تحریک انصاف سندھ میں’غیرمتحرک‘

حسان خان

لائبریرین
کراچی میں پاکستان تحریک انصاف کی گھر، گھر اور دفتر دفتر انتخابی مہم جاری ہے، لیکن یہ مہم تنظیم کے کارکن یا امیدوار نہیں چلا رہے بلکہ ان دنوں ہر صبح اخبار کے صفحات کے اندر تحریک انصاف کے امیدوار کا پمفلٹ موجود ہوتا ہے تاہم یہ سرگرمی بھی محدود علاقوں میں ہی نظر آ رہی ہے۔
کراچی ہی کیا باقی سندھ میں بھی تحریک انصاف کی کوئی غیر معمولی سیاسی سرگرمی نظر نہیں آ رہی۔
تحریک انصاف کا کارواں سندھ میں سنہ 2011 کے آخر میں اس وقت داخل ہوا تھا جب نومبر میں گھوٹکی میں تحریک انصاف کا جلسہ منعقد ہوا جس میں پیپلز پارٹی کے رہنما شاہ محمود قریشی نے جماعت میں شمولیت اختیار کی تھی۔
اس کے اگلے ماہ پچیس دسمبر 2011 کو کراچی میں پی ٹی آئی کا جلسہ منعقد ہوا جس میں لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ تیسرا جلسہ فروری 2012 میں عمر کوٹ میں ہوا اور اس کے بعد سے اب تک صوبے میں کوئی مرکزی سطح کا اجتماع نظر نہیں آیا۔
تجزیہ نگار بابر ایاز کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کے ذہن میں یہ ہے کہ جو پنجاب جیتے گا اسی کی اہمیت ہوگی اسی لیے انہوں نے پورا زور پنجاب میں لگایا ہے۔
تحریک انصاف نے پورے سندھ میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے اپنے امیدوار نامزد کیے ہیں لیکن ان تمام میں سے قابل ذکر صرف عمرکوٹ کا حلقہ این اے 228 اور کراچی کا حلقہ این اے 250 ہے۔
عمرکوٹ میں شاہ محمود قریشی کے مریدوں کی بڑی تعداد آباد ہے جبکہ پیر پگارا کی حر جماعت بھی ایک واضح اکثریت رکھتی ہے۔ شاہ محمود یہاں تحریک انصاف اور مسلم لیگ فنکشنل کے مشترکہ امیدوار ہیں لیکن یہاں تحریک انصاف کی بجائے ان کا ذاتی ووٹ ہے جو اس سے پہلے پیپلز پارٹی کو ملتا رہا ہے۔
کراچی میں 2002 کے انتخابات میں تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کی بیس نشستوں میں سے چودہ نشستوں پر امیدوار کھڑے کیے تھے جنہوں نے مجموعی طور پر 26 ہزار 560 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ شہر میں 30 لاکھ ووٹ کاسٹ کیے گئے تھے۔
کراچی یونیورسٹی کے شعبے پاکستان سٹڈی سینٹر کے سربراہ ڈاکٹر جعفر احمد کا کہنا ہے کہ کم سے کم کراچی میں تحریک انصاف کی کوئی نمایاں مہم نظر نہیں آ رہی اور اس بات کے کافی امکان کم ہیں کہ تحریک انصاف کراچی سے کوئی حصہ لے سکے گی۔
کراچی کے حلقے این اے 250 سے تحریک انصاف نے 2002 کے انتخابات میں 3 ہزار سے کچھ زائد ووٹ حاصل کیے تھے۔ اسی حلقے سے اس بار تنظیم کے مرکزی رہنما ڈاکٹر عارف علوی امیدوار ہیں۔
ان کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ دس برسوں میں تحریک انصاف ایک بڑی طاقت کے طور پر سامنے آئی ہے اور حالیہ انتخابات میں دیگر تمام جماعتوں سے زیادہ سرگرم ہے۔
