مھمان نوازی اور حریت پسندی پختونوںکے خون میں شامل ھے۔وہ موت کو توگلے لگا سکتے ہیں لیکن غلامی کی زندگی بسر نہیں کر سکتے۔وہ سب سے زیادہ پیار اپنی دھرتی ماں سے کرتے ہیں۔جو ہر ایک انسان کا بنیادی حق ہوا کرتا ھے۔لیکن بدقسمتی سے آجکل عالمی میڈیا میں پختنون قوم کو ایک دھشت گرد اور بنیاد گرد کی حیسیت سے یاد کیا جاتا ھے جو حقیقت نہیں جن لوگوں نے پختونوں کو قریب سے دیکھا ہو ان کی نفسیات کا تجزٰٰیہ کیا ہو وہ اس نتیجے پر صدمہ پہنچے ہوں گے کہ پختون ایک روشن فکر ترقی پسند قوم ھے۔
پاکستان کی تحریک ازادی میں جب ہم پختونوں کے کردار کا تعین کرتے ہیں اور اس حوالے سے تاریخ کے اوراق ٹٹولتے ہیں تو سب سے زیادہ واضح رول اسی قوم کا نظر آتا ھے۔یہ حقیقت ھے کہ بر صغیر پاک و ہند میں اسلام کی روشنی محمد بن قاسم نے پھیلائ اور جو کام ان کو آگے بڑھانا تھا بدقسمتی سے وہ ادھورا رہ گیا اور یہ کریڈٹ خدا نے پختونوں کو دیا۔محمد بن قاسم نے سندھ میں اسلام کی جو شمع روشن کر رکھی تھی اس کی روشنی مشہور پختون جنرل شھاب الدین غوری نے سارے ھندوستان میں پرتھوی راج کو شکست دے کر پھیلائ۔انھوں نے نہ صرف ھندوستان کو فتح کیا بللکہ یہاں باقاعدہ طور پر ایک اسلامی ریاست کی بیل داغ بھی ڈالی۔اس سے پھلے محمود غزنوی نے بھی ھندوستان کو فتح کیا تھا مگر ین کے قدم کبھی تخت دہلی پر جم نہں چکے تھے اور یہ پختون ہی تھے جن کی بدولت دہلی پر مسلمانوں نے چھ سات صدیوں تک حکومت کی اس میں تین ساڑے تین سو سال پختونوں کی حکمرانی بھی شامل ھے۔انگریز،شہنشاہ جہانگیر کے زمانے میں تجارت کی غرض سے آے اس چالاک سوداگر کی نظریں ھندوستان کے خزانوں پر لگی تھیں اور موقع ملتے ہی اسے دونوں ہاتھوں سے لوٹنا شروع کر دیا۔مسلمانوں کی آپس کی نااتفاقی کی وجہ سے مغل حکمران دہلی تک محدود ہوگئے۔
مسلمانوں کی برے دن آنے لگے۔
مسلمان اپنی یہ زبون حالی برداشت نہں کر سکتے تھے۔لہزا انھوں نے دوبارہ اپنی کھوئی یوئی عظمت بحال کرنے کے لیے دوڑ دھوپ شروع کی لیکن اب وقت گزر چکا تھاٰ 1857ء کی جنگ آزادی کی تحریک تو چلی لیکن وہ مکمل طور پر ناکام ہوگئ جیسے انگریزوں نے غدر کا نام دیا۔
یہاں ایک اور حریت پسند پختون جنرل بخت خان کا نام سامنے آتا ھے جنھوں نے اپنی پوری قوت سے تحریک آزادی میں روح پھونکنے کی کوشش کی تاہم کمزور قیادت اس قابل نہ تھی کہ وہ ان کو لبیک کہتی۔
آخری مغل حکمران بہادر شاہ ظفر میں اتنا دم خم نہیں تھا کہ وہ انگریزوں کا مقابلہ کرتے جنرل بخت خاں نے مغل بادشاہ کی بہت منت سماجت کی کہ آپ صرف کمان سنبھالیں باقی کام ہمارا ھے لیکن بوڑھا اور لاغر بادشاہ کسی بھی مہم کو سر کرنے کی پوزیشن میں نہ تھے فرنگی فوج نے نہ صرف ان کو گرفتار کر کے رنگون بھیج دیا بللکہ ان کے دو نوجواں بیٹوں کے سر قلم کر کے بدشاہ کے سامنے پیش کر دیئے۔
