تحریک انصاف اور ممبر شپ مہم

میں جاننا چاہتا ہوں کہ تحریک انصاف کی ممبر شپ مہم کیسی جا رہی ہے۔

اشتہار میں تو عمران نے اپنا پیغام بہت عمدہ طریقے سے دیا ہے۔
 

ساجد

محفلین
محب ، عمران کی مہم میں اب میری دلچسپی بہت کم رہ گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہی کرپٹ لوگوں کو نچلی سطح پر عہدے دئے گئے ہیں جو دوسری سیاسی جماعتوں میں بدمعاشی کے حوالے سے مشہور رہے ہیں۔ انٹلکچولز کو خصوصی اہمیت دینے کا کوئی شائبہ بھی نہیں ملتا۔ تیسری سب سے بڑی بات ہے ان کا منشور، جس کی بہت ساری شقوں پر وہ حالیہ عوامی حمایت کے بعد حکومت سے عمل کروانے کی پوزیشن میں تھے لیکن کروا نہ سکے یا کروانا نہیں چاہتے۔ مثال کے طور پر لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی کے حوالے سے وہ عوامی حمایت کا بہت اچھا استعمال کر سکتے تھے لیکن نہ کیا۔ پھر پٹرول کی بے جا مہنگائی اور اس پر حکومتی لیویز کی ظالمانہ شرح پر عوام کی آواز میں آواز ملا سکتے تھے لیکن یہ بھی نہ ہوا۔ دیگر بھی قریب آدھی درجن شقیں ہیں جو ان کے منشور میں تو ہیں لیکن ان پر ابھی سے پہلو تہی صاف دیکھی جا رہی ہے۔
تحریک انصاف کا سونامی بھی عوام میں کوئی امید پیدا کرنے میں ابھی تک تو ناکام ثابت ہوا ہے ، مستقبل قریب میں عمران اگر کچھ اچھے فیصلے لیتا ہے تو شاید عوام کی امید بندھ سکے۔ اشتہارات میں البتہ اس نے "اب نہیں تو کب ۔۔۔۔۔ہم نہیں تو کون" کا جو نعرہ دیا ہے؛اس پر تب "ماضی میں" کوئی عمل ہوا نہ اب ہو رہا ہے اور نہ جانے کب ہو گا ۔
 

زبیر مرزا

محفلین
اگر سیاسی جماعتیں مستقبل کے سنہرے خواب دیکھائیں اور عوام کے موجودہ مسائل کے لیے کچھہ نہ کریں تو ان کی باتیں محض نعرے ہی لگیں گی
کوئی تحریک بجلی کے بحران پر چلائے کوئی بات کرے مہنگائی کی تو عوامی نمائندگی کا دعویٰ کرنے کا اہل ہے
 
ساجد ، آپ جیسے زیرک اور معاملہ فہم سے میں عام فہم رائے سے ہٹ کر امید کرتا ہوں۔

نچلی سطح پر کرپٹ لوگوں کو عہدے دیے گئے ہیں ، میں جانتا ہوں اونچی سطح پر بھی چند عہدے زیادہ صاف بندوں کو نہیں دیے گئے ہیں مگر اس کی ایک بڑی واضح وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ عمران نے میسر لوگوں سے ہی انتخاب کرنا ہے تو وہ بندے باہر سے تو برآمد نہیں کر سکتا ، اس لیے ایک حد تک اس کی اس مجبوری کو سمجھنا چاہیے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر سربراہ ایماندار اور مخلص ہے تو وہ بے ایمان اور نا اہل لوگوں کو کسی بھی وقت فارغ کر سکتا ہے اور انہیں سیدھا بھی کر سکتا ہے اور یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ عمران میں یہ صلاحیت بخوبی موجود ہے۔

دانشور طبقہ عموما کامیاب سیاستدان ثابت بھی نہیں ہوتا اس لیے اس بات کی ابھی اتنی اہمیت نہیں کیونکہ عملی سیاست کے تقاضے کافی مختلف ہیں۔
 
