تبدیلی آگئی ہے

اور دعا ہے پاکستان کو وزیر اعظم.مل جائے سندھ پنجاب سرحد بلوچستان کو تو بہت ملے پر پاکستان کا وزیر اعظم آج تک نہ ملا. . . . کیا بعید کہ لیاقت علی خان دوسرا جنم لے لیں گو ہم.ہندو نہیں پر
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
جی ہاں ! وہ وزیرِ اعظم جو عہدہ سنبھالنے سے پہلے نوابزادہ تھا اور وزیرِ اعظم بننے کے بعد پہننے کو پھٹی ہو بنیان میسر تھی اور بینک بیلنس صفر!!!!!

اور زبان پریہ کلمات" اللہ پاکستان کی حفاظت کرے"۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
تبدیلی آگئی ہے
محمد خلیل الرحمٰن​

ہم ناسٹالجیا کے مارے لوگوں کا المیہ بھی عجیب ہے۔ ہر وقت خوابوں میں گم رہنا پسند کرتے ہیں۔صدر کی مرکزی شاہراہ پر ماموں جان کی کتابوں کی دکان ’’ٹامس اینڈ ٹامس ‘‘ تھی ۔دکان آج بھی موجود ہے لیکن اسے اطراف و جوانب سے الیکٹرانکس کی دکانوں اور خوانچہ فروشوں نے یوں گھیر لیا ہے کہ اب دکان تک پہنچنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ وہاں سے وکٹوریہ روڈ کے چوراہے کو عبور کرتے ہوئے بائیں ہاتھ مڑ کر الفی پر ٹہل لگاتے، حمید کاشمیری کے بک اسٹال سے آگے بڑھتے تو پاک امریکن کتب فروش کی عالیشان دکان آجاتی ۔ ایک دن ہمارے ماموں ہمیں فلم دکھانے کے لیے ریکس سنیما لے گئے۔ ان دنوں وہاں ایک مزاحیہ انگریزی فلم ’’ دیکھتا چلا گیا‘‘ لگی ہوئی تھی۔ فلیٹ سے نیچے اترے تو سامنے بندر روڈ پر دنیا کی سب سے انوکھی سواری یعنی ٹرام دوڑی جارہی تھی ۔ ٹرام ہمارے گھر کے سامنے سے ایک طرف تو ایمپریس مارکیٹ اور کینٹ اسٹیشن تک جاتی تھی اور دوسری جانب سولجر بازار سے بولٹن مارکیٹ اور کیماڑی تک ۔ محمد علی ٹراموے کمپنی کا مرکزی ڈپو گھر کے قریب ہی پلازہ سنیما اور موجودہ گل پلازا کے بالکل سامنے واقع تھا۔ ماموں نے اپنے لندن پلٹ ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے جب قریب سے گزرتی ہوئی آٹو رکشا کو ’’ ٹیکسی ‘‘ کہہ کر بلایا تو ہماری تو ہنسی چھوٹ گئی۔ رکشا کو ٹیکسی کون کہتا ہے بھلا، لیکن یہ امرِ واقعہ ہے کہ ان دنوں ہر آٹو رکشا کے پیچھے جلی حروف میں ’’ٹیکسی ‘‘ لکھا ہوا ہوتا تھا۔ ہم تینوں بچے ماموں کے ساتھ رکشا میں بیٹھے تو ڈرائیور نے جھٹ سے میٹر ڈاؤن کیا اور پیچھے مڑکر پوچھا’’ کہاں چلنا ہے؟‘‘

