پچھلے سال سلیکٹرز نے یہ کہا تھا
آج سے ٹھیک ایک سال قبل عالمی عدالت انصاف نے بھارت کی اپیل پر کلبھوشن یادیو کیس کا فیصلہ سنایا۔ اس فیصلے کے تین اہم نکات تھے:
1۔ کلبھوشن یادیو کو رہائی نہیں ملے گی
2۔ پاکستانی حکومت کلبھوشن یادیو کو جنیوا کنونشن کے تحت قونصلر تک رسائی دے گی
3۔ پاکستانی حکومت کلبھوشن کو پھانسی دینے کے فیصلے پر نظرثانی کرے گی
یاد رہے کہ بھارت عالمی عدالت انصاف میں جب یہ مقدمہ لے کر گیا تو اس وقت ن لیگ کی حکومت تھی اور ن لیگ کا پورا پلان تھا کہ مقدمہ بے دلی سے لڑتے ہوئے ہار جانا ہے۔ عمران خان نے حکومت سنبھالتے ہی نئے سرے سے اٹارنی کا تقرر کیااور بھرپور طریقے سے یہ مقدمہ لڑ کر تقریباً اپنے حق میں فیصلہ لے لیا۔
جب فیصلہ آیا تو انڈین چینلز نے بھی پٹواریوں کی طرح مٹھائیاں بانٹنا شروع کردی تھیں۔
حکومت پاکستان نے سب سے پہلے بھارت کو آفر کیا کہ اگر وہ ریویو فائل کرنا چاہتے ہیں تو کرلیں۔ کلبھوشن اور بھارتی قونصلر، دونوں نے ریویو فائل کرنے سے انکار کردیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ریویو کے فیصلے کے فوراً بعد پھانسی کی سزا ہوسکتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے یہ آپشن نہیں لی۔
اب آخری حربہ یہی رہ گیا تھا کہ عالمی عدالت کے فیصلے کے تحت قونصلر رسائی مانگ کر معاملے کو کھینچا جائے۔ پچھلے ایک سال میں حکومت پاکستان دو مرتبہ یہ رسائی دے چکی ہے۔ پہلی مرتبہ بھارتی قونصلر نے آفر قبول کی، دوسری مرتبہ بہانہ بنا لیا۔
آج حکومت پاکستان نے ایک مرتبہ پھر بھارتی قونصلر سے کہا ہے کہ وہ اپنے مجرم تک رسائی حاصل کرکے جو کہنا سننا ہے، وہ کہہ ڈالے۔
دوسری طرف کلبوشن کے معاملے پر نوازشریف کے حمایتی سوال اٹھا ر ہے ہیں کہ اسے قونصلر رسائی کیوں دی جارہی ہے؟
یہ عالمی عدالت کے فیصلے کے تحت دی جارہی ہے ۔ ۔ ۔
عمران خان نے جب اقتدار سنبھالا تھا تو بھارتیوں نے اسی وقت کہہ دیا تھا کہ ان کی عیاشی کا سلسلہ تمام ہوا ۔ ۔ ۔ خان نے تو کبھی کرکٹ کے گراؤنڈ میں بھارت کو رعایت نہیں دی تھی، وہ سفارتی محاذ پر تو مزید جوتے مارے گا ۔ ۔ ۔ اور یہی کچھ عمران خان اس وقت بھارت کے ساتھ کررہا ہے۔
----
پچھلے سال جولائی میں عالمی عدالت انصاف کے جج نے کلبھوشن یادیو کے کیس پر جو فیصلہ جاری کیا، اس کے تحت حکومت پاکستان نے کلبھوشن کو ریویو پٹیشن کا حق دینا تھا۔
کلبھوشن کو پاکستان کے ملٹری کورٹ نے سزا سنائی تھی، آئین کے تحت ایک غیرملکی ملٹری کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل دائر نہیں کرسکتا تھا چنانچہ عالمی عدالت کے فیصلے کی پیروی کیلئے حکومت پاکستان نے 20 مئی کو ایک آرڈیننس جاری کیا جس کے تحت کلبھوشن اگر چاہے تو اسلام آباد ہائیکورٹ میں ریویو پٹیشن فائل کرسکے گا۔ اس آرڈیننس کی معیاد 60 روز بعد ختم ہوجائے گی یعنی 19 جولائی کو یہ آرڈیننس ایکسپائرڈ ہوگا اور پھر کلبھوشن یادیو اپیل کا حق کھو بیٹھے گا۔
حکومت نے کلبھوشن کو آفر کی لیکن اس نے اپیل دائر نہیں کی کیونکہ اس اپیل کا فیصلہ چند دنوں میں ہوجاتا اور پھر اس کی پھانسی کی سزا پر فوری عملدرامد بھی ہوسکتا تھا۔
یہ آرڈیننس عوامی مفاد کا نہیں تھا کہ جسے پارلیمنٹ میں پیش کرکے وقت ضائع کیا جاتا۔ کیونکہ پارلیمنٹ میں موجود پی پی اور ن لیگ والے اس آرڈیننس میں انسانی حقوق کے نام پر کچھ اعتراضات اٹھاتے جس کے بعد بین الاقوامی دباؤ پڑتا اور حکومت کو کلبھوشن کو رعایات دینا پڑتیں۔
چنانچہ ایک کاغذی کارروائی کے طور پر یہ آرڈیننس جاری کرکے کلبھوشن کو مطلع کردیا گیا اور توقع کے عین مطابق اس نے اپیل دائر نہیں کی۔ دو دن بعد یہ آرڈیننس اپنی موت آپ مرجائے گا اور پھر کلبھوشن کی پھانسی میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں رہے گی۔
اپوزیشن کا کلبھوشن کے مسئلے پر شور کا مقصد صرف اور صرف بھارت کو فائدہ پہنچانا ہے کیونکہ وہ پہلے ہی حکومت کی اس چالاکی کی وجہ سے خار کھائے بیٹھے تھے۔ ان کے خیال میں ریویو پٹیشن کا ایک لمبا پراسیس ہوتا، آئین میں ترمیم کے نام پر کئی مہینے لگتے، اور یوں کلبھوشن کی سزا ملتوی ہوتی جاتی۔
پرسوں کے بعد یہ راستہ بھی بند۔ وہ کلبھوشن کے جس کے سوال پر نوازشریف نے صحافی کو جواب دیا تھا کہ وہ گھٹیا سوال کرکے بھارت کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کی سازش کررہا ہے، اس کلبھوشن کا انجام نزدیک پہنچ چکا ہے۔
اپوزیشن جتنا مرضی شور مچا لے، ان کیلئے اب بھارتی مفادات کو تحفظ دینا ممکن نہیں رہا
!!! بقلم خود باباکوڈا