اسلوبیات کی افہام و تفہیم از مرزا خلیل احمد بیگ
اس مقالے کا مقصد قارئین کو ادبی تنقید کے ایک نئے رجحان یا دبستان سے روشناس کرانا ہے جسے اسلوبیات کہتے ہیں۔ اس میں جو نکات پیش کئے گئے ہیں وہ یہ ہیں: زبان، ادب کا ذریعہ اظہار ہوتی ہے۔ زبان اور ادب کے درمیان گہرا رشتہ پایا جاتا ہے۔ زبان کے مخصوص استعمال سے کسی ادیب کے اسلوب (Style)کی تشکیل عمل میں آتی ہے۔اسلوب کا مطالعہ اور تجزیہ اسلوبیات کہلاتا ہے جسے ’اسلوبیاتی تنقید‘ بھی کہتے ہیں ۔ اسلوبیات کی بنیاد لسانیات (Linguistics)پر قائم ہے۔ اسلوبیاتی طریقہ کار معروضی، توضیحی، تجزیاتی اور غیر تاثراتی ہوتا ہے۔
ہم یہ بات بہ خوبی جانتے ہیں کہ مل جل کر رہنے اور زندگی گزارنے کے لیے زبان کا استعمال نا گزیر ہے ۔ روزمرہ کی زندگی میں ہمیں ہر ہر قدم پر زبان کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ زبان ہی کے وسیلے سے ہم اپنی بات دوسروں تک پہنچاتے ہیں، اپنا دُکھ درد بیان کرتے ہیں اور اپنے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں ۔ عام بول چال اور روزمرہ کی زندگی کے علاوہ زبان کا استعمال ادب میں بھی ہوتا ہے، یعنی جب کوئی شاعر شعر یا نظم کہتا ہے یا کوئی ادیب افسانہ یا ناول لکھتا ہے تو اسے زبان ہی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ زبان کے استعمال کے بغیر کوئی بھی ادبی تخلیق معرض ِ وجود میں نہیں آسکتی ۔ لیکن ادب میں استعمال ہونی والی زبان، روزمرہ کی یا عام بول چال کی زبان سے کئی لحاظ سے مختلف ہوتی ہے اور اس کی اپنی خصوصیات ہوتی ہیں۔ ادبی زبان کے خصائص کو سمجھ لینے کے بعد ہم ادب سے اچھی طرح لطف اندوز ہو سکتے ہیںاور اس کی تحسین شناسی میں ہمیں مدد مل سکتی ہے۔ اس تحریر کے مطالعے سے قارئین کو یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ کسی ادیب کے اسلوب کی تشکیل کس طرح عمل میں آتی ہے اور اس کے مطالعے اور تجزیے کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے۔
(۲)
اسلوبیات دراصل ادب کے لسانیاتی مطالعے کا نام ہے جس میں ادبی فن پارے کا مطالعہ و تجزیہ لسانیات کی روشنی میں اس کی مختلف سطحوں پر کیا جاتا ہے اور ہر سطح پر فن پارے کے اسلوب کے خصائص (Style-Features)کا پتا لگایا جاتا ہے، لہذا اسلوبیات صحیح معنی میں مطالعہ اسلوب ہے۔ چوں کہ اس مطالعے کی بنیاد لسانیات پر قائم ہے اس لیے اسے، لسانیاتی مطالعہ ادب، بھی کہتے ہیں۔
اسلوبیات کا براہِ راست تعلق لسانیات سے ہے جو زبان کے سائنسی مطالعے کا نام ہے۔ کسی ادیب کے اسلوب یا کسی ادبی فن پارے کے اسلوبیاتی مطالعے میں لسانیات سے بہت مدد لی جاتی ہے۔ زبانوں کے مطالعے اور تجزیے کے سلسلے میں لسانیات ہمیں جو علم اور روشنی فراہم کرتی ہے اس کا اطلاق ہم ادبی فن پارے کی زبان کے مطالعے اور تجزیے میں بھی کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں کسی زبان کے لسانیاتی مطالعے میں جو طریقہ کار اختیارکیا جاتا ہے وہی طریقہ کار ہم کسی ادبی فن پارے کے تجزیے میں بھی اختیار کرتے ہیں۔ نیز اسلوبیات میں لسانیاتی اصطلاحات سے بھی کام لیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلوبیات کی بنیاد لسانیات پر قائم ہے اور اسی وجہ سے اسلوبیات کو اطلاقی لسانیات (Applied Linguistics)کی ایک شاخ تسلیم کیا جاتا ہے، لیکن اسلوبیات کا تعلق ادب سے بھی ہے کیوں کہ ادب کا ذریعہ اظہار (Medium)زبان ہے اور یہی زبان لسانیات کا مواد و موضوع(Content) ہے۔
کسی ادبی فن پارے کااسلوبیاتی مطالعہ و تجزیہ لسانیات کی مختلف سطحوں پر کیا جاتا ہے۔ لسانیات کی پہلی سطح ، صوتیات، ہے جس میںزبان میں کام آنے والی آوازوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس کی دوسری سطح ، تشکیلیات، ہے جس میں تشکیل ِ لفظ سے بحث کی جاتی ہے۔ اس کی تیسری سطح ، نحو، ہے جس میں ترتیب ِ الفاظ اور جملوں اور فقروں کی ساخت پر غور کیا جاتا ہے۔ زبان کے مطالعے کی آخری سطح ، معنیات، کہلاتی ہے جس میں معنی کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ کسی شاعر یا ادیب کے اسلوب کا مطالعہ یا کسی ادبی فن پارے کی زبان کا تجزیہ لسانیات کی ان تمام سطحوں پر بہ خوبی کیا جا سکتا ہے۔ تشکیلیات اور نحو کو اگر ملا دیا جائے تو مطالعہ ءزبان کی ایک اور سطح بر آمد ہوتی ہے جسے ¾ قواعدی سطح ¾ کہتے ہیں اس سطح پر بھی ادبی فن پارے کا تجزیہ ممکن ہے۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ہر اسلوبیاتی مطالعہ لسانیاتی مطالعہ بھی ہوتا ہے ، لیکن ہر لسانیاتی مطالعے اور تجزیے کے بعد اس کے اسلوبی خصائص (Style-Features)کو نشان زد کرنا بھی ضروری ہوتا ہے ۔ یہی چیز لسانیاتی مطالعے کو اسلوبیاتی مطالعہ بنا دیتی ہے۔ لسانیاتی مطالعہ ماضی و حال میںبولی جانے والی کسی بھی زبان یا بولی کا کیا جا سکتا ہے، لیکن اسلوبیاتی مطالعہ اپنے مخصوص معنی میں صرف ادبی زبان کا ہی احاطہ کرتا ہے۔
(۳)
زبان اور ادب کے درمیان گہرا رشتہ پایا جاتا ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ زبان ادب کا ذریعہ اظہار ہے ۔ ادب کی تخلیق کے لیے زبان کا استعمال ناگزیر ہے ۔ ہر شعری اور ادبی فکر زبان ہی کے سانچے میں ڈھل کر برآمد ہوتی ہے اور زبان کے ہی میڈیم سے وہ سامع یا قاری تک رسائی حاصل کرتی ہے۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جب زبان کا استعمال ادبی مقاصد کے لیے کیا جاتا ہے تو اس کی نوعیت جداگانہ ہوتی ہے، کیوں کہ یہ عام بول چال کی زبان سے حددرجہ مختلف ہو جاتی ہے۔ عام بول چال کی زبان سیدھی سادی، سپاٹ اور ترسیلی (Communicative)ہوتی ہے ۔ اس کا بنیادی مقصد ترسیل ِ معنی یا ادائے مطلب ہوتا ہے۔یہ مروجہ لسانی قاعدوں، ظابطوں اور اصولوں کی پابند نہیں ہوتی ہے ۔ اس کے بر عکس ادبی زبان علامتی ہوتی ہے۔ اس میں لفظی و معنوی صنعتوں اور بدیع و بیان (تشبیہ ، استعارہ، علامت، پیکرتراشی وغیرہ) سے کام لیا جاتا ہے ۔نیز اشاروں اور کنایوں میں بات کی جاتی ہے اور اکثر الفاظ کے لغوی معنی مراد نہیں لیے جاتے ۔ اس میں اظہار بھی براہِ راست (Direct)نہیں ہوتا، بلکہ بالواسطہ ہوتا ہے۔ یہ زبان تاثر الفاظ و تراکیب سے بھی بوجھل ہوتی ہے۔ نیز اس میں جذبے (Emotiveload)کی بھی کار فرمائی ہوتی ہے۔ ادبی زبان کا بنیادی مقصد ترسیلی و ابلاغی نہیں، بلکہ اظہاری (Expressive)اور جمالیاتی(Aesthetic)ہوتا ہے ۔ ادبی زبان اکثر لسانی ضابطوں (Linguistic norms)سے انحراف کرتی ہے۔ ادبی زبان میں اکثر تراش و خراش، توڑ پھوڑ اور ایجاد و اختراع سے بھی کام لیا جاتا ہے جس سے زبان میں انفرادیت اور تخلیقیت پیدا ہو جاتی ہے ۔ ادب میں زبان کے تخلیقی استعمال کی بے حد اہمیت ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہر شاعر یا ادیب زبان کا استعمال اپنے اپنے طور پر کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شاعر یا ادیب کا اسلوب بھی مختلف ہوتا ہے ۔ اسلوب کے اسی امتیازی خصائص کی وجہ سے ہم کسی ادیب کو فوراً پہچان لیتے ہیں ۔ کسی ادیب کے اسلوبیاتی امتیازات اس ادیب کو انفرادیت بخشتے ہیں اور دوسرے ادیب یا ادیبوں سے ممتاز بنا دیتے ہیں ۔
(۴)
اسلوب جسے انگریزی میں (Style)کہتے ہیں ، سے عام طور پر کسی کام کو کرنے کا ڈھنگ ، طریقہ یا انداز مراد لیا جاتا ہے ۔ ہر شخص کے کام کرنے کا انداز مختلف ہوتا ہے، نیز ہر شخص اپنے اپنے طور یا ڈھنگ سے کسی کام کو سر انجام دیتا ہے ۔ اسی کو اس شخص کا اسٹائل یا اسلوب کہتے ہیں
مثال کے طور پر اگر کسی شخص سے کسی ایک موضوع پر تقریر کرنے کے لیے کہا جائے تو اس کے تقریر کرنے کا انداز اُسی موضوع پر دوسرے شخص کی تقریر کے انداز سے مختلف ہوگا ، یعنی لفظوں کا انتخاب، جملوں کی ترتیب اور ادائیگی، آوازوں کا اتار چڑھاﺅ اور زور، نیر چہرے کے نقوش اور اعضا کی حرکت ، یہ تمام باتیں اس شخص کی اپنی ہوں گی جن سے اس کے تقریر کرنے کے انداز، ڈھنگ یا اسٹائل کا پتا چلے گا، گفتگو کے علاوہ چال ڈھال، رہن سہن اور لباس کی وضع قطع سے بھی کسی شخص کے اسٹائل کا پتا چلتا ہے ۔ اسلوب بھی اسی کا نام ہے ۔ لیکن یہ اسلوب کا عام مفہوم ہے اور اس کی نہایت سادہ و سہل تعریف ہے۔
اسلوب کی بے شمار تعریفیں بیان کی گئی ہیں ۔ مختلف عہد کے ادیبوں، نقادوں، عالموں اور دانشوروں نے اپنے اپنے طور پر اسلوب کی تعریف بیان کی ہے مثلاً ایک فرانسیسی عالم بفون (Buffon)نے اسلوب کو شخصیت کا نام دیا ہے ۔اس کا قول ہے کہ ©اسلوب بہ ذاتِ خود انسان ہے (Style is the man himself)اس قول سے اس کی مراد یہ ہے کہ انسان کے کام کرنے کے انداز میں اس کی شخصیت کی جھلکی دیکھی جا سکتی ہے ، یعنی انسان کے ہر کام میں اس کی شخصیت کی چھاپ موجود ہوتی ے ۔ دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب انسان کوئی کام سر انجام دیتا ہے تو اس پر اپنی شخصیت کی چھاپ چھوڑ دیتا ہے جس سے ہم اس انسان کو پہچان لیتے ہیں، گویا اسلوب کسی انسان کی شخصیت کا عکس ہوتا ہے ۔ اسلوب کی یہ تعریف انسان کی شخصیت کے حوالے سے بیان کی گئی ہے۔ لسانیاتی اعتبار سے اسلوب کی وہی تعریف درست سمجھی جائے گی جو زبان کے حوالے سے بیان کی گئی ہو۔
