کراچی مزارِ قائد : ابرار الحق کی تقریر
ابتدائی کلمات: نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
اہم نکات:
مبارک بادکہ وہ انقلاب جو بچپن سے ہماری آنکھوں میں ٹمٹما رہا تھا ، مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ اس کے آنے کا وقت آ گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت
انصاف کی حکومت ،
اصل پاکستانیوں کی حکومت ،
عوام کی حکومت ،
اور نوجوان کی حکومت ہوگی۔
انہوں نے ایک نظم سنائی:
سر جلائیں گے روشنی ہوگی
اس اجالے میں فیصلے ہوں گے
روشنائی بھی خون کی ہوگی
اور وہ فاقہ کش قلم جس میں
جتنی چیخوں کی داستانیں ہے
ان کو لکھنے کی آرزو ہوگی۔
نہ ہی لمحہ قرار کا ہوگا
نہ ہی رستہ فرار کا ہوگا
وہ عدالت غریب کی ہوگی
جان اٹکی وزیر کی ہوگی
جس نے بیچی ہے قلم کی طاقت
جس نے اپنا ضمیر بیچا ہے
جو دکانیں سجائے بیٹھے ہیں
سچ سے دامن چھڑائے بیٹھے ہیں
جس نے بیچا عذاب بیچا ہے
مفلسوں کو سراب بیچا ہے
دین کو بے حساب بیچا ہے
کچھ نے روٹی کا خواب بیچا ہے
کیا کہیں ہم کہ قوم کو اس نے
کس طرح بار بار بیچا ہے
فیض و اقبال کا پڑوسی ہوں
اک تڑپ میرے خون میں بھی ہے
آنکھ میں سلسلہ ہے خوابوں کا
اک مہک میرے چار سو بھی ہے
جھونپڑی کے نصیب بدلیں گے
پھر کہیں انقلاب آئے گا۔
------
لٹے ہوئے پسے ہوں کا وقت انتقام ہے
اب معاشیِ قاتلو کا وقتِ اختتام ہے
عام آدمی کے ہاتھ اقتدار آئے گا
بے قصور شہریوں کا خون رنگ لائے گا
دیس کی رتوں میں رقصِ زہر بے شمار ہے
اٹھو بھی دوستو کہ تم کو کس کا انتظار ہے
انقلاب انقلاب انقلاب انقلاب انقلاب!
-----