تیسری سب سے بڑی بات ہے ان کا منشور، جس کی بہت ساری شقوں پر وہ حالیہ عوامی حمایت کے بعد حکومت سے عمل کروانے کی پوزیشن میں تھے لیکن کروا نہ سکے یا کروانا نہیں چاہتے۔ مثال کے طور پر لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی کے حوالے سے وہ عوامی حمایت کا بہت اچھا استعمال کر سکتے تھے لیکن نہ کیا۔ پھر پٹرول کی بے جا مہنگائی اور اس پر حکومتی لیویز کی ظالمانہ شرح پر عوام کی آواز میں آواز ملا سکتے تھے لیکن یہ بھی نہ ہوا۔ دیگر بھی قریب آدھی درجن شقیں ہیں جو ان کے منشور میں تو ہیں لیکن ان پر ابھی سے پہلو تہی صاف دیکھی جا رہی ہے۔

ساجد، آپ بھی موجودہ حکومت کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں ۔ جس طرح انہوں نے سپریم کورٹ کے واضح احکامات کا مذاق اڑایا ہے اور زبانی کلامی عمل درآمد کے پکے وعدے کرکے جس طرح ٹالا ہے وہ میرے ، آپ کے اور عمران کے بھی سامنے ہے۔ اس لیے میں تو اس بات پر قطعا یقین نہیں رکھتا اور نہ ہی اس خوش فہمی میں مبتلا ہوں کہ اس حکومت سے کسی طور کوئی اچھا کام کروا جا سکتا ہے خصوصا توانائی بحران ، مہنگائی ان کے لیے دیرپا منصوبہ بندی اور ریاضت کی ضرورت ہے مع اخراجات میں واضح کمی کے ساتھ ۔ واحد حل ان کے خلاف لوگوں کو اپنے ساتھ ملانا اور الیکشن جیتنا ہے جس کی طرف عمران کامیابی کے ساتھ رواں دواں ہے۔
 
تحریک انصاف کا سونامی بھی عوام میں کوئی امید پیدا کرنے میں ابھی تک تو ناکام ثابت ہوا ہے ، مستقبل قریب میں عمران اگر کچھ اچھے فیصلے لیتا ہے تو شاید عوام کی امید بندھ سکے۔ اشتہارات میں البتہ اس نے "اب نہیں تو کب ۔۔۔ ۔۔ہم نہیں تو کون" کا جو نعرہ دیا ہے؛اس پر تب "ماضی میں" کوئی عمل ہوا نہ اب ہو رہا ہے اور نہ جانے کب ہو گا ۔

آپ شاید تحریک انصاف کے حوالے سے یا موجودہ حالات کے حوالے سے قنوطیت کا شکار ہو رہے ہیں ورنہ لاہور ، کراچی کے فقید المثال جلسوں سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کتنے لوگ پر امید ہیں۔

یہاں نیویارک میں میں نے تحریک انصاف کے جلسہ میں شرکت کی تھی جس میں عمران بھی نہیں تھا بلکہ کوئی بھی لیڈر موجود نہیں تھا پھر بھی تین چار سو لوگ موجود تھے اور لوگوں میں جوش اور ولولہ بھی تھا۔

اشتہارات کے بعد نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ کتنے زیادہ ممبر بنانے میں تحریک انصاف کامیاب ہوتی ہے۔ اگر ممبران کی تعداد چالیس لاکھ کے قریب پہنچ جاتی ہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ تبدیلی کے واضح امکانات ہیں۔ اس کے بعد ایک بہت بڑی تبدیلی تب بھی آ سکتی ہے اگر کامیابی سے پارٹی میں کامیاب الیکشن منعقد ہو جائیں۔
 

ساجد

محفلین
ساجد ، آپ جیسے زیرک اور معاملہ فہم سے میں عام فہم رائے سے ہٹ کر امید کرتا ہوں۔

نچلی سطح پر کرپٹ لوگوں کو عہدے دیے گئے ہیں ، میں جانتا ہوں اونچی سطح پر بھی چند عہدے زیادہ صاف بندوں کو نہیں دیے گئے ہیں مگر اس کی ایک بڑی واضح وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ عمران نے میسر لوگوں سے ہی انتخاب کرنا ہے تو وہ بندے باہر سے تو برآمد نہیں کر سکتا ، اس لیے ایک حد تک اس کی اس مجبوری کو سمجھنا چاہیے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر سربراہ ایماندار اور مخلص ہے تو وہ بے ایمان اور نا اہل لوگوں کو کسی بھی وقت فارغ کر سکتا ہے اور انہیں سیدھا بھی کر سکتا ہے اور یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ عمران میں یہ صلاحیت بخوبی موجود ہے۔

