قبل اس کے کہ ہم اس کی تفصیل سامنے لائیں ، ایک اور حقیقت کا سمجھ لینا بھی ضروری ہے۔ ہم اس کتاب کے "مقدمہ " میں بتا چکے ہیں کہ ہماری موجودہ تاریخ قطعا قابل اعتماد نہیں۔ ضرورت ہے کہ عہد رسالت مابؐ اور عصر صحابہ ؓ کی تاریخ ، قران کریم کو معیار قرار دے کر ، از سر نو مدون کیا جائے۔ اس مقام پر ہم نے اس کی مثالیں نہیں دیں تھیں کہ ہماری تاریخ میں ، اس دور کے متعلق جو کچھ کہا گیا ہے جو اس امر کی شہادت ہے کہ وضعی ہے۔ آپ غور فرمائیے کہ رسول اللہ کی وفات کے بعد مدینہ میں ، اکابر صحابہ کا طبقہ مہاجرین و انصار پر مشتمل تھا جن کے متعلق خود خدا کی شہادت موجود ہے کہ وہ سچے اور پکے مومن تھے۔ سورۃ انفال میں ہے۔ "والذین امنو و ھاجرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔رزق کریم (74/8 )" جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اللہ کی راہ میں جہاد کیا، اور جن لوگوں نے انھیں پناہ دی، یہ سب مومن حقہ ، پکے سچے مومن ہیں۔ ان کے لیے خدا کی طرف سے مغفرت ہےاور رزق کریم کی نوازش" اللہ ان سے راضی ہے اور یہ اپنے اللہ سے راضی۔ خدا ان کے لیے جنت کے وہ باغات تیار کر رکھے ہیں ، جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور جن میں یہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ عظیم کامیابی و کامرانی ہے (100/ 9)" ان خدائی شہادات سے واضح ہے کہ ان حضرات سے ایسی کوئی بات سرزد نہیں ہو سکتی جو ایک پکے اور سچے مومن کے شایان شان نہ ہو۔ ان کے باہمی تعلقات کے متعلق فرمایا کہ "محمد رسول اللہ والذین معہ اشدا علے الکفار رحما بینھم" (29/48 ) محمد اللہ کے رسول اور ان کے رفقا کا یہ عالم ہے کہ وہ باہمدگر بریشم کی طرح ہیں اور مخالفین کے مقابلے میں چٹان کی طرح سخت ۔ دوسرے مقام پر اس کی وضاحت یہ کہہ کر کردی کہ "والف بین قلوبھم" (63/8 ) خدا نے ان کے دلوں میں ایک دوسرے کی الفت ڈال دی اور یہ ایسی عظیم متاع گراں بہا ہے کہ (اے رسول) اگر تو ساری دنیا کی دولت بھی خرچ کر ڈالتا تو اسے کہیں سے خرید نہ سکتا تھا ۔ یہ خدا کا انعام ہے جسے اس نے خاص طور پر ارزانی فرمایا ہے جس سے یہ آپس میں بھائ بھائی بن گئے (102/3 )
ہماری تاریخ: یہ ہیں صحابہ کبارؓ کے ایمان و سیرت و کردار کی وہ شہادت ، جو خود قران کریم میں موجود ہے۔ اب آپ دیکھیے کہ ایسی بلند سیرت کے حاملین کے متعلق ہماری تاریخ میں کیا کہا گیا ہے۔ حدیث کی وہ کتاب جسے اصح الکتب بعد کتاب اللہ کہا جاتا ہے۔ یعنی بخاری کے باب "وفات النبی" میں حضرت عبداللہ ابن عباس کی روایت سے حسب ذیل واقعہ بیان کیا گیا ہے:۔
