہے:۔
(۷)” یہ سفرنامہ پنڈت دھرم نارائن کے اہتمام سے مطبع العلوم مدرسۂ دہلی میں چھپا ہے۔ جس کا سنِ طباعت ۱۸۴۷ء ہے۔ کتاب کا حجم ۲۹۷ صفحہ ہے اور اکثر صحتِ کتابت کا خیال رکھا گیا ہے۔ مگر املا میں یائے معروف و مجہول کا یک قلم لحاظ نہیں کیا گیا۔ زبان عام فہم ہے۔ البتہ پرانی ترکیبیں موجود ہیں۔ جن پر انتقالِ ذہنی اور توجہِ نظر کے لیے لکیریں (—) کھینچ دی ہیں۔ “ ۱؎
اُردو کے ایک اور معتبر تاریخ نویس حامد حسن قادری نے اپنی کتاب”داستانِ تاریخ ادب اُردو“ میں ایک بات غیر مشہور مصنفین سے متعلق رقم کیا ہے۔ جس میں متعدد ایسے مصنفین کا ذکرِ خیر ہے کہ جن کی تالیفات تو مشہور تھیں مگر نام زبان ِ خلق پر اتنے عام نہ تھے۔ نیز ان سے متعلق معلومات بھی عنقا تھیں۔ ان مصنفین میں یوسف خاں کمبل پوش کا نام نامی بھی موجود ہے۔ حامد حسن قادری صاحب کا مآ خذ بھی ”تاریخ یوسفی“ ہے۔ اس لیے اس میں کسی اہم اضافے کی گنجائش تو نہیں، پھر بھی یہاں نقل کیا جا رہا ہے:۔
(۸)”یوسف خاں کمبل پوش:۔ حیدر آباد وطنِ اصلی تھا۔ سیرو سیاحت کے لیے گھر سے نکلے، تمام ہندوستان کی سیر کر کے انگلستان کا سفر کیا۔ یورپ کے دوسرے مقامات اور مصر وغیرہ کی بھی سیر کی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستانی سیاحوں میں سب سے قدیم تھے۔ ۱۸۲۸ء سے

۱؎ احسن مارہروی۔ تاریخ نثر اردو (نمونہ منثورات) ص ۱۲۷

192 صفحہ
سیاحت شروع کی۔ ۱۸۳۷ء میں ولایت کا سفر کیا۔ حالات ِ سفر لکھتے گئے، جن کو ۱۸۴۷ء میں دہلی میں چھپوایا۔ پھر دوبارہ ۱۸۷۳ء میں مطبع نول کشور میں چھپا۔ ”عجائبات فرنگ“ اس کا نام ہے۔ یہ اُردو میں سب سے پہلا سفرنامہ ہے اور بڑی خوبی یہ ہے کہ محض ایک سیاح کا سفرنامہ ہے۔ جس کی کوئی قومی و ملکی یا تعلیمی غرض نہ تھی اور سب لوگوں کے سفر مثلاً مولوی مسیح الدین، سرسید احمد خاں، راجہ رام موہن رائے وغیرہ کے اس سے بعد کے ہیں اور بغرض سیرو سیاحت نہ تھے۔ پھر انیسویں صدی کے آخر میں اور بیسویں صدی میں بھی لوگوں نے یورپ کے سفرنامے لکھے ہیں۔ ۱؎
درج بالا صفحات میں آٹھ اقتباسات نقل کیے گئے، جن میں یوسف خاں کمبل پوش کے سوانحی کوائف اور اس کے سفرنامے کی تفصیلات اجمالی طور پر رقم کی گئی ہیں۔ ان میں اقتباس نمبر ایک، دو اور تین کا تعلق اُس دور کے تذکروں سے ہے۔ چنانچہ ان مختصر اقتباسات میں تحریر کردہ حقائق پر اعتبار نہ کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ مگر یہ معلومات اتنی مختصر ہیں کہ ان سے کمبل پوش کے حالات کماحقہ واضح نہیں ہوتے، چنانچہ مذکورہ اقتباسات سے جو معلومات فراہم ہوتی ہے، وہ حسب ذیل ہیں۔
کمبل پوش کا نام یوسف خاں اور تخلص یوسفؔ تھا۔ ۲؎ والد کانام رحمت خاں غوری تھا۔ لکھنؤ کا باشندہ اور خواجہ حیدر علی آتشؔ کا شاگرد تھا۔