ریکس سنیما پہنچے تو ایک اور خوبصورت نظارہ ہماری دلچسپی بڑھانے کے لیے وہاں موجود تھا۔ میوزیکل فوارہ تو ہمیں یاد نہیں البتہ سنیما گھر کے سامنے والے چھجے پر ایک سالم موٹر کار چڑھادی گئی تھی جس پر موجودہ فلم کا پوسٹر لگایا گیا تھا۔ فلم کی مناسبت سے اس پوسٹر پر اداکاروں کے کارٹون ایک سیڑھی پر چڑھ رہے تھے جسے اس موٹر کار میں نصب کیا گیا تھا۔ فلم بہت مزاحیہ اور بہت مزیدار تھی لیکن اب اس کا کوئی منظر یاد نہیں۔ فلم دیکھ کر نکلے تو پیدل ہی کلفٹن کی جانب چل دئیے۔ کلفٹن کا خوبصورت پتھر کا پل پیدل چل کر عبور کیا اور پھر ایک رکشا لے کر کلفٹن میں جہانگیر کوٹھاری پریڈ کے سامنے اترے۔ پریڈ کی ان گنت سیڑھیوں کو پار کرتے ہوئے ساحل تک پہنچے جہاں خوانچہ فروشوں کی بھرمار تھی۔ ان سے آگے بڑھے ۔ آگے سمندر تھا۔

آنکھیں بند کیے گزرے ہوئے کل کی یادوں کے سائے میں زندگی بسر کرتے ہوئے کبھی کبھی تو ہم اس قدر کھوئے ہوئے ہوتے ہیں کہ جب اچانک عمران خان اعلان کرتے ہیں کہ تبدیلی آگئی ہے تو چونک جاتے ہیں۔ واقعی تبدیلی تو آچکی ۔ لیکن یہ تبدیلی کچھ اس قدر دھیرے دھیرے ، اتنی دھیمی رفتار سے چل کر آئی کہ ہمیں بالکل پتہ ہی نہیں چلا۔

کہتے ہیں کہ جب انگریز نے کراچی میں ترقیاتی کام شروع کیا تو شہر کے درمیان کئی نالے بنائے۔ ان نالوں کا مقصد گندے پانی کی سمندر تک نکاسی تھا لیکن ایک ترکیب یہ لڑائی گئی کہ رات کو جب سمندر چڑھتا ، وہ ان نالوں میں در آتا اور تمام گندگی اپنے ساتھ بہا لے جاتا۔ ان نالوں کو جو ہم نے برنس روڈ تک دیکھے ہیں، یا تو پاٹ دیا گیا اور ان پر ناجائز تجاوزات قائم کردئیے گئے، یا انھیں کچرے سے بھر دیا گیا ، کہ نہ رہے کا بانس ، نہ بجے گی بانسری، نہ نومن تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔

یادش بخیر شہر میں سڑکوں کے سنگم پر جگہ جگہ خوبصورت چورنگیاں ہو ا کرتی تھیں، بڑھتے ہوئے بے ہنگم ٹریفل کی روک تھام اور انھیں کھلا راستہ دینے کی خاطر جہاں سڑکوں کو کشادہ کیا گیا وہیں ان خوبصورت چورنگیوں کو ختم کرکے ان کی جگہ سڑکوں کو دے دی گئی اور بجلی کے اشارے لگوادیئے گئے۔ ساتھ ساتھ ہی یہ عظیم کام بھی کیا گیا کہ جن بڑی شاہراہوں کے ساتھ ذیلی سڑکیں بھی تھین، ان ذیلی سڑکوں کو فضول سمجھ کر مرکزی سڑک کے ساتھ ضم کردیا گیا۔

کئی ایک چوراہوں پر بجلی کے اشارے آج بھی موجود ہیں لیکن عرصہ ہوا کام چھوڑ چکے۔ مثال کے طور پر برنس روڈ کا چوراہا، الفی اور شاہراہِ عراق کے سنگم پر واقع چوراہا۔ آرام باغ والا چوراہا، وغیرہ وغیرہ۔ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جہاں پر ٹریفک سگنلز یاد گار کے طور پر نصب ہیں لیکن عرصہ ہوا اپنا کام ترک کرچکے۔

