تحریک انصاف کے کارکنوں کے نام کھلا خط؛ قیوم نظامی

الف نظامی

لائبریرین
انتخابات سے پہلے آپ نے تبدیلی اور انقلاب کا جو خواب دیکھا تھا وہ چار ماہ گزر جانے کے بعد بھی پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ انتخابات کے بعد بھی کسی حوالے سے کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی بلکہ عوام کے دکھ درد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ انتخابات سٹیٹس کو توڑنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ ایک بار پھر ثابت ہوا کہ جب تک ریاستی نظام کو مکمل طور پر تبدیل نہ کردیا جائے انتخابات استحصال، ظلم، نا انصافی اور کرپشن کو ختم نہیں کرسکتے۔ عمران خان نیک نیت اور دیانتدار سیاستدان ہیں انہوں نے کھلے دل کیساتھ کئی بار اعتراف کیا ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی سوچ درست تھی کہ انتخابی نظام تبدیل کیے بغیر پاکستان میں جو انتخابات ہوں گے وہ فراڈ اور دھوکہ ہونگے اور ان سے کبھی عوام کا مقدر تبدیل نہیں ہوگا۔ پاکستان کے پرانے سیاسی لٹیرے دوبارہ اقتدار پر قابض ہوکر عوام کیلئے جینا حرام کردینگے۔ تحریک انصاف کے کارکن ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنے میں شریک ہونے کیلئے بے تاب تھے مگر عمران خان نے تاریخ کا سنہری موقع ضائع کردیا۔

عمران خان کو اگر غلطی کا احساس ہوگیا ہے تو کیا تحریک انصاف کو حکمت عملی تبدیل نہیں کرلینی چاہیئے؟
تحریک انصاف کے کارکن پی پی پی کے نظریاتی کارکنوں کے تجربات سے سیکھیں جنہوں نے انصاف اور انقلاب کیلئے اپنی زندگیاں وقف کردیں۔ 9 انتخابات میں حصہ لیا مگر عوام کا مقدر تبدیل نہ ہوسکا۔ تبدیلی کی جدوجہد میں جیالے اپنے چار لیڈر شہید کرا بیٹھے۔ آج ریاستی نظام پہلے سے کہیں زیادہ بھیانک اور خوفناک ہوچکا ہے۔ اگر آج اقتدار دیانتدار اور عوام دوست متوسط طبقے کے افراد کے ہاتھوں میں ہوتا تو وہ عاجز اور بے بس عوام کو بجلی کے شدید جھٹکے لگانے کی بجائے متبادل ذرائع اختیار کرتے اور بجلی چوروں کا کڑا احتساب کرتے۔ خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ عمران خان کی زبردست خواہش ہے کہ یہ صوبہ پاکستان کے دوسرے صوبوں کیلئے مثالی صوبہ بن جائے مگر ان کا یہ خواب اس لیے بھی پورا ہوتا نظر نہیں آتا کیونکہ وفاقی حکومت کے تعاون کے بغیر خیبرپختونخواہ میں ترقی اور خوشحالی نہیں آسکتی۔ وفاقی حکومت کبھی نہیں چاہے گی کہ خیبرپختونخواہ ایک ماڈل صوبہ بن جائے اور اسکے نتیجے میں مسلم لیگ(ن) کا سیاسی مستقبل داو پر لگ جائے۔ خیبرپختونخواہ کے وہ بااثر عناصر جو تبدیلی کے دشمن ہیں تحریک انصاف کیلئے مشکلات کھڑی کرینگے۔ انقلاب کے بغیر کبھی تبدیلی نہیں آسکتی۔ تبدیلی لانے کیلئے مفاد پرست، موقع پرست اور استحصال کرنیوالے افراد، خاندانوں اور گروہوں کا قلع قمع کرنا پڑتا ہے جو انقلاب کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔

تحریک انصاف کے عظیم کارکنو! پاکستان کا مقدر آپ کے ہاتھ میں ہے۔ انتخابات کا تجربہ آپ نے کرلیا ہے ۔ ایک رویہ یہ ہے کہ آپ حالات کا ماتم کرتے رہیں اور دوسرا یہ ہے کہ آپ متحد اور منظم ہوکر حالات کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کی کوشش کریں۔ پاکستان کی تاریخ میں ایک سال بعد وہ سنہری موقع آنیوالا ہے جب پاکستان کے کروڑوں عوام ”تنگ آمد بجنگ آمد“ کے مصداق انقلاب کیلئے تیار ہونگے۔ ان کو ایک انقلابی قائد اور انقلابی جماعت کی رہنمائی کی ضرورت ہوگی۔ تحریک انصاف انقلاب کی رہنمائی کرسکتی ہے۔ عمران خان اپنے مزاج اور فطرت کے اعتبار سے ایک انقلابی لیڈر ہیں اور تحریک انصاف واحد سیاسی جماعت ہے جو پارٹی انتخابات کے ذریعے یونین کونسل کی سطح پر منظم ہوچکی ہے۔ تحریک انصاف کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے جو انقلاب کا ہر اول دستہ ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف کے کارکنو وقت ضائع نہ کرو۔ پاکستان مزید تاخیر کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ یقین اور عزم کیساتھ انقلاب کی تیاری کرو۔ منظم عوام کا ایک لانگ مارچ آپکی اور پاکستان کی قسمت بدل کررکھ دیگا۔ پاکستان اندرونی اور بیرونی مافیاز کے قبضے میں ہے۔ عوامی طاقت سے پاکستان کو ان خون چوسنے والے مافیاز کے ناجائز قبضے سے آزاد کرانا ہوگا اور ریاست پر عوامی راج نافذ کرنا ہوگا۔ عوامی راج کے بغیر عوامی مسائل حل اور مشکلات ختم نہیں ہوسکیں گی۔ قومی لٹیروں نے جو لوٹ مار کی ہے اور پاکستان کو 60 ارب ڈالر کا مقروض بنادیا ہے ان لٹیروں سے عوامی طاقت سے لوٹی ہوئی دولت واپس لینا ہوگی۔

تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکن ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان پر دباو ڈالیں کہ وہ مکمل عوامی انقلاب پر متحد اور متفق ہوجائیں۔ انقلابی کونسل بناکر ایک قومی ایجنڈا تشکیل دیں جو غریب اور محروم عوام کو متحد کردے اور کھلا اعلان کریں کہ دونوں لیڈر عوامی طاقت سے پاکستان میں انقلاب برپا کرکے تین سال کیلئے قومی انقلابی حکومت تشکیل دینگے۔ یہ انقلابی حکومت کڑا اور بے رحم احتساب کرکے لٹیروں سے لوٹی ہوئی دولت واپس لے گی۔ مجرموں، قاتلوں، بھتہ خوروں، دہشت گردوں اور انکے سرپرستوں کو انقلابی عدالتوں میں پیش کرکے ان کو کیفر کردار تک پہنچائے گی۔ تین سالوں میں ریاستی نظام (معاشی، سیاسی، انتخابی، پولیس، خارجہ، سماجی) عوام کی ضرورتوں ، خواہشات اور قومی سلامتی کے تقاضوں کیمطابق وضع کیا جائیگا۔ سٹیٹس کو ٹوٹے گا اور ایک نیا پاکستان ظہور میں آئیگا۔ آج کل مظلوم عوام کا خون بہہ رہا ہے۔ انقلاب میں اگر ظالم ، کرپٹ لٹیروں اور قاتلوں کا خون بہنے لگا تو وہ پاکستان کیلئے بابرکت ثابت ہوگا۔ چند ہزار لٹیروں نے پاکستان کو یرغمال بنارکھا ہے وہ عوام کا خون چوس رہے ہیں۔ عوامی انقلاب سے ہی ان لٹیروں کو عاجز اور بے بس کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان کو بچانے کیلئے انقلاب کے بغیر کوئی آپشن باقی نہیں بچا۔ تاریخ نے یہ ذمے داری تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں پر ڈال دی ہے۔ اگر دس لاکھ نوجوان لانگ مارچ کرکے سربکف ہو کر اسلام آباد پر قبضہ کرلیں تو تمام ریاستی ادارے انقلابیوں کے کنٹرول میں آجائینگے۔ ریاست پر متفقہ قومی انقلابی ایجنڈا نافذ کیا جائے گا۔ 2014ءعوامی انقلاب کا سال بن سکتا ہے۔ ایک سیاسی فلاسفر نے انقلاب کے بارے میں کہا تھا۔

انقلاب تاریخ کی قوس و قزح ہے۔ انقلاب ایک خوبصورت لفظ ہے۔ انقلاب کا مطلب نا انصافی اور عدم مساوات کا خاتمہ اس کا مطلب ہے استحصال اور کلونیل ازم کا خاتمہ۔ انقلاب کا مطلب ہے انسانیت کی آزادی اور خواتین کیلئے مساوی مواقع۔ انقلاب عوامی نمائندوں کے قانون سے بالاتر قانون ہے۔ عوام انقلاب کے ذریعے فریب دینے والے عوامی نمائندوں (پارلیمنٹ) کی بجائے براہ راست فیصلے صادر کرتے ہیں۔ انقلاب کا مطلب تبدیلی ہے اور تبدیلی پائیدار ہوتی ہے“