۱؎ داستان تاریخ ادبِ اُردو۔ حامد حسن قادری ص ۳۷۲
۲؎ مذکورہ تذکرہ نویسوں نے کمبل پوش کے چند اشعار بھی درج کیے ہیں۔ یہاں قارئین کی دلچسپی کے لیے انہیں نقل کیا جاتا ہے۔ سراپا سخن:
رکھتی ہیں مدِّ نظر گیسوئے خمدار آنکھیں
دام میں تیرے پھنساتی ہیں مجھے یا ر آنکھیں
اک قیامت ہے تیرا تیرِ نظر او ظالم
مارا بے موت اسے جس سے ہوئیں چار آنکھیں
فرقتِ یار میں ہرگز نہیں نیند آتی ہے
چشم ِ انجم کی طرح رہتی ہیں بیدار آنکھیں
حسد و بغض سے یہ دیکھتا ہے یوسفؔ کو
کور ہوں غیر کی یا حیدرِ کرّار آنکھیں
رخِ قمر سے زیادہ ہیں آب وتاب میں پاؤں
نہ دیکھے چشمِ فلک نے بھی ایسے خواب میں پاؤں

193 صفحہ
ظاہر ہے کہ یہ معلومات برائے نام ہیں۔ ان معلومات پر اقتباس نمبر چھ خاطر خواہ اضافہ کرتا ہے اور اس کی اہمیت یوں بھی ہے کہ خود کمبل پوش نے اپنے سفر نامے میں اپنے متعلق قدرے تفصیل سے یہ معلومات فراہم کر دی ہیں۔ ان معلومات کے تحت ہم ان کی سوانح میں درج ذیل اضافہ کر سکتے ہیں۔
”کمبل یوسف کا وطن حیدرآباد (دکن) تھا ۔ جہاں سے وہ ۱۸۲۸ء میں ہندوستان کے مختلف علاقوں کی سیاحت کرتا ہوا لکھنؤ آ کر بس گیا۔ یہاں ایک انگریز دوست کی وساطت سے نواب نصیرالدین حیدر کی فوج میں ملازمت اختیار کی لی۔ پہلے جماعہ داری کے عہدے پر فائز رہا، بعد ازاں ترقی کر کے صوبہ دار (فوج) مقرر ہوا۔ انگریزوں کی قرابت داری کے سبب انگریزی زبان سے دلچسپی پیدا ہوئی او ر اس زبان پر دسترس بھی حاصل کر لی۔ نیز تاریخی کتابوں کی مطالعے میں دلچسپی رکھتا تھا۔ بطور خاص شہروں اور ملکوں کے حالات سے محظو ظ ہوتا۔ ۱۸۳۶ء میں نواب سے دو سال کی اجازت لے کر انگلستان روانہ ہوا۔ یعنی کمبل پوش نے سفراختیار کرنے سے پہلے آٹھ سال شاہِ اودھ کی ملازمت کی۔“
یہ معلومات چونکہ خود مصنف نے فراہم کی ہیں چنانچہ ان کی صداقت پر کوئی انگشت نمائی نہیں

پچھلے صفحہ سے جاری
سوال ِ بوسۂ عارض پہ ناز کہتا ہے
عوض انگوٹھے کے اس کو دکھا جواب میں پاؤں
بغل میں دخترِ رز کو لیے زمیں پہ گرا
یہ لڑکھڑائے مرے نشۂ شباب میں پاؤں
خطا ہوئی جو کفِ پا کو روئے حور کہا
چھپائیے نہ برائے خدا حجاب میں پاؤں
طوافِ کعبہ ٔ کوئے صنم میں ہیں مصروف
نہ ایک گام چلیں گے رہ ِ صواب میں پاؤں
ہمیشہ شرم ہے اعلیٰ کو اسفلوں سے زیاد
چھپیں نہ منہ کی طرح پردۂ نقاب میں پاؤں
جنوں میں لاکھ پھرا شکلِ مرغ قبلہ نما!
کبھی نہ گھر سے ہوئے باہر اضطراب میں پاؤں
خدا کے فضل سے وہ دن نصیب ہو یوسفؔ
رواں ہوں سوئے نجف عشقِ بوتراب میں پاؤں
بسخنِ شعرا:
رخِ قمر سے زیادہ ہیں آب و تاب میں پاؤں
نہ دیکھے چشم ِ فلک نے بھی ایسے خواب میں پاؤں
کاٹا پہاڑ دل میں نہ شیریں کے گھر گیا
پتھر پڑے نصیب پہ اے کوہکن ترے

