تجریدی غزل : ایک دلچسپ تنقیدی مضمون

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
چند سال پہلے سرور عالم راز سرورؔ کی ویبگاہ پر بشیر بدؔر صاحب کی ایک ’’تجریدی غزل‘‘ پر ایک دلچسپ گفتگو ہوئی ۔ شمالی امریکا میں اردو شعر و ادب پر کام کے حوالے سے محترم سرور عالم راز سروؔر کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ بالخصوص اردو عروض کی تسہیل و ترویج کے لئے ان کی تصانیف اور رشحاتِ قلم ایک سرمائے کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اس ’’تجریدی غزل‘‘ پر سرؔور صاحب کے دو بہت ہی دلچسپ اور فکر انگیز مراسلے اس تمام گفتگو کا حاصل رہے ۔ میں بشیر بدؔر کی غزل اور اُن مراسلوں کو یہاں پیش کررہا ہوں ۔ سرؔور صاحب کے مراسلوں کو ایک باقاعدہ مضمون کی صورت دینے کی غرض سے ان میں بہت ہی معمولی سی تدوین کی گئی ہے۔

غزل (بشیر بدؔر)

٭٭٭

چائے کی پیالی میں نیلی ٹیبلٹ گھولی
سہمے سہمے ہاتھوں نے اک کتاب پھرکھولی

دائرے اندھیروں کے روشنی کے پوروں نے
کوٹ کے بٹن کھولے ، ٹائی کی گرہ کھولی

شیشے کی سلائی میں کالے بھوت کا چڑھنا
بام ، کا ٹھ کا گھوڑا ، نیم ، کانچ کی گولی

برف میں دبا مکھن ،موت ، ریل اور رکشہ
زندگی ، خوشی ،رکشا ، ریل ، موٹریں ، ڈولی

اک کتاب چاند اور پیڑ سب کے کالے کالر پر
ذہن ٹیپ کی گردش ، منھ میں طوطوں کی بولی

وہ نہیں ملی ہم کو ، ہُک بٹن سرکتی جین
زِپ کے دانت کھُلتے ہی آنکھ سے گری چولی

٭٭٭​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
(تبصرہ و تنقید از سرور عالم راز سروؔر)

بشیر بدر کی اس تخلیق کو ’’تجریدی غزل‘‘ کے بھاری بھرکم اور معتبر لقب سے نوازا گیا ہے۔ میں اس صنفِ سخن سے مطلق نا واقف ہوں اور میرا خیال ہے کہ بیشتر احباب انجمن بھی اس معاملہ میں میرے ساتھ ہیں۔ آزاد نظم، نثری نظم زیادہ تر توصرف دیکھی ہیں، کچھ پڑھی بھی ہیں، سمجھ میں شاید ایک آدھ آئی ہو لیکن تجریدی نظم کا کوئی تجربہ اب تک نہیں ہوا تھا۔ تجریدی (ایبسٹریکٹ) مصوری کے نمونے البتہ کافی دیکھنے میں آ چکے ہیں ۔ پکاسو کی مصوری پر بارہا قراءت سے لاحو ل پڑھ چکا ہوں اور ایسی تصویر کے پرستاروں کی عقل و دانش پر مایوسی سے سر ہلاتا ہوا اپنے حجرۂ عافیت میں جا بیٹھا ہوں۔ میرے شہر کے نزدیک ہی ایک ’’میوزیم آف ماڈرن آرٹ‘‘ ہے ۔تجریدی آرٹ کا تفصیلی تجربہ مجھ کو تب ہو اجب سوئے اتفاق سے میں اس میوزیم میں دو مرتبہ (یعنی پہلی باراور آخری بار!)پہنچ گیا ۔ وہاں کے شاہکاروں میں دو دس فٹ لمبے اور آٹھ فٹ چوڑے سفید کینوس دیکھے جو شانہ بشانہ دیوار پر آویزاں تھے۔ ایک کینوس پر دائیں اور بائیں طرف ایک ایک چھ انچ چوڑی عمودی زَرددھاری بنی ہوئی تھی۔ دوسرے پر اوپر اور نیچے کے کناروں پر ایسی ہی زَردُ افقی دھاریاں بنی ہوئی تھیں۔باقی کینوس بالکل بے داغ اور صاف ستھر ا تھا۔ یہ اس پینٹنگ کا اول وآخر تھا۔ فاضل مصور نے ان کی قیمت بھی لکھ رکھی تھی جواب ذہن سے مٹ چکی ہے لیکن تھی خاصی موٹی اور بھاری۔ ایک طرف ایک تین فٹ اونچے چبوترے پر تین فٹ مکعب (کیوب) کی شکل کا لوہے کا انگڑ کھنگڑ بڑی شائستگی سے رکھا ہوا تھا۔ پوچھنے پر معلوم ہو ا کہ بھٹی میں پگھلانے سے پہلے پرانی موٹر کاروں کو پریس سے دبا پچکا کر ایسا کر دیا جاتا ہے۔ آرٹسٹ نے اس پر اتنا ہی کام کیا تھا کہ کہیں سے یہ لوہا لنگڑ اونے پونے خرید کر چبوترے پر ایک خوبصورت تختی لگا کرنصب کر دیا تھا۔آرٹ کے ان نمونوں کو دیکھ کر میں تو خیر میوزیم سے عربی میں لا حول ولا قوۃ پڑھتا ہوا نکل آیا لیکن وہاں انگریزی میں بھی لا حول پڑھنے والے خاصی تعداد میں تھے۔ تجریدی آرٹ پر مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا۔
ایک صاحب نے ایک میوزیم میں دیوار پر بڑا سا سفید بے داغ کینوس دیکھاجس پر کچھ نہیں بنا ہوا تھا۔ پاس ہی اس شاہکار کے خالق آرٹسٹ کھڑے ہوئے مہمانوں کو اُن کے سوالوں کے جوا ب دے کر اپنے علم سے چاروں شانے چت کر رہے تھے۔ ان صاحب نے دریافت کیا کہ ’’حضور! اس کینوس میں کیا دکھایا گیا ہے ۔ مجھ کو تو کچھ نظر نہیں آرہا ہے۔‘‘آرٹسٹ صاحب نے فرمایا کہ ’’جناب! یہ پینٹنگ چند ایسی گایوں کی ہے جو میدان میں گھاس چر رہی ہیں۔‘‘ ان صاحب نے ہڑبڑا کر پوچھا کہ’’لیکن مجھ کو تو کہیں کوئی گھاس نظر نہیں آ رہی ہے۔‘‘ تس پر فاضل آرٹسٹ نے مسکرا کر کہا ’’جی ! وہ توسب کی سب گائیں کھا چکی ہیں۔‘‘ ان صاحب نے اپنے احمقانہ سوال پرذرا سا خفیف ہو کر پھر پوچھا ’’لیکن وہ گائیں ہیں کہاں اس پینٹنگ میں؟‘‘ ان کی دماغی حالت پر رحم کھاتے ہوئے آرٹسٹ صاحب نے سر ہلاتے ہوئے کہا کہ ’’بھائی ! وہ گھاس کھا کراپنے اڈے واپس جا چکی ہیں۔‘‘
توجناب اس تجریدی غزل اور نظم کی تلاش میں خادم نے بہت سی کتابیں اور اس سے زیادہ رسالے کھنگالے لیکن گوہرِ مراد ہاتھ نہ آیا۔یک بیک خیال آیا تو الماری سے سن ۲۰۰۰ء کا ایک ضخیم رسالہ ’’استعارہ‘‘ نکال کر لایا جس کو بڑی آب و تاب سے صلاح الدین پرویؔز اور حقانی القاسمی صاحبان نے نئی دہلی سے نکالا تھا۔ رسالہ کی پیشانی پردرج ہے ’’ادب کے سناٹوں کو توڑتی ہوئی تیسری آواز‘‘۔البتہ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ان سناٹوں کو توڑنے والی ’’دوسری‘‘ آواز کا خالق کون تھا اور اس آواز کا آخر کیا بنا۔ یہ رسالہ ادب وشعر کی دقیانوسیت اور یکسانیت سے بغاوت میں شائع ہونا شروع ہوا تھا۔ خبر نہیں کہ اس کے کتنے شمارے نکلے۔فاضل مدیر صاحب رسالہ کے دیباچہ ’’اساس‘‘ میں یوں رقم طراز ہیں: ’’میری تخلیقات ہند وپاک کے تمام ادبی رسائل میں شائع ہوتی رہی ہیں لیکن میں ان رسائل کے مجموعی ماحول میں خود کو اجنبی ، اکیلا اور محدود محسوس کرتا ہوں۔ مجھے خود ایک آزادانہ تخلیقی ’استعارہ‘ کی ضرورت ہے لیکن اپنے کلام کی اشاعت کے لئے نہیں۔ مجموعی طور پرنئی نسل کے فنکاروں کو ایک آزادانہ ادبی ماحول فراہم کرنے کے لئے یہ رسالہ شروع کیا ہے۔’استعارہ‘ کے اجراء سے میں نظم کی صنف کو نئے انداز سے ہمہ گیر بنانے اور زیادہ جاندار تخلیق کے اظہار کا حامل بنانا چاہتا ہوں۔ اپنے ہم عصروں کو اس کرب سے نکالنا چاہتا ہوں جسے ایک عرصے تک میں خود بھی جھیلتا رہا ہوں۔‘‘
نظم سے متعلق ٖفاضل مدیر کا یہ بیان دیکھ کر مجھ کو یقین ہو گیا کہ اس رسالہ میں نظم کے مختلف نمونے مل جائیں گے۔ افسوس کہ نمونے تو بہت سے ملے لیکن ان میں ایسا’’تجریدی‘‘ نمونہ کوئی نہیں تھا جو بشیر بدر صاحب کی تجریدی غزل کا مدمقابل ہوتا۔ جہاں تک خودغزل کا تعلق ہے تو رسالہ میں شمیم حنفی،زبیر رضوی، راشد فضلی ، عالم خورشید، احمد محفوظ وغیرہ کی ردیف،قافیے اور وزن وبحر کی بندشوں میں جکڑی ہوئی تخلیقات ہیں جن میں روایات سے بغاوت کی مثال ادھر اُدھرنظر آجاتی ہے۔ ایسے چند ’’باغیانہ‘‘اشعار درج ذیل ہیں:

راحت افزا موسم بھیج
پیاسے گل ہیں شبنم بھیج
جسم پہ پھولوں کے ہیں زخم
گلشن گلشن مرہم بھیج
جن کی جیسی ہے اوقات
ان کو ویسے ہی غم بھیج
نقادوں کے پاس فراغؔ
رس گلے اور چم چم بھیج
(فراغؔ روہوی)

٭٭٭

ہم بستری ہے اپنی ہمارے لئے بہت
مدت سے جاگنا ہے نہ سونا کسی کے ساتھ
دیوارِ تکیہ بیچ میں کر لی گئی بلند
ہم نے بچھا دیا جو بچھونا کسی کے ساتھ
موجودگی سی جیسے کسی اور کی بھی ہے
منظر جو بن رہا ہے تکونا کسی کے ساتھ

٭٭٭

زمیں کم ہے تو جا کر آسماں پر چومنا ہے
جہاں وہ ہو نہیں سکتا وہاں پر چومنا ہے
ابھی تو منکشف ہونا ہے پہلی بار ہم پر
ابھی ہم نے کسی نقش نہاں پر چومنا ہے
حباب آسا اگریہ زندگانی ہے تو بر وقت
کسی کے محرم آب رواں پر چومنا ہے
(ظفرؔ اقبال)


امید ہے قارئین کرام خودہی ان اشعار کے تغزل، شعریت، معنی آفرینی اور اثر پذیری کی گتھیاں سلجھا کر لطف اندوز ہوئے ہوں گے۔ یہ کہنامشکل ہے کہ یہ صنف سخن ’’تجریدی غزل‘‘ کے زمرے میں رکھی جا سکتی ہے یا نہیں۔افسوس کہ’’تجریدی نظم‘‘ کی کوئی مثال باوجود تلاش کرنے کے نہ مل سکی البتہ کئی نظمیں ایسی ضرور ملیں جو ’’معنئ شعر د ر بطن شاعر’’کی اچھی مثالیں ہیں۔ ایک شاعر کے متعلق پہلے فاضل تبصرہ نگار کی رائے دیکھئے اور پھر ان کی دو نظمیں ملاحظہ کیجئے :
’’وی پی سنگھ ایک بڑے سیاستداں، ایک مصور ،ایک اہم شاعر ہیں۔ انہوں نے خوبصورت امیج اور لفظیات کے سہارے انسانی ذہنوں میں اترنے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔ وہ اپنی شاعری میں نئے لفظ، نئے خیال تراشتے ہیں اور کمال ہنرکے ساتھ اسے فن کے سانچے میں ڈھال دیتے ہیں۔‘‘

(نظم)
کاش اس کا دل ایک تھرمس ہوتا
ایک بار چائے بھری
گرم کی گرم بنی رہی
پر کم بخت یہ کیتلی نکلی!