1857ٰء سے لے کر 1947ء تک نو ے سال کا عرصہ ھے۔جس میں مسلمانان پاک و ہند کو یہ احساس ہوا کہ انگریزوں نے اصل معنون میں مسلمانوں کو غلام بنایا ھے جبکہ ھندو تو پھلے بھی غلام تھے۔یہی وہ بنیادی وجہ تھی کہ تحریک آزادی میں مسلمان اور ھندو ایک ساتھ نہ چل سکے۔ھندو اگر گاندھی جی کی قیادت میں فرنگیوں سے برسر پیکار تھے تو مسلمانوں نے اپنے لئے ایک علیحدہ جماعت مسلم لیگ 1906ء میں بنائی جس میں علامہ محمد اقبال اور قائدعظم جیسے رہنما تھے اور انہیں سرکردہ پختون رہنماؤں سردار عبدالرٌب نشتر،مولانامحمد علی جوہر،مولانا ظفر علی خان وغیرہ کی حمایت بھی حاصل تھی۔ لکین اس ضمن میں باچہ خان کی خدائی خدمتگار تحریک کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جس نے پختونوں کو سیاسی طورپر بیدار کیا۔اور وہ حریت پسند رہنماپیدا کئے جس کے نتیجے میں بلا اخر انگریزوں کو بر صغیر پاک و ھند سے جانا پڑا۔اور اسی تحریک نے پشتو زبان اور پشتو ادب کو ایک نئی جہت بھی دی،ہفتہ وار"پختون"رسالے نے شعرا و ادباء کی حوصلہ افزائ کی۔اور ان کی تحریروں کو شائع کیا۔
تحریک ازادی میں پختنوں کے کردار کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو ہمارے سامنے جو بڑے بڑے نام اتے ہیں،وہ سیاسی ورکروں کے ساتھ ساتھ مصنیفین بھی تھے۔
مثلا خدائی خدمت تحریک کے سر گرم اراکین فرنگی سامراج کے مظالم کو ڈراموں کے ذریعے اجاگر کیا کرتے تھے جو پختونوں کے مختلف علاقوں میں سٹیج ہوا کرتے تھے۔اس ضمن میں ہمیں تین گروپ نظر آتے ہیں مشہور و معروف ادیب محقق ڈاکٹر میان سہیل انشاء اپنی کتاب Boughs & Bouquets میں اس جانب یوں اشارہ کرتے ہیں۔
At the begining of the twentieth centuray the continuation of religions poetry was prevalant in the society as usual.But at this stage we can see three other groups on political and ideological basis who followed their ideologies in their poetry.The first and the large group was lead by nationalists whose leader was Khan Abdul Ghaffar Khan Alias Bacha Khan who was not only a non-violent freedom fighter of the sub continent but also the first reporter writer in Pukhto litrature.The second group was influenced by progressive and communist movements whose guide was comrade kakagi Sanobar Hussain Momand a Staunch anti imperialist and who belived in armed struggle against the foreign occupants.The third one was influenced by the ideology of muslim league,having no guide to lead them and no organ to publish
their materials and interconnect one another into a single fold
پختونوں کی یہ خوش قسمتی رہتی ھے کہ چاہیے وہ جس پارٹی میں بھی تھے لکین انہوں نے تحریک آزادی میں بڑہ چڑہ کر حصہ لیا۔
مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا ان سے نہ صرف پیار تھا بلکہ ان سے کافی توقعات بھی وابستہ کر رکھے تھے۔
انہوں نے صاحب سیف و قلم خوشحال خان خٹک کی انگریزی میں ترجمہ شدہ نظموں کو پڑہا بھی او اس نابغہ روزگار شخصیت پر لکھا بھی۔
پختو نوں کا بھی ان سے بڑی عقیدت تھی۔یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال کے کلام کا چاھے وہ اردو میں ہے یا فارسی میں منظوم تراجم پشتو میں ہوئے ہیں۔
اگر کوئی پختون فارسی یا اردو کو نہ سمجھے تو پشتو میں بھی علامہ اقبال جیسی شخصیت سے مستفید ھوسکتے ہیں۔
امیر حمزہ خان شینواری بابائے پشتو غزل،معروف محقق و نقاد دوست محمد خان کامل مہمند، علامہ عبدلعلی اخونزادہ،فحل اکبر بے غم،خان میر ہلالی،سابق گورنر محمد اسلم خان خٹک،عبدلحلیم اثر افغانی،عبدللہ جان اسیر،سابق گورنر ارباب سکندرخان خلیل،ارباب خان ارباب،عبدلرازاق حکمت،میر احمد صوفی،قمرزمان راہی،فحل احمد غازی،اور پیر گوہر وپ پختون حریت پسند ھیں جنھوں نے مسلیم لیگ کے پلیٹ فارم سے تحریک ازادی میں بڑہ چڑہ کر حصہ لیا۔
حاجی صآب ترنگزئئ ،عمرا خان،فقیر ایپی،عبدلغفور کاکاجی،اور ملا نجم الدین المعروف اڈے ملا صاحب ،میاںگل عبدلودود اور سر تور فقیر وغیرہ وہ حریت پسند رہنام ہیں جنہوںنے انگریزوں کو ناکوں چنے چبوائے۔
اور وقت شاعری اور ٹپے اس بات گواہ ہیں
پہ ملاکنڈ تورہ تیارہ شوہ
ھارونہ تورہ ذلوہ چہ رنڑا شینہ
اور یہ کہ
وزیرستان باندے جنگونہ
انگریزان وائی چہ صبا بہ جنگ لہ ذونہ
اور پھر لیونے فلسفی غنی خان کی اس نظم نے تو سارے پختونخوا میں ایک دھوم مچا دی۔
کہ خازے شنے مے پہ قبر وی ولاڑے
کہ غلام مڑ وم رازئ توکئ پہ لاڑے
کہ پہ خپلو وینو نہ وم لمبیدلے
پہ ما پلیتوئ د جومات غاڑے
----------------------------------------
-------------------------------
----------------------
---------------------------------
دراصل یہ ایک لمبی داستان ہے اور اس مختصر مضموں میں اسکا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔
تحریک ازادی میں پختونوں کا ایک روشن کردار ہے۔
اللہ تعالی کے فضل کرم سے ہم نے چودہ اگست 1947 کو پاکستان حاصل کیا لیکن اصل امتحان پختونوں کا اپہنچا ہے۔کہ اس مملکت خداد کو ترقی و خوشحالی سے ہمکنار لیسے کیا جائے۔
اجکل ہمارے پیارے ملک کو بہت خطرات درپیش ہیں ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پختونوں کی شناخت پاکستان سے وابستہ ہے۔
ثور انقلاب کے نتیجے میں افغانستان کے پختونوں پر جو مظالم ڈھائے گئے وہ کسی سے ڈکھی چھپی بات نہیں اگر اس وقت پاکستان نہ ہوتا تو ان بے خانماں مظلوم پختونوں کا کیا ہوتا۔
اج دنیا کی ساری قوموں کی نظریں پختون قوم پر جمی ہوئی ہے۔
جنگ کی شغلیں گھروں تک اپہنچی ہیں ۔
اور اب اس اگ کو بجھانا ہے۔
خدا نخواستہ اگر یہ اگ اس طرح پھیلتی رہے گی تو ہمارا نام و نشان تک نہیں رھے گا۔