194 صفحہ
کر سکتا۔ کمبل پوش اپنے سفر سے لوٹا تو اودھ کی فوج میں اس کی نوکری بحال کر دی گئی۔ (اس کی تصدیق سفرنامے کے آخری اوراق سے ہوتی ہے) سلطنت اودھ کے خاتمے (۱۸۵۶ء) کے بعد کمبل پوش کہاں گیا اور کیا کرتا رہا، کچھ معلوم نہیں۔ ہاں اقتباس نمبر چار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا انتقال ۱۸۶۱ء میں بمقام لکھنؤ ہوا۔ تحسین فراقی نے اپنے مقدمے (عجائباتِ فرنگ) میں چند قیاس آرا کے ذریعے کمبل پوش کی عمر متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے مطابق اگر یہ قیاس کیا جائے کہ نصیرالدین حیدر کی فوج کی ملازمت اس نے کم سے کم پچیس سال کی عم میں اختیار کی ہوگی (اس وقت سن ۱۸۲۸ء تھا) تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کا سنِ پیدائش ۱۸۰۳ء ہو گا۔ گارسیں دتا سی کے مطابق اس کا انتقال ۱۰ اگست ۱۸۶۱ء کو ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کمبل پوش نے تقریباً اٹھاون سال عمر پائی“ ظاہر ہے کہ یہ محض قیاس ہے چنانچہ اسے نیم صداقت کے ذیل میں رکھا جا سکتا ہے اور جب تک کہ کوئی اہم ، معتبر اور مستند حوالہ سامنے نہیں آ جاتا۔ اس قیاسی تحقیق سے کام چلانا ہماری مجبوری ہے۔
گارسیں دتاسی کے اقتباس نمبر ۴ میں کئی اغلاط ہیں۔ اس اقتباس میں چند فاش غلطیاں بھی ہیں۔ وہ کمبل پوش کو مسلمان کے بجائے کیتھولک مسیحی (عیسائی ) لکھتا ہے اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ کمبل پوش مرتے دم تک اپنے مذہب (عیسائیت) پر قائم رہا۔ نیز اسے ”اطالوی باشندہ “ قرار دیتا ہے اور اس کا نام Delmerick لکھتا ہے اور فلورنس کے مشہور خاندان Medicis سے اسے منسوب کرتا ہے۔ سفر سے متعلق تفصیلات بیان کرتے ہوئے دتاسی لکھتا ہے کہ یورپ کے دیگر ممالک کی سیر کے ساتھ ساتھ جرمنی بھی گیا تھا۔ جہاں تک اس کے جرمنی جانے کا سوال ہے۔ سفرنامے میں اس کی کوئی شہادت موجود نہیں ہے اور چونکہ دتاسی نےخود اس سفرنامے کا مطالعہ نہیں کیا تھا، چنانچہ اس سے یہ غلطی سرذد ہوئی۔ کمبل پوش کےعیسائی ہونے، اطالوی باشندہ ہونے اور مشہور خاندان کا فرد ہونے کی تردید خود دتاسی نے یوں کر دی ہے کہ اقتباس نمبر۵ میں جو پہلے اقتباس سے ۱۰ سال بعد ضبطِ تحریر میں لایا گیا۔ اس کے مسلمان ہونے (یوسف خاں لکھنوی) او ر اس کی ولدیت (رحمت علی خاں غوری) کے سلسلے میں دتاسی نے تذکرہ نگاروں کی معلومات پر انحصار کیا ہے اور اس طرح اپنے سابقہ بیان کو رد کر دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اسی ذیل