(نظم)
اس نے اس کی گلی نہیں چھوڑی
اب بھی چپکا ہے
پھٹے اشتہار کی طرح
اچھا ہوا، میں پہلے نکل آیا
نہیں تو میرا بھی وہی حال ہوتا!

آئیے سب با جماعت قراءت کے ساتھ لاحول ولا قوۃپڑھیں۔ اور کوئی چار ا بھی تونہیں ہے۔اس سلسلہ کی ایک نظم دل پرجبر کر کے اور سن لیجئے۔ وعدہ ہے کہ اس کے بعد آپ پر یہ ظلم نہیں کروں گا۔ ’’شاعر‘‘ ہیں اصغر معصومؔ ہندی۔

بھنگی

ریشم! میں نے تیرا دودھ پیا ہے
رامونے بھی تیرا دودھ
پیا ہے
ریشم! اس حساب سے تیرا بیٹا رامو
میرا دودھ شریک بھائی ٹھہرا
میرا بھائی اگر بھنگی ہے
تو میں بھی بھنگی ہوں!

واہ واہ! سبحان اللہ! کیا شعریت ہے، کیا شیرینی اور چاشنی ہے اس نظم میں ۔ اس کی تعریف میں صرف ایک ہی لاحول پڑھنا کافی نہیں ہے!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
(تبصرہ و تنقید از سرور عالم راز سروؔر)
اس سے قبل ایک خط بشیر بدرؔ صاحب کی غزل کے حوالے سے پیش خدمت کر چکا ہوں۔یہ اس لڑی کا دوسرا خط ہے ۔ جوباتیں میں لکھ رہا ہوں ان میں سے اکثرآپ کو کتابوں میں نہیں ملیں گی۔ یوں بھی کتابیں پڑھنے کا دستور اب نا پید سا ہوچلاہے اوریہ نہایت تشویشناک بات ہے۔ میں امریکہ میں ہوں۔ یہاں جا بجا بلا مبالغہ سینکڑوں لائبریریاں قائم ہیں اور ہر ایک میں روزانہ بڑی تعداد میں کیا بڑے اور کیابچے سب کتابوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ کسی نئے شہر میں آپ جائیں تو رہائش کے قریب ہی کہیں لائبریری مل جائے گی۔ وہاں چلے جائیے اورعملہ کواپنے گھر کے پتہ کا کوئی ثبوت(مثلاً بجلی یا پانی کا بل) دکھا کر اسی وقت ممبر بن جائیے اور کتابیں لینی شروع کر دیجئے۔ کتابوں کی واپسی اگر آپ لائبریری کے اوقات کے باہر کرنا چاہیں تو لائبریری کے سامنے کی دیوار میں ایک خوبصورت سوراخ پر لگی ہوئی تختی پر لکھا ہوتا ہے’’کتابوں کی واپسی‘‘۔ اس میں کتابیں ڈال کرچلے جائیے۔ کسی رسید کی ضرورت نہیں کہ آپ نے کتاب واپس کی ہے یانہیں۔ دوسرے دن وہاں کا عملہ رات میں واپس کی ہوئی کتابیں اٹھا کر ان کی مقررہ جگہ لگا دے گا۔ نہ کوئی کتاب چوری کرتا ہے اور نہ اس پر کچھ اناپ شناپ لکھتا ہے اور نہ ہی کاٹتا پھاڑتا ہے۔ کتاب واپس نہ کریں تو آپ کے پاس خط یا ای میل آئے گا کہ ازراہ کرم کتاب واپس کردیں اور مقررہ دنوں سے زائد وقت تک اپنے پاس کتاب رکھنے کا اتنا ہرجانہ ادا کریں۔ اللہ اللہ خیر سلا۔جب میں ان حالات کا مقابلہ اپنے یہاں سے کرتا ہوں تو شرم سے سر جھک جاتا ہے۔ دیکھئے بات میں سے بات نکل آئی ۔ سمع خراشی کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ کہہ یہ رہا تھا کہ میری باتیں کہیں لکھی ہوئی نہیں ملیں گی۔ اس لئے گزارش ہے کہ مجھ کو برداشت کر لیں۔ شکریہ۔

