تبصرے - نظم اللہ میاں تھلے آ از سائیں اختر حسین

فرخ منظور

لائبریرین
چھوڑیں فرخ صاحب ان کو ان کے حال پر۔

آپ نظم پوری کریں قبلہ :)

وارث صاحب ویسے ان صاحب کے لحاظ سے نظم کا اندازِ تخاطب یوں ہونا چاہیے تھا۔

اللہ میں تھلّے آؤ
اپنی دنیا وہیندے جاؤ

پھر یہ اعترض کرتے کہ اللہ کے لئے جمع کا صیغہ کیوں استعمال کیا ہے اللہ تو واحد ہے۔ حد ہے بھئی۔ :)
 
ہر طبیعت شعروشاعری یا موسیقی کیلئے موزوں نہیں ہوتی۔ ۔ ۔ایک ہوتا ہے عاشقانہ و رندانہ مزاج اور ایک ہوتا ہے زاہدانہ تقّشف۔ ۔ ۔
اس ساری بحث سے مجھے جعفر شاہ پھلواری صاحب کی کتاب 'اسلام اور موسیقی' یاد آگئی۔ ۔ انہوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ایک صاحب محفلِ سماع میں انکے ساتھ بیٹھے تھے۔ قوّال گا رہا تھا
نجام الدّین اولیاء کو کون سمجھائے
میں جتنا مناوءں وہ اتنا رسل جائے​
اب یہ صاحب لگے منہ بسورنے اور شدید انقباض کے عالم میں کہنے لگے "سب بکواس اور جھوٹ ہے۔ ۔نہ تو کوئی ناراض ہوا تھا اور نہ ہی کوئی منا رہا تھا"۔:) ۔ ۔اب بھلا ایسے متّْقی اور پرہیزگار حضرات سماع سے کیا لطف اندوز ہونگے سماع اور شاعری ایسے صاحبان کی صحّتِ جسمانی و روحانی کیلئے شدید مضر ہے:)
میرے خیال میں اس نام کی ایک نظم پہلے پہل استاد دامن نے لکھی تھی ۔ ۔ ۔استاد دامن ایک عوامی شاعر تھے اور عوامی شاعری ایسی ہی ہوتی ہے۔ میرے دادا جان مرحوم انکے دوست تھے اور دونوں دوست جب بھی ملتے تھے تو اکثر ٹکسالی گیٹ کی ریڑھیوں سے فروٹ لیکر سرِبازار ہی کھایا کرتے تھے:)۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
 
میرا خیال ہے کہ یہ پنجابی کا عوامی طرز اسلوب ہے
مگر عام اردو میں‌بے ادبی کے زمرے میں اتا ہے
اگر بدتمیزی ہی ادب بن جائے تو ادب کا اللہ ہی حافظ ہے
 

ماظق

محفلین
اِک دُوجے تے پان لئی غلبہ
کر چھڈیا نیں کابل ملبہ
بند سکول تے مر گئے طلبہ
ایہناں توں اسلام بچا
اللہ میاں تھلّے آ​

اس کا اردو ترجمہ یہ ھے

ایک دوجے پر غلبہ پانے کے لیے
کابل کو ملبہ بنا دیا ھے
اسکول بند کئے جا رھے یا طلبہ کو مارا جا رھا ھے
ان سے اسلام کو بچا لے
اے اللہ مدد کر

اس نظم میں سارے اشعار ایسے ھیں،پتا نہیں آپ لوگوں کو کیسے اس میں بے ادبی کا عنصر مل گیا اور بغیر کسی زبان کو سمجھتے اور جانتے ھوئے ای طرح کے کمنٹس دے دینا کتنا جائز ھے ۔ ویسے منٹو اور عصمت چغتائی کو پڑھ لیں تو شاید ان پر کفر کا فتوٰی بھی لگا دیں ۔اطلاعاً عرض ھے کہ اردو پنجاب میں ھی معرض وجود میں آئی ھے اور اردو اور پنجابی کی نہ صرف گرائمر ایک ھے بلکہ آدھے ساے زیادہ الفاظ بھی مشترک ھے _ رھی بات بد تمیزی کی تو وہ کسی زبان سے منسلک نہیں ھوتی بلکہ ذھنیت سے تعلق رکھتی ھے _ ایک گندی ذھنیت رکھنے والا کبھی بھی مثبت سوچ کا حامل نہیں ھو سکتا چاھے وہ کوئی بھی زبان بولتا ھو _