195 صفحہ
میں اس کے عیسائی نہ ہونے کی بھی تصدیق ہو گئی ہے۔ تحسین فراقی نے ان اغلاط پر بڑی معروضی گفتگو کی ہے اور کئی خارجی و داخلی شواہد کی بنا پر انہیں رد کر دیا ہے۔ ہمارے نزدیک خود دتاسی نے ہی ان غلطیوں کا اعتراف بالواسطہ طور پر کر لیا تھا چنانچہ اس کے بعد دیگر شہادتوں کی ضرورت نہ تھی حالانکہ تحسین فراقی کے دلائل خالی از دلچسپی نہیں اور ان کی دقتِ نظر، تحقیقی طریقۂ کار اور علمی و ادبی جانفشانی کے مظہر ہیں بطورِ خاص کمبل پوش کے مسلمان ہونے کے سلسلے میں تحسین فراقی نے جو داخلی و خارجی شواہد پیش کیے ہیں، غو ر طلب ہیں۔ دونوں تذکرہ نویسوں کے علاوہ عبدالقادر کے مضمون Early Muslim Visitors of Europe from India کے حوالے درج کیے ہیں۔ نیز کمبل پوش کے سفرنامے سے کئی اہم اقتباسات کا حوالہ دے کر اسے مسلمان ثابت کرنے کی کامیاب کو شش کی ہے۔ بعدازاں تحسین نے گارسیں دتاسی کے خطبات کی عام فاش غلطیوں پر اظہار خیال کرتے ہوئے قاضی عبدالودود کے توسط سے لکھا ہے کہ دتاسی اردو، فارسی سے عالمانہ واقفیت نہ رکھتا تھا۔ اس کا حافظہ کمزور تھا ۔دقتِ نظر سے محروم تھا اور سنی سنائی باتوں پر یقین کر لیتا تھا۔ چنانچہ اس کے یہاں متعدد تحقیقی اغلاط موجود ہیں اور بقول قاضی عبدالودود صاحب اس کا شمار ”محسنین اُردو“ میں تو ہو سکتا ہے، محققین کی فہرست میں اسے شامل نہیں کیا جا سکتا ۔ چنانچہ کمبل پوش سے متعلق سوانحی کوائف کو ان ہی آرا کی روشنی میں دیکھنا چاہے۔
اکرام چغتائی نے اپنی مرتب کردہ کتاب”تاریخِ یوسفی“ میں سید غوث علی شاہ پانی پتیؔ (۱۸۰۴ء۔۱۸۸۰ء) کے ایک دوست کمبل پوش کا ذکر کیا ہے۔ یہ سید غوث علی شاہ پانی پتی وہی ہیں، جن کی خدمت مرزا غالبؔ نے بھی کی ہے اور مولانا الطاف حسین حالی ؔ نے ایک مرتبہ وحید الدین سلیم پانی پتی سے ان کے متعلق کہا تھا کہ ”ہم نے تمام عمر میں تین صاحب کمال بزرگ دیکھے ہیں شاعروں میں مرزا غالب، مدّبروں میں سرسید احمد خاں اور فقراء میں غوث علی شاہ صاحب“ ، انہیں غوث علی صاحب کے ملفوظات پر مشتمل کتا ب ”تذکرۂ غوثیہ“ میں متعدد مقامات پر کمبل پوش نامی ایک شخص کا تذکرہ ہے۔ جو دہلی کی مسجد، زینت المساجد میں غوث صاحب کی مصاحبت میں تھا۔ اکرام چغتائی صاحب نے ا س کتاب کے آٹھ مختصر و طویل اقتباسات نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان میں کمبل پوش بطور نام استعمال ہوا ہے۔ ”یوسف خاں“ کہیں استعمال نہیں کیا گیا۔ اگر ایسا ہوتا تو شک و شبہ کی گنجائش نہ رہتی کہ صاحب ِ فرنگ او ر یہ شخص دراصل ایک ہی ہیں ، بعد ازاں چغتائی صاحب

196 صفحہ
نے چند مماثلات پر اظہار ِ خیال کیا ہے۔ ان میں کمبل پوش کے ظاہری کوائف جسم ، داڑھی مونچھ، سیاحت کا شوق، عمر، وسیع المثربی، شعر گوئی وغیرہ کا تذکرہ کرتے ہوئے دونوں شخصیات کو ایک ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر خود ہی چند اختلافات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے دعوے پر شک و شبہ ظاہر کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب تک معتبر اور مستند حوالے دستیاب نہ ہوں گے تب تک حتمی طور پر کچھ کہنا مناسب نہ ہو گا، تاہم اکرام چغتائی کی اس تحقیقی کاوش کو پوری طرح نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔ تفصیلات کے لئے ملاحظہ فرمائیں ” تاریخ یوسفی “ مرتبہ اکرام چغتائی۔
احسن مارہروی (اقتباس نمبر ۷) اور حامد حسن قادری (اقتباس نمبر۹) ابتدائی ادبی مؤرخین ہیں، جنہوں نے کمبل پوش کے سفرنامے کا ذکر اپنی تاریخی کتابوں میں کیا۔ حالانکہ دونوں کا مآخذ خود کمبل پوش کی فراہم کردہ معلومات (اقتباس نمبر۶) ہیں۔ مگر کم از کم ان اصحاب نے کمبل پوش کے اس سفرنامے کو قابلِ اعتنا تو سمجھا اور مختصراً ہی سہی اس کا تذکرہ تو کیا۔ بعد کے تاریخ نویسوں نے تو اس کا نا م لینے کی ضروت بھی نہ سمجھی، محض چند تحقیقی مقالوں میں جن کا تعلق سفرناموں سے ہے۔ کمبل پوش کے اس سفرنامے کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ ۱؎