ہماری چھوٹی بیٹی ایمان خلیل طالبِ علم جماعت سے جب کراچی کے میئر کو خط لکھ کر روزآنہ زندگی میں پیش آنے والی مشکلات سے متعلق بحیثیت ایک شہری شکایت کرنے کو کہا گیا تو انہوں نے لکھا؛

از کراچی
مورخہ
قابلِ احترام میئر صاحب
السلام علیکم

میرا نام ایمان خلیل ہے اور میں کراچی کی ایک شہری ہوں ۔ میں نے دیکھا ہے کہ کراچی کے شہری بہت سی مشکلات سے دوچار ہیں اور ان مشکلات کی وجہ سے ان کی زندگیوں پر بھی بُرے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

شہریوں کی مشکلات مندرجہ ذیل ہیں۔

۱۔ شہر میں لائیبریریوں کا فقدان: جب لائبریریاں نہیں ہوں گی، کتابوں تک لوگوں کی پہنچ نہیں ہوگی تو ایسے میں تعلیم کا بھی فقدان ہوگا۔
۲۔ ٹریفک: سڑکوں پر ٹریفک کے اژدھام کی وجہ سے ہم اپنے دفاتر ، گھر ، اسکول تک دیر سے پہنچتے ہیں۔
۳۔ ٹوٹی ہوئی خراب سڑکیں: گھر، اسکول ، دفتر دیر سے پہنچتے ہیں۔ اور اس وجہ سے بہت سا وقت برباد ہوتا ہے۔
۴۔ لوڈ شیڈنگ: بجلی نہ ہونے کے باعث ہم اپنا ہوم ورک مکمل نہیں کرسکتے۔
۵۔ فضائی آلودگی، شور: ہم تنگ ہوتے ہیں۔
۶۔ سہولیات کا زیاں: پانی غذا اور بہت سی چیزوں کا بلاوجہ ضائع کیا جانا۔

میں امید کرتی ہوں کہ شہریوں کی ان مشکلات کا ازالہ کیا جائے گا۔ مجھے قوی امید ہے کہ ہم سب مل کر ان مشکلات پر قابو پاسکتے ہیں۔

کراچی کی ایک شہری

تبدیلی آچکی ہے۔ اب سے تیس سال پہلے ہمارے لڑکپن میں ہمیں ان مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
· کراچی میں امریکن سنٹر، برٹش کونسل، روسی ایوانِ دوستی اور نیشنل سنٹر کی بہترین لائبریریاں موجود تھیں، جہاں سے مفت کتابیں گھر لے جاکر پڑھنے کے لیے دستیاب تھیں۔ اس کے علاوہ ہر علاقے میں کے ایم سی کی لائبریریاں اپنا کردار ادا کررہی تھیں۔
· سڑکوں پر ٹریفک کا حال اس قدر بُرا نہیں تھا۔ کراچی شہر میں بگھی جیسی خوبصورت سواری بھی کرائے پر دستیاب تھی، جس پر ہم سب بچے لد جاتے اور سارا راستہ مزے مزے کے گیت گاتے ہوئے، گھوڑے کے سنگ سنگ، کوچوان کے برابر بیٹھے لطف اُٹھایا کرتے۔
· سڑکوں کا حال بھی اتنا بُرا نہیں تھا۔
· لوڈ شیڈنگ کا تصور بھی مفقود تھا۔ گھروں میں بجلی سے چلنے والے پنکھوں کے علاوہ دیگر کئی لوازمات بھی ہوتے تھے، مثلاً بجلی کا چولھا، بجلی سے چلنے والا ریڈیو وغیرہ۔
· فضائی آلودگی اور شور اس قدر بھیانک عفریت کی شکل اختیار نہیں کرپائے تھے۔ پلاسٹک کے شاپنگ بیگ ابھی ایجاد نہیں ہوئے تھے، جو آج قومی پرچم کی مانند ہر درخت اور ہر پودے اور ہر عمارت پر چپکے ہوئے ہیں۔ اور ہر گٹر، ہر کچرا کنڈی کی زینت ہیں۔
· شیور کی مرغی جسے گند کھلا کر بڑا کیا جاتا ہے ، ابھی ایجاد نہیں ہوئی تھی، اور لوگ دیسی مرغی کھایا کرتے تھے۔
· پانی بھرا گوشت ایجاد نہ ہونے کے باعث لوگ سوکھا گوشت خرید کر کھایا کرتے، چائے، کُٹے ہوئے مرچ مسالے وغیرہ بغیر ملاوٹ کے دستیاب تھے۔۔ کیمیکل سے صاف کی ہوئی سفید چینی کے علاوہ گڑ اور گڑ کی چینی بھی دستیاب تھے۔
· مصنوعی زہریلی کھاد کے استعمال سے پھلوں کے حجم ابھی بڑے نہیں کیے گئے تھے۔ درختوں پر فطری انداز میں بڑھنے اور پکنے والے پھل ہی دستیاب ہوتے تھے۔ کولڈ اسٹوریج کا رواج نہ ہونے کے باعث مقامی پھل ہی دستیاب ہوتےتھے۔ پپیتا صرف کراچی میں ملتا تھا، لوکاٹ صرف پشاور میں ملتے تھے۔ اور اس طرح دیگر نازک پھلوں کا ذائقہ چکھنے کے لیے اس شہر کا رُخ کرنا پڑتا تھا۔

