محمد شکیل خورشید
محفلین
کہانی اک سنانی ہے
جو بیتی ہے بتانی ہے
صحیفہ درد پیہم کا
نہیں لکھا ، زبانی ہے
ضروری بات کرنی تھی
اگرچہ کچھ پرانی ہے
سرِ بازار بیٹھے ہیں
فقط اتنی کہانی ہے
مقدر کے مزاروں پر
نئی چادر بچھانی ہے
کسے سمجھائیں گے جا کر
بڑی مبہم کہانی ہے
محبت کر تو بیٹھے ہیں
کہو کیسے نبھانی ہے
بڑی تاریک ہے یہ شب
دیئے کی لو بڑھانی ہے
ہمیں احساس کرنا ہے
ہمیں ڈھارس بندھانی ہے
مداوا ہے اسی کے پاس
اسی سے لو لگانی ہے
شکیل اس شہرِ ظلمت میں
امیدِ نو جگانی ہے
جو بیتی ہے بتانی ہے
صحیفہ درد پیہم کا
نہیں لکھا ، زبانی ہے
ضروری بات کرنی تھی
اگرچہ کچھ پرانی ہے
سرِ بازار بیٹھے ہیں
فقط اتنی کہانی ہے
مقدر کے مزاروں پر
نئی چادر بچھانی ہے
کسے سمجھائیں گے جا کر
بڑی مبہم کہانی ہے
محبت کر تو بیٹھے ہیں
کہو کیسے نبھانی ہے
بڑی تاریک ہے یہ شب
دیئے کی لو بڑھانی ہے
ہمیں احساس کرنا ہے
ہمیں ڈھارس بندھانی ہے
مداوا ہے اسی کے پاس
اسی سے لو لگانی ہے
شکیل اس شہرِ ظلمت میں
امیدِ نو جگانی ہے
محترم الف عین
محمد خلیل الرحمٰن
اور دیگر اساتذہ و احباب کی نذر