تیسری سب سے بڑی بات ہے ان کا منشور، جس کی بہت ساری شقوں پر وہ حالیہ عوامی حمایت کے بعد حکومت سے عمل کروانے کی پوزیشن میں تھے لیکن کروا نہ سکے یا کروانا نہیں چاہتے۔ مثال کے طور پر لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی کے حوالے سے وہ عوامی حمایت کا بہت اچھا استعمال کر سکتے تھے لیکن نہ کیا۔ پھر پٹرول کی بے جا مہنگائی اور اس پر حکومتی لیویز کی ظالمانہ شرح پر عوام کی آواز میں آواز ملا سکتے تھے لیکن یہ بھی نہ ہوا۔ دیگر بھی قریب آدھی درجن شقیں ہیں جو ان کے منشور میں تو ہیں لیکن ان پر ابھی سے پہلو تہی صاف دیکھی جا رہی ہے۔
تحریک انصاف کا سونامی بھی عوام میں کوئی امید پیدا کرنے میں ابھی تک تو ناکام ثابت ہوا ہے ، مستقبل قریب میں عمران اگر کچھ اچھے فیصلے لیتا ہے تو شاید عوام کی امید بندھ سکے۔ اشتہارات میں البتہ اس نے "اب نہیں تو کب ۔۔۔ ۔۔ہم نہیں تو کون" کا جو نعرہ دیا ہے؛اس پر تب "ماضی میں" کوئی عمل ہوا نہ اب ہو رہا ہے اور نہ جانے کب ہو گا ۔
جی ، محب ، میں جانتا تھا کہ آپ میسر لوگوں والی بات ضرور کریں گے، میں بھی اس بات پر متفق ہوں لیکن غور کیجئے کہ تبدیلی یا انقلاب طاقت کے محور میں تبدیلی پیدا کئے بغیر نہیں آسکتا۔ یہ اصول معاشرے اور سائنس دونوں میں یکساں لاگو ہوتا ہے۔ پرانے اور برے لوگوں کو صرف رکنیت تک محدود رکھتے اور عہدے نئے اور ایماندار لوگوں کو بھی تو دئے جا سکتے تھے؟۔ کم از کم کچھ محوری تبدیلی کا آغاز تو دیکھنے کو ملتا۔ یہ کرپٹ لوگ اس قدر حیلہ ساز بلکہ پکے رنگ باز ہوتے ہیں کہ کینسر کی طرح سے اپنے پنجے اس طرح سے گاڑ لیتے ہیں کہ پارٹی اور سیاست دونوں کا ستیاناس ہو جایا کرتا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ بھی انہی آکٹوپسز کا شکار ہو کر غیر مقبول ہو چکی ہیں۔ لہذا ماضی کے تجربے کی روشنی میں "مومن کو ایک سوراخ سے بار بار بار ڈسوانے سے" پہلے ہی سے خود کو بچانا چاہئے۔ساجد ، آپ جیسے زیرک اور معاملہ فہم سے میں عام فہم رائے سے ہٹ کر امید کرتا ہوں۔
نچلی سطح پر کرپٹ لوگوں کو عہدے دیے گئے ہیں ، میں جانتا ہوں اونچی سطح پر بھی چند عہدے زیادہ صاف بندوں کو نہیں دیے گئے ہیں مگر اس کی ایک بڑی واضح وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ عمران نے میسر لوگوں سے ہی انتخاب کرنا ہے تو وہ بندے باہر سے تو برآمد نہیں کر سکتا ، اس لیے ایک حد تک اس کی اس مجبوری کو سمجھنا چاہیے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر سربراہ ایماندار اور مخلص ہے تو وہ بے ایمان اور نا اہل لوگوں کو کسی بھی وقت فارغ کر سکتا ہے اور انہیں سیدھا بھی کر سکتا ہے اور یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ عمران میں یہ صلاحیت بخوبی موجود ہے۔