تبدیلی آچکی ہے جسے ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے بھی محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔

شہری حکومت بضد ہے کہ وہ ہم سے آب رسانی اور گندے پانی کی نکاسی کا ٹیکس بھی وصول کرکے چھوڑے گی۔ لیکن مندرجہ بالا سہولیات فراہم کرنے سے اس ادارے کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں اور ہم اس کے بغیر ہی زندہ رہنے پر مجبور ہیں۔

گھروں سے کچرا جمع کرکے دور میدان تک پہنچانا اور اسے ٹھکانے لگانا پہلے میونسپلٹی ہی کا کام تھااور وہ اسے بحسن و خوبی سر انجام دیتی تھی۔ اب یہ سہولت ہی مفقود ہے۔ کچرا گلی محلوں اور چھوٹی بڑی شاہراہوں پر جمع ہوتا جارہا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں ایک خاص عمل جسے Urbanization اربنائیزیشن یعنی شہر کاری یا شہری رنگ پیدا ہونے کا عمل کہتے ہیں، پایا جاتا ہے۔ دیکھنے میں آتا ہے کہ ان کے شہر تو جدید سہولیات سے آراستہ ہیں ہی، دیہی علا قوں میں بھی جدید سہولیات کی فراہمی کی بنأ پر شہری رنگ آتا جارہا ہے۔

ہم اپنے شہروں میں اس کے برعکس Ruralisation رورلائیزیشن یعنی دیہاتی بنادینے کا عمل اختیار کرچکے ہیں اور تیزی کے ساتھ رو بہ تنزل ہونے کی وجہ سے کوئی دن جاتا ہے کہ یہ طرزِ عمل ہمیں پتھر کے زمانے میں پہنچادے ، جب شہر مفقود اور شہری زندگی ناپید تھی۔​
آداب
آپ کا مضمن پڑھا اور مزہ آ گیا۔ اپنے بچپن کی یادوں کو تازہ کیا۔ کیا اتفاق ہے کہ ہے کہ انھی گلیوں میں ہمارا بچپن گذرا ہے۔ امی کی انگلی پکڑ کر ایمپریس مارکیٹ جانا اور بھائ کی انگلی پکڑکر اسٹوڈنٹ بریانی سے نہاری لینے جانا۔ بریانی اس وقت کبھی نہ کھائ ، ھمیشہ نہاری ہی آتی تھی۔ کبھی کبھی چھٹی والے دن کہ باہر کے کھانوں کا اتنا رواج نہیں تھا۔ بندر روڈ پر ہمارے زمانے میں ٹرام تو نہیں تھی مگر ٹریفک اس وقت بھی بہت تھا۔ سی بریز پلازہ آنکھوں کے سامنے بنا۔ اس وقت ہم بہن بھائ اسکول میں ہوا کرتے تھے۔امریکن سنٹر سے مراد اگر پی اے سی سی ہے جو کہ کینٹ اسٹیشن کے قریب ہے تو وہاں ناچیز نے انگریزی زبان کو تقریبا چودہ سال پڑھایا بھی ہے۔ برٹش کونسل پہلے اس کے قریب ہو تی تھی۔ قریب چاپانی قونصلیٹ سے اکے باناسیکھا اور پہلی پوزیشن بھی لی۔ اس علاقے میں آج بھی جانا اچھا لگتا ہے۔ تمام علاقہ آج بھی ازبر ہے۔ آج بھی تحفے میں گھڑی دینی تو لینے زیب النساء اسٹریٹ پر لنڈ ن واچ کمپنی ہی جاتی ہوں۔ صرف اس لیئے کہ بچپن کی گلیوں کو دیکھ سکوں۔ جتنا لکھوں کم ہے۔اور ہاں آپ کی صاحبزادی کا خط دل کی آواز ہے۔ اور کراچی بدلے گا۔ انشا اللہ