دانشور طبقہ عموما کامیاب سیاستدان ثابت بھی نہیں ہوتا اس لیے اس بات کی ابھی اتنی اہمیت نہیں کیونکہ عملی سیاست کے تقاضے کافی مختلف ہیں۔
جی ، محب ، میں جانتا تھا کہ آپ میسر لوگوں والی بات ضرور کریں گے:)، میں بھی اس بات پر متفق ہوں لیکن غور کیجئے کہ تبدیلی یا انقلاب طاقت کے محور میں تبدیلی پیدا کئے بغیر نہیں آسکتا۔ یہ اصول معاشرے اور سائنس دونوں میں یکساں لاگو ہوتا ہے۔ پرانے اور برے لوگوں کو صرف رکنیت تک محدود رکھتے اور عہدے نئے اور ایماندار لوگوں کو بھی تو دئے جا سکتے تھے؟۔ کم از کم کچھ محوری تبدیلی کا آغاز تو دیکھنے کو ملتا۔ یہ کرپٹ لوگ اس قدر حیلہ ساز بلکہ پکے رنگ باز ہوتے ہیں کہ کینسر کی طرح سے اپنے پنجے اس طرح سے گاڑ لیتے ہیں کہ پارٹی اور سیاست دونوں کا ستیاناس ہو جایا کرتا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ بھی انہی آکٹوپسز کا شکار ہو کر غیر مقبول ہو چکی ہیں۔ لہذا ماضی کے تجربے کی روشنی میں "مومن کو ایک سوراخ سے بار بار بار ڈسوانے سے" پہلے ہی سے خود کو بچانا چاہئے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ دانشور طبقہ میدان سیاست میں اترے۔ بلکہ اس کو پالیسی بنانے ، معاملات و مسائل کا درست تجزیہ کرنے ، بین الاقوامی تعلقات کی نوک پلک سنوارنے، معاشرے میں اپنے نظریات کے بہتر اور قابل عمل طریقوں سے نفوذ اور مختلف قسم کی غلط فہمیوں کو حکمت ودانش سے دور کرنے کے لئے ایک ایسا مقام حاصل ہے جس کا کوئی بدل نہیں۔ آپ ریاست ہائے متحدہ میں رہتے ہیں ، میری بات بہتر سمجھ سکتے ہیں کہ وہاں کی سیاست میں تھنک ٹینکس کیا اہمیت رکھتے ہیں۔ پاکستان میں تو اس کی بہت زیادہ ضرورت ہے تا کہ عوام میں شعور بیدار کیا جا سکے۔ اگر ماجھے ساجھے کے نطریات اور سوچ پر مبنی سیاست بدلنی ہے تو اس پر غور کرنا ہو گا۔
اب آئیں عوامی طاقت سے حکومت کو مسائل کے حل پر مجبور کرنے اور عوام پر ظلم سے باز رکھنے کی طرف۔ آپ یہاں "وال سٹریٹ پر قبضہ کرو" مہم کو ذہن میں لائیں تو ہزاروں الفاظ کے استعمال سے بہتر ہو گا۔ آخر کب تک ہم محض نعروں کی سیاست سے عوام کا استحصال کرنے والوں کو اپنے سروں پر سوار کرتے رہیں گے؟۔ عمران آج بھی اپنی سیاست کو ایکٹو اور با مقصد بنا لے تو عوام اس کے ساتھ ہوں گے۔
 

ساجد

محفلین
ساجد، آپ بھی موجودہ حکومت کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں ۔ جس طرح انہوں نے سپریم کورٹ کے واضح احکامات کا مذاق اڑایا ہے اور زبانی کلامی عمل درآمد کے پکے وعدے کرکے جس طرح ٹالا ہے وہ میرے ، آپ کے اور عمران کے بھی سامنے ہے۔ اس لیے میں تو اس بات پر قطعا یقین نہیں رکھتا اور نہ ہی اس خوش فہمی میں مبتلا ہوں کہ اس حکومت سے کسی طور کوئی اچھا کام کروا جا سکتا ہے خصوصا توانائی بحران ، مہنگائی ان کے لیے دیرپا منصوبہ بندی اور ریاضت کی ضرورت ہے مع اخراجات میں واضح کمی کے ساتھ ۔ واحد حل ان کے خلاف لوگوں کو اپنے ساتھ ملانا اور الیکشن جیتنا ہے جس کی طرف عمران کامیابی کے ساتھ رواں دواں ہے۔
لعنت بھیجو ، جناب ، اس نا اہل حکومت پر۔ جبکہ ملک شدید پریشانی اور مہنگائی میں ہے۔ سینکڑوں پاکستانی سپوت سیاچن گلیشئر میں دفن ہو گئے ہیں ۔یہ بے شرم نہایت ڈھٹائی سے بھارت یاترا پر بلاول کی سیاست کے لئے منتیں مانتے دکھائی دئے۔ ان پر بات کرنا ہی فضول ہے۔ ان کو صرف عوامی طاقت کے ساتھ ایک سچے رہنما کی موجودگی میں قابو کیا جا سکتا ہے۔ یہ سپریم کورٹ کو ایک کھلونے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔
 