زیر نظر موضوع پر گفتگو میں ہمارے بزرگوں کا ذکر آیا ہے کہ ان کے یہاں عشقیہ مضامین بہت ملتے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے (اور بالکل سچ کہا گیا ہے) کہ جو زبان، ادب اور شاعری وقت اور زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کا ساتھ نہیں دے گی وہ نیست و نابود ہو کررہ جائے گی۔ ظاہر ہے کہ کل کا شاعر آج کی زبان و شاعری سے کم واقف ومانو س ہوگا اور وقت کے ساتھ یہ نا واقفیت بڑھتی جائے گی یہاں تک کہ پرانی زبان، ادب اور اقدار ’’نقش ونگار طاق نسیاں‘‘ ہو کر رہ جائیں گی۔ شاعری کے جو معیار، اقدار،مضامین، اسالیب، اصناف،اوزان، بحور وغیرہ ہم سے پچھلی نسل کے شعرا اور علمائے شعر نے طے کئے تھے ان کو ہم اختیار کر سکتے ہیں اور ان سے اختلاف بھی کر سکتے ہیں۔ یہی نہیں اگر ہم ان اقدار ، معیار، اسالیب، اوزان وغیرہ کے بجائے کچھ اور اختراع کرنا چاہیں تو وہ بھی کر سکتے ہیں ، شرط یہ ہے کہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے نظام کے تحت ہو ورنہ ہر شخص اگر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنالے گا تو زبان او ر شعر وادب بے مصرف ہوکر رہ جائیں گے ۔ بزرگوں کے اثاثہ کی حفاظت اور اس بیش بہا خزانہ سے استفادہ ہماری زبان ، ہمارے ادب و شعر، ہماری تہذیب و ثقافت، ہماری روایات و تاریخ کی حفاظت اور ترویج وترقی کا ضامن ہے۔ جو لوگ اپنے ماضی کو بھول جاتے ہیں انہیں تاریخ بھی بہت جلد فراموش کردیتی ہے۔ بزرگوں کی عزت اور ان کے ادبی و شعری نقوش قدم کی پیروی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اُن سے کبھی غلطی ہی نہیں ہوتی تھی ۔ وہ بھی ہماری طرح انسان تھے اور غلطی کا صدور ان کے لئے بھی ان کی فطرت کا تقاضا تھا۔ہم شعر وادب میں پرانے اساتذہ کی مثال اس لئے نہیں دیتے ہیں کہ انہوں نے غلط شاعری نہیں کی ہے بلکہ اس لئے کہ انہوں نے بے حد محنت اور مشقت سے ادب وشعر کے معیار، اوزان، اصول، قوانین، پیمانے وغیرہ مقرر کئے ہیں جن سے ہم کو استفادہ کرنا چاہئے۔ ان سے انحراف کسی وقت بھی ممنوع نہیں رہا ہے اور نہ ہی بزرگوں پرسنجیدہ تنقید غلط ہے۔ آپ کوئی مختلف یا بہتر اصول، وزن وغیرہ اختراع کریں تو اس کو رواج یقیناًدے سکتے ہیں۔
اوپر کہا گیا ہے کہ ہمارے شاعروں کے کلام میں(اور اس میں نئے پرانے کی تخصیص نہیں ہے) عشقیہ اشعار اورمضامین پر بہت زور نظرآتا ہے۔ میر تقی میرؔ نے تو اسی زیادتی سے چڑ کرقلندر بخش جرأتؔ کے کلام کو ’’چوما چاٹی‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ ہر شاعر کے یہاں وہی گل وبلبل کے قصے ہیں، لیلیٰ اورمجنوں ، شیریں اور فرہاد کی کہانیاں ہیں، ہجراور وصال اپنی ساری بوقلمونیوں کے ساتھ ہیں، عاشق کی بیکسی و بے بسی ہے اور معشوق کی بے رخی بھی وہی ہے، اگر صیاد او ر آشیانہ اور بلبل کا ذکر ہے تو اس میں بھی عاشقی کا پُن چھلّا لگا ہواہے، بہار کی نویداورخزاں کی شکایت ہے تو ان میں بھی گھوم پھر کر شاعر کہیں نہ کہیں سے عاشقی کا رنگ بھرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسامعلوم ہوتا ہے جیسے ہر شاعرعشق کا مارا ہوا ہے ، مجبور و لاچار ہے اور اس کے پاس سوائے معشوقہ کا رونا رونے کے اور کوئی کام نہیں رہ گیاہے۔ لا محالہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ کیا واقعی زندگی اور شاعری میں سوائے عشق کرنے اوررونے کے کوئی دیگرکار خیر نہیں رہ گیا ؟ پھر یہ بھی قابل غور ہے کہ ہماری شاعری اورہماری زندگی کی حقیقتوں میں بہت اختلاف وبُعد نظر آتا ہے یعنی ہماری اکثر شاعری فرضی اور مصنوعی معلوم ہوتی ہے۔ آخر اس صور ت حال کی وجہ کیا ہے اور اردو شاعری پر عشق کی چھاپ اس قدر گہری کیوں ہے کہ علامہ اقبالؔ مردوں کے بارے میں یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ :
؎ آہ بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار
اس حقیقت سے تو انکار ممکن نہیں ہے کہ ادب اور ادیب دونوں اپنی تہذیب، معاشرہ، وقت اور ان کی بدلتی ہوئی اقدار کے عکاس، مصور، مورخ اور ڈھنڈورچی ہوتے ہیں۔ سچا ادب (اور سچا ادیب) وہی ہوتا ہے جو اپنے زمانے اور وقت کے مختلف پہلو ، زاویے اور رنگ دنیا کے سامنے مہارت اور صداقت سے رکھ دے۔ ادیب کا تعلق اگر اس کے وقت اور ماحول سے کٹ جائے تو اس کا ادب کم عیار اور غیر معتبر ہو کر اپنی وقعت اور قیمت کھو بیٹھتا ہے ۔ اس سے یہ بھی ظاہر و ثابت ہوتا ہے کہ اچھے ادیب و شاعر کو اپنی’’زمین‘‘ سے ہمہ وقت قریبی تعلق اور ساز باز رکھنے کی ضرورت رہتی ہے یعنی اس کی آنکھیں، کان،زبان، جسم و ذہن کی ہر قوت اور صلاحیت کسی وقت بھی اپنے اطراف وجوانب سے بیگانہ نہیں ہو سکتی ہے ۔ سچی تنقیدیہی ہے کہ دوسرے ادیب و نقاد بھی اس کی تخلیقات کو اسی پیمانہ سے جانچیں اور پرکھیں۔ اُردو شاعری میں عشقیہ مضامین کی شدت اور کثرت کا جواز اگر اس وقت کے معاشرہ میں تلاش کیا جائے جس میں اس نے جنم لیا اور جہاں یہ پروان چڑھ کر ہم تک پہنچی ہے تو بیجا نہیں ہوگا۔