’ ہم جیتنے کی پوزیشن میں ہیں اور ہمارا ووٹ نہیں کٹے گا کیونکہ جو جیتنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں لوگ ان پر زیادہ اعتبار کرتے ہیں۔ کراچی کے پاس ایک اچھی چوائس ہے، جن جماعتوں نے پچھلے بیس سالوں سے کراچی کو کچھ نہیں دیا اس بار لوگ ان پر مزید بھروسہ نہیں کریں گے۔‘
یہاں عارف علوی کا مقابلہ جماعت اسلامی کے امیدوار اور سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان، مسلم لیگ فنکشنل کے کامران ٹیسوری، پاکستان پیپلز پارٹی کے مرزا اختیار بیگ اور ایم کیو ایم کی خوش بخت شجاعت سے ہے جو 2008 میں بھی یہاں سے رکنِ اسمبلی بنی تھیں۔
سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت این اے 250 کی حدود میں بھی ردوبدل کی گئی ہے، اس حلقے میں شامل شیریں جناح کالونی کو این اے 239 میں شامل کیا گیا ہے اور وہاں سے اختر کالونی کو این اے 250 میں شامل کردیا گیا۔ شیریں جناح کالونی میں اکثریتی آبادی پشتون ہے جبکہ اختر کالونی میں پنجابی اور ہزارہ برادری آباد ہے۔
صحافی اور تجزیہ نگار بابر ایاز کا کہنا ہے کہ تبدیلی کے خواہشمند کچھ نوجوان اور کچھ خواتین جو عمران خان کی شخصیت کے سحر میں مبتلا ہیں باقی کوئی اتنا بڑا جھکاؤ نظر نہیں آتا۔
بقول ان کے ایم کیو ایم ابھی تک ایک اکثریتی حیثیت رکھتی ہے اور اگر ہمدردانہ ووٹ پڑا بھی تو وہ ایم کیو ایم کے حصے میں ہی آئےگا کیونکہ حالیہ دھماکوں کے بعد جو لوگ طالبانائزیشن کے مخالف ہیں پھر وہ چاہے ایم کیو ایم کو پسند نہ بھی کرتے ہوں انہیں ووٹ دیں گے کیونکہ یہ جماعت طالبائزیشن کے خلاف ہے ۔
کراچی میں پہلے سے سرگرم کوئی بھی جماعت اپنا حصہ چھوڑنے یا کم کرنے کو تیار نہیں اور اس صورتحال میں کسی نئے فریق کو حصہ ملنا مشکل اور دشوار نظر آتا ہے۔
پاکستان سٹڈی سینٹر کے سربراہ ڈاکٹر جعفر احمد کا خیال ہے کہ حلقوں کی جو ساخت ہے وہ تحریک انصاف کے حق میں نہیں ہے۔ ان کے مطابق قومی اسمبلی کے بیس حلقوں میں سے دس میں اردو بولنے والی آبادی کی اکثریت ہے اور وہاں ایم کیو ایم کی مضبوط گرفت ہے، باقی حلقوں میں بھی ایم کیو ایم کا حصہ موجود ہے۔
اس کے علاوہ تین چار حلقے ایسے ہیں جہاں سے ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی نشستیں حاصل کرتی رہی ہے جبکہ ایک دو حلقوں سے عوامی نیشنل پارٹی بھی نشست لے سکتی ہے۔ جماعت اسلامی بھی ایک منظم جماعت ہے وہ بھی بھرپور مہم چلا رہی ہے اس کے حصے میں بھی ایک دو نشستیں آ سکتی ہیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ نگار بابر ایاز کا خیال ہے کہ آنے والے انتخابات کے نتائج میں کوئی بڑا اپ سیٹ نظر نہیں آتا کیونکہ تحریک انصاف کی سرگرمیاں ایک یا دو حلقوں تک ہی محدود ہیں اور یہ حلقے ایسے نہیں ہیں کہ جن کے بارے میں کہا جائے کہ کوئی بڑی تبدیلی آ جائے گی۔
تاہم تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ مئی کے پہلے ہفتے میں عمران خان کراچی سمیت سندھ میں جلسے کریں گے، جس سے ان کی پوزیشن اور مضبوط ہوگی۔