ازادی تو ہم نے حاصل کرلی مگر اب اس کو برقرار رکھنا بھی ضروری ھے۔
دنیا میں وہ قومیں سرخ رو ہوا کرتی ھے جو اپنے ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر قومی مفادات کو ترجیح دیں۔
پختون قوم نے تاریخ میں ھمیشہ ایک اھم رول ادا کیا ھے۔
انشاللہ موجودہ بحران سے بھی نبزدازما ھونے کے لئے ایک تاریخی کردار ادا کرے گی۔
پاکستان کی تحریک ازادی میں جب ہم پختونوں کے کردار کا تعین کرتے ہیں اور اس حوالے سے تاریخ کے اوراق ٹٹولتے ہیں تو سب سے زیادہ واضح رول اسی قوم کا نظر آتا ھے۔یہ حقیقت ھے کہ بر صغیر پاک و ہند میں اسلام کی روشنی محمد بن قاسم نے پھیلائ اور جو کام ان کو آگے بڑھانا تھا بدقسمتی سے وہ ادھورا رہ گیا اور یہ کریڈٹ خدا نے پختونوں کو دیا۔محمد بن قاسم نے سندھ میں اسلام کی جو شمع روشن کر رکھی تھی اس کی روشنی مشہور پختون جنرل شھاب الدین غوری نے سارے ھندوستان میں پرتھوی راج کو شکست دے کر پھیلائ۔انھوں نے نہ صرف ھندوستان کو فتح کیا بللکہ یہاں باقاعدہ طور پر ایک اسلامی ریاست کی بیل داغ بھی ڈالی۔اس سے پھلے محمود غزنوی نے بھی ھندوستان کو فتح کیا تھا مگر ین کے قدم کبھی تخت دہلی پر جم نہں چکے تھے اور یہ پختون ہی تھے جن کی بدولت دہلی پر مسلمانوں نے چھ سات صدیوں تک حکومت کی اس میں تین ساڑے تین سو سال پختونوں کی حکمرانی بھی شامل ھے۔انگریز،شہنشاہ جہانگیر کے زمانے میں تجارت کی غرض سے آے اس چالاک سوداگر کی نظریں ھندوستان کے خزانوں پر لگی تھیں اور موقع ملتے ہی اسے دونوں ہاتھوں سے لوٹنا شروع کر دیا۔مسلمانوں کی آپس کی نااتفاقی کی وجہ سے مغل حکمران دہلی تک محدود ہوگئے۔
مسلمانوں کی برے دن آنے لگے۔
مسلمان اپنی یہ زبون حالی برداشت نہں کر سکتے تھے۔لہزا انھوں نے دوبارہ اپنی کھوئی یوئی عظمت بحال کرنے کے لیے دوڑ دھوپ شروع کی لیکن اب وقت گزر چکا تھاٰ 1857ء کی جنگ آزادی کی تحریک تو چلی لیکن وہ مکمل طور پر ناکام ہوگئ جیسے انگریزوں نے غدر کا نام دیا۔
یہاں ایک اور حریت پسند پختون جنرل بخت خان کا نام سامنے آتا ھے جنھوں نے اپنی پوری قوت سے تحریک آزادی میں روح پھونکنے کی کوشش کی تاہم کمزور قیادت اس قابل نہ تھی کہ وہ ان کو لبیک کہتی۔
آخری مغل حکمران بہادر شاہ ظفر میں اتنا دم خم نہیں تھا کہ وہ انگریزوں کا مقابلہ کرتے جنرل بخت خاں نے مغل بادشاہ کی بہت منت سماجت کی کہ آپ صرف کمان سنبھالیں باقی کام ہمارا ھے لیکن بوڑھا اور لاغر بادشاہ کسی بھی مہم کو سر کرنے کی پوزیشن میں نہ تھے فرنگی فوج نے نہ صرف ان کو گرفتار کر کے رنگون بھیج دیا بللکہ ان کے دو نوجواں بیٹوں کے سر قلم کر کے بدشاہ کے سامنے پیش کر دیئے۔