ماہرینِ لسانیات نے اسلوب کی تمام تعریفیں زبان کے حوالے سے ہی بیان کی ہیں ، نہ کہ انسان کی شخصیت یا کسی اور چیز کے حوالے سے ۔ زبان کے حوالے سے بیان کی گئی اسلوب کی دو اہم تعریفوں کا ذکر یہاں کیا جاتا ہے:
۱۔ اسلوب بہ طور متبادل اظہارات کے درمیان فرق:
لسانیاتی اعتبار سے اسلوب متبادل اظہارات (Alternative expressions)کے درمیان لسانی فرق کا نام ہے ۔ مشہور امریکی ماہر لسانیات چارلز ایف ۔ہاکٹ (Charles F. Hockett) نے اسلوب کی تعریف اسی اعتبار سے بیان کی ہے وہ کہتا ہے :
ایک ہی زبان کے دو فقرے یا جملے جو تقریباً ایک ہی معنی و مفہوم کو ادا کرتے ہوں ، جب اپنی لسانی ساخت کے اعتبار سے مختلف ہوں تو کاکہا جائے گا کہ ان فقروں یا جملوں میں اسلوب کا فرق ہے ( ملاحظہ ہو ہاکٹ کی کتاب A Course in Medern Linguisticsص556)۔
اسلوب کی تعریف میں دو باتیں نہایت واضح ہیں :اول یہ کہ اسلوب کا تعلق زبان کے استعمال سے ہے ، دوم جب تک کہ دو متبادل اظہارات میں لسانی ساخت کے اعتبار سے فرق نہ پایا جائے ، اسلوب معرض وجود میں نہیں آسکتا۔ اس بات کو ذیل کی مثالوں سے بہ خوبی سمجھا جا سکتا ہے ۔
۱) الف) پانی برس رہا ہے
۲) ب) بارش ہو رہی ہے
اردو زبان کے یہ دونوں جملے ایک ہی مفہوم کو ادا کر رہے ہیں ۔ معنی کے اعتبار سے ان میں کوئی فرق نہیں ہے لیکن لسانی ساخت کے اعتبار سے ان میں نمایاں فرق موجود ہے ۔ ۱ (لف) پانی کا لفظ استعمال ہوا ہے جب کہ ۱ (ب) میں بارش کا ۔ قواعد کی رو سے لفظ پانی مذکر ہے اور بارش مونث اسی طرح جب ہم فعل پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ۱ (لف) میں برسنا اور ۱ (ب) میں ہونا کی تعریفی شکلیں ملتی ہیں ۔ قواعد کی رو سے برس رہا ہے فعل مذکر ہے اور ہو رہی ہے فعل مونث ہے ، جس سے واضح ہے کہ ان جملوں کی لسانی ساخت مختلف ہے ، اس لیے ان کے اسلوب میں بھی فرق ہے ۔
اسلوب کے فرق کی دوسری مثال ملاحظہ ہو:
۲ ) الف ) سورج ڈوبتے ہی چاروں طرف اندھیرا چھا گیا
۲) ب ) آفتاب غروب ہوتے ہی ہر سو تاریکی پھیل گئی
ان جملوں کا مطلب و مفہو م بھی اگرچہ ایک ہے لیکن ان کی لسانی ساخت میں نمایاں فرق موجود ہے کیوں کہ جو الفاظ ۲ (الف) میں استعمال ہوئے ہیں وہ بہ استثنائے ، ہی ، ۲ (ب) میں استعمال نہیں ہوئے ہیں:
۲) الف ) سورج ، ڈوبتے، ہی ، چاروں طرف، اندھیرا، چھا گیا
۲ ) ب) آفتاب، غروب ہوتے ہی، ہر، سو، تاریکی، پھیل گئی
مذکورہ دونوں جملوں کی لسانی ساخت میں فرق کی وجہ سے ان جملوں کے اسلوب میں نمایاں فرق کا پتا چلتا ہے۔ جملہ ۲ (الف) کا اسلوب سادہ، غیر رسمی (Informat)بے تکلفانہ اور عام بول چال کا اسلوب ہے، جب کہ جملہ ۲ (ب) پُر تکلف ، ثقیل اور رسمی (Format)اسلوب سے عبار ت ہے ۔
اسی نوع کی ایک چھوٹی سی ایک اور مثال ملاحظہ ہو:
۳ الف ) آﺅ بیٹھو
۳ ) ب ) آئیے تشریف رکھیے
