محمود احمد غزنوی
محفلین
میرے خیال میں تو شہاب نامے میں کہیں بھی افسانہ نگاری کا تاثر نہیں ملتا۔ اور جہاں تک کسی قاری کے یقین کے متزلزل ہونے کی بات ہے، ہوسکتا ہے کہ کچھ قاری حضرات ایسے ہی ہوں لیکن اس کی بنیادی وجہ افسانہ نگاری کا انداز نہیں بلکہ بذاتٰ خود کچہ واقعات کا ان حضرات کی عقل سے بالاتر ہونا ہے۔خدا نخواستہ اس سے یہ مراد نہیں کہ شہاب صاحب نے جھوٹی باتیں لکھی ہیں ، عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ سچ کو بھی ایسے افسانوی انداز سے بیان کرتے ہیں کہ قاری مسحور توہوجاتا ہے لیکن اس کا یقین متزلزل ہوجاتا ہے ، سچی بات یہ ہے کہ کسی افسانہ خواں کو وقائع نگاری نہیں کرنی چاہیے کیونکہ جس طرح وہ افسانوی واقعات میں تراش خراش کرکے انہیں بہتر سے بہتر صورت میں پیش کرنا ہے اسی طرح وہ اصلی واقعات میں بھی ”فنی ضروریات“ کے تحت کمی بیشی کرلیتا ہے ، یہ عمل شعوری نہیں ، لاشعوری ہوتا ہے ، لکھنے والے کو اس کا کامل یقین ہوتا ہے ، حقیقت صرف وہی ہے جو اس کے احاطہ بیان میں آئی ہے۔
اگر افسانوی انداز دیکھنا ہو تو ‘پیا رنگ کالا‘ اور ‘کاجل کوٹھا پڑھئے۔