شاعری ہندوستان میں فارسی کے توسط سے آئی اور اُس نے یہاں کے حالات و معاشرہ سے متاثر ہو کر وہ مخصوص شکل اختیار کی جو ہم آج دیکھ رہے ہیں۔ جس معاشرہ میں اُردو پیدا ہوئی اور پھر پروان چڑھی وہ ایک آمرانہ معاشرہ تھا۔ زمیندار، جاگیر دار، سردار، تعلقہ دار، راجہ، مہاراجہ، نواب، بادشاہ اورایسے ہی دوسرے اصحاب اقتدار اس معاشرہ پر حاوی تھے۔ دوسرے الفاظ میںیہ معاشرہ طاقت، ظلم اور استبدادو استحصال کی بنیادوں پر کھڑا تھا۔ ارباب حل وعقد کا اقتدار اور اس کی پائداری کا تقاضا تھا کہ حاکم طبقہ اپنی رعایا کو دبا کر رکھے،اس کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرے اور اس پرمالی تونگری نیز تعلیم کے دروازے بند رکھے (کیونکہ تعلیم پانے کے بعد آدمی سوچنے سمجھنے، سوال کرنے اور آزادی مانگنے کی جانب مائل ہوتا ہے!) ۔چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ بادشاہوں اور مہاراجاؤں نے پل، تالاب، مسافروں کے لئے سرائیں، کنویں ، محل، مقبرے، باغات ، خانقاہیں اور اسی قبیل کی بہت سی چیزیں تو بنوائیں لیکن اسکول اور مدرسے نہیں بنوائے ! ہندوستان اور پاکستان کی تاریخ کھنگال ڈالئے ۔ آپ کو ایک بھی ایسی مثال نہیں ملے گی جب بادشاہوں نے تعلیم پھیلانے کی کوشش کی ہو۔ جو تھوڑی بہت تعلیم مساجد کے مکتبوں میں میسر تھی وہ نہایت کم درجہ کی تھی اور زیادہ تر مذہبی تھی۔کچھ اہل علم ضرور تھے جنہوں نے پرانے استادوں کی جوتیاں سیدھی کی تھیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تعلیم جیسی کچھ بھی تھی وہ معاشرہ کے ایک نہایت مختصر طبقے تک ہی محدود تھی اور اس کے نتیجہ میں شعر، ادب، فلسفہ، تصوف، کلام غرضیکہ سب کچھ چند لوگوں کی ملکیت ہو کر رہ گیا تھا۔ اس حلقہ سے باہر عوام میں علم کا پھیلنا ممکن ہی نہیں تھا ۔جب تعلیم کے دروازے مردوں پر ہی بند تھے تو عورتوں کو تعلیم دینے کا سوال ہی نہیں اٹھتا تھا ۔اس پر مستزاد’’مرے پر سو دُرّے‘‘ کے مصداق مذہب نے معاشرہ کی اس معصوم و مظلوم صنف کے ذہنی اور علمی تابوت میں ایک آخری کیل بنام پردہ،حیا اور شرافت مزید ٹھونک رکھی تھی۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ’’شریف‘‘ گھرانوں کی مستورات کو گھر سے نکلنے کی مطلق اجازت نہیں تھی۔ اگر ضرورتاً باہرنکلتیں تو ساتھ کسی محرم مرد کا ہونا ضروری تھا اور سات پردوں کا اہتمام بھی لازمی تھا۔ یکّہ (یہ تانگے یا گھوڑا گاڑی کی ایک مختصر شکل تھی) ،تانگا ، پالکی ، ڈولی(پالکی کی عوامی شکل) میں خواتین ادھر سے اُدھر جایا کرتی تھیں اور ان کے ارد گرد چادر تنی ہوتی تھی گویا اگر کسی کی نگاہ پڑ گئی تو خاندانی عزت خاک میں مل جائے گی اور کیا عجب کہ قیامت ہی بپاہوجائے۔ شریف ہندو گھرانوں کی بیبیاں بھی چادر اوڑھ کر او ر گھر کی بہوئیں لمبا گھونگھٹ نکال کر باہر جاتی تھیں۔ مسلمانوں میں یہ ’’پردہ‘‘ زیادہ عام اور اسی قدر سخت تھا۔ بازاروں یاسڑکوں، گلیوں میں کسی شریف عورت کا کیا ذکر، نوعمربچیاں تک نظر نہیں آتی تھیں کیونکہ آٹھ نو سال کی عمرمیں ہی وہ برقعہ میں بند کر دی جاتی تھیں۔ لڑکیوں کی تعلیم کا کوئی انتظام نہیں تھا شاید اس لئے کہ ان کے لئے تعلیم ضروری نہیں تھی۔ کچھ گھروں کی بچیاں مختصر مذہبی تعلیم سے ہی مستفید ہو سکتی تھیں۔ لڑکوں اور لڑکیوں کے ایک ہی مقام پر مل بیٹھنے کا تو سوال ہی نہیں تھا۔ گھر سے باہر صرف وہ عورتیں نظر آتی تھیں جو معاشرہ کے ’’نچلے ‘‘طبقے سے وابستہ تھیں اور عموماً دوسروں کی مختلف خدمات پر مامور تھیں مثلاً نائن، بھٹیارن، بھنگن،دھوبن، گھر کی خادمہ، کھانا پکانے والی ماماوغیرہ۔ یا پھر بازار میں وہ زنان بازاری کوٹھوں پر دکھائی دیتی تھیں جن کا پیشہ ناچ ،گانااور مردوں کی دوسری ضروریات پورا کرنا تھا۔ ایسے ماحول میں جہاں اپنے برابر کی عورت نظر ہی نہ آتی ہومردوں کے لئے عورت ایک عجوبہ ہو کر رہ گئی تھی۔آج تک یہ عالم ہے کہ کسی محفل میں یا بازار میں عورت نظر آ جائے تو مرد آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر گھورنے میں تکلف نہیں کرتے ہیں۔
اُس زمانے میں زنان بازاری کے کوٹھوں پر رقص وسرود کی محفلوں میں مردوں کی شرکت معیوب نہیں سمجھی جاتی تھی بلکہ آپ نے سنا ہوگا کہ اُ مرا اور رؤسا اپنے جوان بیٹوں کو کوٹھوں پر آداب محفل سیکھنے کے لئے بھیجتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ایسے نوجوان ان کوٹھوں سے صرف آداب محفل ہی نہیں بلکہ بہت کچھ اوربھی سیکھ کر آتے ہوں گے ۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ بھاڑمیں منھ ڈالا جائے اور وہ کالا نہ ہو؟ مرزا غالبؔ نے بھی ایک ’’ستم پیشہ ڈومنی مار رکھی تھی‘‘اور وہ اس میدان میں تنہا نہیں تھے۔یہ اس زمانہ کاعام دستور تھا۔ مردوں کے لئے سب کچھ جائز تھا اور عورت کے لئے صرف وہ جس کو مرد جائز قرار دیں! اوّل تو اس کو ایسا موقع ہی نصیب نہیں ہوتا تھا پھر بھی عورت اگرغلطی سے کسی غیر مردکی جانب نگاہ اٹھا کر دیکھ لیتی تو گناہِ کبیرہ کی مرتکب ہوجاتی تھی۔ ہمارے ملکوں میں جس المیہ کو ’’آنر کِلنگ‘‘ یعنی تحفظ عزت کی خاطر سزائے موت کہا جاتا ہے وہ اسی طرز خیال کا ایک بھیانک مظہر ہے۔زنان بازاری کے سلسلہ میں ایک دلچسپ بات کا ذکر مناسب معلوم ہوتاہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ دلہن کو شادی کے دن نتھ پہنائی جاتی ہے اور دوسری صبح نتھ اتار کر ناک میں سونے کی کیل ڈال دی جاتی ہے ۔یہ اس بات کی نشانی ہے کہ وہ اب کسی کی بیوی بن چکی ہے۔یہ رسم ہمارے یہاں زنان بازاری سے آئی ہے ۔ ان میں یہ دستور تھا کہ جب تک کوئی نوجوان و نوخیز رقاصہ کنواری رہتی تھی وہ نتھ ناک میں ڈالے رہتی تھی۔ رؤسا، نواب اورمہا راجہ ’’نتھ اتارنے‘‘ کی سعادت حاصل کرنے کے لئے بڑی بڑی رقموں کی بولیاں لگاتے تھے، اس پر خون خرابے بھی ہوتے تھے اور آخر کار کوئی قسمت کا دھنی سب سے بھاری قیمت ادا کر کے اُس نیک بخت کی ’’نتھ اُتار لیتا تھا‘‘۔ ہمارے یہاں نتھ کی رسم اسی مذموم رسم کی نشانی ہے۔