اس بیماری میں جس میں آپ نے وفات پائی، علی ابن ابی طالب، رسول اللہ کے پاس سے باہر آئے تو لوگوں نے پوچھا۔ ابو الحسن ! رسول اللہ نے کس حالت میں صبح فرمائی ؟ حضرت علی نے جواب دیا الحمدللہ! اچھی حالت میں صبح فرمائی ہے۔ تو عباس بن عبدالمطلب ان کا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف کو لے گئے اور ان سے کہنے لگے ۔ خدا کی قسم تین دن کے بعد تم لاٹھی کے غلام ہو گے۔ بخدا میرا خیال ہے کہ رسول اللہ کا اس بیماری میں انتقال ہو جائے گا۔ میں خوب پہچانتا ہوں کہ عبدالمطلب کی اولاد کے چہرے مرتے وقت کیسے ہوتے ہیں۔ چلو رسول اللہ کے پاس چلیں اور ان سے دریافت کر لیں کہ آپؐ کے بعد حکومت کن لوگوں میں ہو گی۔ اگر ہم میں ہوئی تو ہمیں معلوم ہو جائے گا اور اگر ہمارے سوا دوسروں میں ہوئی تو بھی ہمیں معلوم ہو جائے گا اور آپ اپنے جانشین کو ہمارے حق میں وصیت فرما دیں گے۔ اس ؔ پر حضرت علی نے فرمایا کہ کیا اس امر کی طمع ہمارے سوا کسی دوسرے کو بھی ہو سکتی ہے ؟ عباس نے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ خدا کی قسم ایسا ضرور ہو گا۔ اس پر علی نے کہا کہ خدا کی قسم اس بارہ میں اگر ہم نے رسول اللہ سے پوچھ لیا اور انھوں نے انکار کر دیا تو آپؐ کے بعد پھر ہمیں کبھی بھی حکومت نہیں کرنے دیں گے۔ خدا کی قسم میں اس بات کو رسول اللہ سے ہرگز نہیں پوچھوں گا ۔(صحیح بخاری ۔ باب وفات النبی)
اس روائت سے ظاہر ہے کہ ابھی حضور کا انتقال بھی نہیں ہوا تھا کہ حضور کے چچا حضرت عباس اور چچا زاد بھائی اور داماد حضرت علی کے دل میں خلافت کا خیال پیدا ہو گیا تھا۔ حضرت علی مطمئن تھے کہ خلافت کسی اور کے پاس نہیں جائے گی۔ لیکن حضرت عباس کا اندازہ کچھ اور تھا۔ اس لیے وہ اس بارے میں نبی اکرم سے (خؒافت علی کے متعلق) توثیق کر ا لینا چاہتے تھے۔ اس پر حضرت علی نے جو جواب دیا ہے ، وہ قابل غور ہے۔ یعنی اگر ہم نے رسول اللہ سے دریافت کر لیا اور انھوں نے انکار کر دیا تو پھر ہمارے لیے کوئی گنجائش (chance) نہیں رہے گی۔ آپ ذرا غور فرمائیے اگر اس حدیث کو صحیح مان لیا جائے تو رسول اللہ کے قریب ترین صحابہ (حضرت عباس و علی) کے متعلق کیا تصور قائم ہوتا ہے ؟ یہ تصور کہ وہ (معاذ اللہ) اسلام کے ابتدائی و بنیادی اصول کو بھی نہیں سمجھ سکے تھے کہ خلافت بطور وراثت یا استحاق نہیں ملتی ، یہ معاملہ امت کے باہمی مشورے سے طے ہوتا ہے۔ پھر جو جواب ، حضرت علی کی طرف سے منسوب کیا گیا ہے اس سے ان کے کردار پر جو زد پڑتی ہے وہ بھی کسی تشریح کی محتاج نہیں۔
اب آگے بڑھیے۔ نبی اکرمؐ اس دنیا سے تشریف لے گئے۔ چونکہ خلافت (سربارہ مملکت کی جانشینی) کا معاملہ امت کے باہمی مشورے سے طے ہونا تھا اس لیے حضور نے اس کے متعلق کوئی تشریح نہیں فرمائی تا کہ امت کی آزادی رائے پر کسی قسم کی پابندی عائد نہ ہو جائے۔