ثبات ایک تغیر کو ھے زمانے میں
 

سیما علی

لائبریرین
تبدیلی آگئی ہے
محمد خلیل الرحمٰن​

ہم ناسٹالجیا کے مارے لوگوں کا المیہ بھی عجیب ہے۔ ہر وقت خوابوں میں گم رہنا پسند کرتے ہیں۔صدر کی مرکزی شاہراہ پر ماموں جان کی کتابوں کی دکان ’’ٹامس اینڈ ٹامس ‘‘ تھی ۔دکان آج بھی موجود ہے لیکن اسے اطراف و جوانب سے الیکٹرانکس کی دکانوں اور خوانچہ فروشوں نے یوں گھیر لیا ہے کہ اب دکان تک پہنچنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ وہاں سے وکٹوریہ روڈ کے چوراہے کو عبور کرتے ہوئے بائیں ہاتھ مڑ کر الفی پر ٹہل لگاتے، حمید کاشمیری کے بک اسٹال سے آگے بڑھتے تو پاک امریکن کتب فروش کی عالیشان دکان آجاتی ۔ ایک دن ہمارے ماموں ہمیں فلم دکھانے کے لیے ریکس سنیما لے گئے۔ ان دنوں وہاں ایک مزاحیہ انگریزی فلم ’’ دیکھتا چلا گیا‘‘ لگی ہوئی تھی۔ فلیٹ سے نیچے اترے تو سامنے بندر روڈ پر دنیا کی سب سے انوکھی سواری یعنی ٹرام دوڑی جارہی تھی ۔ ٹرام ہمارے گھر کے سامنے سے ایک طرف تو ایمپریس مارکیٹ اور کینٹ اسٹیشن تک جاتی تھی اور دوسری جانب سولجر بازار سے بولٹن مارکیٹ اور کیماڑی تک ۔ محمد علی ٹراموے کمپنی کا مرکزی ڈپو گھر کے قریب ہی پلازہ سنیما اور موجودہ گل پلازا کے بالکل سامنے واقع تھا۔ ماموں نے اپنے لندن پلٹ ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے جب قریب سے گزرتی ہوئی آٹو رکشا کو ’’ ٹیکسی ‘‘ کہہ کر بلایا تو ہماری تو ہنسی چھوٹ گئی۔ رکشا کو ٹیکسی کون کہتا ہے بھلا، لیکن یہ امرِ واقعہ ہے کہ ان دنوں ہر آٹو رکشا کے پیچھے جلی حروف میں ’’ٹیکسی ‘‘ لکھا ہوا ہوتا تھا۔ ہم تینوں بچے ماموں کے ساتھ رکشا میں بیٹھے تو ڈرائیور نے جھٹ سے میٹر ڈاؤن کیا اور پیچھے مڑکر پوچھا’’ کہاں چلنا ہے؟‘‘