ربط
 

حسان خان

لائبریرین
تحریکِ انصاف کی تمام تر حمایت کے باوجود میرا ماننا یہی ہے کہ یہ جماعت سندھ میں ایک دو سے زیادہ نشستیں حاصل نہیں کر پائے گی۔
 
میں بذاتِ خود جو گزرے اور موجودہ تمام سیاست دانوں سے چھٹکارے کا خواہاں تھا نے بھی سوچا کہ عمران خان ایک مثبت تبدیلی ہو سکتا ہے، پھر جماعت میں شامل ہونے والے پرانے گرگوں نے اس تاثر کو کچھ کم کیا پر سنا یہی گیا کہ قیادت بہت مضبوط ہے اور سب قیادت کے ماتحت ہیں، تو کچھ آسرا ہوا، پر پھر سامنے آنے والے واقعات نے ثابت کیا کہ ایسا نہیں ہے قیادت کچھ معاملات میں یرغمال ہے۔
پھر بھی ایک امید سی تھی۔
پر کچھ دن پہلے بیکری سے سامان لیتے ہوئے جب ٹی وی پر عمران خان کی کسی جلسے میں تقریر سنی جس کے الفاظ شاید کچھ ایسے تھے۔ "نواز شریف، مجھے لگتا ہے(یا میرا خیال ہے) تم تھوڑے ڈرپوک آدمی ہو۔ تم میرا کرکٹ میں مقابلہ نہیں کر سکتے تو میں تمہیں مناظرے کا چیلنج دیتا ہوں"
الفاظ تبدیل ہو سکتے ہیں پر بات یہی تھی۔ کیوں کہ میں نے دوبارہ کہیں دیکھنے اور پڑھنے کی زحمت نہیں کی۔
کیا ایک لیڈر کو ایسے الفاظ زیب دیتے ہیں۔ کیا تقاریر کا کوئی ضابطہءِ اخلاق نہیں ہوتا۔ نظم و ضبط کی بات کرنے والا لیڈر جنرل اِیتھِکس کا پرچار نہیں کر سکتا۔لیڈرز تو الفاظ اور حقائق کا سہارا لیتے ہیں نہ کے کسی کی شخصیت کا۔ میں تو اب یہ یقین کر بیٹھا ہوں کہ پنجاب کے بخروں کا قصہ ہو یا عمران خان کا سونامی، قادری صاحب کا شوشا ہو یا ینگ ڈاکٹرز کی ہٹ دھرمی، زائد المعیاد ادویات کا معاملہ ہو یا کچھ وباؤں کے پھیلنے کا کوئی ڈور ہے ضرور جو نواز لیگ کو نہیں لانا چاہتی۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ مشرف کا ساتھ دینے والے وہ جرنیل حضرات جو اب بھی کثیر تعداد میں حاضر سروس ہیں وہ خوفزدہ تو نہیں کسی انتقامی روش سے؟ کسی ایسے قانونی زنجیر کے وجود میں آنے کے جو جوفوج کو حکومت کا ''درحقیقت'' ماتحت بنا کر رکھ دے۔
میں عمران خان کی طرف سے صرف نواز شریف کو مسلسل ٹارگٹ بنانے پہ کچھ تحفظات کا شکار ہوں۔ اگر عمران کرپشن کے خلاف ہے تو کرپشن تو تقریباََ موجودہ تمام سیاست دانوں کی گھٹی میں رہی ہے۔ تو باقیوں کے بارے میں ایسے کیوں نہیں گرجا گیا عمران صاحب سے۔
میں نے طے کر لیا ہے کہ اب عمران خان کو ووٹ نہیں دوں گا، اور نواز لیگ کو تو قطعی نہیں، اے این پی اور ایم کیو ایم تو ویسےہی زہرِ ہیں قوم کی رگوں میں۔ ق لیگ کا آگا پیچھا تو سب پہ ظاہر ہے۔
تو ووٹ دوں کس کو

دیکھتا ہوں، کم از کم برادری کے پیچھے نہیں چلوں گا۔

ویسے دیکھا گیا ہے کہ سوشل میڈیا انسان کو بڑا ہی خوش فہم بنا دیتا ہے، ابھی حال ہی میں ایک صاحب اپنی شہرت کا غلط اندازہ لگا بیٹھے۔
 
سندھ پر توجہ دینا سیاسی غلطی ہے مگر سندھ پر توجہ دینا اتنا آسان بھی نہیں جتنا یہاں فورم پر چند جملے لکھ دینا۔

سندھ میں ایم کیو ایم جو سندھ ہی کی ایک نمائندہ جماعت ہے اور شہری آبادی میں اکثریتی ووٹ اسے پڑتے ہیں اور تیس سال سے وہ سیاست میں ہے وہ بھی دو شہروں کے باہر عموما اور دیہی سندھ میں خصوصا وجود ہی نہیں رکھتی جبکہ وہ کافی عرصہ سے کوشش کر رہی ہے۔ وہاں وڈیروں اور جاگیرداروں کا بہت زیادہ غلبہ ہے اور اسے توڑنے میں ابھی تک کوئی کامیاب نہیں ہو سکا ہے حتی کہ پیپلز پارٹی کی مقبولیت بھی ان وڈیروں اور جاگیرداروں کی اس پارٹی میں شمولیت کی وجہ سے ہی قائم دائم ہے۔ دوسرا بھٹو اور ان کے خاندان کا اندرون سندھ سے ہونے کی وجہ سے اپنے ووٹ بینک کو قائم رکھنے میں کامیاب ہونا ہے ، اب انہوں نے بینظیر انکم سپورٹ کی وجہ سے اندرون سندھ میں اپنا ووٹ بینک بچائے رکھا ہے۔

