فوزیہ رباب
محفلین
"ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے"
تقریباً سال بھر پہلے محترم رئیس الدین رئیس صاحب کا محبت بھرا تحفہ ان کے چوتھے مجموعہ کلام" شہر بے خواب ہے" کی شکل میں موصول ہوا پڑھ کر ذہن و دل پر وہ نشہ ہوا جس کا لطف آج تک برقرار ہے یہ میری بدقسمتی ہے کہ رئیس الدین صاحب کی بارہا یاددہانی کے باوجود میں آج تک ان کی شاعری پر تبصرہ نہیں لکھ پائ اور وجہ بس یہی تھی کہ انہوں نے مجھے اس قابل سمجھا تھا وگرنہ من آنم کہ من دانم، آج جب ان پر تبصرہ لکھ رہی ہوں تو آنکھیں نمناک ہیں کہ اب وہ مالک حقیقی سے جا ملے ہیں مولا ان کے درجات بلند فرمائے آمین اب ان کے لئے میرا خراج عقیدت یہی ہے کہ ان کی خواہش کے احترام میں ان کی شاعری پر اظہار خیال کروں
عالمی شہرت یافتہ شاعر، ادیب، مترجم صحافی و عمدہ شخصیت کے مالک رئیس الدین رئیس صاحب 8 جون 1948 کو اتر پردیش بلند شہر کے قصبے جیور میں پیدا ہوئے اور 1 اپریل 2016 کو مالک حقیقی سے جا ملے رئیس الدین رئیس کو شاعری ورثے میں ملی ان کے جد امجد ریاض الدین انصاری ریاض اردو کے قادر الکلام و ذود گو شاعر ہوئے ہیں جو نمائندہ شاعر نوح ناروی کے جانشین بھی تھے
محترم رئیس الدین رئیس ماہر شعر و فن بھی تھے عالم السان بھی ان کے ہاں اسلوب کی ندرت بھی نظر آتی ہے مضامین کا تنوع بھی، ان کے متفرق مضامین تنقیدی تبصرے اور ان کی شاعری ان کے فکر و فن، آہنگ و اسلوب کی نمائندگی کرتی ہے جو ان کے طویل شعری سفر کے تجربات و مشاہدات و محنت کا ثمرہ ہے شاعری کو اپنے عہد کا عکاس کہا جاتا ہے رئیس الدین رئیس نے اپنے عہد کی بصیرتوں کی جس طور پر نمائندگی کی ہے اس کا کوئی ثانی نہیں ملتا کہیں ان کا لہجہ درشت تو کہیں نرم ٹھنڈی چھاؤں سا ہے اضطراب و روحانی و جذباتی بے چینی ان کے اشعار کے توسط سے دل پر دستک دیتی ہے اور پھر قاری کے ذہن پر نقوش چھوڑ جاتی ہے
کہیں نہ دھوپ ، نہ بارش ہے سائبان اداس
نظر جھکائے ہوئے لوگ ، آسمان اداس
شکار کر کے پرندہ ، ہُوا شکاری خوش
لہو کے داغ اٹھائے ہوئے چٹان اداس
گھروں میں بھوک سے بچے بڑے فسردہ سب
نگر میں کرفیو نافذ ، ہر اک دکان اداس
یہ سوچ کر مَیں ادھورے سفر سے لَوٹ آیا
کہ ہجر ساعتیں کر دیں نہ میری جان اداس
محترم رئیس الدین کی شاعری روایت و جدت کا حسین امتزاج ہے ان کا کلام طویل عرصے سے ادبی رسائل و جرائد میں شائع ہوتا رہا ہے مضامین کا تنوع، جداگانہ اسلوب، مشکل قوافی میں بھی سلاست و روانی، نادر پیرایہ اظہار انہیں سب سے ممتاز کرتا ہے
رئیس الدین رئیس خود اپنے بارے میں کس انداز سے گویا ہیں کہ__
سبھی ہیں معتقد غزلوں کے میرے
غزل میں معنویت دیکھ میری
