احمد ندیم قاسمی تجھے کھو کر بھی تجھے پاؤں جہاں تک دیکھوں

کاشفی

محفلین
ہائے او ربّا۔۔۔واہ واہ سبحان اللہ۔

تجھے کھو کر بھی تجھے پاؤں جہاں تک دیکھوں
حسنِ یزداں سے تجھے حسنِ بتاں تک دیکھوں
واہ واہ۔۔۔

تو نے یوں دیکھا ہے جیسے کبھی دیکھا ہی نہ تھا
میں تو دل میں تیرے قدموں کے نشاں تک دیکھوں
واہ سبحان اللہ۔

صرف اس شوق میں پوچھی ہیں ہزاروں باتیں
میں تیرا حسن تیرے حسنِ بیاں تک دیکھوں
واہ واہ۔۔۔

میرے ویرانہء جاں میں تیری یادوں کے طفیل
پھول کھلتے ہوئے نظر آتے ہیں جہاں تک دیکھوں
آ ہا ۔

وقت نے ذہن میں دھندلادیئے تیرے خدوخال
یوں تو میں توٹتے تاروں کا دھواں تک دیکھوں
کیا کہنے ہیں جناب! عمدہ۔۔۔

دل گیا تھا تو یہ آنکھیں بھی کوئی لے جاتا
میں فقط ایک ہی تصویر کہاں تک دیکھوں
آہا۔

ایک حقیقت سہی فردوس میں حوروں کا وجود
حسنِ انساں سے نمٹ لوں تو وہاں تک دیکھوں
ہائے ہائے۔۔۔کیا خوب جناب۔۔بہت عمدہ۔۔۔
پوری کی پوری غزل ہی عمدہ و لاجواب ہے۔۔مجا آگیا ۔۔
 
Top