۱؎ ۱۔ اردو سفرنامہ انیسویں صدی میں از ڈاکٹر قدسیہ قریشی ۱۹۸۷ء
۲۔ اردو سفرنامے کی مختصر تاریخ از ڈاکٹر مرزا حامد بیگ ۱۹۸۷ء
۳۔ اردو ادب میں سفرنامہ از ڈاکٹر انور سدید ۱۹۸۹ء
۴۔ اردو سفر ناموں کا تنقیدی مطالعہ از ڈاکٹر خالد محمود ۱۹۹۵ء
مندرجہ بالا تحقیقی مقالوں میں”عجائبات فرنگ“ پر تنقید و تبصرہ کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر بشریٰ رحمنٰ کے مطبوعہ تحقیقی مقالے ”اردو کے غیر مذہبی سفرنامے “ میں یوسف خاں کمبل پوش سے متعلق ایک فاش غلطی سرزد ہو گئی ہے۔ موصوفہ نے یوسف خاں کمبل پوش اور ڈاکٹر یوسف حسین خان کو ایک ہی شخص تسلیم کر لیا ہے۔ ابتدائی سطور میں وہ لکھتی ہیں ” ڈاکٹر یوسف حسین خان کمبل پوش ایک زبردست مورخ، عالم اور ادیب تھے۔ ۱۸۲۸ء میں اپنا وطن حیدرآباد چھوڑ کر عظیم آباد اور ڈھاکہ پہنچے۔۔۔ ان کی تصنیف”یادوں کی دنیا“ ایک خودنوشت ہے جو ادبی تاریخ و تہذیب کا نادر نمونہ ہے۔ “ یادوں کی دنیا یوسف حسین خان کی تصنیف ہے، جبکہ ”عجائبات فرنگ“ یوسف خان کمبل پوش کی ۔ ظاہر ہے کہ موصوفہ نے سہل انگاری سے کام لے کر دونوں اشخاص کو ایک کر دیا۔ حالانکہ ادنی ٰ کوشش سے یہ ثابت ہو سکتا تھا کہ یوسف خان کمبل پوش اور ڈاکٹر یوسف حسین خان (۱۹۰۶ء۔ ۱۹۷۹ء) کے زمانے میں سو سال سے بھی زیادہ کا فرق ہے۔

