امجد میانداد
محفلین
السلام علیکم،
حسان خان کی دیکھا دیکھی اب میں نے سوچا میں بھی اسلامی دنیا کے کچھ باب آپ تک پہنچاؤں۔
تو جناب اس سلسلے میں میں آج آپ کو لے کر جاؤں گا تاشقند، پہلے کچھ وکی سے تحریری پھر تصویری۔
تاشقند شہر
ازبکستان اور صوبہ تاشقند کا دارالحکومت۔ 2006ء کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق شہر کی آبادی 31 لاکھ اور غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 40 لاکھ سے زائد ہے۔ قرون وسطیٰ میں یہ شہر چچ کے نام سے جانا جاتا تھا جو بعد ازاں چچ قند یا چش قند اور پھر تاشقند بن گیا۔ ترک زبان میں تاش کا مطلب ہے پتھر جبکہ قند شہر کے لیے استعمال ہوتا ہے (جیسے سمرقند، یرقند، پنجی قند وغیرہ)۔نام کی یہ تبدیلی 16 ویں صدی کے بعد عمل میں آئی۔ موجودہ نام تاشقند (Tashkent) کے ہجے روسی اثرات کو ظاہر کرتے ہیں۔
تاریخ
تاشقند دریائے چرچک کے کنارے کوہ گولستان کے قدموں ایک نخلستان کے طور پر معروف ہوا۔ زمانہ ہائے قدیم میں اس علاقے میں کانگجو اتحاد کا گرمائی دارالحکومت تھا۔ امارت چچ، جس کا مرکزی قصبہ 5 ویں سے تیسری صدی عیسوی کے درمیان ایک مربع قلعے کی کی شکل میں تعمیر کیا گیا تھا، سیر دریا سے 8 کلومیٹر شمال میں واقع تھی۔ 7 ویں صدی عیسوی میں چچ میں 30 قصبے تھے اور 50 سے زائدنہروں کا جال بچھا ہوا تھا، جس کی وجہ سے یہ سوگدیائی اور ترک باشندوں کے درمیان تجارتی مرکز بن گیا۔ یہ خطہ 8 ویں صدی کے اوائل میں مملکت اسلامیہ کا حصہ بنا۔ عرب اس شہر کو الشش کہا کرتے تھے۔ جدید ترکی نام تاشقند (پتھر کا شہر) 10 ویں صدی میں قارہ خانی خاندان کی حکومت کے دوران ملا۔
امیر تیمور کا مجسمہ
1219ء میں چنگیز خان نے حملہ کر کے شہر کو تباہ کر دیا۔ تیموریوں اور شیبانیوں کے دور میں اس شہر نے خوب ترقی کی تاہم اس عرصے میں یہ ازبکوں، قازق باشندوں، فارسیوں، منگولوں اور دیگر اقوام کے حملوں کا نشانہ بنتا رہا۔ 1809ء میں تاشقند خانان خوقند کے زیر نگیں چلا گیا۔ اس وقت تاشقند کی آبادی ایک لاکھ تھی اور یہ وسط ایشیا کا خوشحال ترین شہر تھا۔ مئی 1865ء میں جنرل میخائل چرنیایف نے شہر پر حملہ کر کے اسے فتح کر لیا۔ عددی برتری اور مضبوط حصار حاصل ہونے کے باوجود خانان خوقند کی فوج دو روز بھی روسی افواج کے سامنے نہ ٹھہر سکی اور شہر روسیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ چرنیایف، جو شیرِ تاشقند کے نام سے مشہور ہوا، نے عوام کے دل جیتنے کے لیے خانان کے لگائے گئے تمام ناجائز محصولات ایک سال کے لیے ختم کر دیے اور عام لوگوں کے مسائل کے خاتمے کے لیے کوششیں کیں۔ اسے زار کی جانب سے تاشقند کا عسکری گورنر بنایا گیا اور اس نے زار الیگزینڈر ثانی سے یہ بھی سفارش کی کہ وہ شہر کو روس کے زیر تحفظ ایک آزاد ریاست بنا دے۔ زار نے چرنیایف اور اس کے سپاہیوں کو اعزازات و تمغوں سے نوازا لیکن کیونکہ جنرل نے یہ حملہ اُس کی اجازت کے بغیر کیا تھا اس لیے وہ زیادہ عرصہ اپنا عہدہ برقرار رکھنے میں ناکام رہا اور جلد ہی اس کی جگہ قسطنطین پیٹرووچ وان کوف مین کو مقرر کر دیا اور تاشقند کو آزاد ریاست تصور کرنے کے بجائے اسے روسی ترکستان کے نئے علاقے کا دارالحکومت بنا دیا جس کا پہلا گورنر جنرل کوف مین تھا۔ قدیم شہر کے قریب ایک چھاؤنی اور روسی آبادی بنائی گئی اور ملک کے کئی علاقوں سے روسی آبادی اور تاجروں کو آباد کیا گیا۔ وسط ایشیا پر اپنا اثر و رسوخ جمانے کے لیے روس اور [[سلطنت برطانیہ|برطانیہ] کے مابین ہونے والے تنازع، جسے عظیم کھیل (The great game) کہا جاتا ہے، کے دوران یہ شہر جاسوسی کا گڑھ بن گیا۔ 1889ء میں ٹرانس کیسپیئن ریلوے کی پٹری یہاں پہنچی اور جن کارکنان نے یہ پٹری تعمیر کی وہ یہیں آباد ہو کر رہ گئے اور جنہوں نے بالشیوک انقلاب کے بیج یہاں بھی بودیے۔
20ویں صدی
روسی سلطنت کے خاتمے اور بالشویک انقلاب کے ساتھ ہی یہاں کی صوبائی حکومت نے تاشقند کو اپنے زیر انتظام لے کر روسی استبداد سے آزادی کی کوشش کی جسے بغاوت سے تعبیر کرتے ہوئے سختی سے کچل دیا گیا۔ اپریل 1918ء کو تاشقند کو ترکستان خودمختار سوویت سوشلسٹ جمہوریہ کا دارالحکومت بنا دیا گیا۔ اس عرصے میں مسلمانوں نے بسماچی تحریک کی صورت میں علم جہاد بلند کیے رکھا لیکن روسی سلطنت نے اس ابھرتے ہوئے خطرے کا بھی خاتمہ کر دیا۔ بالآخر 1930ء میں تاشقند کو سمرقند کی جگہ ازبک سوشلسٹ سوویت جمہوریہ کا دارالحکومت بنا دیا گیا۔ 1920ء اور 1930ء کی دہائی میں شہر میں صنعتوں کا جال بچھا دیا گیا خصوصاً دوسری جنگ عظیم کے درمیان نازی جرمنوں کے حملے کے پیش نظر مغربی روس سے بڑی تعداد میں صنعتیں یہاں منتقل کی گئیں۔ ایک خاص منصوبے کے تحت یہاں کے مسلمانوں کی آبادی کے تناسب کو کم کرنے کے لیے بڑی تعداد میں روسی آبادی یہاں منتقل کی گئیں خصوصاً جنگ سے متاثرہ علاقوں کے تمام پناہ گزینوں کو مسلم اکثریتی علاقوں میں منتقل کر دیا گیا تاکہ آبادی میں "توازن" قائم کیا جا سکے۔ بالآخر ہدف حاصل کر لیا گیا کہ تاشقند کی نصف آبادی روسی باشندوں پر مشتمل ہو جائے۔ 26 اپریل 1966ء کو آنے والے ایک شدید زلزلے میں تاشقند کو زبردست نقصان پہنچا۔ اس زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر 7.5 تھی۔ اس زلزلے کے نتیجے میں 3 لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔ 1991ء میں سوویت روس کے زوال کے وقت تاشقند ملک کا چوتھا بڑا شہر اور سائنس و انجینئرنگ کے شعبہ جات میں تعلیم کا مرکز تھا۔ سوویت اتحاد سے آزادی کے بعد تاشقند نومولود ریاست ازبکستان کا دارالحکومت قرار پایا۔ شہر میں آج بھی روسی آبادی کثیر تعداد میں موجود ہے۔ شہر اپنی سرسبز شاہراہوں، فواروں اور دلفریب باغات کے باعث مشہور ہے۔ تاشقند متعدد بار دہشت گرد حملوں کا نشانہ بھی بن چکا ہے جس کا الزام حکومت مبینہ اسلامی انتہا پسندوں پر عائد کرتی ہے۔ 1991ء میں آزادی کے بعد شہر میں اقتصادی، ثقافتی اور تعمیراتی اعتبار سے کافی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ جس جگہ لینن کا سب سے بڑا مجسمہ ایستادہ تھا آج اس کی جگہ ایک کرۂ زمین نصب کر دیا گیا ہے۔ سوویت دور کی عمارتوں کی جگہ اب جدید عمارتیں لے رہی ہیں جس کی ایک مثال تاشقند کا مرکزی تجارتی علاقہ ہے جہاں 22 منزلہ این بی یو بینک، انٹرکانٹی نینٹل ہوٹل، انٹرنیشنل بزنس سینٹر اور پلازہ بلڈنگ کی صورت میں فلک بوس عمارتیں کھڑی ہیں۔ سوویت دور کی پابندیوں کے بعد یہاں کے مسلمانوں کو اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی اور اپنی عبادت گاہوں کی دیکھ بھال کی کھلی اجازت ملی۔ 2007ء میں تاشقند کو اسلامی دنیا کا ثقافتی دارالحکومت قرار دیا گیا۔
قابل دید مقامات
1917ء میں انقلاب روس کے بعد شہر کی کئی قدیم خصوصاً مذہبی عمارات کو تباہ کر دیا گیا اور رہی سہی کسر سوویت دور میں صنعتی انقلاب اور بعد ازاں 1966ء کے زلزلے نے پوری کر دی۔ اس لیے تاشقند کے عظیم ثقافتی و تعمیراتی ورثے میں سے بہت کم بچا ہے۔ اس کے باوجود تاشقند میں عجائب گھر اور سوویت دور کی کثیر یادگاریں موجود ہیں۔
کوکلداش مدرسہ
1557ء سے 1598ء تک برسر اقتدار رہنے والے عبد اللہ خان کے زمانے سے قائم ہونے والا مسجد و مدرسہ اب مسلمانان ماوراء النہر کے صوبائی مذہبی بورڈ نے بحال کیا ہے۔ اسے ایک عجائب گھر میں تبدیل کرنے کی سفارشات ہیں لیکن فی الوقت یہ بطور مسجد استعمال ہو رہا ہے۔
کورشو بازار
کوکلداش مدرسہ کے قریب ایک بہت بڑا بازار ہے جو قدیم شہر تاشقند کا مرکز تھا۔ یہاں ضروریات زندگی کی تمام اشیاء دستیاب ہیں۔
خشت امام مسجد
اس مسجد کی خاص بات ہے یہاں صحیفہ عثمانی کی موجودگي جو خلیفہ ثالث حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زیر استعمال قرآن ہے۔ یہ دنیا کا قدیم ترین نسخہ قرآن ہے۔ 655ء کے اس نایاب نسخے پر خون کے کچھ نشانات بھی ہیں جو شہادت عثمان سے وابستہ کیے جاتے ہیں۔ یہ نسخہ امیر تیمور اپنے ساتھ سمرقند لایا تھا جسے روسیوں نے قبضے کے بعد سینٹ پیٹرز برگ منتقل کر دیا۔ 1989ء میں یہ نسخہ ازبکستان کو واپس دیا گیا۔ 15 ویں صدی کے چند مزارات کو بھی 19 ویں صدی میں بحال کیا گیا جس میں مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر کے دادا یونس خان کا مقبرہ بھی شامل ہے۔