سقیفہ بنی ساعدہ کا اجتماع: چونکہ یہ معاملہ بہت اہم تھا۔ اسلیے امت نے تجہیز و تکفین سے بھی پہلے اسے طے کرنا ضروری سمجھا۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ سقیفہ بنی ساعدہ کا اجتماع ہوا جس میں حضرت سعد ؓ بن عبادہ کو خلافت کا امیدوار قرار دیا گیا۔ ایک روائت کے مطابق وہاں یہ تجویز سامنے لائی گئی کہ ایک امیر انصار میں سے ہو اور ایک مہاجرین میں سے۔ اس وقت مہاجرین (حضرت ابوبکرؓ ، عمر ؓ و دیگر صحابہ) بھی وہاں پہنچ گئے۔ اس اجتماع کی جو روئداد تاریخ میں بیان ہوئی ہے وہ قابل غور ہے ۔ کہا گیا ہے کہ (انصار میں سے) حضرت حباب بن منذر نے حسب ذیل تقریر فرمائی:۔
حضرت حباب کی تقریر: اے انصار ! امارت اپنے ہی ہاتھوں میں رکھو ، کیونکہ لوگ تمھارے مطیع رہیں ۔ کسی شخص میں یہ جرات نہ ہو گی کہ وہ تمھارے خلاف آواز اٹھا سکے یا تمھاری رائے کے خلاف کوئی کام کر سکے۔ تم اہل ثروت و عزت ہو۔ تم تعداد اور تجربے کی بنا پر دوسروں سے بڑھ کر ہو۔تم بہادر اور دلیر ہو۔ لوگوں کی نگاہیں تمھاری طرف لگی ہوئیں ہیں۔ ایسی حالت میں تم ایک دوسرے کی مخالفت کر کے اپنا معاملہ خراب نہ کرو۔ یہ لوگ تمھاری بات ماننے پر مجبور ہیں۔ زیادہ سے زیادہ جو رعایت ہم انھیں دے سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ایک امیر ان میں سے ہو ایک ہم میں سے۔ (حسنین ہیکل کی کتاب "ابو بکر صدیق" صفحہ 107 )
آپ نے غور فرمایا ؟ ہماری تاریخ کا یہ بیان ان انصار کے متعلق ہے جن کے مہاجرین کے ساتھ فدایانہ تعلقات اور بے لوث ایثار کی شہادت خود اللہ نے دی ہے۔ (تاریخ کے بیان کے مطابق) ان کی طرف سے ان جذبات کا اظہار اس وقت ہو رہا تھا جب نبی اکرم کی نعش مبارک بھی ہنوز آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوئی تھی۔
یہ تو رہا انصار کے متعلق ! اب مہاجرین کی سنیے ۔ (تاریخ بتاتی ہے کہ) اس کے جواب میں حضرت عمر ؓ نے حسب ذیل تقریر فرمائی:۔
حضرت عمر ؓ کی تقریر: ایک میان میں دو تلواریں جمع نہیں ہو سکتیں۔ اللہ کی قسم ! عرب تمھیں امیر بنانے پر ہرگز راضی نہ ہوں گے۔ جب کہ رسول اللہ تم میں سے نہ تھے۔ ہاں اگر امارت ان لوگوں کے ہاتھ آئے جن میں رسول اللہ معبوث ہوئے تھے تو انھیں کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ اگر عربوں کے کسی طبقے نے ہماری امارت و خلافت سے انکار کیا تو اس کے خلاف ہمارے ہاتھ میں دلائل ظاہرہ اور براہین قاطعہ ہوں گے۔ رسول اللہ کی جانشینی اور امارت کے بارے میں کون شخص ہم سے جھگڑا کر سکتا ہے جب ہم آپ کے جاں نثار اہل عشیرہ ہیں۔ اس معاملے میں ہم سے جھگڑے والا وہی شخص ہو سکتا ہےجو باطل کا پیرہکار ، گناہوں سے آلودہ اور ہلاکت کے گڑھے میں گرنے کے لیے تیار ہو (ابوبکرؓ صدیق از ہیکل صفحہ 108 )