میرا خیال ہے کہ یہ پنجابی کا عوامی طرز اسلوب ہے
مگر عام اردو میں‌بے ادبی کے زمرے میں اتا ہے
اگر بدتمیزی ہی ادب بن جائے تو ادب کا اللہ ہی حافظ ہے
 
اِک دُوجے تے پان لئی غلبہ
کر چھڈیا نیں کابل ملبہ
بند سکول تے مر گئے طلبہ
ایہناں توں اسلام بچا
اللہ میاں تھلّے آ​

اس کا اردو ترجمہ یہ ھے

ایک دوجے پر غلبہ پانے کے لیے
کابل کو ملبہ بنا دیا ھے
اسکول بند کئے جا رھے یا طلبہ کو مارا جا رھا ھے
ان سے اسلام کو بچا لے
اے اللہ مدد کر

اس نظم میں سارے اشعار ایسے ھیں،پتا نہیں آپ لوگوں کو کیسے اس میں بے ادبی کا عنصر مل گیا اور بغیر کسی زبان کو سمجھتے اور جانتے ھوئے ای طرح کے کمنٹس دے دینا کتنا جائز ھے ۔ ویسے منٹو اور عصمت چغتائی کو پڑھ لیں تو شاید ان پر کفر کا فتوٰی بھی لگا دیں ۔

اپ کہہ رہے ہو تو مان لیتے ہیں
ورنہ میں‌نے تو ہمشہ پنجاب میں‌بدمعاش کو پکار پکار کر کہتے سنا ہے کہ "ذرا تھلے ا دیکھتا ہوں‌تجھے" اور یہ ہمیشہ وہ بدمعاش کسی کمزور کو ہی کہتا ہے
ویسے اگر واقعی یہ مطلب ہے جو اپ نے بتایا ہے تو میری طرف سے معزرت۔ مجھے پنجابی سے اتنی ہی شدبد ہے جتنی پنجاب میں‌رہتے ہوئے سنی ہے۔
 

شاہ حسین

محفلین
جناب غزنوی صاحب شکریہ کچھ لوگوں کو آپ سمجھا بھی سکتے ہوں پر اگر وہ نہ سمجھنے کی نیّت کر کے نکلے ہوں تو پھر آپ کا سمجھانا اکارت ہی ہو گا ۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہر طبیعت شعروشاعری یا موسیقی کیلئے موزوں نہیں ہوتی۔ ۔ ۔ایک ہوتا ہے عاشقانہ و رندانہ مزاج اور ایک ہوتا ہے زاہدانہ تقّشف۔ ۔ ۔
اس ساری بحث سے مجھے جعفر شاہ پھلواری صاحب کی کتاب 'اسلام اور موسیقی' یاد آگئی۔ ۔ انہوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ایک صاحب محفلِ سماع میں انکے ساتھ بیٹھے تھے۔ قوّال گا رہا تھا
نجام الدّین اولیاء کو کون سمجھائے
میں جتنا مناوءں وہ اتنا رسل جائے​
اب یہ صاحب لگے منہ بسورنے اور شدید انقباض کے عالم میں کہنے لگے "سب بکواس اور جھوٹ ہے۔ ۔نہ تو کوئی ناراض ہوا تھا اور نہ ہی کوئی منا رہا تھا"۔:) ۔ ۔اب بھلا ایسے متّْقی اور پرہیزگار حضرات سماع سے کیا لطف اندوز ہونگے سماع اور شاعری ایسے صاحبان کی صحّتِ جسمانی و روحانی کیلئے شدید مضر ہے:)
میرے خیال میں اس نام کی ایک نظم پہلے پہل استاد دامن نے لکھی تھی ۔ ۔ ۔استاد دامن ایک عوامی شاعر تھے اور عوامی شاعری ایسی ہی ہوتی ہے۔ میرے دادا جان مرحوم انکے دوست تھے اور دونوں دوست جب بھی ملتے تھے تو اکثر ٹکسالی گیٹ کی ریڑھیوں سے فروٹ لیکر سرِبازار ہی کھایا کرتے تھے:)۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