قومی اور عوامی مسائل کا واحد حل منظم عوامی انقلاب ہے۔ تحریک انصاف کے نوجوان اس انقلابی نعرے کو سیاست کا مرکز و محور بنالیں۔
”چہرے نہیں نظام بدلو۔لوٹ کھسوٹ کا راج بدلو“
 

الف نظامی

لائبریرین
10451067_697579946955772_40746670927541509_n.png
 
آپ کے پاس کوئی مثال ایسی ہے کہ جب دارالحکومت پر باغیوں نے قبضہ جما لیا ہو تو تمام ملکی اداروں بشمول فوج نے بھی باغیوں کی اطاعت قبول کر لی ہو؟ اور ملک میں انارکی نا پھیلی ہو؟ :)
 
اس گھن کھائے معاشرے کے عوام بہت مشکل ہے کہ جاگیں، بہت مشکل۔۔۔
بدقسمتی سےاس معاملے میں ایک بڑا فیکٹر مسلکی تعصب بھی ہے۔۔۔میں نے دیکھا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی مخالفت کرنے والوں میں ایک تو وہ لوگ ہیں کہ جنکے مفادات پر ضرب پڑنے کا اندیشہ ہے اور دوسرے وہ ہیں جو محض مسلکی تعصب میں ایسا کر رہے ہیں ۔۔۔۔
 
آپ کے پاس کوئی مثال ایسی ہے کہ جب دارالحکومت پر باغیوں نے قبضہ جما لیا ہو تو تمام ملکی اداروں بشمول فوج نے بھی باغیوں کی اطاعت قبول کر لی ہو؟ اور ملک میں انارکی نا پھیلی ہو؟ :)
آپکے اس مراسلے میں اصل ٹرِک لفظ "باغی" کا استعمال ہے۔۔۔۔ ریاستِ پاکستان سے فی الواقع اعلانِ بغاوت کرنے والوں اور انکے سپورٹرز کیلئے شائد لغت میں کوئی اور لفظ وضع کیا گیا ہوگا؟؟؟
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
بدقسمتی سےاس معاملے میں ایک بڑا فیکٹر مسلکی تعصب بھی ہے۔۔۔ میں نے دیکھا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی مخالفت کرنے والوں میں ایک تو وہ لوگ ہیں کہ جنکے مفادات پر ضرب پڑنے کا اندیشہ ہے اور دوسرے وہ ہیں جو محض مسلکی تعصب میں ایسا کر رہے ہیں ۔۔۔ ۔
جی بالکل ایسا ہی ہے، میں خود یہ بات شدت سے محسوس کر چکا ہوں۔
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
الف نظامی صاحب آپ براہ راست گفتگو میں حصہ لیا کیجئے، یہ بار بار تصویری اردو اور پوسٹس کی کاپی پیسٹنگ سے یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم سب مباحثہ کر رہے ہیں اور بیچ بیچ میں ایڈز آ رہی ہیں ۔ ۔ :p
 

نایاب

لائبریرین
اصل میں مفاد پرستوں نے 80 کی دہائی سے پاکستانی معاشرے میں تفرقہ کی فصل کو بھرپور کھاد ڈالی اور مسلکی بنیاد پر معاشرے میں لوگوں کے درمیان بہت مہارت سے دیواریں کھڑی کر دیں ۔ اور اب جب بھی کوئی پاکستانی معاشرے کے سدھار کے بارے کوئی صدا لگاتا ہے ۔ تو مسلک کی تلوار کسی نہ کسی رخ سے بلند ہوجاتی ہے ۔ صدا اک بے معنی مسلکی دفاع کے شور میں دب جاتی ہے ۔ اور مفاد پرست اپنا مفاد حاصل کیئے جاتے ہیں ۔
اب پاکستان میں ہر فرد اپنی ذات میں اپنے مسلک کے دفاع کے لیئے شدت پسند ہونا لازم سمجھتا ہے ۔
زمانے میں پنپنے کی کہاں یہ باتیں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آپکے اس مراسلے میں اصل ٹرِک لفظ "باغی" کا استعمال ہے۔۔۔ ۔ ریاستِ پاکستان سے فی الواقع اعلانِ بغاوت کرنے والوں اور انکے سپورٹرز کیلئے شائد لغت میں کوئی اور لفظ وضع کیا گیا ہوگا؟؟؟

یہ خط تو سیدھے سبھاؤ " بغاوت " کی صدا دے رہا ہے ۔۔۔
آپ اس مراسلے کو متفق کی ریٹنگ دیکر تسلیم کر چکے ہیں کہ یہ بغاوت کا منصوبہ ہے :)
 
Top