ان دونوں جملوں کا مفہوم اور معنی و مطلب بھی اگر چہ ایک ہے لیکن ان کی لسانی ساخت مختلف ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے اسلوب میں بھی فرق ہے ۔ ، آﺅ بیٹھو، میں بے تکلفی اور اپنا پن پایا جاتا ہے اور ، آئیے تشریف رکھیے، پُر تکلف اور رسمی و تعظیمی طرز اظہار ہے
یہ بات ہمیشہ ذہن نشیں رہنی چاہیے کہ اسلوبیات میں ادب یا ادبی تخلیق کے حوالے سے ہی اسلوب کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور کسی شاعر یا ادیب کے اسلوب سے ہی بحث کی جاتی ہے۔ یہ بات بھی نشانِ خاطر رہنی چاہیے کہ ادب میں زبان کے استعمال سے ہی اسلوب معرض وجود میں آتا ہے۔ زبان چوں کہ ادب کا ذریعہ اظہار ہے ، اس لیے زبان کے استعمال کے بغیر کوئی ادب تخلیق نہیں کیا جا سکتالہذا زبان جیسے ہی ادبی سانچے میں ڈھلتی ہے ، اس میں اسلوب کی کارفرمائی نمایاں ہونے لگتی ہے ۔ اسلوب کوئی اضافی (Additional)عنصر یا باہر سے لائی ہوئی کوئی چیز نہیں بلکہ یہ ادبی زبان میں پیوست ہوتی ہے۔ ادبی زبان اور اسلوب کا رشتہ بہت گہرا ہوتا ہے ۔ اسی لیے ادبی زبان کے مطالعے کو مطالعہ اسلوب کا نام دیا گیا ہے ۔ اس مطالعے میں ، جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے، لسانیات سے خاطر خواہ مدد لی جاتی ہے ۔ لسانیاتی مطالعہ ادب یا مطالعہ اسلوب کو مغرب میں بیسویں صدی کے نصف دوم میں کافی فروغ حاصل ہوا اور اس نے باقاعدہ ایک شعبہ علم کی حیثیت اختیار کر لی جسے اسلوبیات (Stylistics)کا نام دیا گیا۔ اسلوبیاتی تنقید بھی اسی کا نام ہے۔
متبادل اظہارات کے درمیان لسانی فرق کی مثالیں شعر و ادب میں بہ کثرت پائی جاتی ہیں ۔ یہاں میر تقی میر اور مرزا غالب کے کلام سے چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں جن سے ان شاعروں کے اسلوب میں فرق کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ، میر و غالب کے یہاں ایسے بے شمار اشعار پائے جاتے ہیں جو معنی و مفہوم اور خیال کے اعتبار سے تو تقریباً یکساں ہیں ، لیکن ان میں لسانی اعتبار سے فرق نہایت واضح ہے ۔ مثلاً:
۴) الف) میر تقی میر :
سراہا اُن نے ترا ہاتھ جن نے دیکھا زخم
شہید ہوں میں تری تیغ کے لگانے کا
۴) ب) مرازا غالب
نظر لگے نہ کہیں اس کے دست و بازو کو
یہ لوگ کیوں مرے زخم ِ جگر کو دیکھتے ہیں
۵) الف) میر تقی میر
کون کہتا ہے نہ غیروں پہ تم امداد کرو
ہم فراموش ہوﺅ ں کو بھی کبھی یاد کرو
۵) ب) مرزا غالب
تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو
مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو
میر انیس اور مرزا دبیر کے کلام میں بھی ایسی بے شمار مثالیں پائی جاتی ہیں جن میں معنی ، مفہوم اور خیال کے اعتبار سے تو یکسانیت ہے لیکن ان کی لسانی ساخت مختلف ہے مثلاً:
۶) الف) میر انیس
پانی تھا گرم، گرمی روزِ حساب تھی
ماہی جو سیخ موج تک آئی کباب تھی
۶) ب) مرزا دبیر
مثل تنور گرم تھا پانی میں ہر حباب
ہوتی تھیں سیخ موج پہ مرغابیاں کباب
اسلوب بہ طور لسانی ضابطوں سے انحراف:
متبادل اظہارات کے درمیان فرق کے علاوہ ، اسلوب کی تعریف مقررہ ضابطوں سے انحراف (Deviation from the Linguistic norm) کے طور پر بھی کی گئی ہے ۔ جب کوئی شاعر یا ادیب اپنے تخلیقی اظہار کے لیے اس کا استعمال کرتا ہے تو وہ اسے اس کی اصلی حالت میں نہیں برتتا، بلکہ اکثر اس میں تنوع، جدت اور ندرت پیدا کرتا ہے جس کے لیے اسے زبان میں تراش خراش، کاٹ چھانٹ اور توڑ پھوڑ سے بھی کام لینا پڑتا ہے ۔ اس عمل سے شعری اظہار میں سہولت اور زبان میں وسعت پیدا ہوتی ہے لیکن زبان اس روایتی ڈھرے سے ہٹ جاتی ہے جسے لسانی ضابطوں اور اصولوں سے انحراف کا نام دیا گیا ہے ۔ مثال کے طور پر اگر ہم صبا اکرام کے اس شعر کو دیکھیں:
ہے اب تو خیر اسی میں کہ پانیوں میں رہو
کبھی جو سطح پہ آئے تو ڈوب جاﺅ گے
تو ہمیں پتا چلے گا کہ پہلے مصرع میں شاعر نے ،، پانیوں،، کا استعمال کیا ہے جو ،،پانی،، کی جمع ہے ۔ یہ لسانی انحراف کی ایک مثال ہے ۔ اردو بول چال اور تحریر میں لفظ ،،پانی،، ہمیشہ اسم واحد کے طور پر ہی استعمال ہوتا ہے ۔ مثلاً
کئی دن سے پانی برس رہا ہے
جدھر دیکھو پانی ہی پانی نظر آتا ہے
وہ بہت پیاسا ہے اسے پانی پلا دو
مچھلی پانی ہی میں زندہ رہ سکتی ہے
تالاب کا سارا پانی سوکھ گیا وغیرہ
اردو کے یہ معیاری جملے ہیں لیکن ان میں کہیں بھی ،، پانیوں،، استعمال نہیں ہوا ۔ اردو میں لفظ ،، پانی،، کا بہ طور اسم واحد استعمال ایک نارم (norm)کی حیثیت رکھتا ہے ، یعنی یہ ایک ایسی مروج لسانی شکل ہے جس کی خلاف ورزی ضابطے سے انحراف کے مترادف ہے ۔ صبا اکرام نے اپنے متذکرہ شعر میں (پانی کی جمع) استعمال کر کے لسانی نارم سے انحراف کیا ہے جس سے شعر میں جدت اور ندرت پیدا ہو گئی ہے جو قاری کو اپنی طرف کھینچتی ہے ۔ زبان کے استعمال میں یہی جدت ، ندرت اور انوکھا پن اسلوب کی تشکیل اور انفرادیت کا باعث قرار پاتا ہے۔
لسانی انحراف کی ایک اور مثال مظفر حنفی کے اس شعر میں دیکھنے کو ملتی ہے:
چاند اگا ہے پروا سنکی چلنا ہے تو چل
مہکانے پھلواری من کی چلنا ہے تو چل
اس شعر میں ،، چاند اگا ہے ،، کی ترکیب استعمال ہوئی ہے جو لسانی قاعدے کی رو سے درست نہیں ہے ۔ معنیاتی اعتبار سے ،، اگنا،، نباتاتی اشیا کے نمو پذیر ہونے کا عمل ہے اور چاند ایک غیر نباتاتی شے ہے لہذا چاند کو اگنا کے ساتھ ترکیب دینا معنیاتی عدم مطابقت یا معنیاتی بے آہنگی (Semantic Incompatibility)تصور کی جائے گی اور چاند اگا ہے کو معنی کے لحاظ سے غیر منطقی ، بے جوڑ یا بے میل ترکیب (Illogical Combination)کہا جائے گا ۔ شاعر نے یہاں لسانی نارم سے انحراف کیا ہے جس سے شعر میں جدت، ندرت اور انوکھا پن پیدا ہو گیا ہے جو تشکیل اسلوب اور اس کی انفرادیت کا ضامن ہے ۔
(۵)
