میر تجھ کنے بیٹھے گھُٹا جاتا ہے جی ۔ میر تقی میر

فرخ منظور

لائبریرین
غزل

تجھ کنے بیٹھے گھُٹا جاتا ہے جی
کاہشیں کیا کیا اٹھا جاتا ہے جی

یوں تو مردے سے پڑے رہتے ہیں ہم
پر وہ آتے ہیں تو آ جاتا ہے جی

ہائے اُس کے شربتی لب سے جُدا
کچھ بتاشا سا گھُلا جاتا ہے جی

اب کے اس کی راہ میں جو ہو سو ہو
یاد بھی آتا ہے ، پا جاتا ہے جی

کیا کہیں تم سے کہ اُس شعلے بغیر
جی ہمارا کچھ جلا جاتا ہے جی

عشق آدم میں نہیں کچھ چھوڑتا
ہولے ہولے کوئی کھا جاتا ہے جی

اُٹھ چلے پر اُس کے غش کرتے ہیں ہم
یعنی ساتھ اس کے چلا جاتا ہے جی

آ نہیں پھرتا وہ مرتے وقت بھی
حیف ہے اس میں رہا جاتا ہے جی

رکھتے تھے کیا کیا بنائیں پیشتر
سو تو اب آپ ہی ڈھا جاتا ہے جی

آسماں شاید ورے کچھ آ گیا
رات سے کیا کیا رکا جاتا ہے جی

کاش کے برقع رہے اُس رخ پہ میر
منہ کھُلے اس کے چھپا جاتا ہے جی

(میر تقی میر)
 

محمد وارث

لائبریرین
یوں تو مردے سے پڑے رہتے ہیں ہم
پر وہ آتے ہیں تو آ جاتا ہے جی


عشق آدم میں نہیں کچھ چھوڑتا
ہولے ہولے کوئی کھا جاتا ہے جی


واہ واہ واہ۔

شکریہ فرخ صاحب خوبصورت غزل شیئر کرنے کیلیے۔
 
Top