لعنت بھیجو ، جناب ، اس نا اہل حکومت پر۔ جبکہ ملک شدید پریشانی اور مہنگائی میں ہے۔ سینکڑوں پاکستانی سپوت سیاچن گلیشئر میں دفن ہو گئے ہیں ۔یہ بے شرم نہایت ڈھٹائی سے بھارت یاترا پر بلاول کی سیاست کے لئے منتیں مانتے دکھائی دئے۔ ان پر بات کرنا ہی فضول ہے۔ ان کو صرف عوامی طاقت کے ساتھ ایک سچے رہنما کی موجودگی میں قابو کیا جا سکتا ہے۔ یہ سپریم کورٹ کو ایک کھلونے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔

فکر نہ کریں ساجد، اس حکومت پر میں تو کب کی لعنت بھیج چکا ہوں بلکہ اس سے بھی آگے جا چکا ہوں ۔ جو لوگ بھی اب پیپلز پارٹی کی معاونت اور حمایت کرتے ہیں وہ میرے نزدیک عوام دشمن اور ملک دشمن ہیں۔ اس قدر واضح اور ڈھٹائی کے ساتھ کرپشن کے بعد بھی جو اس حکومت اور پارٹی کے ساتھ ہے وہ کسی لحاظ سے بھی کسی شک کے فائدہ کا حقدار نہیں۔

میں تحریک انصاف کی حمایت اس وجہ سے بھی کر رہا ہوں تاکہ موجودہ اور قائم شدہ طاقت کے محوروں کو یہ پیغام جا سکے کہ کوئی نیا بندہ اور پارٹی ان کی جگہ لے سکتی ہے۔ لوگ ان سکہ بند اور روایتی جماعتوں کے علاوہ بھی کسی کے پلڑے میں اپنا وزن رکھ سکتے ہیں۔

ایک بار چانس دے دیا جائے عمران کو ، اگر وہ کارکردگی نہ دکھائے تو اسے اگلی دفعہ رد کر دیں گے۔
 
جی ، محب ، میں جانتا تھا کہ آپ میسر لوگوں والی بات ضرور کریں گے:)، میں بھی اس بات پر متفق ہوں لیکن غور کیجئے کہ تبدیلی یا انقلاب طاقت کے محور میں تبدیلی پیدا کئے بغیر نہیں آسکتا۔ یہ اصول معاشرے اور سائنس دونوں میں یکساں لاگو ہوتا ہے۔ پرانے اور برے لوگوں کو صرف رکنیت تک محدود رکھتے اور عہدے نئے اور ایماندار لوگوں کو بھی تو دئے جا سکتے تھے؟۔ کم از کم کچھ محوری تبدیلی کا آغاز تو دیکھنے کو ملتا۔ یہ کرپٹ لوگ اس قدر حیلہ ساز بلکہ پکے رنگ باز ہوتے ہیں کہ کینسر کی طرح سے اپنے پنجے اس طرح سے گاڑ لیتے ہیں کہ پارٹی اور سیاست دونوں کا ستیاناس ہو جایا کرتا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ بھی انہی آکٹوپسز کا شکار ہو کر غیر مقبول ہو چکی ہیں۔ لہذا ماضی کے تجربے کی روشنی میں "مومن کو ایک سوراخ سے بار بار بار ڈسوانے سے" پہلے ہی سے خود کو بچانا چاہئے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ دانشور طبقہ میدان سیاست میں اترے۔ بلکہ اس کو پالیسی بنانے ، معاملات و مسائل کا درست تجزیہ کرنے ، بین الاقوامی تعلقات کی نوک پلک سنوارنے، معاشرے میں اپنے نظریات کے بہتر اور قابل عمل طریقوں سے نفوذ اور مختلف قسم کی غلط فہمیوں کو حکمت ودانش سے دور کرنے کے لئے ایک ایسا مقام حاصل ہے جس کا کوئی بدل نہیں۔ آپ ریاست ہائے متحدہ میں رہتے ہیں ، میری بات بہتر سمجھ سکتے ہیں کہ وہاں کی سیاست میں تھنک ٹینکس کیا اہمیت رکھتے ہیں۔ پاکستان میں تو اس کی بہت زیادہ ضرورت ہے تا کہ عوام میں شعور بیدار کیا جا سکے۔ اگر ماجھے ساجھے کے نطریات اور سوچ پر مبنی سیاست بدلنی ہے تو اس پر غور کرنا ہو گا۔
اب آئیں عوامی طاقت سے حکومت کو مسائل کے حل پر مجبور کرنے اور عوام پر ظلم سے باز رکھنے کی طرف۔ آپ یہاں "وال سٹریٹ پر قبضہ کرو" مہم کو ذہن میں لائیں تو ہزاروں الفاظ کے استعمال سے بہتر ہو گا۔ آخر کب تک ہم محض نعروں کی سیاست سے عوام کا استحصال کرنے والوں کو اپنے سروں پر سوار کرتے رہیں گے؟۔ عمران آج بھی اپنی سیاست کو ایکٹو اور با مقصد بنا لے تو عوام اس کے ساتھ ہوں گے۔