گھروں کا عام نقشہ یہ تھا کہ وہ دو حصوں میں منقسم ہوتے تھے: مردانہ اور زنان خانہ۔عورتوں کے شب وروز زنان خانہ میں ہی کٹتے تھے سوائے ان موقعوں کے جب وہ سات پردوں میں بند کسی تقریب یا ملاقات کے سلسلہ میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتی تھیں۔ میرے بچپن تک گھروں میں پردہ کا ایسا اہتمام تھا کہ پانی بھرنے والا بہشتی اور ڈولی کے کہا ر بھی گھر کے اندر یا ڈیوڑھی میں آتے تو سر پر پڑا ہوا انگوچھا یا رومال آنکھوں کے آگے پردہ کی صورت میں گرا لیتے تھے مبادا ان کی نظر کسی بہو بیٹی پر پڑ جائے اور خاندانی شرافت مجروح ہو جائے! مردوں کا سارا دن مردانہ میں ہی گزرتا تھاجہاں وہ مختلف مشاغل میں وقت کاٹتے تھے۔ جولوگ نسبتاً کھاتے پیتے گھروں سے تھے ان کے لئے کبوتر بازی،بٹیر بازی، چوسر،جوا،شطرنج، پتنگ بازی، گپ شپ وغیرہ کافی سے زیادہ مصروفیات تھیں۔ جو لوگ کسب معاش پر مجبور تھے وہ اپنے کام سے لگے ہوتے تھے۔ صاحب حیثیت لوگوں کے پاس مردانے میں ہی خدام کھانا لے آتے تھے جو وہ دوستوں کے ساتھ نوش فرماتے تھے۔ گھر میں بہو بیٹیاں اپنی مصروفیات میں دن گزارتی تھیں۔ شادی شدہ خواتین اپنے جیٹھ (شوہر کے بڑے بھائی)، سسر اور گھر کے دوسرے بیشتر مردوں سے پردہ کرتی تھیں یا ان سے گھونگھٹ نکالتی تھیں۔ گھر سے باہر جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ شوہر اور بیوی کو بھی دن میں خلوت کے مواقع میسر نہیں تھے۔ اگر شوہر کسی کام سے اندر آتا بھی تو گھر کے دوسرے افراد کی موجودگی میں میاں بیوی دونوں سے حیا اور پردہ کی توقع رکھی جاتی تھی۔ رات کو ہی خلوت کا موقع ملتا تھا سو کوٹھری کی دیوار کے طاق میں ٹمٹماتے ہوئے چراغ کی اندھی روشنی میں وہ ایک دوسرے کی شکل بھی مشکل سے ہی دیکھ پاتے ہوں گے۔
آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایسے معاشرہ میں زن ومرد دونوں کو کتنی گھٹن کا احساس ہوتا ہوگا۔ دونوں جنسوں کی یہ علیحدگی بڑی خطرناک تھی کیونکہ عورت تو خیر گھر میں بنداور مجبور محض تھی لیکن مرد باہر آزاد تھا اور ہر طرح کی برائی میں ملوث بھی ہو سکتاتھا۔ اس کے لئے کوٹھوں پر زنان بازاری کے پاس جانا معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ ایک حد تک مردوں سے یہ ا مید کی جاتی تھی کہ وہ وہاں جائیں گے۔گویا عورتوں پر تو سب طرح کی پابندی تھی لیکن مردوں کے لئے سب کچھ قابل قبول تھا۔ان حالات میں اگر مردوں کے ذہن ودماغ پر ہمہ وقت عورت سوار رہتی تھی تو کوئی حیرت کا مقام نہیں ہے۔غریب شاعر کرتا بھی تو کیا کرتا۔ اس کی شاعری بھی اسی معاشرہ اور اسی طرز فکر کا شکار بنی۔ دل کی بھڑاس ، کچھ سچی اور کچھ فرضی، عشقیہ اشعار کی صورت میں ہی نکال لیتا تھا۔یہ وہ حالات تھے جن کی وجہ سے نظم اورغزل (یہی شاعری کی سب سے آسان اور مقبول عام وعوام صنف تھی اور اب بھی ہے)میں عشق و محبت کے (اصلی کم اورفرضی زیادہ!) مضامین یلغار کر کے گھس آئے اور پھرایک عمر کے ترسے ہوئے ذہن نے ایک فطری رجحان اور تعلق کے اظہا رمیں مبالغہ کی ہرحد اور دیوار کو منہدم کرنے میں کوئی تکلف محسوس نہیں کیا۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ غزل عشقیہ مضامین سے ہی منسوب ہو کر رہ گئی ہے۔ اگر درج بالا پس منظر کو ذہن میں رکھا جائے تو اس صورت حال کی وجہ سمجھنا مشکل نہیں ہے۔
درج بالا حالات نے معاشرہ پر بہت دیر پا، دور رَس اورمضر اثرات چھوڑے۔ نوابوں، راجاؤں کے محلوں میں خواجہ سراؤں کا آزادانہ عمل ودخل ، امرد پرستی، ہم جنسی اور لواطت ،شاہی محلوں کی اخلاق سوز روایات وغیرہ بہت سی ایسی باتیں ہیں جن کا ذکر نہ کرنا ہی بہتر ہے۔ البتہ اوپر لکھے حالات کے تناظر میں اگرایک نہایت دلچسپ اور عجیب وغریب بات کا ذکر کروں تو نا مناسب نہیں ہوگا۔ میرے پاس ایک کتاب ہے جس کا عنوان ہے ’’پٹھان شاعرات کا تذکرہ‘‘۔ اس میں ایسی پٹھان خواتین کی شاعری دی ہوئی ہے جن میں سے بیشترکا تعلق شریف خاندانوں سے تھا۔ پٹھانوں کی غیرت و حمیت مشہورہے اور اپنے گھر کی خواتین کا جس طرح وہ احترام کرتے ہیں اور ان کی ہر طرح حفاظت اور پردہ داری کرتے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ ان شاعرات میں سے متعددخواتین مشاعروں میں شریک ہوتی تھیں اور پردے کے پیچھے سے اپنا کلام سناتی تھیں۔ یہ معلوم ہونے کے بعد آپ کوکتاب میں ایسے اشعار نظر آتے ہیں جن کو پڑھ کر آپ حیرت اور شرم کے ملے جلے جذبات سے دوچار ہوتے ہیں۔ یہ کیسا معاشرہ تھا جو اپنی مستورات پر اس قدر سخت پابندیاں لگاتا تھا اور پھروہ انہیں کو ایسے اشعار کہنے اور پھر سر محفل دُنیا کو سنانے کی اجازت بھی دیتا تھا! ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاعری کی حد تک اس معاشرہ میں خواتین کو کافی آزادی تھی جو دنیا کے اور شعبوں میں ان کی دسترس میں نہیں تھی۔ اس کتاب سے چند اشعار بغیر کسی حاشئے کے یہاں پیش کرتا ہوں ۔آپ کے تاثرات کا انتظار رہے گا۔