کسی ادبی فن پارے کے اسلوبیاتی مطالعے کا بنیادی مقصد اس فن پارے کے اسلوبی خصائص (Style features)کو نشان زد کرنا ہے ، یعنی اس بات کا پتا لگانا ہے کہ ادب میں زبان کے استعمال یا اسلوب کے وہ کون سے امتیازات یا خصائص ہیں جن کی وجہ سے یہ فن پارہ دوسرے فن پارے سے منفرد و ممتاز ہے ۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے متعلقہ ادبی فن پارے کا لسانیاتی تجزیہ کیا جاتا ہے ۔ لسانیاتی تجزیے کے بعد ہی اس فن پارے کے اسلوبی خصائص کو نشان زد کیا جا سکتا ہے۔ اسلوبی خصائص ادب میں زبان کے استعمال کی وہ خصوصیات ( یا لسانی امیتازات )ہیں جو عام بول چال کی زبان میں بالعموم نہیں پائی جاتیں۔
کوئی ادیب جب مروجہ زبان کا ادبی مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے تو وہ اسے اپنی تخلیق ضرور توں کے لحاظ سے اس طرح متشکل (Mould)کرتا ہے کہ اس میں مختلف النوع خوبیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ انھیں خوبیوں یا لسانی امتیازات کو ، اسلوبی خصائص ، کہتے ہیں یہ زبان کی ہر سطح (صوتی ، صرفی، نحوی، معنیاتی ) پر پائے جاتے ہیں ۔زبان کا ادبی استعمال زبان کا تخلیقی استعمال بھی ہے ، گویا ایک شاعر یا ادیب اپنی تخلیقی ضرورتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایک نئی زبان خلق کرتا ہے جس میں جدت، ندرت ، تنوع اور انوکھے پن کے علاوہ نئے لسانی سانچوں ، نئی لسانی تشکیلات اور نئے تلازمات و انسلاکات سے بھی کام لیا جاتا ہے۔
کسی ادبی فن پارے کا اسلوبیاتی مطالعہ و تجزیہ لسانیات کی مختلف سطحوں پر معروضی ، توضیحی، تجزیاتی اور غیر تاثراتی انداز میں کیا جا سکتا ہے اور ہر سطح پر اس کے (ادبی فن پارے کے) اسلوبی خصائص کو نشان زد کیا جا سکتاہے۔ اس میں داخلیت (Subjectivity)یا ذاتی پسند و نا پسند کو ہرگز کوئی دخل نہیں ہوتا نیز اقداری فیصلوں سے بھی گریز کیا جاتا ہے ۔ لسانیات کی پہلی سطح ، صوتیات ، (آوازوں کی تشکیل اور ان کی ترتیب و تنظیم) ہے۔اس کی دوسری سطح تشکیلیات ( تشکیل و تعمیر الفاظ) اور تیسری سطح ، نحو، (فقروں اور جملوں کی ترتیب) ہے ۔ لسانیات کی چوتھی سطح، معنیات کہلاتی ہے جس میں معنی سے بحث کی جاتی ہے۔
لسانیات کی ان تمام سطحوں پر کسی بھی ادبی فن پارے کا مطالعہ و تجزیہ بہ خوبی کیا جا سکتا ہے اور اس کے اسلوبی خصائص کا پتا لگایا جا سکتا ہے ۔ اس کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے جاتے ہیں ۔ ہر اسلوبیاتی طریقہ کار کی نوعیت جداگانہ ہوتی ہے ، مثلاً
کہیں صوتی شماریات یعنی آوازوں کے اعداد و شمار سے کام لیا جاتا ہے تو کہیں لفظی ترکیبی زمروں اور قواعدی نمونوں سے اور کہیں معنیاتی ہم آہنگی (Semantic Cohesiveness) اور پیشِ نظر یا فور گراﺅنڈ نگ (Foregrounding) سے۔
(۲) مختلف ادبی فن پارے مختلف النوع اسلوبی خصائص کے حامل ہوتے ہیں ۔ یہ بات اسلوبیاتی تجزیہ نگا ر کو دیکھنی ہوتی ہے کہ وہ کس فن پارے کے تجزیے کے لیے کون سا اسلوبیاتی طریقہ کار اختیار کرے کہ لسانیات کی کسی بھی سطح پر اس فن پارے کے اسلوبی خصائص کو بہ آسانی نشان زد کیا جا سکے۔ مثال کے طور پر علامہ اقبال کی نظم ،، ایک شام،، کا صوتیاتی تجزیہ امریکی ماہر ِ اسلوبیات ڈیل ہائمز(Dell Hymes)کے شماراتی طریقہ کار کو اختیار کرتے ہوئے بہ خوبی کیا جا سکتا ہے ۔ (۳) اس نوع کے تجزیے کے حسبِ ذیل مراحل ہیں:
۱۔ سب سے پہلے ایک مختصر سی نظم کا انتخاب کریں جو موضوع اور خیال کے اعتبار سے مربوط ہو ، جیسے کہ اقبال کی نظم ،، ایک شام،،
۲۔ پوری نظم کو صوتیاتی رسم خط (Phonetic Alphabet)میں لکھ ڈالیں جس کا اصول یہ ہے کہ ہر صورت کے لیے صرف ایک صوتی علامت (phonetic symbol)اختیار کی جائے
۳۔ نظم میں واقع ہونے والے مصمتوں (consonants) اور مصوتوں(vowels)کی دو الگ الگ فہرستیں ترتیب دیں ہر مصمتے اور مصوتے کے سامنے ان کی تعداد وقوع درج کریں یعنی یہ لکھیں کہ زیر تجزیہ نظم میں وہ صوت کتنی بار واقع ہوئی ہے۔
۴۔ مذکورہ دونوں فہرستوں میں سے دس بارہ کثیر الوقوع (High-Ranking)مصمتوں اور مصوتوں کو چھانٹ کر الگ کر لیں اور ان کی ایک علاحدہ مشترکہ فہرست ترتیب دیں ۔
ان کثیر الوقوع آوازوں کے سامنے بھی ان کی تعداد ِ وقوع درج کریں۔ سب سے زیادہ وقوع پذیر آواز کو سب سے اوپر درج کریں اس کے بعد بہ لحاظ ِ تعداد دوسری وقوع پذیر آواز کو درج کریں پھر اسی طرح تیسری ، چوتھی ، پانچویں اور بعد کی آوازوں کا اندراج کریں۔
۵۔ کثیر الوقوع آوازوں (مصمتوں اور مصوتوں ) کی فہرست میں ایسی آوازیں تلاش کریں جنھیں ترتیب دے کر ایک ایسا لفظ یا فقرہ تشکیل دیا جا سکے جو زیر ِتجزیہ نظم میں پایا جاتا ہو۔ ایسے لفظ کو ، ، تجمعی لفظ(Summative word)کہیں گے ۔ اس لفظ میں دو نمایاں خصوصیات کا پایا جانا لازمی ہے ۔ پہلی خصوصیت تو یہ ہے کہ یہ لفظ صوتی سطح پر کثیر الوقوع آوازوں کا مجموعہ ہو اور دوسری خاص بات اس لفظ میں یہ ہونی چاہیے کہ یہ معنیاتی سطح پر نظم کے مرکزی خیال یا تھیم (Theme)کی اچھی طرح عکاسی اور نمائندگی کرتا ہو۔ اگر زیرِ تجزیہ نظم کے کسی لفظ میں یہ دونوں خوبیاں مجتمع ہوگئی ہوں تو اسے اس نظم کا ،، تجمعی لفظ،، قرار دیا جاے گا۔
۶۔ زیرِ تجزیہ نظم کے اسلوبی خصائص کو نشان زد کریں۔
اس اسلوبیاتی طریقہ کار کی مدد سے اقبال کی نظم ،،ایک شام،، کے تجمعی لفظ کا پتا لگایا جا سکتا ہے اور نظم کے اسلوبی خصائص کو بھی نشان زد کیا جا سکتا ہے ۔ زیرِ تجزیہ نظم کا تجمعی لفظ ،، خاموش،، ہے ، کیوںکہ یہ نظم کے متن میں شامل ہے اور صوتی سطح پر نظم کی کثیر الوقوع ، یعنی غالب (Dominant)آوازوں ش/خ/اور طویل مصوتے /ا/ کے امتزاج سے بنا ہے، نیز معنی کی سطح پر یہ نظم کے مرکزی خیال کو نہایت خوبی کے ساتھ پیش کرتا ہے ۔ اس نظم کی سب سے نمایاں خصوصیت (ش) (س)اور (خ) مصمتوں اور (ا) اور (او) مصوتوں کا بار بار استعمال ہے ۔ غالب مصمتوں (ش، س ،خ) کی تکرار سے شاعر نے مناظر قدرت میں پائی جانے والی خاموشی ، سکوت ، اور سکون کی کیفیت کو نہایت خوبی کے ساتھ اجاگر کیا ہے اور طویل مصوتوں (ا) اور (او) کی تکرار سے نظم میں ایک قسم کی حزنیہ کیفیت کی بھی عکاسی کی ہے جس کا اظہار آخری شعر میں نمایاں طور پر ہوا ہے ۔ نظم کا پورا تانا بانا انھیں آوازوں سے مل کر تیار ہوتا ہے مثلا:
خاموش ہے چاندنی قمر کی
شاخیں ہیں خموش ہر شجر کی
ربط