رئیس الدین رئیس لفظوں کی جادوگری سے خوب واقف ہیں یہی فکر کی بالیدگی انہیں جاوداں کرتی ہے ان کی غزلیں قاری کو اپنے سحر میں گرفتار کر لیتی ہیں ان کے یہاں ایک نیا آہنگ نظر آتا ہے معنی آفرینی و استادانہ مشاقی ان کے کلام کا جزو خاص ہے ان کے فکری اسلوب کو واضح کرنے کے لئے پیش ہیں چند منتخب اشعار__
یہ کیسی تشنہ لبی تھی کہ دیکھ کر دریا
رہی نہ پیاس کی باقی رمق قرین خیال
زمین ہجر ترے پاؤں کیوں پکڑتی ہے
سفیر وصل ترا شہر غم سے رشتہ کیا
یہ صحرا خود سراب ہے اب اس کا ذکر بے سبب
سمندروں کو خشک کر نئے سراب مانگ لے
سمندروں سے گلے مل گئے سبھی دریا
کہاں کہاں یہ زمیں قابل نمو کرتے
ہے کوئی شخص گھٹاؤں کا جو ہو رنگ شناس
پیش گوئی سے مرے دشت میں بارش آجائے
ہر ایک شخص کے لب سے نکل رہے ہیں سوال
ہر ایک شخص یہاں منتظر جواب کا ہے
اک یہی رکھتا ہے ہمراز سفر کا رتبہ
ہم کو معلوم ہے رستے کے شجر کا رتبہ
مری ہی کرب رتوں نے کیا شکار مجھے
بہا کے لے گیا اشکوں کا آبشار مجھے
دل کا دریا رات اگنی کنڈ میں ڈھلنے لگا
میری ہی لپٹوں میں میرا ہی بدن جلنے لگا
فلک پہ آخر شب جو اک ستارہ ہے
غنیم تیرا نہیں میرا استعارہ ہے
رہے گا رنگ شفق محو گفتگو تجھ سے
زمین پائے گی میرے لہو نمو تجھ سے
تو
رئیس الدین رئیس بحیثیت غزل گو شاعر تو اپنی جداگانہ شناخت رکھتے ہی ہیں مگر ان کی رباعیات و نظمیں ان کا قد مزید بلند کرتی ہیں و قادرالکلامی کی گواہ ہیں ان کی نظموں میں تعارف، آسماں حیران ہے، زمیں خاموش ہے، سمندر سوچتا ہے، شہر بے خواب ہے، خواہش، رائیگاں، کبھی تو ایسا ہو، یوم جمہوریت، یقین و گماں کے بیچ، تلاش تعبیر، صدیوں کی نیند، نوشتہ غم، کاش، بدن کھائیاں، نسخہ و دیگر نظمیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں
رئیس الدین رئیس ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ آسماں ، زمیں، ﭘﺎﻧﯽ جیسے مظاہر فطرت ﮐﺎﺗﺠﺮﯾﺪﯼ ﺗﻌﻠﻖ ﺍﯾﮏ ﺍﭼﮭﻮﺗﮯ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ان کے 5 مجموعہ کلام بعنوان
1_آسماں حیران ہے 1995ء
تیری طلب پہ تو حیران آسمان ہے رئیس
کہ تونے چاند نہیں اس کا داغ مانگا ہے
2_زمیں خاموش ہے 2001ء
آسمان فکر کوئی ضرب کاری دے مجھے
ایک مدت سے مرے دل کی زمیں خاموش یے
3_سمندر سوچتا ہے 2006ء
میں قطرہ ہوں مگر وسعت پہ میری
یہ دریا کیا سمندر سوچتا ہے
4_شہر بے خواب ہے 2013ء
لوٹ آتی ہیں کیوں نیند کی دستکیں
کیا ہوا ہے خدا؟ شہر بے خواب ہے
5_سر کنارہ شام 2015ء
شائع ہو کر حلقہ ادب میں بے پناہ مقبولیت و داد حاصل کر چکے ہیں
اس کے علاوہ رئیس الدین رئیس صاحب کی ایک تالیف بھی ہے
دل ہے آئینہ 2013) فن و شخصیت قمر نقوی
آپ کی مضامین و تاثرات پر مبنی ایک کتاب
"قلم زاد" اور دیوناگری میں کی گئی شاعری کی کتاب
"دھرتی آکاش سمندر "بھی بحیثیت شاعر، ادیب و صحافی ان کی شناخت مسلم کرتی ہے اپنی انہی فکری فنی و قائدانہ صلاحیتوں کی بناء پر رئیس الدین رئیس صاحب کو ماہنامہ روشنی کی ادارت کے عہدے پر فائز کیا گیا علاوہ ازیں سہ ماہی ترویج (کٹک) و کائنات(کلکتہ)کے بھی مدیر رہے رئیس الدین رئیس صاحب کی یہ غزل بھی ان کے خوبصورت انداز شاعری کا منہ بولتا ثبوت ہے___