دانشور طبقہ عموما کامیاب سیاستدان ثابت بھی نہیں ہوتا اس لیے اس بات کی ابھی اتنی اہمیت نہیں کیونکہ عملی سیاست کے تقاضے کافی مختلف ہیں۔
لعنت بھیجو ، جناب ، اس نا اہل حکومت پر۔ جبکہ ملک شدید پریشانی اور مہنگائی میں ہے۔ سینکڑوں پاکستانی سپوت سیاچن گلیشئر میں دفن ہو گئے ہیں ۔یہ بے شرم نہایت ڈھٹائی سے بھارت یاترا پر بلاول کی سیاست کے لئے منتیں مانتے دکھائی دئے۔ ان پر بات کرنا ہی فضول ہے۔ ان کو صرف عوامی طاقت کے ساتھ ایک سچے رہنما کی موجودگی میں قابو کیا جا سکتا ہے۔ یہ سپریم کورٹ کو ایک کھلونے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ساجد، آپ بھی موجودہ حکومت کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں ۔ جس طرح انہوں نے سپریم کورٹ کے واضح احکامات کا مذاق اڑایا ہے اور زبانی کلامی عمل درآمد کے پکے وعدے کرکے جس طرح ٹالا ہے وہ میرے ، آپ کے اور عمران کے بھی سامنے ہے۔ اس لیے میں تو اس بات پر قطعا یقین نہیں رکھتا اور نہ ہی اس خوش فہمی میں مبتلا ہوں کہ اس حکومت سے کسی طور کوئی اچھا کام کروا جا سکتا ہے خصوصا توانائی بحران ، مہنگائی ان کے لیے دیرپا منصوبہ بندی اور ریاضت کی ضرورت ہے مع اخراجات میں واضح کمی کے ساتھ ۔ واحد حل ان کے خلاف لوگوں کو اپنے ساتھ ملانا اور الیکشن جیتنا ہے جس کی طرف عمران کامیابی کے ساتھ رواں دواں ہے۔
لعنت بھیجو ، جناب ، اس نا اہل حکومت پر۔ جبکہ ملک شدید پریشانی اور مہنگائی میں ہے۔ سینکڑوں پاکستانی سپوت سیاچن گلیشئر میں دفن ہو گئے ہیں ۔یہ بے شرم نہایت ڈھٹائی سے بھارت یاترا پر بلاول کی سیاست کے لئے منتیں مانتے دکھائی دئے۔ ان پر بات کرنا ہی فضول ہے۔ ان کو صرف عوامی طاقت کے ساتھ ایک سچے رہنما کی موجودگی میں قابو کیا جا سکتا ہے۔ یہ سپریم کورٹ کو ایک کھلونے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔
جی ، محب ، میں جانتا تھا کہ آپ میسر لوگوں والی بات ضرور کریں گے، میں بھی اس بات پر متفق ہوں لیکن غور کیجئے کہ تبدیلی یا انقلاب طاقت کے محور میں تبدیلی پیدا کئے بغیر نہیں آسکتا۔ یہ اصول معاشرے اور سائنس دونوں میں یکساں لاگو ہوتا ہے۔ پرانے اور برے لوگوں کو صرف رکنیت تک محدود رکھتے اور عہدے نئے اور ایماندار لوگوں کو بھی تو دئے جا سکتے تھے؟۔ کم از کم کچھ محوری تبدیلی کا آغاز تو دیکھنے کو ملتا۔ یہ کرپٹ لوگ اس قدر حیلہ ساز بلکہ پکے رنگ باز ہوتے ہیں کہ کینسر کی طرح سے اپنے پنجے اس طرح سے گاڑ لیتے ہیں کہ پارٹی اور سیاست دونوں کا ستیاناس ہو جایا کرتا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ بھی انہی آکٹوپسز کا شکار ہو کر غیر مقبول ہو چکی ہیں۔ لہذا ماضی کے تجربے کی روشنی میں "مومن کو ایک سوراخ سے بار بار بار ڈسوانے سے" پہلے ہی سے خود کو بچانا چاہئے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ دانشور طبقہ میدان سیاست میں اترے۔ بلکہ اس کو پالیسی بنانے ، معاملات و مسائل کا درست تجزیہ کرنے ، بین الاقوامی تعلقات کی نوک پلک سنوارنے، معاشرے میں اپنے نظریات کے بہتر اور قابل عمل طریقوں سے نفوذ اور مختلف قسم کی غلط فہمیوں کو حکمت ودانش سے دور کرنے کے لئے ایک ایسا مقام حاصل ہے جس کا کوئی بدل نہیں۔ آپ ریاست ہائے متحدہ میں رہتے ہیں ، میری بات بہتر سمجھ سکتے ہیں کہ وہاں کی سیاست میں تھنک ٹینکس کیا اہمیت رکھتے ہیں۔ پاکستان میں تو اس کی بہت زیادہ ضرورت ہے تا کہ عوام میں شعور بیدار کیا جا سکے۔ اگر ماجھے ساجھے کے نطریات اور سوچ پر مبنی سیاست بدلنی ہے تو اس پر غور کرنا ہو گا۔
اب آئیں عوامی طاقت سے حکومت کو مسائل کے حل پر مجبور کرنے اور عوام پر ظلم سے باز رکھنے کی طرف۔ آپ یہاں "وال سٹریٹ پر قبضہ کرو" مہم کو ذہن میں لائیں تو ہزاروں الفاظ کے استعمال سے بہتر ہو گا۔ آخر کب تک ہم محض نعروں کی سیاست سے عوام کا استحصال کرنے والوں کو اپنے سروں پر سوار کرتے رہیں گے؟۔ عمران آج بھی اپنی سیاست کو ایکٹو اور با مقصد بنا لے تو عوام اس کے ساتھ ہوں گے۔
اس سے تو یہ لگتا ہے کہ آپ سیاسی لیڈر نہیں بلکہ مسیحا کی تلاش میں ہیں۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر سربراہ ایماندار اور مخلص ہے تو وہ بے ایمان اور نا اہل لوگوں کو کسی بھی وقت فارغ کر سکتا ہے اور انہیں سیدھا بھی کر سکتا ہے اور یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ عمران میں یہ صلاحیت بخوبی موجود ہے۔
محب ، باوجود اس کے کہ عمران کی اب تک کی کارکردگی پر مطمئن نہیں ہوں ابھی تک میرا ووٹ عمران کے حق میں ہے۔فکر نہ کریں ساجد، اس حکومت پر میں تو کب کی لعنت بھیج چکا ہوں بلکہ اس سے بھی آگے جا چکا ہوں ۔ جو لوگ بھی اب پیپلز پارٹی کی معاونت اور حمایت کرتے ہیں وہ میرے نزدیک عوام دشمن اور ملک دشمن ہیں۔ اس قدر واضح اور ڈھٹائی کے ساتھ کرپشن کے بعد بھی جو اس حکومت اور پارٹی کے ساتھ ہے وہ کسی لحاظ سے بھی کسی شک کے فائدہ کا حقدار نہیں۔
میں تحریک انصاف کی حمایت اس وجہ سے بھی کر رہا ہوں تاکہ موجودہ اور قائم شدہ طاقت کے محوروں کو یہ پیغام جا سکے کہ کوئی نیا بندہ اور پارٹی ان کی جگہ لے سکتی ہے۔ لوگ ان سکہ بند اور روایتی جماعتوں کے علاوہ بھی کسی کے پلڑے میں اپنا وزن رکھ سکتے ہیں۔