اس کے جواب میں حضرت حباب نے انصار سے کہا:
اے انصار ! تم ہمت سے کام لو اور حضرت عمر ؓ اور ان کے ساتھیوں کی بات نہ سنو۔ اگر تم نے اس وقت کمزوری دکھائی تو یہ سلطنت میں تمھارا حسہ غصب کر لیں گے۔ اگر یہ تمھاری مخالفت کریں تو انھیں یہاں سے جلا وطن کر دو اور خود یہاں قبضہ کر لو۔ کیونکہ اللہ کی قسم ! تمھی اس کے سب سے زیادہ حقدار ہو۔ تمھاری ہی تلواروں کی بدولت اسلام کو شان و شوکت نصیب ہوئی ہے۔ اس لیے قدرومنزلت کا موجب تمھی ہو۔تم ہی اسلام کو پناہ دینے والے اس کی پشت پناہ ہواور اگر تم چاہوں تو اسے اس کی شان و شوکت سے محروم کر سکتے ہو۔ (ایضاً صفحہ 108-109 )
انداز گفتگو: حرےت عمر ؓ نے یہ فقرہ سنا تو کہا:
اگر تم نے اس قسم کی کوشش کی تو اللہ تمھیں پلاک کر دالے گا (ایضاً صفحہ 109 )
اس کے جواب میں حضرت حباب نے کہا:
ہمیں نہیں ، اللہ تمھیں ہلاک کرے گا (ایضاً صفحہ 109 )
یہ ہے ہماری تاریخ کے مطابق ان صحابہ کے باہمی تعلقات کا نقشہ جن کے متعلق اللہ یہ سرٹیفیکیٹ دیتا ہے کہ "اشد آعلے الکفار رحما بینھم" وہ کفار کے مقابلے میں بڑے سخت اور آپس میں بڑے ہمدرد تھے۔ وہ جن کے متعلق خدا کا ارشاد ہے کہ "والف بین قلوبھم (63/8 )" ان کے دلوں میں خدا
نے باہمی محبت اور الفت ڈال دی تھی۔ وہ محبت جو دنیا بھر کی دولت دے کر بھی نہیں خریدی جا سکتی تھی(13/8 )۔ ان صحابہ کے باہمی تعلقات اور اخلاق کے متعلق ہماری تاریخ یہ نقشہ پیش کرتی ہے۔
حضرت عمر ؓ کی یہ تقریر (تاریخ کے بیان کے مطابق) اوپر درج کی گئی ہے، اس میں انھوں نے اپنے (یعنی مہاجرین کے) حق خلافت کے متعلق یہ دلیل دی ہے کہ
رسول اللہ کی جانشینی اور امارت کے بارے میں ہم سے کون جھگڑ سکتا ہے، جب ہم آپ کے جانثار اور اہل عشیرہ (اہل خاندان) ہیں۔
یہ دلیل قابل غور ہے۔ اس سے پیشتر ہم دیکھ چکے ہیں کہ تاریخ ہمیں حضرت عباس و علی کے متعلق یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ ان کے نزدیک خلافت حضور کے قرابت داروں کو ملنی چاہیے تھی،۔ اب حضرت عمر ؓ کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے بھی استحقاق خلافت کے لیے یہی دلیل دی تھی کہ ہم رسول اہل خاندان ہیں۔ غور کیجیے کہ اس سے ہماری تاریخ ہمیں کہاں لے جانا چاہتی ہے ؟
لیکن تاریخ یہیں تک نہیں رہتی۔ وہ ایک قدم اور آگے بڑھتی ہے اور بتاتی ہے کہ جب معاملہ زیادہ نزاکت اختیار کر گیا تو حضرت ابوبکرؓ اٹھے اور فرمایا اس باب میں انصار کا دعوٰی یکسر بے بنیاد ہے۔ رسول اللہ نے فیصلہ کر دیا ہوا ہے کہ خلافت قریش میں رہے گی۔ اس پر انصار خاموش ہو گئے اور حضرت ابوبکرؓ خلیفہ منتخب کر لیے گئے۔