1857ٰء سے لے کر 1947ء تک نو ے سال کا عرصہ ھے۔جس میں مسلمانان پاک و ہند کو یہ احساس ہوا کہ انگریزوں نے اصل معنون میں مسلمانوں کو غلام بنایا ھے جبکہ ھندو تو پھلے بھی غلام تھے۔یہی وہ بنیادی وجہ تھی کہ تحریک آزادی میں مسلمان اور ھندو ایک ساتھ نہ چل سکے۔ھندو اگر گاندھی جی کی قیادت میں فرنگیوں سے برسر پیکار تھے تو مسلمانوں نے اپنے لئے ایک علیحدہ جماعت مسلم لیگ 1906ء میں بنائی جس میں علامہ محمد اقبال اور قائدعظم جیسے رہنما تھے اور انہیں سرکردہ پختون رہنماؤں سردار عبدالرٌب نشتر،مولانامحمد علی جوہر،مولانا ظفر علی خان وغیرہ کی حمایت بھی حاصل تھی۔ لکین اس ضمن میں باچہ خان کی خدائی خدمتگار تحریک کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جس نے پختونوں کو سیاسی طورپر بیدار کیا۔اور وہ حریت پسند رہنماپیدا کئے جس کے نتیجے میں بلا اخر انگریزوں کو بر صغیر پاک و ھند سے جانا پڑا۔اور اسی تحریک نے پشتو زبان اور پشتو ادب کو ایک نئی جہت بھی دی،ہفتہ وار"پختون"رسالے نے شعرا و ادباء کی حوصلہ افزائ کی۔اور ان کی تحریروں کو شائع کیا۔
تحریک ازادی میں پختنوں کے کردار کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو ہمارے سامنے جو بڑے بڑے نام اتے ہیں،وہ سیاسی ورکروں کے ساتھ ساتھ مصنیفین بھی تھے۔
مثلا خدائی خدمت تحریک کے سر گرم اراکین فرنگی سامراج کے مظالم کو ڈراموں کے ذریعے اجاگر کیا کرتے تھے جو پختونوں کے مختلف علاقوں میں سٹیج ہوا کرتے تھے۔اس ضمن میں ہمیں تین گروپ نظر آتے ہیں مشہور و معروف ادیب محقق ڈاکٹر میان سہیل انشاء اپنی کتاب Boughs & Bouquets میں اس جانب یوں اشارہ کرتے ہیں۔
At the begining of the twentieth centuray the continuation of religions poetry was prevalant in the society as usual.But at this stage we can see three other groups on political and ideological basis who followed their ideologies in their poetry.The first and the large group was lead by nationalists whose leader was Khan Abdul Ghaffar Khan Alias Bacha Khan who was not only a non-violent freedom fighter of the sub continent but also the first reporter writer in Pukhto litrature.The second group was influenced by progressive and communist movements whose guide was comrade kakagi Sanobar Hussain Momand a Staunch anti imperialist and who belived in armed struggle against the foreign occupants.The third one was influenced by the ideology of muslim league,having no guide to lead them and no organ to publish
their materials and interconnect one another into a single fold
پ
مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا ان سے نہ صرف پیار تھا بلکہ ان سے کافی توقعات بھی وابستہ کر رکھے تھے۔
انہوں نے صاحب سیف و قلم خوشحال خان خٹک کی انگریزی میں ترجمہ شدہ نظموں کو پڑہا بھی او اس نابغہ روزگار شخصیت پر لکھا بھی۔
پختو نوں کا بھی ان سے بڑی عقیدت تھی۔یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال کے کلام کا چاھے وہ اردو میں ہے یا فارسی میں منظوم تراجم پشتو میں ہوئے ہیں۔