میں متفق ہوں آپ کی اس بات سے اور پارٹی الیکشن والی بات کرکے عمران نے آپ کے انہی خدشات اور جائز تنقید کو تسلیم کیا ہے۔ اگر منصفانہ اور صحیح الیکشن پارٹی میں ہو جاتے ہیں تو پھر یہ گلہ آپ کا دور ہو جائے گا کیونکہ پھر تو لوگوں نے ہی منتخب کیا ہوگا ، عمران یا مرکزی انتظامی کمیٹی کا عمل دخل بہت کم رہ جائے گا۔

دانشور طبقہ میں سے جہانگیر ترین موجود تو ہے جو کہ توانائی اور معیشت پالیسی بنا رہا ہے اور اس کی صلاحیتوں پر کم ہی کسی کو شک ہے۔
جسٹس وجیہ الدین عدالتی دانشور ہیں۔


ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں وال سٹریٹ قبضہ تحریک کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے اس کے لیے ایک علیحدہ دھاگہ کھولتے ہیں۔ میں خود اس تحریک کا گواہ اور راوی ہوں اور میں نے براہ راست لوگوں کے تبصرے اور رائے سنی بھی ہے اور اس کے جلوس اور لوگوں کا جوش و ولولہ دیکھا بھی ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس تحریک کے ساتھ بھی جو سلوک ہو رہا ہے وہ بہت ناشائستہ ہے اور جابرانہ ہے۔ لاتعداد گرفتاریاں اور منصوبہ بندی کے ساتھ ان کے قیام کو ختم کیا گیا اور حد سے زیادہ ناجائز تنقید بھی ہو رہی ہے۔
 

زیک

مسافر
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر سربراہ ایماندار اور مخلص ہے تو وہ بے ایمان اور نا اہل لوگوں کو کسی بھی وقت فارغ کر سکتا ہے اور انہیں سیدھا بھی کر سکتا ہے اور یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ عمران میں یہ صلاحیت بخوبی موجود ہے۔
اس سے تو یہ لگتا ہے کہ آپ سیاسی لیڈر نہیں بلکہ مسیحا کی تلاش میں ہیں۔
 

زلفی شاہ

لائبریرین
میں کوئی صحافی نہیں اور نہ ہی دانشور ہوں لیکن میری ناقص عقل یہی کہتی ہے کہ پاکستان کے موجودہ بحرانوں کے حل کے لئے عمران خان واحد چانس ہیں۔ آگے کیا ہوتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ ہم عقل کے زور پر صرف اندازے ہی لگا سکتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت تین بڑی سیاسی پارٹیاں ہیں، مسلم لیگ نواز شریف گروپ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف۔ ان تینوں میں سے دو پارٹیاں حکومت کر چکی ہیں ۔ پاکستان کے حالات مسلسل تنزلی کی طرف گئے ہیں۔ اس لئے تحریک انصاف سے ہی امید رکھی جاسکتی ہے۔
 