الائمۃ من القریش: یہ حدیث متفقہ طور پر صحیح مانی جاتی ہے ، لیکن آپ ذرا اس گہرائی میں جائیے اور سوچیے کہ یہ کبھی رسول اللہ کا ارشاد ہو سکتا ہے ؟ قران کریم نسل اور خون کے امتیازات مٹا کر مساوات انسانیہ اور اکرام آدمیت کی تعلیم دیتا رہا ہے۔ حضور کی ساری زندگی اس بلند و برتر تعلیم کا عملی نمونہ رہی۔ کیا آپ اس امر کا تصور بھی کر سکتے ہیں کہ اس تعلیم کا حامل رسول یہ فیصلہ کرے گا کہ حکومت میرے قبیلے کے اندر ہے گی۔ یہ ایک روائت قران کی بنیادی تعلیم اور نبی اکرم کے اسوہ حسنہ کو مجروح کر دینے کے لیے کافی ہے لیکن ہماری تاریخ اس روائت کو رسول اللہ سے منسوب کرتی ہے اور یہ کہتی ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے انصار و مہاجرین کے بھرے مجمع میں اسے حق خلافت کے لیے بطور دلیل پیش کیا اور اسے سب نے تسلیم کر لیا ۔ یعنی ہماری تاریخ کا ہی ایک واقعہ سے ، خدا کے رسول اور رسول صحابہ سے متعلق نسل پرستی کا ایسا تصور پیدا کر جاتی ہے جسے مٹانے کے لیے قران آیا تھا۔
-----------------)**(-------------
رسول اللہ کی وفات کے فوری بعد ، صحابہ کبار (انصار و مہاجرین) کا جو پہلا اجتماع ہوا، اس میں (ہماری تاریخ کے مطابق) ان حضرات کے باہمی تعلقات ، انداز گفتگو اور اسلوب دلائل کا نقشہ ہمارے سامنے آ گیا ۔ اب اس سے آگے بڑھیے ہمارے ہاں سب سے پہلی مبسوط اور مستند تاریخ امام ابن جریر طبری کی سمجھی جاتی ہے۔ (جن کا انت—ل چوتھی صدی ہجری میں ہوا۔ اور سب سے پہلے مبسوط تفسیر بھی انھی کی ؔ۔ اس اجتماع صحابہ کے متعلق طبری کی تاریخ میں لکھا ہے۔
دست و گریباں: سابقہ روائت کے سلسلہ سے حضرت عبداللہ بن عبدالرحمن سے مروی ہے کہ اب ہر طرف سے آ آ کر لوگ حضرت ابو بکر سے کی بعیت کرنے لگے۔ قریب تھا کہ وہ سعد ؓؔ کو روند ڈالتے ، اس پر سعد ؓ کے کسی آدمی نے کہا کہ سعد ؓ کو بچاؤ۔ ان کو نہ روندو۔ عمر ؓ نے کہا اللہ اسے ہلاک کرے۔ اسے قتل کر دو اور خود ان کے سرہانے آ کر کھڑے ہو گئے اور کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ تم کو روند کر ہلاک کر دوں۔ سعد ؓ نے عمر ؓ کی داڑھی پکڑ لی ۔ عمر ؓ نے کہا چھوڑو۔ اگر اس کا ایک بال بھی بیکا ہوا تو تمھارے منہ میں ایک دانت بھی نہ رہے گا۔ ابوبکرؓ نے کہا عمرؓ ! خاموش رہو۔اس موقع پر نرمی برتنا زیادہ سود مند ہے۔ عمرؓ نے سعدؓ کا پیچھا چھوڑ دیا۔ سعدؓ نے کہا ۔ اگر مجھ میں اٹھنے کی بھی طاقت ہوتی تو میں تمام مدینے کی گلی کوچوں کو اپنے حامیوں سے بھر دیتا کہ تمہارے اور تمہارے ساتھیوں کے حوش و حواس جاتے رہتے اور بخدا اس وقت میں تم کو ایسی قوم کے حوالے کر دیتا جو میری بات نہ مانتے بلکہ میں ان کی اتباع کرتا۔اچھا اب مجھے یہاں سے اٹھا لے چلو۔ ان کے آدمیوں نے ان کو اٹھا کر ان کے گھر پہنچا دیا۔چند روز ان سے تعارض نہیں کیا گیا ۔ اس کے بعد ان سے کہلا بھیجا کہ چونکہ تمام لوگوں نے اور خود تمھاری قوم نے بھی بیتا کر لی ہے ، تم بھی آ کر بیتب کر لو۔ سعد ؓ نے کہا ، یہ نہیں ہو سکتا تاوقتیکہ میں تمھارے مقابلے میں اپنا ترکش نہ خالی کر دوں، اپنے نیزے کو تمھارے خون سے رنگین نہ کر لوں اور اپنی تلوار سے جس پر میرا بس چلے ، وار نہ کر لوں اور اپنے خاندان اور قوم کے ان افراد کے ساتھ جو میرا ساتھ دیں اور تم سے لڑ نہ لوں ، ہرگز بیعت نہ کروں گا۔ خدا کی قسم اگر انسانوں کے ساتھ جن بھی تمھارے ساتھ ہو جائیں ، تب بھی جب تک کہ میں اپنے معاملے کو اپنے رب کے سامنے پیش نہ کر لوں ، بیعت نہ کروں گا۔
(تاریخ طبری ، جلد اول ، حصہ چہارم، اردو ترجمہ ، شائع کردہ جامع عثمانیہ ؔ)
معاذ اللہ: اس سے ایک صفحہ آگے ہے
ضحاک بن خلیفہ سے مروی ہے کہ امارت کے موقع پر حباب بن المنذرؓ نے کھڑے ہو کر تلوار نکالی اور کہا کہ میں ابھی اس کا تصفیہ کر دیتا ہوں۔ میں شیر ہوں اور شیر کی کھوہ میں ہوں اور شیر کا بیٹا ہوں۔ عمرؓ نے اس پر حملہ کیا اس کے ہاتھ پر وار کیا۔ تلوار گر پڑی۔ عمر نے اسے اٹھا لیا اور پھر سعدؓ پر جھپٹے اور پھر لوگ بھی سعدؓ پر جھپٹے۔ اب سب نے باری باری آ کر بیعت کر لی۔ سعد نے بھی بیعت کی۔ اس وقت عہد جاہلیت کا سا منظر پیش آیا ، اور تو تو میں میں ہونے لگی۔ ابوبکر اس سے دور رہے۔ جس وقت سعدؓ پر لوگ چڑھ گئے ، کسی نے کہا کہ تم نے سعدؓ کو مار ڈالا۔ عمرؓ نے کہا اللہ اسے ہلاک کرے ، یہ منافق ہے۔ عمر کی تلوار کے سامنے ایک پتھر آ گیا اور ان کی ضرب سے وہ قطع ہو گیا۔
کلیجے پر ہاتھ رکھیے اور اس فقرہ کو پھر پڑھیے:۔
اس وقت عہد جاہلیت کا سا منظر پیش آیا ، اور تو تو میں میں ہونے لگی۔
بہرحال حضرت ابوبکر خلیفہ منتخب ہو گئے۔ اس کے بعد دوسرے امیدوار حضرت سعدؓ کا طرز عمل کیا رہا ؟ سنیے۔
اس کے بعد سعد نہ ابوبکر کی امامت میں نماز پڑھتے تھے اور نہ جماعت میں شریک ہوتے تھے۔ حج میں بھی مناسک حج ان کے ساتھ ادا نہیں کرتے تھے۔ ابوبکر کے انتقال تک ان کی یہی روش رہی۔ (طبری صفحہ
ڈاڑھیاں نوچنا: ہم اوپر دیکھ چکے ہیں کہ سقیفہ کے تنازعے میں ، حضرت سعدؓ نے حضرت عمر ؓ کی داڑھی پکڑ لی تھی۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ایک دوسرے کی ڈاڑھیاں نوچنا (معاذاللہ) ان حضرات کا معمول سا ہو گیا تھا۔ چناچہ اس میں لکھا ہے کہ جب حضرت اسامہ کی امارت عساکر کے مسئلہ میں حضرت عمر اور حضرت ابو بکرؓ میں اختلاف رائے ہوا تو ابوبکرؓ جو بیٹھے ہوئے تھے غصے سے اچھل پڑے اور بڑھ کر انھوں نے عمرؓ کی داڑھی پکڑ لی اور کہا اے ابن الخطاب! اللہ تیری ماں کا برا کرے کہ تم مر جاتے ۔ بھلا جس شخص کو رسول اللہ نے اس پر فائز کیا ہے، تم مجھ سے کہتے ہو کہ میں اسے علیحدہ کر دوں (ایضاً صفحہ 12)