نواز شریف نے بھی کوشش کی اور بہت بڑی پارٹی اور اتحاد کے باوجود وہ بھی جگہ نہیں بنا پائے ، اس کو اور دیگر عوامل کو دیکھتے ہوئے میرے خیال سے تحریک انصاف نے سندھ پر توجہ نہیں دی کہ ان کی انتہائی کوشش سے بھی اتنے کم وقت میں وہ کامیاب نہیں ہو سکیں گے جبکہ اس کے مقابلے میں پنجاب اور خیبر پختوانخواہ میں ان کی کامیابی کے روشن امکانات موجود ہیں اور وہاں سے جیت کر وہ مرکز میں آ سکتے ہیں۔
 

ساجد

محفلین
سندھ پر توجہ دینا سیاسی غلطی ہے مگر سندھ پر توجہ دینا اتنا آسان بھی نہیں جتنا یہاں فورم پر چند جملے لکھ دینا۔

سندھ میں ایم کیو ایم جو سندھ ہی کی ایک نمائندہ جماعت ہے اور شہری آبادی میں اکثریتی ووٹ اسے پڑتے ہیں اور تیس سال سے وہ سیاست میں ہے وہ بھی دو شہروں کے باہر عموما اور دیہی سندھ میں خصوصا وجود ہی نہیں رکھتی جبکہ وہ کافی عرصہ سے کوشش کر رہی ہے۔ وہاں وڈیروں اور جاگیرداروں کا بہت زیادہ غلبہ ہے اور اسے توڑنے میں ابھی تک کوئی کامیاب نہیں ہو سکا ہے حتی کہ پیپلز پارٹی کی مقبولیت بھی ان وڈیروں اور جاگیرداروں کی اس پارٹی میں شمولیت کی وجہ سے ہی قائم دائم ہے۔ دوسرا بھٹو اور ان کے خاندان کا اندرون سندھ سے ہونے کی وجہ سے اپنے ووٹ بینک کو قائم رکھنے میں کامیاب ہونا ہے ، اب انہوں نے بینظیر انکم سپورٹ کی وجہ سے اندرون سندھ میں اپنا ووٹ بینک بچائے رکھا ہے۔

نواز شریف نے بھی کوشش کی اور بہت بڑی پارٹی اور اتحاد کے باوجود وہ بھی جگہ نہیں بنا پائے ، اس کو اور دیگر عوامل کو دیکھتے ہوئے میرے خیال سے تحریک انصاف نے سندھ پر توجہ نہیں دی کہ ان کی انتہائی کوشش سے بھی اتنے کم وقت میں وہ کامیاب نہیں ہو سکیں گے جبکہ اس کے مقابلے میں پنجاب اور خیبر پختوانخواہ میں ان کی کامیابی کے روشن امکانات موجود ہیں اور وہاں سے جیت کر وہ مرکز میں آ سکتے ہیں۔
لیکن یہ تمام عوامل بھی سندھ میں تحریکِ انصاف کو متحرک نہ ہونے کا جواز نہیں بنائے جا سکتے ۔ اگر انہیں جواز بنا کر پیش کیا جا رہا ہے تو پھر معاملہ کچھ اور کہلائے گا ۔ خاص طور پر کپتان کے تسلسل کے ساتھ اس بیان کے تناظر میں اس بات کا تجزیہ کریں جس میں وہ کہتا ہے کہ" تحریکِ انصاف اقتدار کی بھوکی نہیں"۔:wink:
 

حسان خان

لائبریرین
اگر اگلی قومی حکومت صرف پنجاب کے مینڈیٹ پر قائم ہوتی ہے، تو اس سے دیگر صوبوں کی عوام میں پنجاب سے بیگانگی مزید بڑھنے کے امکانات پیدا ہو جائیں گے۔
 