شکریہ محمود صاحب! سائیں اختر حسین، استاد دامن کے شاگردِ خاص تھے اور ساری عمر ٹکسالی دروازے کی بیٹھک میں ان کے ساتھ ہی رہے۔ بلکہ ان کے انتقال کے بعد بھی سائیں اختر حسین انہی کی بیٹھک میں بیٹھا کرتے تھے۔ میں ان کی زبانی بھی ان سے یہ اور مزید بھی بہت سی نظمیں سن چکا ہوں۔ ان کے انتقال سے کچھ عرصہ پہلے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ایک نظم سنائی تھی جو میل شاونزم پر تھی۔ "میں تے نہاتا دھوتا گھوڑا" یعنی مرد اس معاشرے میں جو بھی کر لے وہ ہر گناہ سے پاک ہی رہتا ہے۔
 
اللہ بچائے بے ادب انداز تخاطب سے۔
جو لوگ اپنے اپ کو ہی خدا سمجھنے لگیں اللہ ان لوگوں کے ذوق ادب سے بھی بچائے۔

اللہ اپ لوگوں‌کو خوش رکھے۔ اگر اپ اس طرح کے ادب سے خوش ہوں‌تو ہم کیا کرسکتے

ڈر نہ بیبا کش نہیں‌ہوندا
ہر شخس بش نہیں‌ہوندا
 
شاکر صاحب، ممتاز مفتی کی ایک چھوٹی سی کتاب ہے "تلاش" اگر آپ صرف وہی پڑھ لیں تو آپ کے علمی افق میں کافی وسعت آجائے گی۔ کتاب کا لنک دے رہا ہوں۔

ممتاز مفتی کی کتاب تلاش پڑھیے۔

سبحان اللہ
ممتاز مفتی جیسے کنفیوژڈ شخص کی کتاب اس طرح کے انداز پر سند کے طور پر پیش کی جاسکتی ہے؟
 

ساجد

محفلین
ہمت بھیا ، آپ کا تعلق صوفیاء کے مسکن صوبہ سندھ سے ہے۔ آپ نے کبھی صوفیانہ کلام یا کافیاں پڑھی ہیں؟۔
حضور ، آپ کے خیالات پڑھ کے نہ جانے مجھے 'فکری اختلاف کے باوجود' آج جوش ملیح آبادی مرحوم کیوں یاد آ گئے۔ یہ رند اور شرابی بھی ا یسی سچی باتیں کہہ گیا جو آج من و عن پوری ہو رہی ہیں۔
 

شاکر

محفلین
سبحان اللہ
ممتاز مفتی جیسے کنفیوژڈ شخص کی کتاب اس طرح کے انداز پر سند کے طور پر پیش کی جاسکتی ہے؟

ہمت بھائی، ان احباب کی پسندیدہ شخصیت ممتاز مفتی صاحب خانہ کعبہ کو کالا کوٹھا 'لبیک' میں کہہ چکے ہیں۔ پھر بھی یہ حضرات ان کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ تو ان سے اس سے کہیں کم تر پر تنقید کی توقع تو لاحاصل ہی ہے۔ آج ان حمایتی صاحبان کو کوئی ولدالحرام کہہ دے اور دلیل یہ دے کہ حرام کا مطلب مقدس بھی ہوتا ہے، جیسے مسجد حرام۔ لہٰذا ولد الحرام کہلانے میں‌کوئی حرج نہیں۔ تو معلوم نہیں‌ان کا کیا جواب ہوگا؟ لغوی اور اصطلاحی مفاہیم میں بہت فرق ہوتا ہے۔ بعض الفاظ لغوی لحاظ سے بالکل درست ہوتے ہیں یا ثابت کئے جا سکتے ہیں جیسے ولد الحرام لیکن اصطلاحاٌ وہ غلط معنوں میں‌ہی مستعمل ہوتے ہیں۔
اللہ میاں‌تھلے آ، لغوی لحاظ‌سے نہیں لیکن پنجابی اصطلاح میں‌بدمعاشانہ خطاب ، بڑک، ہی ہے۔'اللہ میاں‌مدد کرو' مجازی معانی لینے کی کوشش ہے جو کسی بھی طرح 'اپنی دنیا ویہندا جا' کے جملے پر منطبق نہیں ہوتی۔ اور خانہ کعبہ کو 'کالا کوٹھا' کہنا یقینا ٌ توہین ہے۔ یقین نہیں‌تو اپنے گھر پر 'کوٹھا' لکھ ڈالیں۔ لغت کے حساب سے تو کوئی مسئلہ نہیں، اصطلاحی اعتبار سے یقیناٌ شرم محسوس ہوگی۔
باقی پسند اپنی اپنی ذوق اپنا اپنا۔ لیکن ایمان کے چھوٹے ترین درجہ یعنی دل میں‌برا سمجھنے کی بجائے اس برائی کو زبان و قلم سے برا کہنا بہتر لگا۔
 