دھوپ نے کردیے منظر پس منظر آتش
ہوگیا سارا سمندر کا سمندر آتش
ہاتھ آتش نظر آتش ہے زباں پر آتش
کردیا کس نے میرے شہر کا ہر گھر آتش
کس کی یادوں نے یہ تبدیل کیا ہے موسم
برف کی رت میں دہکنے لگی اندر آتش
مصلحت کی یہ ردائیں نہ اوڑھاؤ لوگو
سر سے پا تک ہے میری سوچ کا پیکر آتش
مجھ سے کہتا ہے میرا جلتا ہوا گاؤں رئیس
تیرے گھر کو بھی نہ کر جائے منور آتش
ہندوستان و بیرون ملک کے مشاہیر اہل قلم نے رئیس الدین رئیس صاحب کے فن و شاعری پر بے شمار مضامین، اشعار و قصیدوں کے ذریعے اپنی محبتوں کا اظہار کیا ہے رئیس الدین رئیس کی ادبی خدمات کے اعتراف کے نتیجے میں اتر پردیش و بہار اردو اکادمی کی جانب سے انہیں ایوارڈ و اعزازات سے بھی نوازا گیا ان کے فن پر بے شمار مضامین و تبصرات شائع ہونے کے باوجود رئیس الدین رئیس صاحب تاحیات "بآب ورنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبارا" کے مصداق سب سے بے نیاز رہے
رئیس الدین رئیس نے اردو شاعری کو اپنی فکر سے حیات دوام عطا کردی ہے انہی کے ایک شعر پر اپنی بات ختم کرتی ہوں جو ان کے عزم و حوصلے و فلسفہ خودی کا غماز بھی ہے
ہماری خاک پا کا سرپھرا سا ایک زرہ
ہواؤں پر بھی اپنی حکمرانی چاہتا ہے
فوزیہ رباب
گوا، انڈیا
تقریباً سال بھر پہلے محترم رئیس الدین رئیس صاحب کا محبت بھرا تحفہ ان کے چوتھے مجموعہ کلام" شہر بے خواب ہے" کی شکل میں موصول ہوا پڑھ کر ذہن و دل پر وہ نشہ ہوا جس کا لطف آج تک برقرار ہے یہ میری بدقسمتی ہے کہ رئیس الدین صاحب کی بارہا یاددہانی کے باوجود میں آج تک ان کی شاعری پر تبصرہ نہیں لکھ پائ اور وجہ بس یہی تھی کہ انہوں نے مجھے اس قابل سمجھا تھا وگرنہ من آنم کہ من دانم، آج جب ان پر تبصرہ لکھ رہی ہوں تو آنکھیں نمناک ہیں کہ اب وہ مالک حقیقی سے جا ملے ہیں مولا ان کے درجات بلند فرمائے آمین اب ان کے لئے میرا خراج عقیدت یہی ہے کہ ان کی خواہش کے احترام میں ان کی شاعری پر اظہار خیال کروں
عالمی شہرت یافتہ شاعر، ادیب، مترجم صحافی و عمدہ شخصیت کے مالک رئیس الدین رئیس صاحب 8 جون 1948 کو اتر پردیش بلند شہر کے قصبے جیور میں پیدا ہوئے اور 1 اپریل 2016 کو مالک حقیقی سے جا ملے رئیس الدین رئیس کو شاعری ورثے میں ملی ان کے جد امجد ریاض الدین انصاری ریاض اردو کے قادر الکلام و ذود گو شاعر ہوئے ہیں جو نمائندہ شاعر نوح ناروی کے جانشین بھی تھے