لیکن یہ تمام عوامل بھی سندھ میں تحریکِ انصاف کو متحرک نہ ہونے کا جواز نہیں بنائے جا سکتے ۔ اگر انہیں جواز بنا کر پیش کیا جا رہا ہے تو پھر معاملہ کچھ اور کہلائے گا ۔ خاص طور پر کپتان کے تسلسل کے ساتھ اس بیان کے تناظر میں اس بات کا تجزیہ کریں جس میں وہ کہتا ہے کہ" تحریکِ انصاف اقتدار کی بھوکی نہیں"۔:wink:

ایک جماعت اپنے محدود وسائل اور وقت میں تمام محاذوں پر ایک جیسی قوت اور طاقت صرف نہیں کر سکتی ۔ سندھ کو بالکل ہی آزاد نہیں چھوڑا بلکہ کچھ جلسہ شروع میں کیے گئے تھے جس میں کراچی کا بہت بڑا جلسہ بھی شامل تھا۔ اب بھی کراچی کا جلسہ ہونا تھا جو حالات کی وجہ سے منسوخ کرنا پڑا۔

اب بلوچستان میں بھی سیاسی مہم نہیں چلائی جا رہی ، وہاں بھی کہا جا سکتا ہے کہ کیوں نہیں گئے تو اس کی وجہ وہی ہے جو سندھ میں نہ جانے کی ہے یعنی بڑا معرکہ پنجاب میں ہونا ہے اور حمایت بھی یہاں ہی زیادہ ہے اس لیے جہاں آپ کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں وہیں کوشش بھی زیادہ ہوگی ۔ دیگر جگہوں پر کچھ کام کیا جائے گا مگر لازما اسے اتنی اہمیت حاصل نہ ہوگی جتنی پہلے سے حمایت یافتہ علاقوں کو ہے۔
 
اگر اگلی قومی حکومت صرف پنجاب کے مینڈیٹ پر قائم ہوتی ہے، تو اس سے دیگر صوبوں کی عوام میں پنجاب سے بیگانگی مزید بڑھنے کے امکانات پیدا ہو جائیں گے۔

صرف پنجاب سے نہیں ہوگی مگر پنجاب اب بڑا صوبہ ہے تو وہاں سے جیتے بغیر قومی حکومت قائم نہیں ہو سکتی اور ایسا صرف پاکستان میں نہیں ہے دنیا بھر میں آبادی کے تناسب سے حکومت میں حصہ ملتا ہے کیونکہ حکومت لوگوں کے لیے ہوتی ہے اس لیے جہاں لوگ زیادہ ہوں گے وہاں مینڈیٹ بھی زیادہ ہوگا اور وہاں کے لوگوں کا حکومت میں حصہ بھی۔
 

حسان خان

لائبریرین
سندھ کو بالکل ہی آزاد نہیں چھوڑا بلکہ کچھ جلسہ شروع میں کیے گئے تھے جس میں کراچی کا بہت بڑا جلسہ بھی شامل تھا۔ اب بھی کراچی کا جلسہ ہونا تھا جو حالات کی وجہ سے منسوخ کرنا پڑا۔

کراچی اصولاً تو سندھ کا ہی حصہ ہے، لیکن کراچی میں ہونے والے جلسوں کا سندھ پر اثر نہیں پڑتا۔ اس کے لیے لاڑکانہ، ہالا، نوابشاہ، میر پور خاص، خیرپور جیسے شہروں میں جلسہ کرنا ضروری ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
صرف پنجاب سے نہیں ہوگی مگر پنجاب اب بڑا صوبہ ہے تو وہاں سے جیتے بغیر قومی حکومت قائم نہیں ہو سکتی اور ایسا صرف پاکستان میں نہیں ہے دنیا بھر میں آبادی کے تناسب سے حکومت میں حصہ ملتا ہے کیونکہ حکومت لوگوں کے لیے ہوتی ہے اس لیے جہاں لوگ زیادہ ہوں گے وہاں مینڈیٹ بھی زیادہ ہوگا اور وہاں کے لوگوں کا حکومت میں حصہ بھی۔

پنجاب آبادی کے لحاظ سے اکثریتی صوبہ سہی، لیکن صرف پنجاب ہی پاکستان نہیں ہے۔ پاکستان میں دوسرے صوبے بھی ہیں جہاں کے اکثر لوگ پنجاب کی سیاسی بالادستی کو ناگواری کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اگر صرف اکثریتی آبادی کے لحاظ سے ایک صوبے کی ہی منتخب شدہ جماعت نے حکومت بنا لی، تو پھر وہ لامحالہ چھوٹے صوبوں میں ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھی جائے گی۔ ایسے میں پنجاب مخالف جذبات کا مزید ابھرنا فطری بات ہے۔