ماظق

محفلین
محترم ایک شخص کہتا ھے کوا سفید ھے اور کوئل کالی ھے تو کیا ھم اس کی دونوں باتوں کو رد کر دیں یا دونوں کو مان لیں،عقل کہتی ھے کہ جو بات صحیح ھے اس کو مانا جائے جو غلظ ھے اسے نہ مانا جائے ۔ ممتاز مفتی نے اگر کبھی غلط بات کی ھے تو نہ مانیں لیکن جہاں انہوں نے صحیح بات کی ھے اسے ماننے کی بجائے صحیح کو غلط ثابت کرنے کے لیے جواز نہ تراشیں ۔
ہمت بھائی، ان احباب کی پسندیدہ شخصیت ممتاز مفتی صاحب خانہ کعبہ کو کالا کوٹھا 'لبیک' میں کہہ چکے ہیں۔ پھر بھی یہ حضرات ان کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ تو ان سے اس سے کہیں کم تر پر تنقید کی توقع تو لاحاصل ہی ہے۔ آج ان حمایتی صاحبان کو کوئی ولدالحرام کہہ دے اور دلیل یہ دے کہ حرام کا مطلب مقدس بھی ہوتا ہے، جیسے مسجد حرام۔ لہٰذا ولد الحرام کہلانے میں‌کوئی حرج نہیں۔ تو معلوم نہیں‌ان کا کیا جواب ہوگا؟ لغوی اور اصطلاحی مفاہیم میں بہت فرق ہوتا ہے۔ بعض الفاظ لغوی لحاظ سے بالکل درست ہوتے ہیں یا ثابت کئے جا سکتے ہیں جیسے ولد الحرام لیکن اصطلاحاٌ وہ غلط معنوں میں‌ہی مستعمل ہوتے ہیں۔
اللہ میاں‌تھلے آ، لغوی لحاظ‌سے نہیں لیکن پنجابی اصطلاح میں‌بدمعاشانہ خطاب ، بڑک، ہی ہے۔'اللہ میاں‌مدد کرو' مجازی معانی لینے کی کوشش ہے جو کسی بھی طرح 'اپنی دنیا ویہندا جا' کے جملے پر منطبق نہیں ہوتی۔ اور خانہ کعبہ کو 'کالا کوٹھا' کہنا یقینا ٌ توہین ہے۔ یقین نہیں‌تو اپنے گھر پر 'کوٹھا' لکھ ڈالیں۔ لغت کے حساب سے تو کوئی مسئلہ نہیں، اصطلاحی اعتبار سے یقیناٌ شرم محسوس ہوگی۔
باقی پسند اپنی اپنی ذوق اپنا اپنا۔ لیکن ایمان کے چھوٹے ترین درجہ یعنی دل میں‌برا سمجھنے کی بجائے اس برائی کو زبان و قلم سے برا کہنا بہتر لگا۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
ناظمین سے گزارش ہے کہ تمام تبصرہ جات کو ایک نیا دھاگہ بنا کر وہاں منتقل کر دیا جائے اور اس نظم کے دھاگے کو مقفل کر دیا جائے۔ اور اس نظم سے اختلاف رکھنے والے احباب کو دعوت ہے کہ بلھے شاہ کی یہ کافی بھی پڑھیں جو اس نظم سے کہیں بڑھ کر بے باک ہے۔

عشق دی نویوں نویں بہار
 
Top