لجا کر ، شرم کھا کر ، مسکرا کر
دیا بوسہ مگر کچھ منھ بنا کر
سال بھر گزرا امید وصل میں
عید کا دن ہے گلے لگ جائیے
وصل کی کہتا ہوں جب گوہر ؔسے میں
ہنس کے کہتے ہیں کہ منھ بنوائیے
(گوہر بیگم گوہرؔ )

مری زلفیں ہٹا کررُخ سے وہ کہتے ہیں ہنس ہنس کر
اندھیری رات ہے ایسے میں شرمایا نہیں جاتا
(جمیلہ خاتون تسنیمؔ )

وہ میرا بیخودی میں اس کے منھ سے منھ ملا دینا
قیامت ایک چپ کا پھر وہ دونوں کو سزا دینا
ہمارا آرزوئے بوسہ کرنا تجھ سے در پردہ
ترا دشنام دینا اور کیا کیا برملا دینا
لبوں سے لب ملا لیں وصل میں سینے سے یا سینہ
مگر ممکن نہیں اس بت کے دل سے دل ملا لینا
انوری جہاں بیگم حجابؔ

لپٹ لپٹ کے ہر اک شے سے اب میں روتی ہوں
کہیں کا رکھا نہ تم نے گلے لگا کے مجھے
زاہدہ خلیق الزماں زاہدہؔ

وصل میں شرم وحیا شرم ؔ کو مشکل ہے بہت
کثرت شوق سے ہو جاتا ہے دشوار لحاظ
شمس النسا بیگم شرمؔ

اُمید ہے کہ اس مضمون سے غزل کے عام مضامین کے جواز کا اندازہ ہو گیا ہوگا۔ ایسا بند اور گھٹا گھٹا معاشرہ جب زمانہ اور وقت کی مہمیز پر اپنی حالت بدلنے پر مجبور ہوجاتا ہے تو اس میں بہت سی اخلاقی برائیاں دَر آتی ہیں ۔یہ کیفیت ہم اپنے ملکوں میں دیکھ رہے ہیں۔ یہ ایک فطری عمل ہے جس سے ہمارے معاشرہ کو گزرنا ہوگا۔ اس کے دوران اور اس کے بعد بہتری کی امید ہو سکتی ہے بشرطیکہ ہم اس جانب توجہ دیں اور حکمت اور دانشمندی سے اصلاحی کام کریں۔

(سرور عالم راز سروؔر کی تحریر یہاں ختم ہوتی ہے) ۔
٭٭٭​
 
آپ کے مراسلوں پر ہمارا یہ تبصرہ صرف ایک رسید کی حیثیت رکھتا ہے تا آنکہ ہم ان دونوں مراسلوں کو پڑھ نہ لیں۔

سنجیدگی کے ساتھ ایک تجویز پیش کرنا چاہتے ہیں۔ کیوں نہ تجریدی غزل کہنے کے بجائے وزل کہہ لیا جائے؟

وزل: ایک نئی صنفِ سخن کا تعارف

محمد خلیل الرحمٰن​

نیا زمانہ ہے ، نیا دور ہے، نئے اوقات ہیں۔ یاروں نے ہر فیلڈ میں روشِ کہنہ کو چھوڑ کر نئی طرزیں نکالی ہیں، نئی روشیں اپنالی ہیں۔ادبِ عالیہ اور ادبِ سافلہ بھی اس نئی ہوا سے نہ بچ پائے ہیں۔ جدید نظم، نثری نظم، جدید افسانہ، علامتی افسانہ ، ملامتی صوفی اور دیگر اصنافِ سخن کی ایجاد و توجیہ کا کام تیزی کے ساتھ جاری و ساری ہے۔یہاں تک کہ صنفِ نازک اور صنفِ غزل بھی اس سے نہ بچ پائے ہیں۔ صنفِ نازک کا تو کہنا ہی کیا، کہ ایسی ایسی نئی صورتیں وجود میں آرہی ہیں کہ دیکھنے والے دنگ رہ جائیں۔ اللہ بچائے حسن والوں سے۔صنفِ نازک گو اصنافِ سخن کا ہمیشہ سے موضوع رہی ہیں لیکن ہمارے اس مضمون کا براہِ راست موضوع نہیں لہٰذا ان کا تذکرہ درمیان میں چھوڑتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔


غزل جس کا موضوع شروع ہی سے محبوب سے باتیں کرنا تھا اسے بھی ستم ظریفوں نے بدلنا چاہا اور اس میں دنیا جہان کے موضوعات شامل کرنے کی ایک مہم چلائی گئی جو بضفلِ خدا بری طرح ناکام ہوئی۔ اس ناکامی کے بعد جدید اور نثری نظم کی طرز پر جدید اور نثری غزل متعارف کروائی گئیں اور اب ان میں روز افزوں ترقی و تنوع دیکھنے میں آرہا ہے۔


اس نئی صورتِ احوال سے اربابِ سخن تو پریشان تھے ہی ، کل صبح جب ہماری آنکھ کھلی تو ہم بھی پریشان ہوگئے۔ ابھی آنکھیں کھول کر خالی الذہنی کے عالم میں خلا میں گھو رہے تھے کہ بیگم نے عینک ہاتھ میں تھمادی۔ اب جو چونک کر اِدھر اُدھر دیکھا تو وہی کاٹھ کباڑ سے بھری ہوئی دنیاء نظر آئی اور ایک نیا خیال دل میں گھر کر گیا۔ اے عضوِ معطل! اُٹھ اور اُٹھ کر نئی غزل کی تلبیس و تسمیہ کا کارِ عظیم سر انجام دے۔

غزل اور ہزل کی قدیم اصنافِ سخن کے ساتھ ہم اس نئی صنف کا نام وزل تجویز کرتے ہیں اور مندرجہ ذیل مضمون میں اس کی وجہِ تسمیہ اور دیگر اوصاف بیان کرنے کی حتیٰ الوسع کوشش کرتے ہیں۔

اردو زبان مین کسی بھی لفظ کے ساتھ اسکے پہلے حرف کو واو سے بدل کر استعمال کرنے کا طریقہ نیا نہیں ۔ اس دوسرے لفظ کو عموماً بے معنی سمجھا جاتا ہے جو کہ ایک بہت بڑی غلطی ہے۔ یہ لفظ اس پہلے لفظ کا ہمزاد ہوتا ہے اور اس لفظ کے مساوی اور مخالف معنی رکھتا ہے۔ غزل کے ساتھ وزل کا لفظ استعمال کیا جانا چاہیے۔ اسی وزل کو جدید یا نثری غزل بھی کہا جاسکتا ہے۔ذیل میں وزل کے خواص درج کیے جاتے ہیں۔