197 صفحہ
یوسف خاں کمبل پوش کے معرکتہ الآرا سفرنامے کی عہد بہ عہد اشاعتوں کی تفصیلات پر اظہار خیال کرنے سے پہلے دو اہم نکات کی طرف قارئین کی توجہ دلانی مقصود ہے اوّل یہ کہ یہ سفرنامہ ”عجائباتِ فرنگ “ کے نام سے مشہور و معروف ہے اور اس کی زیادہ تر اشاعتوں میں یہی عنوان منتخب کیا گیا ہے۔ جبکہ خود مصنف نے اس کا نام”تاریخی یوسفی “ رکھا۔ کتاب کی پہلی اشاعت (دہلی کالج، مطبع العلوم ) اسی عنوان سے منسوب ہے ۔ چنانچہ کتا ب کے اختتام میں یہ عبارت درج ہے۔
”الحمداللہ کہ کتاب عجیب نسخۂ غریب مسمیٰ ”تاریخ یوسفی “ تصنیف سیاح جہاں گردو سرد چشیدۂ زماں صداقت کیش حقیقت کوش یوسف خاں کمبل پوش کی ۔۔۔۔ “
خود کمبل پوش سفر نامے کی ابتدائی سطور میں اسے ’ تاریخِ یوسفی ‘ کا عنوان عطا کرتا ہے لہذٰا تحریر کرتا ہے کہ :۔
”چونکہ اس کتا ب میں سب حال اپنا گزرا بیان کیا ہے۔ نام اس کا ” تاریخ یوسفی“ رکھا۔“
اس کے علاوہ مختلف اخبارات و سرکاری دستاویز میں اس سفرنامے کا نام”سیر یوسفی “ یا ”سفر یوسف کمبل پوش “ درج ہے۔ گارسیں دتاسی نے اقتباس نمبر ۴ میں اس کا نام ”سیر و سفر“ لکھا ہے، جو ظاہر ہے کہ غلط ہے۔ اولاً ”عجائبات فرنگ“ کا عنوان مطبع منشی نول کشور سے شائع طبع دوم کے ساتھ منظرِ عام پر آیا او ر پھر اس کے بعد یہ سفرنامہ اسی نام سے مشہور ہو گیا۔ حالانکہ خود کمبل پوش کے اختیار کردہ عنوان کو ہی اصل سمجھنا چاہئے۔ مگر چونکہ بعد کے مورخین نے اسے ” عجائبات فرنگ“ کے نام سے یاد کیا، چنانچہ یہی نام مشہور ہو گیا۔ اور ہم نے بھی یہی مروجہ و مشہور عنوان اختیار کیا ہے۔
دوئم یہ کہ یوسف خاں کمبل یوسف نے یہ سفرنامہ پہلے فارسی میں لکھا تھا۔ بقول اکرام چغتائی اس کا سن ِ تالیف ۱۸۴۳ء ہے اور مادۂ تاریخ ”چہ حال ِ غریب “ ہے۔ مگر یہ فارسی مخطوطہ کبھی زیورِ طبع سے آراستہ نہ ہو سکا۔ اس مخطوطے کی اطلاع ایشیا ٹک سوسائٹی آف بنگال (کلکتہ) میں موجود فارسی مخطوطات کی فہرست میں دی گئی ہے۔ ۱؎

۱؎ تفصیلات کے لئے ملاحظہ کریں تاریخِ یوسفی از اکرام چغتائی


198 صفحہ
اردو میں اس سفرنامے کی اولین اشاعت دہلی کالج کےمطبع العلوم سے ۱۸۴۷ء میں عمل میں آئی۔ اس کا عنوان جیسا کہ عرض کیا گیا ” تاریخِ یوسفی “ تھا۔ اس کے کم و بیش پچیس سال بعد کمبل پوش کے دوست منشی نو لکثور نے اسے نئے عنوان کے ساتھ شائع کیا۔ اس اشاعت کا عنوان ”عجائبات فرنگ“ اور سنِ اشاعت ۱۸۷۳ء ہے۔ بعد ازاں ۱۸۹۸ء میں دوسرا ایڈیشن شائع ہوا۔ اول الذکر نسخہ نایاب ہے جبکہ نو لکثوری نسخہ اب بھی ہندو پاک کی قدیم لائبریریوں میں کہیں کہیں موجود ہے۔
ہمارے پیشِ نظر عجائبات فرنگ کا نو لکثوری ایڈیشن ہے۔ جسے ہم نے بنیادی نسخہ قرار دیا ہے۔ اور اس کے لیے ”نو لکثور“ کا مخخف استعمال کیا ہے۔ نسخۂ دہلی کالج کی طباعت کے چند سال بعد دہلی کالج کے مطبع العلوم سے شائع ہونے والے رسالے ”محبّ ہند“ (جس کے مدیر ماسٹر رام چندر تھے) میں اس سفرنامے کی قسط وار اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا۔ چنانچہ محبّ ہند جلد ۲۸(۱۸۴۹ء) محبّ ہند جلد ۳۰ (جنوری ۱۸۵۰ء) محبّ ہند جلد۳۱ (فروری ۱۸۵۰ء) محبّ ہند جلد ۳۲ (اپریل ۱۸۵۰ء) میں اس سفرنامے کے طویل حصص شائع ہوئے۔ ہفتہ وار مجلّہ قران السعدین (دہلی کالج۔ مطبع العلوم) میں بھی اس کے چند حصوں (جلد ۲ نمبر۴، جلد ۲ نمبر ۱۱) کو ادارتی نوٹ کے ساتھ شائع کیا گیا۔ ۱؎
مذکورہ بالا ابتدائی دو اشاعتوں کے طویل عرصے، تقریباً ۸۴ سال بعد ۱۹۸۳ء میں تحسین فراقی نے اس سفرنامے کو اپنے گراں قدر مقدمے اور تحقیقی حواشی کے ساتھ شائع کیا۔ اس نسخے کی بنیاد نسخۂ نو لکثور پر رکھی گئی ہے۔ چنانچہ مذکورہ نسخے کے صفحہ ٔ اول کے نقش کے ساتھ یوسف خاں کمبل پوش کی تصویر (خیالی ) بھی شائع کی گئی ہے۔ مقدمے میں تحسین فراقی نے اہم معلومات فراہم کی ہیں اور اپنی دقتِ نظر، تحقیقی دروں بینی اور بیش بہا معلومات سے اسے اہمیت کا حامل بنا دیا ہے۔ نیز کمبل پوش کی سوانح، اس کے مذہبی عقائد اور اردو فارسی میں سفر ناموں کی روایت پر سیر حاصل تبصرے شاملِ کتاب ہیں۔ ہم نے اس نسخہ کا تقابلی مطالعہ نسخہ ٔ نو لکثور سے کیا اور اس کے لیے”تحسین “ کا مخخف استعمال کیا ہے۔
سنگ میل پبلی کیشنز سے ۲۰۰۴ء میں محمد اکرام چغتائی نے ’تاریخِ یوسفی ‘ کے عنوان سے اس

