قراۃ العین طاہرہ کےبارے یں جو معلومات مل سکیں وہ پیش خدمت ہیں :
قراۃ العین طاہرہ فارسی کی مشہور شاعرہ رہ چکی ہیں ، بہائی مذہب سے ان کا تعلق تھا اسی وجہ سے نہائت بے دردی سے انہیں قتل کیا گیا تھا ۔ خاوند ایران کے ایک مجتہد تھے ان سے طلاق لے لی تھی ۔صاحب دیوان تھیں ۔جاویدنامہ میں ایک غزل نوائی طاہرہ کے عنوان سے ۔احمد فراز کی اس غزل کو کسی حد تک اس کا ترجمہ کہا جاسکتا ہے ، ٌّآً علامہ اقبال کی غزل بمعہ سلیس نثری ترجمہ حسب ذیل ہے
نوای طاہرہ
گر بتو افتدم نظر چہرہ بہ چہرہ ، روبرو
شرح دہم غم ترا نکتہ بہ نکتہ ، موبمو
اگر تجھ پہ میری نظر کچھ اس طرح پڑےکہ تو میرے بالکل سامنے ہو اور تیرا چہرہ میرے چہرے کے سامنے ہوتو پھر میں تیرے غم عشق کی تفصیل ایک ایک گہری بات اور رمز سے بیان کروںاز پی دیدن رخت ہمچو صبا فتادہ ام
خانہ بخانہ در بدر ، کوچہ بکوچہ کوبکو
تیرا چہرہ دیکھنے کے لیےمیں صبح کی نرم ولطیف ہوا کی مانند چلی پھری ہوںاور میں گھر گھر ،در در ،کوچہ کوچہ اور گلی گلی پھری ہوں
میرود از فراق تو خون دل از دو دیدہ ام
دجلہ بہ دجلہ یم بہ یم ، چشمہ بہ چشمہ جوبجو
تیرے فراق میں میرا خون دل میری آنکھوں سے رواں ہے اور وہ دریادریا،سمندر سمندر،چشمہ چشمہ اور ندی ندی بہہ رہا ہے مہر ترا دل حزین بافتہ بر قماش جان
رشتہ بہ رشتہ نخ بہ نخ ، تار بہ تار پو بہ پو
میرے غمزدہ دل نے تیری محبت کو جان کے قماش پر بن لیا ہے،دھاگہ دھاگہ ،باریک باریک، تار تار اور تانا بانا خوب ملا کر بن لیادر دل خویش طاہرہ ، گشت و ندید جز ترا
صفحہ بہ صفحہ لا بہ لا پردہ بہ پردہ تو بتو
طاہرہ نے اپنے دل کے اندر نظر ڈالی مگر اسے دل کے صفحہ صفحہ،گوشہ گوشہ پردہ پردہ اور تہہ در تہہ تیرے سوا کوئی نظر نہ آیا
سوز و ساز عاشقان دردمند
شورہای تازہ در جانم فکند
اہل درد عاشقوں کے پر سوز ہنگاموں نے میری جاں میں نئے ہنگامے برہا کردیےمشکلات کہنہ سر بیرون زدند
باز بر اندیشہ ام شبخون زدند
پرانی مشکلات نے اپنا سر اٹھا لیا اور ایک مرتبہ پھر میری فکر پر شب خون ماراقلزم فکرم سراپا اضطراب
ساحلش از زور طوفانی خراب
میری فکر کا سمندر پوری طرح طوفان خیز بن گیا اور طوفان کی شدت سے اس کا ساحل خراب ہو گیاگفت رومی ’’وقت را از کف مدہ
اے کہ می خواہی کشود ہر گرہ
رومی نے کہا جو اپنی ہر مشک کا خواہاں ہے ، تو وقت کو ہاتھ سے نہ جانے دےچند در افکار خود باشی اسیر
این قیامت را برون ریز از ضمیر"
تو کب تک اپنے افکار میں اسیر رہے گا۔ضمیر کا یہ بوجھ باہر گرا دے