ایک بار چانس دے دیا جائے عمران کو ، اگر وہ کارکردگی نہ دکھائے تو اسے اگلی دفعہ رد کر دیں گے۔
ساجد ، آپ جیسے زیرک اور معاملہ فہم سے میں عام فہم رائے سے ہٹ کر امید کرتا ہوں۔
نچلی سطح پر کرپٹ لوگوں کو عہدے دیے گئے ہیں ، میں جانتا ہوں اونچی سطح پر بھی چند عہدے زیادہ صاف بندوں کو نہیں دیے گئے ہیں مگر اس کی ایک بڑی واضح وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ عمران نے میسر لوگوں سے ہی انتخاب کرنا ہے تو وہ بندے باہر سے تو برآمد نہیں کر سکتا ، اس لیے ایک حد تک اس کی اس مجبوری کو سمجھنا چاہیے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر سربراہ ایماندار اور مخلص ہے تو وہ بے ایمان اور نا اہل لوگوں کو کسی بھی وقت فارغ کر سکتا ہے اور انہیں سیدھا بھی کر سکتا ہے اور یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ عمران میں یہ صلاحیت بخوبی موجود ہے۔
دانشور طبقہ عموما کامیاب سیاستدان ثابت بھی نہیں ہوتا اس لیے اس بات کی ابھی اتنی اہمیت نہیں کیونکہ عملی سیاست کے تقاضے کافی مختلف ہیں۔
اس سے تو یہ لگتا ہے کہ آپ سیاسی لیڈر نہیں بلکہ مسیحا کی تلاش میں ہیں۔
عمران خان کے موجودہ حواری کامیاب سیاستدان تو واقعی ہیں لیکن ہم لوگ "سیاست" سے زیادہ "اخلاص" کے طلبگار ہیں۔ کیونکہ کامیاب سیاست دان تو موجودہ پارلیمان میں بھی موجود ہیں اور اُن کی کامیابی ہماری تباہی پر ہی منتج ہوئی ہے۔
صد فیصد متفق !!سچی بات تو یہی ہے کہ پاکستان کو ایک مسیحا کی ہی ضرورت ہے سیاست دان تو اپنے مقاصد لے کر آتے ہیں اور ان کی ساری سعی و جد وجہد "اپنے" مقاصد کے حصول تک ہی محدود رہتی ہے۔
اس سے تو یہ لگتا ہے کہ آپ سیاسی لیڈر نہیں بلکہ مسیحا کی تلاش میں ہیں۔
محب ، باوجود اس کے کہ عمران کی اب تک کی کارکردگی پر مطمئن نہیں ہوں ابھی تک میرا ووٹ عمران کے حق میں ہے۔
1: ابھی تک آزمایا نہیں گیا۔
2:کوئی دوسری پارٹی تحریک انصاف کی متبادل نہیں ہے۔
3: انتہائی اہم بات ہے کہ عمران بنیادی جمہوریتوں کے قیام کا وعدہ کر چکا ہے۔ جب کہ تمام دوسری پارٹیاں اس پر بات کرنے سے بھی کتراتی ہیں
مؤخرالذکر بات ہی عمران کی حمایت کے لئے بڑا بھاری نکتہ ہے۔ اس پر اگر عمل ہوتا ہے تو پاکستانی سیاست میں کرپشن اور غیر ملکی مداخلت میں خاطر خواہ کمی ہو گی اور جمہوریت میں عام آدمی کو اس کا سیاسی حق ملے گا۔
اس پر میں جلد ہی لکھوں گا کہ لوکل گورنمنٹس جمہوریت میں کیا اہمیت رکھتی ہیں۔
اگلی بار؟ عمران خان نے تو محض 22 ماہ میں اپنی کارکردگی سے سب کی چیخیں نکال دی ہیں۔ (چیخوں کا سُن کر ایک منفی ریٹنگ آتی ہوگی)ایک بار چانس دے دیا جائے عمران کو ، اگر وہ کارکردگی نہ دکھائے تو اسے اگلی دفعہ رد کر دیں گے۔