شہزادہ رومانوف کا محل
شہزادہ رومانوف کا محل
19 ویں صدی میں الیگزینڈر ثالث کے قریبی عزیز نکولائی کونسٹاٹینووچ کو روسی شاہی جواہرات کی مشتبہ سودے بازیاں کرنے پر تاشقند جلاوطن کر دیا گیا۔ ان کی قیام گاہ آج بھی مرکز شہر میں موجود ہے۔ وزارت امور خارجہ کے زیر اہتمام اس عجائب گھر قرار دیے جانے والے محل میں قبل از روس کی تاریخ کے مجسمے، فن پارے اور 19 ویں اور 20 ویں صدی کے دستکاریوں کے کئی نمونےموجود ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں رومانوف کی جانب سے لائی گئی تصاویر کا وسیع مجموعہ بھی دیکھنے لائق ہے۔ عجائب گھر کے عقب میں ایک چھوٹا سا باغیچہ ہے جس میں 1917ء کے انقلاب روس میں مارے گئے بالشویک انقلابیوں کے علاوہ پہلے ازبکستانی صدر یلدش اخون بابایف کی قبریں موجود ہیں۔
علی شیر نوائی اوپیرا اور بیلے تھیٹر
ماسکو میں لینن کا مقبرہ تعمیر کرنے والے ماہر تعمیرات الیکسی شوسیف کے ذہن کی ایک اور تخلیقی کاوش اس شہر میں واقع یہ تھیٹر ہے۔ اس تھیٹر کی تعمیر میں دوسری جنگ عظیم میں پکڑے گئے جاپانی قیدیوں کو بطور مزدور استعمال کیا گیا تھا۔ ترکی کے قدیم شاعر علی شیر نوائی کے نام سے موسوم ہے۔
تاریخی عجائب گھر
سابق لینن عجائب گھر میں واقع یہ تاشقند کا سب سے بڑا عجائب گھر ہے۔
امیر تیمور عجائب گھر
امیر تیمور عجائب گھر
نیلے گنبد اور آراستہ و پیراستہ اندرونی دیواروں کی حامل یہ متاثر کن عمارت میں امیر تیمور اور صدر اسلام کریموف کی یادگاریں موجودہیں۔ عجائب گھر کے باہر واقع باغیچہ میں گھوڑے پر سوار امیر تیمور کا ایک مجسمہ ایستادہ ہے۔ عجائب گھر کے گرد شہر کے خوبصورت ترین باغ اور فوارے واقع ہیں۔
منفرد خصوصیات
یہاں وسط ایشیا کا واحد زیر زمین ریلوے نظام واقع ہے۔ (استانا اور الماتے میں ابھی یہ نظام تعمیراتی مراحل میں ہے) تاشقند میں ملک کا سب سے ہوائی اڈہ واقع ہے جو شہر کو ایشیا، یورپ اور امریکین سے جوڑتا ہے۔ شہر کا سب سے بڑا چوراہا، جو سوویت دور میں آزادی چوک کہلاتا تھا، سوویت دور میں لینن کے سب سے طویل القامت (30 میٹر) مجسمے کا حامل تھا۔ 1992ء میں لینن کے مجسمہ کی جگہ یہاں دنیا ایک کرۂ زمین نصب کر دیا گیا ہے جس پر ازبکستان کو واضح کیا گیا ہے۔
تعلیمی ادارے
شہر کی چند جامعات اور اعلٰی تعلیم کے ادارے:
حسان خان کی دیکھا دیکھی اب میں نے سوچا میں بھی اسلامی دنیا کے کچھ باب آپ تک پہنچاؤں۔
تو جناب اس سلسلے میں میں آج آپ کو لے کر جاؤں گا تاشقند، پہلے کچھ وکی سے تحریری پھر تصویری۔
تاشقند شہر
