تبدیلی آگئی ہے

پنڈی کا غریب کمپیوٹر ہارڈویر ٹیکنیشن بھی رکن پنجاب اسمبلی بن گیا
﴿نوائے وقت رپورٹ﴾ راولپنڈی پی پی 9 سے پاکستان تحریک انصاف کی سیٹ سے انتخاب لڑنے والا ہارڈویئر ٹیکنیشن آصف محمود بھی رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوگیا۔ آصف محمود راحت سٹریٹ کینٹ کے حلقہ میں اپنے بھائی کے ساتھ رہتا ہے۔ وہ شادی شدہ اور دو کمسن بیٹیوں اور ایک بیٹے کاباپ ہے۔ اسکے پاس صرف ایک موٹرسائیکل ہے جس پر وہ اپنی کنویسنگ کرتا رہا جبک ہ غربت کے باعث اپنے سٹکر اور بینر بھی نہ چھپوا سکا اور اسکے بینر خال خال ہی کہیں دکھائی دیتے ہیں لیکن اسکے باوجود اس نے غیر سرکاری نتائج کے مطابق مسلم لیگ ن کے مضبوط امیدوار چودھری ایاز جو سابق ایم پی اے بھی ہیں کو 110 ووٹوں سے ہرا دیا اور رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوگیا۔ کمپیوٹر ٹھیک کر کے اپنی گزربسر کرنے والے آصف محمود کا کہنا ہے کہ اسکی کامیابی پسے ہوئے اور پسماندہ مجبور طبقے کی آواز ہے او وہ عوام کی توقعات پر پورا اترنے کیلئے ہر ممکن کوشش کریں گے اور انہیں مایوس نہیں کریں گے۔
 