ساجد

محفلین
فکر نہ کریں ساجد، اس حکومت پر میں تو کب کی لعنت بھیج چکا ہوں بلکہ اس سے بھی آگے جا چکا ہوں ۔ جو لوگ بھی اب پیپلز پارٹی کی معاونت اور حمایت کرتے ہیں وہ میرے نزدیک عوام دشمن اور ملک دشمن ہیں۔ اس قدر واضح اور ڈھٹائی کے ساتھ کرپشن کے بعد بھی جو اس حکومت اور پارٹی کے ساتھ ہے وہ کسی لحاظ سے بھی کسی شک کے فائدہ کا حقدار نہیں۔

میں تحریک انصاف کی حمایت اس وجہ سے بھی کر رہا ہوں تاکہ موجودہ اور قائم شدہ طاقت کے محوروں کو یہ پیغام جا سکے کہ کوئی نیا بندہ اور پارٹی ان کی جگہ لے سکتی ہے۔ لوگ ان سکہ بند اور روایتی جماعتوں کے علاوہ بھی کسی کے پلڑے میں اپنا وزن رکھ سکتے ہیں۔

ایک بار چانس دے دیا جائے عمران کو ، اگر وہ کارکردگی نہ دکھائے تو اسے اگلی دفعہ رد کر دیں گے۔
محب ، باوجود اس کے کہ عمران کی اب تک کی کارکردگی پر مطمئن نہیں ہوں ابھی تک میرا ووٹ عمران کے حق میں ہے۔
1: ابھی تک آزمایا نہیں گیا۔
2:کوئی دوسری پارٹی تحریک انصاف کی متبادل نہیں ہے۔
3: انتہائی اہم بات ہے کہ عمران بنیادی جمہوریتوں کے قیام کا وعدہ کر چکا ہے۔ جب کہ تمام دوسری پارٹیاں اس پر بات کرنے سے بھی کتراتی ہیں
مؤخرالذکر بات ہی عمران کی حمایت کے لئے بڑا بھاری نکتہ ہے۔ اس پر اگر عمل ہوتا ہے تو پاکستانی سیاست میں کرپشن اور غیر ملکی مداخلت میں خاطر خواہ کمی ہو گی اور جمہوریت میں عام آدمی کو اس کا سیاسی حق ملے گا۔
اس پر میں جلد ہی لکھوں گا کہ لوکل گورنمنٹس جمہوریت میں کیا اہمیت رکھتی ہیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ساجد ، آپ جیسے زیرک اور معاملہ فہم سے میں عام فہم رائے سے ہٹ کر امید کرتا ہوں۔

نچلی سطح پر کرپٹ لوگوں کو عہدے دیے گئے ہیں ، میں جانتا ہوں اونچی سطح پر بھی چند عہدے زیادہ صاف بندوں کو نہیں دیے گئے ہیں مگر اس کی ایک بڑی واضح وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ عمران نے میسر لوگوں سے ہی انتخاب کرنا ہے تو وہ بندے باہر سے تو برآمد نہیں کر سکتا ، اس لیے ایک حد تک اس کی اس مجبوری کو سمجھنا چاہیے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر سربراہ ایماندار اور مخلص ہے تو وہ بے ایمان اور نا اہل لوگوں کو کسی بھی وقت فارغ کر سکتا ہے اور انہیں سیدھا بھی کر سکتا ہے اور یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ عمران میں یہ صلاحیت بخوبی موجود ہے۔

دانشور طبقہ عموما کامیاب سیاستدان ثابت بھی نہیں ہوتا اس لیے اس بات کی ابھی اتنی اہمیت نہیں کیونکہ عملی سیاست کے تقاضے کافی مختلف ہیں۔

عمران خان کے موجودہ حواری کامیاب سیاستدان تو واقعی ہیں لیکن ہم لوگ "سیاست" سے زیادہ "اخلاص" کے طلبگار ہیں۔ کیونکہ کامیاب سیاست دان تو موجودہ پارلیمان میں بھی موجود ہیں اور اُن کی کامیابی ہماری تباہی پر ہی منتج ہوئی ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اس سے تو یہ لگتا ہے کہ آپ سیاسی لیڈر نہیں بلکہ مسیحا کی تلاش میں ہیں۔

