تبصرہ افلاک پر بے خوف کر جاتے ہیں ہم

نمرہ

محفلین
تبصرہ افلاک پر بے خوف کر جاتے ہیں ہم
جبکہ اپنا حالِ دل کہنے سے گھبراتے ہیں ہم
عشق میں حّدِ ادب قائم نہ رکھ پاتے ہیں ہم
خود تو جو تڑپے ہیں سو ہیں، اس کو تڑپاتے ہیں ہم
بازگشت اپنی صدا کی خود کو سنواتے ہیں ہم
شعر گوئی سے بھلا کیا فائدہ پاتے ہیں
بات کرنے آج اپنےآپ سے جاتے ہیں ہم
دیکھیے، پھرکچھ سمجھتے ہیں کہ سمجھاتے ہیں ہم
ہے کوئی محرم کہیں گلزارِ ہست و بود میں
اس بھروسے پر دلِ محروم دکھلاتے ہیں ہم
دہر کے ہنگام سے بیزار ہو جائیں تو پھر
دشتِ تنہائی میں خود کو ڈھونڈنے جاتے ہیں ہم
زلفِ پیچیدہ ہو یا ہو ذہن کا عقدہ کوئی
پھر پریشانی تو اپنی آپ سلُجھاتے ہیں ہم
جب سمجھتے ہیں دلائل بحث میں طرفین کے
پوچھیے مت، کس طرح پھر خود کو بہلاتے ہیں ہم
جب الگ معیار رکھتے ہیں تو کیا سمجھے کوئی
کس کودیتے ہیں سند اور کس کو ٹھکراتے ہیں ہم
پھر نکل آتی ہیں روزانہ مثالِ آفتاب
سب تمناؤں کو بارے شب میں دفناتے ہیں ہم
زندگی کے سیدھے سادے مسئلوں کے خوف سے
فلسفے کے پیچ و خم میں خود کو الجھاتے ہیں ہم
بسکہ ہم کو طبعِ تشکیک اپنی دیتی ہے نجات
کب فریبِ آرزو کے دام میں آتے ہیں ہم
پھر ہمیں پہچاننا ہوتا ہے کچھ دُشوار تر
موج میں آ کر کبھی جب زُلف لہراتے ہیں ہم
آزما کر دیکھتے ہیں ظرف اپنے طور سے
دام میں دنیا کے خاموشی سے آ جاتے ہیں ہم
گردشِ ایام نے اتنا بدل کر رکھ دیا
جانے والے سے زیادہ خود کو یاد آتے ہیں ہم
زندگی کا کیا بھروسا، دو گھڑی ملنے کے بعد
کس طرف جاتے ہو تم اور کس طرف جاتے ہیں ہم​

ایک سے زائد مطلعوں کی موجودگی پر اپنی رائے دیجیے، اور قافیوں کی ری سائکلنگ پر بھی کہ عموما مجھے اس پر اعتراض ہوتا ہے۔ مطلع اول تو اس وجہ سے شامل کیا ہے کہ اس کے نہ ہونے سے شاید قافیے غلط ہو جائیں غزل کے۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

سید ذیشان

محفلین
اچھی غزل ہے۔ قدرے غیر پیچیدہ جو کہ ایک خوبی ہے۔ ایک مشورہ ہے کہ اس مصرع کو یوں کر دیا جائے تو شائد کچھ بہتر لگے: ہم جو تڑپے ہیں، سو ہیں! اس کو بھی تڑپاتے ہیں ہم
 

نمرہ

محفلین
اچھی غزل ہے۔ قدرے غیر پیچیدہ جو کہ ایک خوبی ہے۔ ایک مشورہ ہے کہ اس مصرع کو یوں کر دیا جائے تو شائد کچھ بہتر لگے: ہم جو تڑپے ہیں، سو ہیں! اس کو بھی تڑپاتے ہیں ہم
قدرے غیر پیچیدہ، یعنی کس کی نسبت ؟ :) دیکھتی ہوں اس مصرعے کو، شاید آپ لگا دوں، ہم کی تکرار ہو جاتی ہے۔
 
خود تو جو تڑپے ہیں سو ہیں، اس کو تڑپاتے ہیں ہم
یہاں "تڑپے ہیں" میں ماضی کا شائبہ ہے جو باقی کے حالیہ صیغوں کے ساتھ کچھ اچھا محسوس نہیں ہو رہا۔ ایک ممکنہ صورت کچھ یوں ہو سکتی ہے، "خود تڑپتے ہیں سو ہیں، اس کو بھی تڑپاتے ہیں ہم" :) :) :)
شعر گوئی سے بھلا کیا فائدہ پاتے ہیں ہم
یہاں ٹائپو سرزد ہوا لگتا ہے۔ :) :) :)
 

نمرہ

محفلین
یہاں "تڑپے ہیں" میں ماضی کا شائبہ ہے جو باقی کے حالیہ صیغوں کے ساتھ کچھ اچھا محسوس نہیں ہو رہا۔ ایک ممکنہ صورت کچھ یوں ہو سکتی ہے، "خود تڑپتے ہیں سو ہیں، اس کو بھی تڑپاتے ہیں ہم" :) :) :)

یہاں ٹائپو سرزد ہوا لگتا ہے۔ :) :) :)
'تڑپے ہیں' میرا خیال تھا کہ کچھ پرانے انداز میں حال کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے۔
بالکل ٹائپو ہے۔ :)
 

الف عین

لائبریرین
خود تو جو تڑپے ہیں سو ہیں، اس کو تڑپاتے ہیں ہم
میں ایکیہ خامی بھی ہے کہ روانی متاثر ہے۔ سو کے طویل کھنچنے کی وجہ سے۔ اس لحاظ سے ابن سعید اور سید ذیشان کے مشورے بہتر ہیں۔
باقی غزل کے بارے میں بعد میں کچھ۔
 
Top