news-1368389761-3150.gif

الطاف مجاہد
سندھ میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی مجموعی 191نشستوں کےلئے ہزاروں امیدوار میدان میں اترے تھے اور ان میں خواتین بھی بڑی تعداد میں شامل تھیں پی پی نے آصف زرداری کی بہنوں عذرا پیچوہو‘ فریال تالپور‘ سسی پلیجو‘ شازیہ مری ‘ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا‘ ثانیہ ناز‘ نفیسہ شاہ کو ٹکٹ دیئے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر ماروی میمن‘ راحیلہ مگسی امیدوار تھیں فنکشنل لیگ نے بی بی یاسمین شاہ کو میدان میںتارا۔ پی پی ش ب کی سربراہ غنویٰ بھٹو اور ارشاد خاتون نے انتخاب لڑا جبکہ مجلس وحدت المسلمین کی بانو جعفر‘ تحریک انصاف کی زرینہ سرور‘ آل پاکستان مسلم لیگ کی پارسا شاہ‘ متحدہ قومی موومنٹ کی خوش بخت شجاعت‘ ہیر سو ہو‘ تحریک انصاف کی ناز بلوچ‘ مہاجر قوی موومنٹ کی رانی بیگم‘ شاہین عدنان‘ قومی عوامی تحریک کی حاجیانی لنجو‘ ڈاکٹر سندھو منگہنار نے بھی انتخاب لڑا۔ آزاد حیثیت میں ویر و کولہی ‘ ریحانہ شاداب‘ جمنا ڈی ایم مہاراج‘ ہما تالپور‘ صبا بھٹی اور ڈاکٹر فوزیہ صدیقی امیدوار تھیں ان تمام میں سے کچھ نے کاغذات نا مزدگی واپس لے لئے بعض نے دستبرداری کا فیصلہ کیا اور کم و بیش ڈیڑھ درجن خواتین نے الیکشن لڑا اور مقابلہ کیا۔
2013ءکے الیکشن میں ملک بھر سے 849 خواتین قومی و صوبائی اسمبلی کی جنرل نشستوں پر حصہ لے رہی ہیں ان میں سے سندھ کے 59 حلقوں سے 94 خواتین امیدوار ہیں ملک بھر میں 3 کروڑ 71 لاکھ 62 ہزار 760 عورتیں اپنا حق رائے دہی استعمال کریںگی یہ آج کا سندھ ہے جس میں صنف نازک نے اپنی اہمیت تسلیم کرالی ہے سندھ کی 94 خواتین امیدواروں میںویسے تو نمایاں خاندانوں کی شخصیات ہی کی اکثریت غالب ہے لیکن اس بار کچھ نئے چہرے بھی سامنے آئے جن میں ایک نام ویرو کولہی کا بھی ہے ویسے تو مائی حاجیانی لنجو‘ ناز بلوچ ‘ ثانیہ ناز کی انٹری بھی چونکا دینے والا واقعہ ہے۔ لیکن مائی ویرو کولہی نے جو ایک کسان کی بیٹی ہیں پی ایس 50 حیدرآباد سے سابق صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن کو چیلنج کر کے ایک نئی روایت کی بنیاد رکھی ہے اس حلقے سے ماضی میں پی پی کے امیدوار کامیاب ہوتے رہے ہیں لیکن اس مرتبہ ویرو کولہی نے یہ جانتے ہوئے کہ جاگیردارانہ رسم و رواج والے سماج میں تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر کرنا آسان نہیں خود کو میدان عمل میں لا کھڑا کیا۔ انہوں نے کہا کہ و ہ خالی ہاتھ مگر جرات مندی کے ساتھ الیکشن لڑ رہی ہیں۔ جبری مشقت کا خاتمہ ان کی زندگی کا مشن ہے۔ ا قلیتی کولہی کمیونٹی کے روایتی لباس میں ویرو واقعتاً ایک دیہاتی گھریلو عورت نظر آتی ہے وہ کسی کو نہ بتائے تو کون یقین کرے گا کہ اس نے دنیا کے بہت سے ملکوں کا دورہ کیا ہے اسے 2009 ءمیں ڈگلس فریڈم ایوارڈ ملا ہے اور بھارت ‘ جرمنی‘ برطانیہ میں اسے خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ کہنیوں تک چوڑیا ں پہنے‘ ماتھے پر تلک لگائے اور ناک میں لونگ و گلے میں موتیوں کی مالا میں وہ ایسی عورت محسوس ہوتی ہیں جس نے کبھی محنت سے جی نہ چرایا ہو کھیت مزدوری کی مشقت اس کے چہرے سے عیاں ہے جاگیردارانہ سوسائٹی نے اسے دل بھر کر ستایا تھا۔ 74 سالہ ویرو کے خاندان نے نجی جیل کی اسیری برداشت کی پھر اس نے پولیس سے رابطہ کیا ۔ رہائی ملی تو اپنے شوہر سمیت پھر سے زندگی کے سفر کا آغاز کیا اس جدوجہد میں اس نے اپنے جیسے 4 ہزار کسانوں‘ بھٹہ مزدوری کو جبری مشقت سے نجات دلائی جو آج معاشرے کے باعزت شہری ہیں۔ ویرو نے آزاد حیثیت میں کاغذات جمع کرائے تو پی پی کے شرجیل میمن اور خاوند بخش جھیجو ان کے مقابل تھے ظاہر ہے کہ پی پی کے پاور بیس میں فنکشنل لیگ‘ سندھی قومی پرستوں ‘ ن لیگ‘ جماعت اسلامی سمیت 10 جماعتی اتحاد سے مقابلہ آسان نہ تھا لیکن اس نے یہ کر دکھایا جعفر آباد کی مائی جوری جمالی کی طرح جس نے 2011ءکے ضمنی الیکشن میں جمالی خاندان ہی کے رستم جمالی کے مد مقابل انتخاب لڑا تھا گو کہ جوری بھی جیت نہیں سکی تھی لیکن یہ کیا کم تھا کہ اس نے جبر اور ستم کے ماحول میں نعرہ مستانہ بلند کر کے غریب آبادی کو ایک نئی آواز عطا کی تھی یہی کردار ویرو کولہی کا ہے جو ہاریوں اور مزدوروں کے حقوق کا تحفظ چاہتی ہے۔ انہوں نے ایک ٹی وی چینل سے کہا نہ ہمارے پاس پیسے ہیں نہ گاڑیاں کہ کسی کو کھانا کھلائیں یا پولنگ اسٹیشن لے جائیں البتہ ہمارا ماضی لوگوں کے سامنے ہے کہ ہم نے غریبوں کے لئے بہت کچھ کیا ہے وہ بتانے لگیں کہ ایک بار بدین کے کسان زمیندار کی جیل سے آزادی پا کر کسان آئے تو ان کے پاس کچھ نہ تھا ہمارے سماج میں عورت کاچوڑیاں اتارنا بدشگونی ہوتی ہے لیکن میں نے ساتھی عورتوں کے منع کرنے کے باوجود سہاگ کی علامت طلائی چوڑیاں اتار کر فروخت کیں اور ان کے کھانے پینے کا بندوبست کیا کہ بھوکے خاندان کا پیٹ بھرے گا تو میرا سہاگ بھی سلامت رہے گا۔
فتح و شکست سے بے نیاز ویرو کولہی کا کہنا ہے کہ میں نے برسوں سے جمع پانی میں نکر پھینک کر ارتعاش پیدا کیا ہے یقینا جلد یا بدیر تبدیلی آکر رہے گی۔
 

جہانزیب

محفلین
اس طرح کی مثالیں پہلے بھی موجود ہیں ۔ جمشید دستی بس کنڈیکٹر تھا اور شاہی سید کراچی میں رکشہ چلاتا تھا ۔
 