۱؎ تفصیلات کے لئے ملاحظہ کریں تاریخِ یوسفی از اکرام چغتائی

199 صفحہ
سفرنامے کا ایڈیشن شائع کیا ہے۔ اکرام چغتائی نے اس سفرنامے کی اشاعت اوّل کا عکس شائع کرنے کے ساتھ ساتھ متن کو ازسر نو کمپوز بھی کرا دیا ہے۔ چنانچہ عہد جدید میں سفرنامے کی دونوں اشاعتوں کو ازسر نو مدوّن کر دیا گیا۔ اکرام چغتائی نے دہلی کالج کے مطبع العلوم کی اشاعت پر کام کیا ، جبکہ تحسین فراقی نے نسخۂ نو لکثور کی تدوین کی۔ اکرام چغتائی نے یوروپ کے کتب خانوں سے سفرنامے سے متعلق مختلف النوع معلومات کو نہ صرف یکجا کیا بلکہ ان کی بنیاد پر کئی اہم ، گمشدہ کڑیوں کو ملانے کی کوشش بھی کی۔ نیز کمبل پوش سے متعلق کئی اہم معلومات میں اضافہ کر دیا۔ اکرام چغتائی کو اشاعت اول کا نسخہ برلن کے مرکزی کتب خانے سے دستیاب ہوا جہاں وہ ذخیرۂ اسپرنگر میں محفوظ تھا۔ (اسپرنگر دہلی کالج کے نامور پرنسپل اور ورنیکلر ٹرانسلیشن سوسائٹی کے سیکریٹری تھے۔ ) ان دونوں متون کو پیراگرافوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جبکہ نسخہ نور لکثور میں اس کا کوئی اہتمام نہیں ہے۔ ہم نے نسخۂ اکرام چغتائی کے لیے”اکرام“ کا مخفف استعمال کیا ہے۔
٭٭٭
یوسف خاں کمبل پوش کے سفرنامے میں جہاں ایک طرف سیروسیاحت کا تذکرہ بڑے دل آویز انداز میں بیان کیا گیا ہے، وہیں مختلف تہذیبوں کے تقابلی مطالعہ کے ساتھ ساتھ مختلف مذاہب کا موازنہ بھی کیا گیا ہے۔ ان پر تفصیلی گفتگو آئندہ صفحات پر ہوگی۔ مگر یہاں اس کے قدرےخودساختہ مذہب”مذہبِ سلیمانی “ کا تذکرہ مقصود ہے۔ کمبل پوش تلاشِ حق کی جستجو میں اوائلِ عمری ہی سے سرگرداں رہا اور مختلف مذاہب اس کے زیر مطالعہ ہی نہیں رہے بلکہ ان کے مبلغین سے مناظرے اور مکالمے بھی کرتا رہا۔ مگر ہر جگہ اسے حرص کے بندے ہی نظر آئے خدا کی سچیّ عبادت کرنے والا، خلقِ خدا کی عزت و احترام کرنے والا اور تمام بنی نوع انسان کو ایک نظر سے دیکھنے والا اسے کہیں نظر نہ آیا۔ چنانچہ ہر تیز رو کے ساتھ چلنے کے بعد ”مذہبِ سلیمانی “ اختیار کر لیا۔ یہ مذہب کیا ہے اس کی اصل کیا ہے۔ اس کے ماننے والوں کے کیا عقائد ہیں، اس پر سیر حاصل گفتگو ا س نے اپنے سفرنامے میں کی ہے۔ تحسین فراقی اور اکرام چغتائی نے اس مذہب کی اصلیت اور اس کے نام نہاد مروجہ عقائد پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ تحسین فراقی اسے Deism سے منسلک کرتے ہیں۔ جبکہ اکرام چغتائی نے اس مذہب کا تعلق اسماعیلوں کی ایک شاخ ”سلیمانیہ“