ریکس سنیما پہنچے تو ایک اور خوبصورت نظارہ ہماری دلچسپی بڑھانے کے لیے وہاں موجود تھا۔ میوزیکل فوارہ تو ہمیں یاد نہیں البتہ سنیما گھر کے سامنے والے چھجے پر ایک سالم موٹر کار چڑھادی گئی تھی جس پر موجودہ فلم کا پوسٹر لگایا گیا تھا۔ فلم کی مناسبت سے اس پوسٹر پر اداکاروں کے کارٹون ایک سیڑھی پر چڑھ رہے تھے جسے اس موٹر کار میں نصب کیا گیا تھا۔ فلم بہت مزاحیہ اور بہت مزیدار تھی لیکن اب اس کا کوئی منظر یاد نہیں۔ فلم دیکھ کر نکلے تو پیدل ہی کلفٹن کی جانب چل دئیے۔ کلفٹن کا خوبصورت پتھر کا پل پیدل چل کر عبور کیا اور پھر ایک رکشا لے کر کلفٹن میں جہانگیر کوٹھاری پریڈ کے سامنے اترے۔ پریڈ کی ان گنت سیڑھیوں کو پار کرتے ہوئے ساحل تک پہنچے جہاں خوانچہ فروشوں کی بھرمار تھی۔ ان سے آگے بڑھے ۔ آگے سمندر تھا۔

آنکھیں بند کیے گزرے ہوئے کل کی یادوں کے سائے میں زندگی بسر کرتے ہوئے کبھی کبھی تو ہم اس قدر کھوئے ہوئے ہوتے ہیں کہ جب اچانک عمران خان اعلان کرتے ہیں کہ تبدیلی آگئی ہے تو چونک جاتے ہیں۔ واقعی تبدیلی تو آچکی ۔ لیکن یہ تبدیلی کچھ اس قدر دھیرے دھیرے ، اتنی دھیمی رفتار سے چل کر آئی کہ ہمیں بالکل پتہ ہی نہیں چلا۔

کہتے ہیں کہ جب انگریز نے کراچی میں ترقیاتی کام شروع کیا تو شہر کے درمیان کئی نالے بنائے۔ ان نالوں کا مقصد گندے پانی کی سمندر تک نکاسی تھا لیکن ایک ترکیب یہ لڑائی گئی کہ رات کو جب سمندر چڑھتا ، وہ ان نالوں میں در آتا اور تمام گندگی اپنے ساتھ بہا لے جاتا۔ ان نالوں کو جو ہم نے برنس روڈ تک دیکھے ہیں، یا تو پاٹ دیا گیا اور ان پر ناجائز تجاوزات قائم کردئیے گئے، یا انھیں کچرے سے بھر دیا گیا ، کہ نہ رہے کا بانس ، نہ بجے گی بانسری، نہ نومن تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔

یادش بخیر شہر میں سڑکوں کے سنگم پر جگہ جگہ خوبصورت چورنگیاں ہو ا کرتی تھیں، بڑھتے ہوئے بے ہنگم ٹریفل کی روک تھام اور انھیں کھلا راستہ دینے کی خاطر جہاں سڑکوں کو کشادہ کیا گیا وہیں ان خوبصورت چورنگیوں کو ختم کرکے ان کی جگہ سڑکوں کو دے دی گئی اور بجلی کے اشارے لگوادیئے گئے۔ ساتھ ساتھ ہی یہ عظیم کام بھی کیا گیا کہ جن بڑی شاہراہوں کے ساتھ ذیلی سڑکیں بھی تھین، ان ذیلی سڑکوں کو فضول سمجھ کر مرکزی سڑک کے ساتھ ضم کردیا گیا۔

