تازہ غزل برائے اصلاح

صابرہ امین

لائبریرین
فخر سعید بھائی کے مضمون میں کہیں کہیں معمولی سی تبدیلی کے بعد

ہر بات پہ اے دوست خفا یوں نہ ہوا کر
جو بات سنیں تیری، تو ان کی بھی سنا کر



اک بار جو بھٹکا، گیا ایقان سے بھی وہ
الفت میں بھی توحید سے غافل نہ رہا کر


ہر آستیں میں سانپ ہے ہونٹوں پہ شہد ہے
لوگوں سے مری جان تو بچ بچ کے چلا کر

"مقطع"
میں ہجر کے اس روگ سے مرتا ہوں نہ جیتا
اب فخر دوا جو نہ سہی کچھ تو دعا کر

اک عمر گذاری ہے اسی قید میں میں نے
اب یاد کی اس قید سے تو مجھ کو رہا کر

جو موسمِ گل میں بھی رہے دور یوں اے دل
اس کج ادا کی بے رخی کا کچھ تو گلا کر
بہت اچھے ۔ ۔ زبردست
 
Top