مغزل
محفلین
تبصرہ جاتی مکتبوب در مجلّہ اقراء : م۔م۔مغل
” گوشہ آدھی ملاقات “
مکّرمنا !
مدیرِ اعلیٰ : مفتی خالد محمود صاحب
آداب و سلامِ مسنون
برادرِ عزیز حافظ سمیع اللہ آفاقی کی وساطت سے ” مجلّہ اقراء“ (جلد دوم ، شمارہ اوّلین، دسمبر۱۱۰۲ تا جنوری ۲۱۰۲)باصرہ نواز ہوا ، رسید حاضر ہے ، قبل اس کے کہ میں مجلّہ کے بارے میں مقدور بھر معروضات سپردِ قرطاس کروں ، مدّعا بتصریفِ وقت یہ کہ پرچہ کے نگرانِ اعلیٰ حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانوی ، مدیرمفتی مزمل حسین کپاڈیا، مجلسِ ادارت کے اراکین مفتی محمد بن جمیل خان، مفتی طلحہ منیر، محترمہ زہرا فیصل اور شعبہ تزئین وآرائش کے اراکین معراج الدین سبحانی ، حافظ سمیع اللہ آفاقی ، حفیظ اللہ خان اور سلمان اکبرکی شبانہ روز عرق ریزی پر منتج کاوشوں اور پرچے کے صوری طباعتی آہنگ پر صمیمِ قلب سے ہدیہ تبریک و تحسین پیش گزار کرتا ہوں ۔ ” گرقبول افتد زہے عز وشرف“
پہلی ہی قراءت میں پرچہ دیدہ و دل میں اپنی جگہ پانے میں نہ صرف کامیاب ہوا بلکہ میری خواہش کہ مجھے باقائدگی سے اس مجلّہ کی زیارت نصیب رہے کہ بہ یک وقت زبانِ لشکری اردو ، زبانِ فصحاءعربی اور انگریزی کا میری بصارت کاحاصل یہ پہلا پرچہ ہے جو دینوی و دنیاوی اقدار کی پاسداری کے ساتھ پراگندہ طبعی کے ماحول میں مساوی الاقدارنصابِ اصل اور غیر نصابی متن کا حامل ہے اورنوورادانِ بساطِ علم اور بتدریج ثانوی تعلیمی ادوار کے حامل افراد کی فہم و بالیدگی فکر کو جِلابخشنے اور تربیّت کرنے میں اپنی پوری توانائی کے ساتھ مشغول و منہمک ہے، سرورق اپنی مثال آپ ہے کہ کمال توازن سے مرصع کیا گیا ہے ، انشراحیہ صراحت کے بعد فرمانِ الہٰی و اسوۂحسنہ نے دیدہ و دل کو تقویت دی،حمد و نعت ، احادیث و اقوال، اصلاحی سلسلہ ، اسلامی تاریخ کا مطالعہ ، سہ زبانی قوائد، تمثالِ اسوۂ حسنہ ، تربیتّی قصائص ، معلوماتی کسوٹی سوال نامہ، لذّتِ کام و دہن کے لیے دسترخوان اور دورِ جدید کی مناسبت سے تیکنیکی معلومات(انفارمیشن ٹیکنالوجی) غرض کہ انسانی نفسیاتی گرہ کھولنے پر معمور سبھی شعبہ جات اپنی مثال آپ ہیں، یقینا وقت کے ساتھ ساتھ بہتری کی صورت رہے گی ، چونکہ اوّلین شمارہ ہے سو املا انشاءکی خاصی اغلاط نظر آتی ہیں امید ہے ادارتی مناصب کے حامل افراد ان خامیوں پر بہ احسن قابو پالیں گے ۔چونکہ میرا ذاتی فکری حوالہ بنیادی طور پر ادب ہے سو میری خواہش ہے کہ منظومات کو شامل کرنے قبل ان کی احسن صحت (حسن و قبح)کی بابت بھی غور کیا جائے ۔ عمومی طورپر نثری پرچہ جات میں ایسی چوک ہوجاتی ہے جس سے پرچہ کا حسن گہنا کر رہ جاتا ہے ۔ بالخصوص شاعری میں زبان و بیان پر سطحی عبور بھی متن و مضمون میں غرابت َ لفظی و معنوی اور تنقیص و اہانت کی وجہ بن جاتا ہے ۔بہ ہر کیف و بہ ہر حال قصّہ کوتاہ یہ کہ مجلّہ کی بالاستیعاب قراءت کے بعد مجھے یہ کہنے میں کچھ باک نہیں کہ پرچہ ہرچند کہ غیر نصابی ہے مگرپوری تہذیب و اقدار کے ساتھ نصابی حیثیت کا حامل ہے اورقارئین کے ساتھ ساتھ طالب علموں کے لیے ایک دستاویزی حیثیت بھی ۔
پرچہ کی اجتماعی حیثیت میں بچّوں کے نظمیہ ادب کا حصہ شامل کرنے سے میری دانست میں پرچہ کا حسن دوآتشہ ہوجائے گا امید ہے کہ منتظمین اس جانب توجہ فرمائیں گے اور بچّوں کا شعری ادب بھی پرچہ کا حصہ بنے گا۔ میں بارگاہِ ایزدی میں دست بہ دعا ہو ں کہ مالک و مولیٰ پرچہ کے نیک مقاصد کو قبول فرمائے اور روز افزوں ترقّی عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین
م۔م۔مغل
سکنہ: شمالی ناظم آباد کراچی