اس طرح کی مثالیں پہلے بھی موجود ہیں ۔ جمشید دستی بس کنڈیکٹر تھا اور شاہی سید کراچی میں رکشہ چلاتا تھا ۔
اسطرح کی سینکڑوں مثالیں کراچی اور حیدرآباد میں ایم کیو ایم نے دیں ، لیکن ہوا کیا حلیم بیچنے والے پراپرٹی ٹایکون بن گیا! معمولی دوکاندار ارب پتی بن گئے اور دبئی میں شوروم چلانے لگے، یہ تبدیلی تو صرف انفرادی ہوئی نا، اجتمائی تبدیلی کی بات الگ ہے، شاہی سید کیا ووٹ کی طاقت سے اسمبلی تک پہنچا؟ شاہی سید اب کیا ہے کیا وہ اب بھی رکشہ چلاتا ہے؟ جمشید دستی مان لیا اسمبلی تک پہنچا مگر وہ اب کیا کنڈکٹری کرتا ہے؟ بات صاف اور سیدھی سی ہے تبدیلی آئی ہے !لوگوں کے اندر الیکٹرانک ، پرنٹ اور سوشل میڈیا کی وجہ سے شعوری ارتقا پیدا ہوا ہے خاندانوں،شخصیتوں یا بڑے بڑے ناموں کی جگہ انکے کارناموں کی بنیاد پر ووٹ ڈلے ہیں، جماعتوں کے منشوروں کو لوگوں نے اس بار غور سے پڑھا ہے اور مجھے یقین ہے کہ خیبر پختونخواہ کی طرح آئندہ (اگر جمہوری عمل چلتا رہا) سیاستدانوں کے لئے پورے ملک میں سبز باغوں، لاشوں یا مردوں کی سیاست، ٹوپی ڈرامے ، لڑاوء اور حکومت کرو کی پالیسی پر عمل کر کےووٹ لینا اور حکومت کرنا بہت مشکل ہو جائے گا!
 

جہانزیب

محفلین
سر آپ فکر نہ کریں آصف محمود صاحب بھی اب کمپیوٹر درست نہیں کریں گے، قوم نے ان کے کندھوں پر ذمہ داری ڈالی ہے اور اگر کمپیوٹر ٹھیک کرتے رہے تو قوم کے ساتھ ظلم ہو گا، اور اب اسمبلی کے اجلاسوں میں جانا ہے اور اسی بات کی انہیں تنخواہ ملے گی ۔
پیپلزپارٹی کے ایسے بہت سے نام ہیں جو بڑے عہدوں پر رہنے کے باوجود کسمپرسی میں زندگی گزار گئے، لیکن اب ایسی مثالیں پیپلزپارٹی میں نہیں ملتی ۔ اسی طرح مسلم لیگ کی طرف سے غلام حیدر وائیں مرحوم جو وزیراعلی پنجاب رہے اسکول ٹیچر تھے اور جب قتل ہوئے تو ان کے نام ذاتی گھر بھی نہیں تھا ۔ دعا یہ کرنا چاہیے کہ اقتدار ملنے کے بعد انسان اپنا آپ نہ بھولے، چاہے کسی بھی پارٹی میں کیوں نہ ہو ۔ وہ انگریزی میں مثال ہے Power corrupts and absolute power corrupts absolutely بس دعا ہے کہ ایسے لوگوں کو اقتدار نہ ملے ۔
 
سر آپ فکر نہ کریں آصف محمود صاحب بھی اب کمپیوٹر درست نہیں کریں گے، قوم نے ان کے کندھوں پر ذمہ داری ڈالی ہے اور اگر کمپیوٹر ٹھیک کرتے رہے تو قوم کے ساتھ ظلم ہو گا، اور اب اسمبلی کے اجلاسوں میں جانا ہے اور اسی بات کی انہیں تنخواہ ملے گی ۔
پیپلزپارٹی کے ایسے بہت سے نام ہیں جو بڑے عہدوں پر رہنے کے باوجود کسمپرسی میں زندگی گزار گئے، لیکن اب ایسی مثالیں پیپلزپارٹی میں نہیں ملتی ۔ اسی طرح مسلم لیگ کی طرف سے غلام حیدر وائیں مرحوم جو وزیراعلی پنجاب رہے اسکول ٹیچر تھے اور جب قتل ہوئے تو ان کے نام ذاتی گھر بھی نہیں تھا ۔ دعا یہ کرنا چاہیے کہ اقتدار ملنے کے بعد انسان اپنا آپ نہ بھولے، چاہے کسی بھی پارٹی میں کیوں نہ ہو ۔ وہ انگریزی میں مثال ہے Power corrupts and absolute power corrupts absolutely بس دعا ہے کہ ایسے لوگوں کو اقتدار نہ ملے ۔
اسی طرح کی ایک مثال معراج خالد مرحوم تھے، انکا تعلق ایک انتہائی غریب خاندان سے تھا لیکن قومی اسمبلی کے ممبر اور اسپیکر بھی رہے لیکن انکی سادگی یا غربت میں کوئی کمی نہیں آئ، انکا ایک واقعہ بہت مشہور ہے کہ وہ جب نگران وزیر اعظم تھے تو لاہور میں اپنی سرکاری گاڑی میں جارہے تھے راستے میں بہت ٹریفک جام میں پھنس گئے استفسار کرنے پر ڈرائیور نے بتایا کہ گورنر پنجاب کا موٹرکیڈ گزر رہا ہے۔۔۔
 
Top