پنجاب کے لیے بھی یہ امر ٹھیک نہیں ہوگا، کیونکہ اس سے پنجاب = حکومت والی کیفیت پیدا ہو جائے گی۔ لہذا حکومت پر تنقید کو پنجاب پر تنقید میں بدلنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔

بڑی جماعتوں کو اس بارے میں سوچنا چاہیے۔
 

سید ذیشان

محفلین
پنجاب آبادی کے لحاظ سے اکثریتی صوبہ سہی، لیکن صرف پنجاب ہی پاکستان نہیں ہے۔ پاکستان میں دوسرے صوبے بھی ہیں جہاں کے اکثر لوگ پنجاب کی سیاسی بالادستی کو ناگواری کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اگر صرف اکثریتی آبادی کے لحاظ سے ایک صوبے کی ہی منتخب شدہ جماعت نے حکومت بنا لی، تو پھر وہ لامحالہ چھوٹے صوبوں میں ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھی جائے گی۔ ایسے میں پنجاب مخالف جذبات کا مزید ابھرنا فطری بات ہے۔

پنجاب کے لیے بھی یہ امر ٹھیک نہیں ہوگا، کیونکہ اس سے پنجاب = حکومت والی کیفیت پیدا ہو جائے گی۔ لہذا حکومت پر تنقید کو پنجاب پر تنقید میں بدلنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔

بڑی جماعتوں کو اس بارے میں سوچنا چاہیے۔

پنجاب پر پی ٹی آئی کے فوکس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں نون لیگ اور دیگر دائیں بازو کی جماعتیں ہمیشہ جیتتی آئی ہیں، سندھ میں ایسا نہیں ہے۔ تحریک انصاف بھی دائیں بازو کی جماعت ہے اس لئے اس کا اصل مقابلہ نون لیگ سے ہے کہ ان کے ووٹر ایک جیسے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
پنجاب پر پی ٹی آئی کے فوکس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں نون لیگ اور دیگر دائیں بازو کی جماعتیں ہمیشہ جیتتی آئی ہیں، سندھ میں ایسا نہیں ہے۔ تحریک انصاف بھی دائیں بازو کی جماعت ہے اس لئے اس کا اصل مقابلہ نون لیگ سے ہے کہ ان کے ووٹر ایک جیسے ہیں۔

ٹھیک ہے۔ لیکن پھر بھی تحریکِ انصاف کا سندھ میں توجہ نہ دینا غلطی ہے۔ کیونکہ وہ سندھ میں پیپلز پارٹی سے نالاں کئی ووٹروں کو اپنی جانب آسانی سے راغب کر سکتی تھی۔ اور دائیں بائیں بازو کی سیاست کی سندھ میں اتنی اہمیت نہیں ہے، کیونکہ سندھ کی دیہی آبادی میں تو اکثر لوگ ان اصطلاحوں کے مطلب سے بھی واقف نہیں ہوں گے۔ وہ پیپلز پارٹی کو بائیں بازو کی جماعت ہونے کی وجہ سے ووٹ نہیں دیتے، بلکہ بھٹو خاندان سے اپنی جذباتی وابستگی کی وجہ سے ووٹ دیتے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
۱۹۹۷ کے انتخابات میں جب سندھ سے نواز شریف کامیاب ہو سکتا ہے، تو عمران خان بھی اگر محنت کرتا تو سندھ سے کچھ نشستیں جیت سکتا تھا۔
 
پنجاب پر پی ٹی آئی کے فوکس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں نون لیگ اور دیگر دائیں بازو کی جماعتیں ہمیشہ جیتتی آئی ہیں، سندھ میں ایسا نہیں ہے۔ تحریک انصاف بھی دائیں بازو کی جماعت ہے اس لئے اس کا اصل مقابلہ نون لیگ سے ہے کہ ان کے ووٹر ایک جیسے ہیں۔

پنجاب میں پیپلز پارٹی بھی ہمیشہ سے جیتتی رہی ہے بلکہ آخری الیکشن میں بھی سب سے زیادہ سیٹیں پنجاب سے ہی ملی ہیں پیپلز پارٹی کو۔