سچی بات تو یہی ہے کہ پاکستان کو ایک مسیحا کی ہی ضرورت ہے سیاست دان تو اپنے مقاصد لے کر آتے ہیں اور ان کی ساری سعی و جد وجہد "اپنے" مقاصد کے حصول تک ہی محدود رہتی ہے۔
 

مغزل

محفلین
عمران خان کے موجودہ حواری کامیاب سیاستدان تو واقعی ہیں لیکن ہم لوگ "سیاست" سے زیادہ "اخلاص" کے طلبگار ہیں۔ کیونکہ کامیاب سیاست دان تو موجودہ پارلیمان میں بھی موجود ہیں اور اُن کی کامیابی ہماری تباہی پر ہی منتج ہوئی ہے۔
سچی بات تو یہی ہے کہ پاکستان کو ایک مسیحا کی ہی ضرورت ہے سیاست دان تو اپنے مقاصد لے کر آتے ہیں اور ان کی ساری سعی و جد وجہد "اپنے" مقاصد کے حصول تک ہی محدود رہتی ہے۔
صد فیصد متفق !!
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
پی پی پی اور ن لیگ سے تحریک انصاف کئی گنا اچھی ہے،باقی سب اپنی اپنی باریاں لگا رہے ہیں۔ اتنی دفعہ حکومت میں آ چکے ہیں جو پہلے کیا وہی اب کریں گے۔
 
محب ، باوجود اس کے کہ عمران کی اب تک کی کارکردگی پر مطمئن نہیں ہوں ابھی تک میرا ووٹ عمران کے حق میں ہے۔
1: ابھی تک آزمایا نہیں گیا۔
2:کوئی دوسری پارٹی تحریک انصاف کی متبادل نہیں ہے۔
3: انتہائی اہم بات ہے کہ عمران بنیادی جمہوریتوں کے قیام کا وعدہ کر چکا ہے۔ جب کہ تمام دوسری پارٹیاں اس پر بات کرنے سے بھی کتراتی ہیں
مؤخرالذکر بات ہی عمران کی حمایت کے لئے بڑا بھاری نکتہ ہے۔ اس پر اگر عمل ہوتا ہے تو پاکستانی سیاست میں کرپشن اور غیر ملکی مداخلت میں خاطر خواہ کمی ہو گی اور جمہوریت میں عام آدمی کو اس کا سیاسی حق ملے گا۔
اس پر میں جلد ہی لکھوں گا کہ لوکل گورنمنٹس جمہوریت میں کیا اہمیت رکھتی ہیں۔

ساجد ، میں بھی عمران کےسارے اقدامات سے متفق نہیں اور ہونا بھی ایسا ہی چاہیے ، وہ بھی ایک انسان ہے اور غلطیوں سے سیکھ رہا ہے ۔ اس کی کارکردگی سے اگر مطمئن ہو جائیں تو پھر تو وہ اور بہت سی غلطیاں کرے گا۔

اطمینان کرنے کا مطلب چھوٹ دینا ہوتا ہے سیاست میں اور چھوٹ ہمیشہ خطرناک ہوتی ہے حکومتی معاملات میں۔

بلدیاتی انتخابات کی سیاست باقی دونوں پارٹیوں کے وارے میں نہیں اس لیے اسے بالکل بھی پسند نہیں کرتی جبکہ اس کے بغیر بنیادی جمہوریت کے لوازمے پورے ہی نہیں ہوتے۔

آپ کے لوکل گورنمنٹ سیاست پر مضمون کا انتظار رہے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
ایک بار چانس دے دیا جائے عمران کو ، اگر وہ کارکردگی نہ دکھائے تو اسے اگلی دفعہ رد کر دیں گے۔
اگلی بار؟ عمران خان نے تو محض 22 ماہ میں اپنی کارکردگی سے سب کی چیخیں نکال دی ہیں۔ (چیخوں کا سُن کر ایک منفی ریٹنگ آتی ہوگی)
106318109_1658455134321353_8588451376096591690_n.png

105576178_1658455184321348_2395390490365605129_n.png

106580034_1658455240988009_2707495173487257096_n.png

75388442_1658455277654672_8897536540860783250_n.png
106345094_1658455340987999_924238191721980015_n.png

عمران خان نے صرف 22 ماہ میں ملک کا یہ حال کر دیا ہے کہ عام بندہ بھی کہتا پھر رہاہے کہ اس سے تو وہ چور ہی اچھے تھے۔
وہ چور ہی اچھے تھے
 
Top