· ایسے الفاظ و تراکیب کا استعمال جو اب متروک ہیں یا کبھی انہیں استعمال کرنے کی نوبت نہیں آئی

· ایسے الفاظ کا استعمال جو اردو زبان کے لیے نئی دریافت کا درجہ رکھتے ہیں

· ایسی تراکیب کا استعمال جو اساتذہ کے لیے بھی اچنبھے کا باعث ہیں

· اشعار کو بامعنی بنانے کی مصنوعی مساعی سے گریز

· غزل کے برعکس ضروری نہیں کہ شعر کے مضمون کا مکمل ابلاغ بھی ہورہا ہو

· ایک ہی وَزَل میں دو یا دوسے زیادہ بحور کا استعمال

· غزل کے برعکس قافیے پر قافیہ تنگ کردینا یعنی آزادانہ قافیوں کا استعمال

· ردیف کی جگہ وزل کی خصوصیت ‘‘ ردیفِ خفی ’’ کا استعمال ، یعنی

o ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے

·



اس نئی صنفِ سخن کو متعارف کروانے والوں میں سرِ فہرست تو امام المتوزلین ( بروزنِ اما م المتغزلین ) جناب استاد محبوب نرالے عالم کا ہے۔ پھر دوسرا نہیں تو تیسرا نام فدوی کا ہونا چاہئے۔ استاد محبوب نرالے عالم کے کلام سے کچھ چیدہ اشعار اس ضمن میں پیش ہیں۔

حسن کو آفتاب میں ضم ہوگیا ہے
عاشقی کو ضرور بے خودی کا غم ہوگیا ہے


پوچھو ہو رشتہ ہم سے فسردہ بہارِ دل
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے مزار کے​

مزید

تم بھلا باز آؤ گے غالب
راستے میں چڑھاؤ گے غالب
کعبہ کِس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی

استاد محبوب نرالے عالم کا فارسا کلام بھی قابلِ تعریف ہے۔


نظر خمی خمی، نظر گمی گمی، نظر سمی سمی
دھمک سٹک فزوں، فضا فسردنی، حیا لبم لبم
عشر خموشگی، خمو عشر فشاں، نمو زدم زدم
قلی وقل ونی، وقل فنوقنی، قنا قلم قلم
نظر خمی خمی، نظر گمی گمی، نظر سمی سمی



اس عارفانہ کلام کے بعد (جو ہم نے جناب ابنِ صفی کی کتاب ڈاکٹر دعاگو سے مستعار لیا ہے) ہم کچھ اپنی نگارشات بھی پیش کرنے کی جسارت کریں گے۔ فی الحال ایک وزل پیشِ خدمت ہے۔

‘‘گو نو ا گو ’’ میں زے بھی آتی ہے
زے لگائیں تو بحر جاتی ہے

کیسا ‘‘لمگشتگی’’ کا عالم ہے
نیند آتی نہ نیند جاتی ہے

ہار کر بھی جو ہارنا چاہوں
جیت ناخن کھڑی چباتی ہے

ایک بکرا ہی چاہیے تھا ‘‘ وَر’’
اس سے سستی تو گائے آتی ہے

اُس ‘‘ نے آخر کو ہولیا خاموش’’
بات کرنی اُسے بھی آتی ہے

‘‘شعر گوئی پہ ہم ہی کیوں مائل’’
تُک (کی) بندی تو سب کو آتی ہے

‘‘دل ہتھیلی میں پیش ’’ کرتے ہی
‘‘نیک نام’’ اپنی داستاں کی ہے

روندنے کو ہی لیک (ن) آجاتے
شاعری روز کی کہانی ہے


نوٹ کیجیے کہ کس خوبصورتی کے ساتھ ہم نے لیکن کی جگہ ‘‘لیک’’ اور ورنہ کی جگہ‘‘ ور’’ استعمال کیا ہے۔ مزید یہ کہ اردو زبان کو نئے الفاظ سے روشناس کروانے کا ذمہ بھی چونکہ وزل نے ہی لیا ہے لہٰذا ہم ایک نیا لفظ‘‘ لمگشتگی ’’ بھی استعمال کیا ہے ۔ گو ابھی ان الفاظ کے معنی دریافت نہیں ہوپائے لیکن ہمیں یقین ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوام الناس ان الفاظ کو بامعنی بھی بنا دیں گے۔

ہمیں قوی امید ہے کہ وزل کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے سبب موجودہ شعراء گھبرا کر غزل کہنا چھوڑ دیں گے اور وزل کی طرف لپکے ہوئے آئیں گے نیز وہ دن دور نہیں جب اردو زبان و ادب نثری نظم اور وزل کے حوالے سے جانے پہچانے جائیں گے۔

ویکی پیڈیا کی طرز پر ہم چاہیں گے کہ دیگر وزل گو شعراء بھی اپنے آپ کو اس دھاگے میں متعارف کروائیں گے اور اپنا نمائندہ کلام پیش کرنے سے نہیں چوکیں گے۔
(جاری)


۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
سنجیدگی کے ساتھ ایک تجویز پیش کرنا چاہتے ہیں۔ کیوں نہ تجریدی غزل کہنے کے بجائے وزل کہہ لیا جائے؟
خلیل بھائی آپ کی تجویز کے معقول اور بجا ہونے میں تو کوئی شک نہیں کہ بدر صاحب کا یہ کلام بلاغت نظام وزل ہی کے زمرے میں ڈالا جائے گا ۔ مذکورہ بالا گفتگو کے دوران کچھ اصحاب نے اس غزل کو تجریدی غزل کا لقب دیا تھا اور پھر اس پر گفتگو "تجریدی غزل" ہی کے تحت ہوئی تھی ۔ چونکہ سرورؔ بھائی نے اپنے تبصروں میں بھی یہی الفاظ استعمال کئے ہیں اس لئے ان الفاظ کو تبدیل کرنا ادبی بددیانتی ہوتی ۔ چنانچہ مجھے یہی عنوان رکھنا پڑا ۔ ویسے آپ تو جانتے ہی ہیں کہ تجریدی غزل نام کی کوئی شے اب تک تو وجود نہیں رکھتی ۔ کچھ آگے چل کر پیدا ہوجائے تو کہہ نہیں سکتا۔ کسی چیز کو پیدا ہونے سے کوئی روک سکا ہے بھلا ۔ :):):)
 
Top