ازبکستان اور صوبہ تاشقند کا دارالحکومت۔ 2006ء کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق شہر کی آبادی 31 لاکھ اور غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 40 لاکھ سے زائد ہے۔ قرون وسطیٰ میں یہ شہر چچ کے نام سے جانا جاتا تھا جو بعد ازاں چچ قند یا چش قند اور پھر تاشقند بن گیا۔ ترک زبان میں تاش کا مطلب ہے پتھر جبکہ قند شہر کے لیے استعمال ہوتا ہے (جیسے سمرقند، یرقند، پنجی قند وغیرہ)۔نام کی یہ تبدیلی 16 ویں صدی کے بعد عمل میں آئی۔ موجودہ نام تاشقند (Tashkent) کے ہجے روسی اثرات کو ظاہر کرتے ہیں۔
تاریخ
تاشقند دریائے چرچک کے کنارے کوہ گولستان کے قدموں ایک نخلستان کے طور پر معروف ہوا۔ زمانہ ہائے قدیم میں اس علاقے میں کانگجو اتحاد کا گرمائی دارالحکومت تھا۔ امارت چچ، جس کا مرکزی قصبہ 5 ویں سے تیسری صدی عیسوی کے درمیان ایک مربع قلعے کی کی شکل میں تعمیر کیا گیا تھا، سیر دریا سے 8 کلومیٹر شمال میں واقع تھی۔ 7 ویں صدی عیسوی میں چچ میں 30 قصبے تھے اور 50 سے زائدنہروں کا جال بچھا ہوا تھا، جس کی وجہ سے یہ سوگدیائی اور ترک باشندوں کے درمیان تجارتی مرکز بن گیا۔ یہ خطہ 8 ویں صدی کے اوائل میں مملکت اسلامیہ کا حصہ بنا۔ عرب اس شہر کو الشش کہا کرتے تھے۔ جدید ترکی نام تاشقند (پتھر کا شہر) 10 ویں صدی میں قارہ خانی خاندان کی حکومت کے دوران ملا۔
امیر تیمور کا مجسمہ
1219ء میں چنگیز خان نے حملہ کر کے شہر کو تباہ کر دیا۔ تیموریوں اور شیبانیوں کے دور میں اس شہر نے خوب ترقی کی تاہم اس عرصے میں یہ ازبکوں، قازق باشندوں، فارسیوں، منگولوں اور دیگر اقوام کے حملوں کا نشانہ بنتا رہا۔ 1809ء میں تاشقند خانان خوقند کے زیر نگیں چلا گیا۔ اس وقت تاشقند کی آبادی ایک لاکھ تھی اور یہ وسط ایشیا کا خوشحال ترین شہر تھا۔ مئی 1865ء میں جنرل میخائل چرنیایف نے شہر پر حملہ کر کے اسے فتح کر لیا۔ عددی برتری اور مضبوط حصار حاصل ہونے کے باوجود خانان خوقند کی فوج دو روز بھی روسی افواج کے سامنے نہ ٹھہر سکی اور شہر روسیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ چرنیایف، جو شیرِ تاشقند کے نام سے مشہور ہوا، نے عوام کے دل جیتنے کے لیے خانان کے لگائے گئے تمام ناجائز محصولات ایک سال کے لیے ختم کر دیے اور عام لوگوں کے مسائل کے خاتمے کے لیے کوششیں کیں۔ اسے زار کی جانب سے تاشقند کا عسکری گورنر بنایا گیا اور اس نے زار الیگزینڈر ثانی سے یہ بھی سفارش کی کہ وہ شہر کو روس کے زیر تحفظ ایک آزاد ریاست بنا دے۔ زار نے چرنیایف اور اس کے سپاہیوں کو اعزازات و تمغوں سے نوازا لیکن کیونکہ جنرل نے یہ حملہ اُس کی اجازت کے بغیر کیا تھا اس لیے وہ زیادہ عرصہ اپنا عہدہ برقرار رکھنے میں ناکام رہا اور جلد ہی اس کی جگہ قسطنطین پیٹرووچ وان کوف مین کو مقرر کر دیا اور تاشقند کو آزاد ریاست تصور کرنے کے بجائے اسے روسی ترکستان کے نئے علاقے کا دارالحکومت بنا دیا جس کا پہلا گورنر جنرل کوف مین تھا۔ قدیم شہر کے قریب ایک چھاؤنی اور روسی آبادی بنائی گئی اور ملک کے کئی علاقوں سے روسی آبادی اور تاجروں کو آباد کیا گیا۔ وسط ایشیا پر اپنا اثر و رسوخ جمانے کے لیے روس اور [[سلطنت برطانیہ|برطانیہ] کے مابین ہونے والے تنازع، جسے عظیم کھیل (The great game) کہا جاتا ہے، کے دوران یہ شہر جاسوسی کا گڑھ بن گیا۔ 1889ء میں ٹرانس کیسپیئن ریلوے کی پٹری یہاں پہنچی اور جن کارکنان نے یہ پٹری تعمیر کی وہ یہیں آباد ہو کر رہ گئے اور جنہوں نے بالشیوک انقلاب کے بیج یہاں بھی بودیے۔
20ویں صدی
روسی سلطنت کے خاتمے اور بالشویک انقلاب کے ساتھ ہی یہاں کی صوبائی حکومت نے تاشقند کو اپنے زیر انتظام لے کر روسی استبداد سے آزادی کی کوشش کی جسے بغاوت سے تعبیر کرتے ہوئے سختی سے کچل دیا گیا۔ اپریل 1918ء کو تاشقند کو ترکستان خودمختار سوویت سوشلسٹ جمہوریہ کا دارالحکومت بنا دیا گیا۔ اس عرصے میں مسلمانوں نے بسماچی تحریک کی صورت میں علم جہاد بلند کیے رکھا لیکن روسی سلطنت نے اس ابھرتے ہوئے خطرے کا بھی خاتمہ کر دیا۔ بالآخر 1930ء میں تاشقند کو سمرقند کی جگہ ازبک سوشلسٹ سوویت جمہوریہ کا دارالحکومت بنا دیا گیا۔ 1920ء اور 1930ء کی دہائی میں شہر میں صنعتوں کا جال بچھا دیا گیا خصوصاً دوسری جنگ عظیم کے درمیان نازی جرمنوں کے حملے کے پیش نظر مغربی روس سے بڑی تعداد میں صنعتیں یہاں منتقل کی گئیں۔ ایک خاص منصوبے کے تحت یہاں کے مسلمانوں کی آبادی کے تناسب کو کم کرنے کے لیے بڑی تعداد میں روسی آبادی یہاں منتقل کی گئیں خصوصاً جنگ سے متاثرہ علاقوں کے تمام پناہ گزینوں کو مسلم اکثریتی علاقوں میں منتقل کر دیا گیا تاکہ آبادی میں "توازن" قائم کیا جا سکے۔ بالآخر ہدف حاصل کر لیا گیا کہ تاشقند کی نصف آبادی روسی باشندوں پر مشتمل ہو جائے۔ 26 اپریل 1966ء کو آنے والے ایک شدید زلزلے میں تاشقند کو زبردست نقصان پہنچا۔ اس زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر 7.5 تھی۔ اس زلزلے کے نتیجے میں 3 لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔ 1991ء میں سوویت روس کے زوال کے وقت تاشقند ملک کا چوتھا بڑا شہر اور سائنس و انجینئرنگ کے شعبہ جات میں تعلیم کا مرکز تھا۔ سوویت اتحاد سے آزادی کے بعد تاشقند نومولود ریاست ازبکستان کا دارالحکومت قرار پایا۔ شہر میں آج بھی روسی آبادی کثیر تعداد میں موجود ہے۔ شہر اپنی سرسبز شاہراہوں، فواروں اور دلفریب باغات کے باعث مشہور ہے۔ تاشقند متعدد بار دہشت گرد حملوں کا نشانہ بھی بن چکا ہے جس کا الزام حکومت مبینہ اسلامی انتہا پسندوں پر عائد کرتی ہے۔ 1991ء میں آزادی کے بعد شہر میں اقتصادی، ثقافتی اور تعمیراتی اعتبار سے کافی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ جس جگہ لینن کا سب سے بڑا مجسمہ ایستادہ تھا آج اس کی جگہ ایک کرۂ زمین نصب کر دیا گیا ہے۔ سوویت دور کی عمارتوں کی جگہ اب جدید عمارتیں لے رہی ہیں جس کی ایک مثال تاشقند کا مرکزی تجارتی علاقہ ہے جہاں 22 منزلہ این بی یو بینک، انٹرکانٹی نینٹل ہوٹل، انٹرنیشنل بزنس سینٹر اور پلازہ بلڈنگ کی صورت میں فلک بوس عمارتیں کھڑی ہیں۔ سوویت دور کی پابندیوں کے بعد یہاں کے مسلمانوں کو اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی اور اپنی عبادت گاہوں کی دیکھ بھال کی کھلی اجازت ملی۔ 2007ء میں تاشقند کو اسلامی دنیا کا ثقافتی دارالحکومت قرار دیا گیا۔
قابل دید مقامات
1917ء میں انقلاب روس کے بعد شہر کی کئی قدیم خصوصاً مذہبی عمارات کو تباہ کر دیا گیا اور رہی سہی کسر سوویت دور میں صنعتی انقلاب اور بعد ازاں 1966ء کے زلزلے نے پوری کر دی۔ اس لیے تاشقند کے عظیم ثقافتی و تعمیراتی ورثے میں سے بہت کم بچا ہے۔ اس کے باوجود تاشقند میں عجائب گھر اور سوویت دور کی کثیر یادگاریں موجود ہیں۔
کوکلداش مدرسہ
1557ء سے 1598ء تک برسر اقتدار رہنے والے عبد اللہ خان کے زمانے سے قائم ہونے والا مسجد و مدرسہ اب مسلمانان ماوراء النہر کے صوبائی مذہبی بورڈ نے بحال کیا ہے۔ اسے ایک عجائب گھر میں تبدیل کرنے کی سفارشات ہیں لیکن فی الوقت یہ بطور مسجد استعمال ہو رہا ہے۔
کورشو بازار
کوکلداش مدرسہ کے قریب ایک بہت بڑا بازار ہے جو قدیم شہر تاشقند کا مرکز تھا۔ یہاں ضروریات زندگی کی تمام اشیاء دستیاب ہیں۔
خشت امام مسجد
اس مسجد کی خاص بات ہے یہاں صحیفہ عثمانی کی موجودگي جو خلیفہ ثالث حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زیر استعمال قرآن ہے۔ یہ دنیا کا قدیم ترین نسخہ قرآن ہے۔ 655ء کے اس نایاب نسخے پر خون کے کچھ نشانات بھی ہیں جو شہادت عثمان سے وابستہ کیے جاتے ہیں۔ یہ نسخہ امیر تیمور اپنے ساتھ سمرقند لایا تھا جسے روسیوں نے قبضے کے بعد سینٹ پیٹرز برگ منتقل کر دیا۔ 1989ء میں یہ نسخہ ازبکستان کو واپس دیا گیا۔ 15 ویں صدی کے چند مزارات کو بھی 19 ویں صدی میں بحال کیا گیا جس میں مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر کے دادا یونس خان کا مقبرہ بھی شامل ہے۔
شہزادہ رومانوف کا محل
شہزادہ رومانوف کا محل