200 صفحہ
سے قائم کیا ہے۔ اس فرقے کا سربراہ سلیمان بن حسن تھا۔ جس کے نام کی نسبت سے اسے سلیمانی کہا گیا۔ ان دونوں فاضل مرتبین (تحسین فراقی او ر اکرام چغتائی ) کے مباحث بطور ضمیمہ کتا ب میں شامل کر دیے گئے ہیں (ملاحظہ فرمائیں ضمیمہ نمبر ۱ اور ضمیمہ نمبر۲) کمبل پوش کے اس نام نہاد مذہب سے متعلق ہمیں صرف اتنا کہنا ہے کہ خود صاحب معاملہ نے اس پر سیر حاصل گفتگو کی ہے اور چونکہ ا س مذہب کا کوئی باقاعدہ وجود نہیں چنانچہ اپنی آزادہ روی ، مخلوق خدا سے حسن سلوک اور دادِ عیش دینے کے حیلے پیدا کرنے کی خاطر اس نے یہ مذہب اپنی طرف سے گڑھ لیا ہے اور بس۔
٭٭٭
یوسف خاں کمبل پوش نے انگلستان کے سفر کا آغاز مارچ ۱۸۳۷ء میں کیا اور تقریباً آدھی دنیا کا سفر طے کرتا ہوا، انگلستان اور پیرس کی سیر سے لطف اندوز ہوتا ہوا ، مصر اور وسطی ہندوستان کے راستے لکھنؤ وارد ہوا۔ اس کا یہ سفر ۱۸۳۸ء کے آخری دنوں میں تمام ہوا۔ اس سفر کے دوران پیش آنے والے واقعات اور سیاحتی مقامات کی تفصیلات، جغرافیائی حالات ، مختلف معاشروں کی تہذیب و سخاوت، طرزِ زندگی ، روزمرّہ ، رسوم و عقائد، رہن سہن، تاریخی عمارات اور واقعات کی تفصیلات پر بے لاگ تبصرے اور اظہارِ خیال کرتا ہوا، انہیں ضبطِ تحریر میں لاتا گیا۔ اس سفرنامے کی اہمیت اور خوبی صرف یہ ہی نہیں ہے کہ یہ اردو کا پہلا سفرنامہ ہے بلکہ اس میں بیان کردہ واقعات عجب حیرت زاہیں اور کمبل پوش ایک کامیاب و کامران سیاح کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آتا ہے۔ کمبل پوش کی بے ساختگی ، صاف گوئی اور بے باکی نے اس سفرنامے کو خاص اہمیت کا حامل بنا دیا ہے۔ قاری کمبل پوش کی انگلی تھامے کشاں کشاں اس کے ساتھ سفر میں شریک ہو جاتا ہے اور کمبل پوش اسے ایسے دلچسپ ، قابل ذکر اور ناقابلِ فراموش مقامات کی سیر کراتا ہے کہ طویل عرصے تک اس کے ذہن سے یہ مرقعے محو نہیں ہوتے۔ اس کی جزئیات نگاری ، مرقع سازی اور منظر نگاری اس سفرنامے کو خاصے کی چیز بنا دیتے ہیں۔ اس کی مشاہدات انوکھے اور دلچسپ ہیں۔ واقعات کے بیان میں حیرت انگیزی کا عنصر نمایاں ہے اور مناظر اپنے تمام تر حسن کے ساتھ دلچسپی کے باعث ہیں۔ تحسین فراقی کمبل پوش کے سفر نامے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
”نہ صرف یہ کہ اس نے لندن کے قابلِ دید مقامات، اس کے
 
Top