اگر کوئی پختون فارسی یا اردو کو نہ سمجھے تو پشتو میں بھی علامہ اقبال جیسی شخصیت سے مستفید ھوسکتے ہیں۔
امیر حمزہ خان شینواری بابائے پشتو غزل،معروف محقق و نقاد دوست محمد خان کامل مہمند، علامہ عبدلعلی اخونزادہ،فحل اکبر بے غم،خان میر ہلالی،سابق گورنر محمد اسلم خان خٹک،عبدلحلیم اثر افغانی،عبدللہ جان اسیر،سابق گورنر ارباب سکندرخان خلیل،ارباب خان ارباب،عبدلرازاق حکمت،میر احمد صوفی،قمرزمان راہی،فحل احمد غازی،اور پیر گوہر وپ پختون حریت پسند ھیں جنھوں نے مسلیم لیگ کے پلیٹ فارم سے تحریک ازادی میں بڑہ چڑہ کر حصہ لیا۔
حاجی صآب ترنگزئئ ،عمرا خان،فقیر ایپی،عبدلغفور کاکاجی،اور ملا نجم الدین المعروف اڈے ملا صاحب ،میاںگل عبدلودود اور سر تور فقیر وغیرہ وہ حریت پسند رہنام ہیں جنہوںنے انگریزوں کو ناکوں چنے چبوائے۔
اور وقت شاعری اور ٹپے اس بات گواہ ہیں
پہ ملاکنڈ تورہ تیارہ شوہ
ھارونہ تورہ ذلوہ چہ رنڑا شینہ
اور یہ کہ
وزیرستان باندے جنگونہ
انگریزان وائی چہ صبا بہ جنگ لہ ذونہ
اور پھر لیونے فلسفی غنی خان کی اس نظم نے تو سارے پختونخوا میں ایک دھوم مچا دی۔
کہ خازے شنے مے پہ قبر وی ولاڑے
کہ غلام مڑ وم رازئ توکئ پہ لاڑے
کہ پہ خپلو وینو نہ وم لمبیدلے
پہ ما پلیتوئ د جومات غاڑے
----------------------------------------
-------------------------------
----------------------
---------------------------------
دراصل یہ ایک لمبی داستان ہے اور اس مختصر مضموں میں اسکا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔
تحریک ازادی میں پختونوں کا ایک روشن کردار ہے۔
اللہ تعالی کے فضل کرم سے ہم نے چودہ اگست 1947 کو پاکستان حاصل کیا لیکن اصل امتحان پختونوں کا اپہنچا ہے۔کہ اس مملکت خداد کو ترقی و خوشحالی سے ہمکنار لیسے کیا جائے۔
اجکل ہمارے پیارے ملک کو بہت خطرات درپیش ہیں ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پختونوں کی شناخت پاکستان سے وابستہ ہے۔
ثور انقلاب کے نتیجے میں افغانستان کے پختونوں پر جو مظالم ڈھائے گئے وہ کسی سے ڈکھی چھپی بات نہیں اگر اس وقت پاکستان نہ ہوتا تو ان بے خانماں مظلوم پختونوں کا کیا ہوتا۔
اج دنیا کی ساری قوموں کی نظریں پختون قوم پر جمی ہوئی ہے۔
جنگ کی شغلیں گھروں تک اپہنچی ہیں ۔
اور اب اس اگ کو بجھانا ہے۔
خدا نخواستہ اگر یہ اگ اس طرح پھیلتی رہے گی تو ہمارا نام و نشان تک نہیں رھے گا۔
ازادی تو ہم نے حاصل کرلی مگر اب اس کو برقرار رکھنا بھی ضروری ھے۔
دنیا میں وہ قومیں سرخ رو ہوا کرتی ھے جو اپنے ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر قومی مفادات کو ترجیح دیں۔
پختون قوم نے تاریخ میں ھمیشہ ایک اھم رول ادا کیا ھے۔
انشاللہ موجودہ بحران سے بھی نبزدازما ھونے کے لئے ایک تاریخی کردار ادا کرے گی۔