کئی ایک چوراہوں پر بجلی کے اشارے آج بھی موجود ہیں لیکن عرصہ ہوا کام چھوڑ چکے۔ مثال کے طور پر برنس روڈ کا چوراہا، الفی اور شاہراہِ عراق کے سنگم پر واقع چوراہا۔ آرام باغ والا چوراہا، وغیرہ وغیرہ۔ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جہاں پر ٹریفک سگنلز یاد گار کے طور پر نصب ہیں لیکن عرصہ ہوا اپنا کام ترک کرچکے۔

ہماری چھوٹی بیٹی ایمان خلیل طالبِ علم جماعت سے جب کراچی کے میئر کو خط لکھ کر روزآنہ زندگی میں پیش آنے والی مشکلات سے متعلق بحیثیت ایک شہری شکایت کرنے کو کہا گیا تو انہوں نے لکھا؛

از کراچی
مورخہ
قابلِ احترام میئر صاحب
السلام علیکم

میرا نام ایمان خلیل ہے اور میں کراچی کی ایک شہری ہوں ۔ میں نے دیکھا ہے کہ کراچی کے شہری بہت سی مشکلات سے دوچار ہیں اور ان مشکلات کی وجہ سے ان کی زندگیوں پر بھی بُرے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

شہریوں کی مشکلات مندرجہ ذیل ہیں۔

۱۔ شہر میں لائیبریریوں کا فقدان: جب لائبریریاں نہیں ہوں گی، کتابوں تک لوگوں کی پہنچ نہیں ہوگی تو ایسے میں تعلیم کا بھی فقدان ہوگا۔
۲۔ ٹریفک: سڑکوں پر ٹریفک کے اژدھام کی وجہ سے ہم اپنے دفاتر ، گھر ، اسکول تک دیر سے پہنچتے ہیں۔
۳۔ ٹوٹی ہوئی خراب سڑکیں: گھر، اسکول ، دفتر دیر سے پہنچتے ہیں۔ اور اس وجہ سے بہت سا وقت برباد ہوتا ہے۔
۴۔ لوڈ شیڈنگ: بجلی نہ ہونے کے باعث ہم اپنا ہوم ورک مکمل نہیں کرسکتے۔
۵۔ فضائی آلودگی، شور: ہم تنگ ہوتے ہیں۔
۶۔ سہولیات کا زیاں: پانی غذا اور بہت سی چیزوں کا بلاوجہ ضائع کیا جانا۔

میں امید کرتی ہوں کہ شہریوں کی ان مشکلات کا ازالہ کیا جائے گا۔ مجھے قوی امید ہے کہ ہم سب مل کر ان مشکلات پر قابو پاسکتے ہیں۔