یہ جملہ معترضہ تھا ۔ اب پھر انتخاب خلیفہ اول کی تاریخی داستان کی جانب لوٹ آئیے۔اس تمام واقعہ میں ابھی تک حضرت علیؓ کا ذکر نہیں آیا۔ آپ یقیناً یہ معلوم کرنے کے لیے مشوش ہوں گے کہ جن بزرگوار (یعنی حضرت علیؓ) کے دل میں خلافت کا خیال سب سے پہلے پیدا ہوا تھا حضرت ابوبکر کے انتخاب پر ان کی طرف سے کیا رد عمل ہوا۔ تاریخ اس کے متعلق تفصیل سے بتاتی ہے ذرا غور سے سنیے:۔
حضرت علی کا رد عمل: مہاجرین و انصار کے چند افراد حضرت ابوبکر کی بیعت میں شامل نہ تھے بلکہ ان کا میلان حضرت علی ابن ابی طالب کی طرف تھا۔ ان میں مشہور لوگ یہ تھے ، عباسؓ بن عبدالمطلب ، فضل بن عباسؓ، زبیرؓ عوام بن العاص، کالد بن سعیدؓ ، مقداد بن عمروؓ، سلمان فارسیؓ، ابوذرغفاریؓ، عمار بن یاسرؓ، براؓ بن عازب، ابی بن کعبؓ۔۔ ابوبکرؓ نے عمرؓ ، ابو عبیدہ بن جراحؓ، مغیرہؓ بن شعبہ سے ان لوگوں کے بارے میں مشورہ کیا تو ان لوگوں نے جواب دیا کہ آپ عباس بن عبدالمطلب سے ملیے اور خلافت میں ان کا بھی حصہ رکھ دیجیے جو ان کی اولاد کی طرف منتقل ہو جائے۔ اس طرح ان کے اور ان کے بھتیجے علیؓ ابن ابی طالب کے درمیان اختلاف واقعہ ہو جائے گا اور یہ بات آپ کو علیؓ کے مقابلے میں فائدہ مند ثابت ہو گی۔
اس مشورہ کے بعد ابوبکرؓ عباسؓ سے ملے تو دونوں کے درمیان طویل گفتگو ہوئی۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا۔ آپ رسول اللہ کے چچا ہیں ہم چاہتے ہیں کہ خلافت میں آپ کا حصہ بھی موجود ہو ، جو آپ کے بعد آپ کی اولاد کو منتقل ہوتا رہے۔ لیکن حضرت عباسؓ نے یہ پیشکش رد کر دی کہ اگر خلافت ہمارا حق ہے تو ہم ادھوری خلافت لینے پر رضامند نہیں ہو سکتے۔ (ابوبکر از یکل صفحہ 119 )
ایک اور روائت میں جس یعقوبی اور بعض دیگر مؤرخین نے بھی ذکر کیا ہے ، مذکور ہے کہ مہاجرین و انصار کی ایک جماعت حضرت علی کی بیعت کرنے کے ارادے سے حضرت فاطمہ ؓ بنت رسول اللہ کے گھر میں جمع ہوئی۔ ان میں حضرت خالد بن سعیدؓ بھی تھے۔ خالدؓ نے علیؓ سے کہا "اللہ کی قسم رسولؐ کی جانشینی کے لیے آپ سے بہتر اور کوئی آدمی نہیں ، اس لیے آپ ہماری بیعت قبول کر لیجیے" جب حضرت ابوبکر و عمر کو اس اجتماع کی خبر ملی تو وہ چند لوگوں کو لے کر حضرت فاطمہ کے گھر پہنچے اور حملہ کر دیا۔ حضرت علی تلوار ہاتھ میں لے کر گھر سے باہر نکلے ۔ سب سے پہلے ان کی مڈبھیڑ حضرت عمر سے ہوئی۔ حضرت عمرؓ نے ان کی تلوار توڑ ڈالی اور وہ دوسرے لوگوں کے ہمراہ گھر میں داخل ہو گئے۔ اس پر حضرت فاطمہ گھر سے باہر آئیں اور کہا "یا تو تم میرے گھر سے نکل جاؤ ورنہ اللہ کی قسم ، میں اپنے سر کے بال نوچوںلوں گی اور تمھارے خلاف اللہ سے مدد طلب کروں گی"
حضرت فاطمہ کی زبان سے الفاظ سن کر سب لوگ گھر سے باہر نکل گئے۔