محترم رئیس الدین رئیس ماہر شعر و فن بھی تھے عالم السان بھی ان کے ہاں اسلوب کی ندرت بھی نظر آتی ہے مضامین کا تنوع بھی، ان کے متفرق مضامین تنقیدی تبصرے اور ان کی شاعری ان کے فکر و فن، آہنگ و اسلوب کی نمائندگی کرتی ہے جو ان کے طویل شعری سفر کے تجربات و مشاہدات و محنت کا ثمرہ ہے شاعری کو اپنے عہد کا عکاس کہا جاتا ہے رئیس الدین رئیس نے اپنے عہد کی بصیرتوں کی جس طور پر نمائندگی کی ہے اس کا کوئی ثانی نہیں ملتا کہیں ان کا لہجہ درشت تو کہیں نرم ٹھنڈی چھاؤں سا ہے اضطراب و روحانی و جذباتی بے چینی ان کے اشعار کے توسط سے دل پر دستک دیتی ہے اور پھر قاری کے ذہن پر نقوش چھوڑ جاتی ہے
کہیں نہ دھوپ ، نہ بارش ہے سائبان اداس
نظر جھکائے ہوئے لوگ ، آسمان اداس
شکار کر کے پرندہ ، ہُوا شکاری خوش
لہو کے داغ اٹھائے ہوئے چٹان اداس
گھروں میں بھوک سے بچے بڑے فسردہ سب
نگر میں کرفیو نافذ ، ہر اک دکان اداس
یہ سوچ کر مَیں ادھورے سفر سے لَوٹ آیا
کہ ہجر ساعتیں کر دیں نہ میری جان اداس
محترم رئیس الدین کی شاعری روایت و جدت کا حسین امتزاج ہے ان کا کلام طویل عرصے سے ادبی رسائل و جرائد میں شائع ہوتا رہا ہے مضامین کا تنوع، جداگانہ اسلوب، مشکل قوافی میں بھی سلاست و روانی، نادر پیرایہ اظہار انہیں سب سے ممتاز کرتا ہے
رئیس الدین رئیس خود اپنے بارے میں کس انداز سے گویا ہیں کہ__
سبھی ہیں معتقد غزلوں کے میرے
غزل میں معنویت دیکھ میری
رئیس الدین رئیس لفظوں کی جادوگری سے خوب واقف ہیں یہی فکر کی بالیدگی انہیں جاوداں کرتی ہے ان کی غزلیں قاری کو اپنے سحر میں گرفتار کر لیتی ہیں ان کے یہاں ایک نیا آہنگ نظر آتا ہے معنی آفرینی و استادانہ مشاقی ان کے کلام کا جزو خاص ہے ان کے فکری اسلوب کو واضح کرنے کے لئے پیش ہیں چند منتخب اشعار__
یہ کیسی تشنہ لبی تھی کہ دیکھ کر دریا
رہی نہ پیاس کی باقی رمق قرین خیال
زمین ہجر ترے پاؤں کیوں پکڑتی ہے
سفیر وصل ترا شہر غم سے رشتہ کیا
یہ صحرا خود سراب ہے اب اس کا ذکر بے سبب
سمندروں کو خشک کر نئے سراب مانگ لے
سمندروں سے گلے مل گئے سبھی دریا
کہاں کہاں یہ زمیں قابل نمو کرتے
ہے کوئی شخص گھٹاؤں کا جو ہو رنگ شناس
پیش گوئی سے مرے دشت میں بارش آجائے
ہر ایک شخص کے لب سے نکل رہے ہیں سوال
ہر ایک شخص یہاں منتظر جواب کا ہے
اک یہی رکھتا ہے ہمراز سفر کا رتبہ
ہم کو معلوم ہے رستے کے شجر کا رتبہ
مری ہی کرب رتوں نے کیا شکار مجھے
بہا کے لے گیا اشکوں کا آبشار مجھے
دل کا دریا رات اگنی کنڈ میں ڈھلنے لگا
میری ہی لپٹوں میں میرا ہی بدن جلنے لگا
فلک پہ آخر شب جو اک ستارہ ہے
غنیم تیرا نہیں میرا استعارہ ہے
رہے گا رنگ شفق محو گفتگو تجھ سے
زمین پائے گی میرے لہو نمو تجھ سے
تو
رئیس الدین رئیس بحیثیت غزل گو شاعر تو اپنی جداگانہ شناخت رکھتے ہی ہیں مگر ان کی رباعیات و نظمیں ان کا قد مزید بلند کرتی ہیں و قادرالکلامی کی گواہ ہیں ان کی نظموں میں تعارف، آسماں حیران ہے، زمیں خاموش ہے، سمندر سوچتا ہے، شہر بے خواب ہے، خواہش، رائیگاں، کبھی تو ایسا ہو، یوم جمہوریت، یقین و گماں کے بیچ، تلاش تعبیر، صدیوں کی نیند، نوشتہ غم، کاش، بدن کھائیاں، نسخہ و دیگر نظمیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں
رئیس الدین رئیس ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ آسماں ، زمیں، ﭘﺎﻧﯽ جیسے مظاہر فطرت ﮐﺎﺗﺠﺮﯾﺪﯼ ﺗﻌﻠﻖ ﺍﯾﮏ ﺍﭼﮭﻮﺗﮯ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ان کے 5 مجموعہ کلام بعنوان
1_آسماں حیران ہے 1995ء
تیری طلب پہ تو حیران آسمان ہے رئیس
کہ تونے چاند نہیں اس کا داغ مانگا ہے
2_زمیں خاموش ہے 2001ء
آسمان فکر کوئی ضرب کاری دے مجھے
ایک مدت سے مرے دل کی زمیں خاموش یے
3_سمندر سوچتا ہے 2006ء
میں قطرہ ہوں مگر وسعت پہ میری
یہ دریا کیا سمندر سوچتا ہے
4_شہر بے خواب ہے 2013ء
لوٹ آتی ہیں کیوں نیند کی دستکیں
کیا ہوا ہے خدا؟ شہر بے خواب ہے
5_سر کنارہ شام 2015ء
شائع ہو کر حلقہ ادب میں بے پناہ مقبولیت و داد حاصل کر چکے ہیں
اس کے علاوہ رئیس الدین رئیس صاحب کی ایک تالیف بھی ہے
دل ہے آئینہ 2013) فن و شخصیت قمر نقوی
آپ کی مضامین و تاثرات پر مبنی ایک کتاب
"قلم زاد" اور دیوناگری میں کی گئی شاعری کی کتاب
"دھرتی آکاش سمندر "بھی بحیثیت شاعر، ادیب و صحافی ان کی شناخت مسلم کرتی ہے اپنی انہی فکری فنی و قائدانہ صلاحیتوں کی بناء پر رئیس الدین رئیس صاحب کو ماہنامہ روشنی کی ادارت کے عہدے پر فائز کیا گیا علاوہ ازیں سہ ماہی ترویج (کٹک) و کائنات(کلکتہ)کے بھی مدیر رہے رئیس الدین رئیس صاحب کی یہ غزل بھی ان کے خوبصورت انداز شاعری کا منہ بولتا ثبوت ہے___
دھوپ نے کردیے منظر پس منظر آتش
ہوگیا سارا سمندر کا سمندر آتش
ہاتھ آتش نظر آتش ہے زباں پر آتش
کردیا کس نے میرے شہر کا ہر گھر آتش
کس کی یادوں نے یہ تبدیل کیا ہے موسم
برف کی رت میں دہکنے لگی اندر آتش
مصلحت کی یہ ردائیں نہ اوڑھاؤ لوگو
سر سے پا تک ہے میری سوچ کا پیکر آتش
مجھ سے کہتا ہے میرا جلتا ہوا گاؤں رئیس
تیرے گھر کو بھی نہ کر جائے منور آتش
ہندوستان و بیرون ملک کے مشاہیر اہل قلم نے رئیس الدین رئیس صاحب کے فن و شاعری پر بے شمار مضامین، اشعار و قصیدوں کے ذریعے اپنی محبتوں کا اظہار کیا ہے رئیس الدین رئیس کی ادبی خدمات کے اعتراف کے نتیجے میں اتر پردیش و بہار اردو اکادمی کی جانب سے انہیں ایوارڈ و اعزازات سے بھی نوازا گیا ان کے فن پر بے شمار مضامین و تبصرات شائع ہونے کے باوجود رئیس الدین رئیس صاحب تاحیات "بآب ورنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبارا" کے مصداق سب سے بے نیاز رہے
رئیس الدین رئیس نے اردو شاعری کو اپنی فکر سے حیات دوام عطا کردی ہے انہی کے ایک شعر پر اپنی بات ختم کرتی ہوں جو ان کے عزم و حوصلے و فلسفہ خودی کا غماز بھی ہے
ہماری خاک پا کا سرپھرا سا ایک زرہ
ہواؤں پر بھی اپنی حکمرانی چاہتا ہے
فوزیہ رباب
گوا، انڈیا