دائیں اور بائیں بازو کی باتیں عام ووٹر اتنی نہیں جانتا ، وہ زیادہ تر شخصیات یا پارٹی قیادت کو دیکھ کر ووٹ دیتا ہے۔

ویسے اب تو دائیں بائیں کی تفریق ویسے ہی ختم ہو کر رہ گئی ہے ، جس طرح امیدوار مزے سے جماعتیں بدل رہے ہیں اس سے تو دائیں اور بائیں کی بجائے برسر اقتدار اور محروم اقتدار کی تفریق ہی سامنے آ رہی ہے۔
 

ساجد

محفلین
ایک جماعت اپنے محدود وسائل اور وقت میں تمام محاذوں پر ایک جیسی قوت اور طاقت صرف نہیں کر سکتی ۔ سندھ کو بالکل ہی آزاد نہیں چھوڑا بلکہ کچھ جلسہ شروع میں کیے گئے تھے جس میں کراچی کا بہت بڑا جلسہ بھی شامل تھا۔ اب بھی کراچی کا جلسہ ہونا تھا جو حالات کی وجہ سے منسوخ کرنا پڑا۔

اب بلوچستان میں بھی سیاسی مہم نہیں چلائی جا رہی ، وہاں بھی کہا جا سکتا ہے کہ کیوں نہیں گئے تو اس کی وجہ وہی ہے جو سندھ میں نہ جانے کی ہے یعنی بڑا معرکہ پنجاب میں ہونا ہے اور حمایت بھی یہاں ہی زیادہ ہے اس لیے جہاں آپ کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں وہیں کوشش بھی زیادہ ہوگی ۔ دیگر جگہوں پر کچھ کام کیا جائے گا مگر لازما اسے اتنی اہمیت حاصل نہ ہوگی جتنی پہلے سے حمایت یافتہ علاقوں کو ہے۔
جناب ، اگر تو بقول کپتان کے سونامی ظلم کو بہا لے جانے کے لئے آئی ہے تو کراچی جہاں روزانہ دسیوں لوگ ظلم کا شکار ہو کر جان سے جاتے ہیں اس سونامی سے کیوں محروم رکھا گیا۔ یہاں وسائل کا عذر کیا ہے؟ ایک سیاسی جماعت کا وسیلہ تو عوام ہوتے ہیں اور کراچی کے باشعور عوام کیا سمجھ نہ پاتے کہ سونامی انہیں ظلم سے بچانے آئی ہے؟۔
کیا اندرون سندھ بد ترین جاگیر داری نظر نہ آئی کپتان کو ۔ اگر نجات دہندہ بننا تھا تو ہچکچاہٹیں کیسی؟؟؟۔ یہاں لکھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ پنجاب جیسے حالات ہی ہیں سندھ میں بھی ۔ پھر پنجاب پر "نظرِ" کرم اور سندھ سے بے اعتناعی کس کھاتے میں ڈالیں؟۔
اور آخر میں جب یہ کہہ دیا جائے کہ "پنجاب سے ہمیں آرام سے سیٹیں مل سکتی ہیں تا کہ قومی اسمبلی میں پہنچ سکیں" تو پھر کپتان کی دعووں کی قلعی کھل جاتی ہے کہ " ہمارا مقصد صرف اقتدار میں آنا نہیں"۔:cool:
 

ساجد

محفلین
پنجاب میں پیپلز پارٹی بھی ہمیشہ سے جیتتی رہی ہے بلکہ آخری الیکشن میں بھی سب سے زیادہ سیٹیں پنجاب سے ہی ملی ہیں پیپلز پارٹی کو۔

دائیں اور بائیں بازو کی باتیں عام ووٹر اتنی نہیں جانتا ، وہ زیادہ تر شخصیات یا پارٹی قیادت کو دیکھ کر ووٹ دیتا ہے۔

ویسے اب تو دائیں بائیں کی تفریق ویسے ہی ختم ہو کر رہ گئی ہے ، جس طرح امیدوار مزے سے جماعتیں بدل رہے ہیں اس سے تو دائیں اور بائیں کی بجائے برسر اقتدار اور محروم اقتدار کی تفریق ہی سامنے آ رہی ہے۔
یہ تقابل تو روایتی جماعتوں کا خاصہ ہے۔ انقلاب اور تبدیلی کی بات کرنے والوں کو یہ تقابل پیش نہیں کرنا چاہئیے۔:)
 
Top