کراچی کی ایک شہری

تبدیلی آچکی ہے۔ اب سے تیس سال پہلے ہمارے لڑکپن میں ہمیں ان مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
· کراچی میں امریکن سنٹر، برٹش کونسل، روسی ایوانِ دوستی اور نیشنل سنٹر کی بہترین لائبریریاں موجود تھیں، جہاں سے مفت کتابیں گھر لے جاکر پڑھنے کے لیے دستیاب تھیں۔ اس کے علاوہ ہر علاقے میں کے ایم سی کی لائبریریاں اپنا کردار ادا کررہی تھیں۔
· سڑکوں پر ٹریفک کا حال اس قدر بُرا نہیں تھا۔ کراچی شہر میں بگھی جیسی خوبصورت سواری بھی کرائے پر دستیاب تھی، جس پر ہم سب بچے لد جاتے اور سارا راستہ مزے مزے کے گیت گاتے ہوئے، گھوڑے کے سنگ سنگ، کوچوان کے برابر بیٹھے لطف اُٹھایا کرتے۔
· سڑکوں کا حال بھی اتنا بُرا نہیں تھا۔
· لوڈ شیڈنگ کا تصور بھی مفقود تھا۔ گھروں میں بجلی سے چلنے والے پنکھوں کے علاوہ دیگر کئی لوازمات بھی ہوتے تھے، مثلاً بجلی کا چولھا، بجلی سے چلنے والا ریڈیو وغیرہ۔
· فضائی آلودگی اور شور اس قدر بھیانک عفریت کی شکل اختیار نہیں کرپائے تھے۔ پلاسٹک کے شاپنگ بیگ ابھی ایجاد نہیں ہوئے تھے، جو آج قومی پرچم کی مانند ہر درخت اور ہر پودے اور ہر عمارت پر چپکے ہوئے ہیں۔ اور ہر گٹر، ہر کچرا کنڈی کی زینت ہیں۔
· شیور کی مرغی جسے گند کھلا کر بڑا کیا جاتا ہے ، ابھی ایجاد نہیں ہوئی تھی، اور لوگ دیسی مرغی کھایا کرتے تھے۔
· پانی بھرا گوشت ایجاد نہ ہونے کے باعث لوگ سوکھا گوشت خرید کر کھایا کرتے، چائے، کُٹے ہوئے مرچ مسالے وغیرہ بغیر ملاوٹ کے دستیاب تھے۔۔ کیمیکل سے صاف کی ہوئی سفید چینی کے علاوہ گڑ اور گڑ کی چینی بھی دستیاب تھے۔
· مصنوعی زہریلی کھاد کے استعمال سے پھلوں کے حجم ابھی بڑے نہیں کیے گئے تھے۔ درختوں پر فطری انداز میں بڑھنے اور پکنے والے پھل ہی دستیاب ہوتے تھے۔ کولڈ اسٹوریج کا رواج نہ ہونے کے باعث مقامی پھل ہی دستیاب ہوتےتھے۔ پپیتا صرف کراچی میں ملتا تھا، لوکاٹ صرف پشاور میں ملتے تھے۔ اور اس طرح دیگر نازک پھلوں کا ذائقہ چکھنے کے لیے اس شہر کا رُخ کرنا پڑتا تھا۔

تبدیلی آچکی ہے جسے ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے بھی محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔

شہری حکومت بضد ہے کہ وہ ہم سے آب رسانی اور گندے پانی کی نکاسی کا ٹیکس بھی وصول کرکے چھوڑے گی۔ لیکن مندرجہ بالا سہولیات فراہم کرنے سے اس ادارے کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں اور ہم اس کے بغیر ہی زندہ رہنے پر مجبور ہیں۔

گھروں سے کچرا جمع کرکے دور میدان تک پہنچانا اور اسے ٹھکانے لگانا پہلے میونسپلٹی ہی کا کام تھااور وہ اسے بحسن و خوبی سر انجام دیتی تھی۔ اب یہ سہولت ہی مفقود ہے۔ کچرا گلی محلوں اور چھوٹی بڑی شاہراہوں پر جمع ہوتا جارہا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں ایک خاص عمل جسے Urbanization اربنائیزیشن یعنی شہر کاری یا شہری رنگ پیدا ہونے کا عمل کہتے ہیں، پایا جاتا ہے۔ دیکھنے میں آتا ہے کہ ان کے شہر تو جدید سہولیات سے آراستہ ہیں ہی، دیہی علا قوں میں بھی جدید سہولیات کی فراہمی کی بنأ پر شہری رنگ آتا جارہا ہے۔

ہم اپنے شہروں میں اس کے برعکس Ruralisation رورلائیزیشن یعنی دیہاتی بنادینے کا عمل اختیار کرچکے ہیں اور تیزی کے ساتھ رو بہ تنزل ہونے کی وجہ سے کوئی دن جاتا ہے کہ یہ طرزِ عمل ہمیں پتھر کے زمانے میں پہنچادے ، جب شہر مفقود اور شہری زندگی ناپید تھی۔​
خلیل بھائی!!!!
بہت عمدہ تحریر بہت بہترین تجزیہ کراچی کے بارے میں ۔ڈھیر ساری دعائیں۔۔۔۔۔۔
 
Top