19 ویں صدی میں الیگزینڈر ثالث کے قریبی عزیز نکولائی کونسٹاٹینووچ کو روسی شاہی جواہرات کی مشتبہ سودے بازیاں کرنے پر تاشقند جلاوطن کر دیا گیا۔ ان کی قیام گاہ آج بھی مرکز شہر میں موجود ہے۔ وزارت امور خارجہ کے زیر اہتمام اس عجائب گھر قرار دیے جانے والے محل میں قبل از روس کی تاریخ کے مجسمے، فن پارے اور 19 ویں اور 20 ویں صدی کے دستکاریوں کے کئی نمونےموجود ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں رومانوف کی جانب سے لائی گئی تصاویر کا وسیع مجموعہ بھی دیکھنے لائق ہے۔ عجائب گھر کے عقب میں ایک چھوٹا سا باغیچہ ہے جس میں 1917ء کے انقلاب روس میں مارے گئے بالشویک انقلابیوں کے علاوہ پہلے ازبکستانی صدر یلدش اخون بابایف کی قبریں موجود ہیں۔
علی شیر نوائی اوپیرا اور بیلے تھیٹر
ماسکو میں لینن کا مقبرہ تعمیر کرنے والے ماہر تعمیرات الیکسی شوسیف کے ذہن کی ایک اور تخلیقی کاوش اس شہر میں واقع یہ تھیٹر ہے۔ اس تھیٹر کی تعمیر میں دوسری جنگ عظیم میں پکڑے گئے جاپانی قیدیوں کو بطور مزدور استعمال کیا گیا تھا۔ ترکی کے قدیم شاعر علی شیر نوائی کے نام سے موسوم ہے۔
تاریخی عجائب گھر
سابق لینن عجائب گھر میں واقع یہ تاشقند کا سب سے بڑا عجائب گھر ہے۔
امیر تیمور عجائب گھر
امیر تیمور عجائب گھر
نیلے گنبد اور آراستہ و پیراستہ اندرونی دیواروں کی حامل یہ متاثر کن عمارت میں امیر تیمور اور صدر اسلام کریموف کی یادگاریں موجودہیں۔ عجائب گھر کے باہر واقع باغیچہ میں گھوڑے پر سوار امیر تیمور کا ایک مجسمہ ایستادہ ہے۔ عجائب گھر کے گرد شہر کے خوبصورت ترین باغ اور فوارے واقع ہیں۔
منفرد خصوصیات
یہاں وسط ایشیا کا واحد زیر زمین ریلوے نظام واقع ہے۔ (استانا اور الماتے میں ابھی یہ نظام تعمیراتی مراحل میں ہے) تاشقند میں ملک کا سب سے ہوائی اڈہ واقع ہے جو شہر کو ایشیا، یورپ اور امریکین سے جوڑتا ہے۔ شہر کا سب سے بڑا چوراہا، جو سوویت دور میں آزادی چوک کہلاتا تھا، سوویت دور میں لینن کے سب سے طویل القامت (30 میٹر) مجسمے کا حامل تھا۔ 1992ء میں لینن کے مجسمہ کی جگہ یہاں دنیا ایک کرۂ زمین نصب کر دیا گیا ہے جس پر ازبکستان کو واضح کیا گیا ہے۔
تعلیمی ادارے
شہر کی چند جامعات اور اعلٰی تعلیم کے ادارے:
- تاشقند اسٹیٹ ٹیکنیکل یونیورسٹی
- انٹرنیشنل بزنس اسکول "کالجاک علمی"
- تاشقند یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجیز
- ویسٹ منسٹر انٹرنیشنل یونیورسٹی تاشقند
- قومی جامعہ ازبکستان
- یونیورسٹی آف ورلڈ اکنامی اینڈ ڈپلومیسی
- تاشقند اسٹیٹ اکنامک یونیورسٹی
- تاشقند اسٹیٹ انسٹیٹیوٹ آف لا
- تاشقند انسٹیٹیوٹ آف فنانس
- اسٹیٹ یونیورسٹی آف فارن لینگویجز
- کنزرویٹری آف میوزک
- تاشقند اسٹیٹ میڈیسن اکیڈمی
- انسٹیٹیوٹ آف اورینٹل اسٹیڈیز
- تاشقند اسلامک یونیورسٹی