کچھ روز تک تو مذکور بالا اصحاب بیعت سے انکار کرتے رہے لیکن آہستہ آہستہ یکے بعد دیگرے سب نے بیعت کر لی ، سوا حضرت علیؓ کے جنھوں نے چھ سات مہینوں تک بیعت نہ کی مگر حضرت فاطمہ کے انتقال کے بعد انھوں نے بھی بیعت کر لی۔
ایک روائت میں ہے کہ حضرت علی نے چالیس روز بعد بیعت کر لی تھی۔ ایک اور روائت میں یہ بھی ہے کہ حضرت عمر نے ارادہ کر لیا تھا کہ اگر بنو ہاشم حضرت فاطمہ کے گھر میں خفیہ مجالس منعقد کرنے سے باز نہ آئے تو وہ ایندھن جمع کر کے گھر کو آگ لگا دیں گے (ایضاً صفحہ 120 )
اس وقت تک جو کچھ سامنے آیا ہے اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ حضرت علی نے اپنے موقف کی تائید میں دلیل کیا پیش کی تھی۔ اب وہ دلیل سنیے:۔
حضرت علی کی دلیل: حضرت علی اور دیگر بنی ہاشم کے بیعت نہ کرنے سے متعلق مشہور ترین روائت وہ ہے جو ابن قتیبہ نے اپنی کتاب "الامامۃ والسیاسۃ" میں درج کی ہے ۔ وہ یہ کہ حضرت ابوبکر کی بیعت کے بعد حضرت عمر چند لوگوں کو ساتھ لے کر بنی ہاشم کے پاس گئے جو اس وقت حضرت علی کے گھر میں جمع تھے تاکہ ان سے بھی بیعت کا مطالبہ کریں لیکن سب لوگوں نے حضرت عمر کا مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا ۔ زبیر بن عوام تو تلوار ہاتھ میں لے کر حضرت عمر کے مقابلے کے لیے باہر نکل آئے۔ یہ دیکھ کر حضرت عمر نے اپنے ساتھیوں سے کہا
"زبیر کو پکڑ لو"
لوگوں نے حضرت زبیرؓ کو پکڑ کر تلوار ان کے ہاتھ سے چھین لی۔ اس پر مجبوراً حضرت زبیر نے جا کر حضرت ابوبکر کی بیعت کر لی۔ حضرت علی سے بھی بیعت کرنے کا مطالبہ کیا گیا مگر انھوں نے انکار کر دیا اور کہا میں تمھاری بیعت نہیں کروں گا کیونکہ تم سے زیادہ میں خلافت کا حقدار ہوں اور تھیں میری بیعت کرنی چاہیے تھی۔ تم نے یہ کہہ کر انصار کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ ہم رسول اللہ کے قریبی عزیز ہیں اور آپ کے قریبی عزیز ہی خلافت کے حقدار ہیں ۔ اس اصول کے مطابق تمھیں چاہیے تھا کہ خلافت ہمارے حوالے کرتے مگر تم نے اہل بیت سے چھین کر خلافت غصب کر لی۔ کیا تم نے انصار کے سامنے یہ دلیل پیش نہ کی تھی کہ ہم خلافت کے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ رسول اللہ ہم میں سے تھے۔ اس لیے تم ہماری اطاعت کرو اور خلافت ہمارے حوالے کر دو۔ وہی دلیل جو تم نے انصار کے مقابلے میں پیش کی تھی اب میں تمھارے مقابلے میں پیش کرتا ہوں۔ ہم تم سے زیادہ رسول اللہ کے قریبی عزیز ہیں۔ اس لیے خلافت ہمارا حق ہے ۔ اگر تم میں ذرہ برابر بھی ایمان ہے تو ہم سے انصاف کر کے خلافت ہمارے حوالے کر دو لیکن اگر تمھیں ظالم بننا پسند ہے تو جو تمھارا جی چاہے کرو ، تمھیں اختیار ہے " (ایضاً صفحہ 122 )