اور میری تحریر جو آج فیس بک نے یاد کروائی۔
بوڑھا اور بیمار فیض آباد انٹرچینج پلنگ پر لیٹا ہے۔ قریب ہی اس کی بیماری کی ٹینشن لیے اسلام آباد ہائی وے اور مری روڈ کھڑی ہیں۔ دیگر محلہ دار بھی ساتھ کھڑے ہیں۔
کچھ دیر بعد ترامڑی چوک بات شروع کرتے ہوئے کہتا ہے۔ "بہت عرصہ حکمرانی کر لی آپ نے، اب آپ کی بیماری میں لوگوں کو میری اہمیت کا احساس ہوا ہے اور اکثر ذمہ داریاں میں ادا کر رہا ہوں۔"
گولڑہ موڑ نے اس کی بات ختم ہوتے ہی اس کے دعویٰ سے انکار کرتے ہوئے کہا۔ "جناب، میں اپنے آس پاس تعمیراتی کام ہونے کے باوجود آپ سے زیادہ بوجھ کو برداشت کر رہا ہوں۔ پہلے ہی میرے پاس کافی کام تھا، اوپر سے ان کی بیماری کے سبب مزید ذمہ داری اٹھانی پڑ رہی ہے۔ پنڈی والے تو سارے میرے پاس سے ہی جاتے ہیں۔ کچھ کا تو بعد میں بھی مجھے استعمال کرنے کا ہی ارادہ ہے۔"
ادھر ہی اٹھلاتی ہوئی کشمیر ہائی وے، اسلام آباد ہائی وے کا تمسخر اڑاتے ہوئے بولی۔ "بڑی آئی اسلام آباد کی سب سے اہم روڈ ہونے کی دعویدار، جب سے فیض آباد انکل بیمار ہوئے ہیں، مرجھائی پڑی ہے۔ ساری اہمیت اب میرے حصے میں ہے۔"
ایک کونے پر بیٹھی آئی جے پی روڈ برا مناتے ہوئے بولی۔ "بیٹی! جتنی آپ کی عمر ہے، اتنا ہمارا تجربہ ہے۔"
اتنے میں فیض آباد انٹرچینج نے انگڑائی لی، اوران سب کی اس تکرار کو ختم کرتے ہوئے فرمایا۔ "تم سب صرف خواب دیکھ سکتے ہو۔ دیکھ لو، میری بیماری نے اسلام آباد ہائی وے اور مری روڈ کو ویران کر کے رکھ دیا ہے۔ اور اسلام آباد پنڈی کو مفلوج۔ ذرا مجھے صحتمند ہونے دو، واپس اپنی اوقات پر آ جاؤ گے۔"
اور یوں عیادت کے لیے آنے والے تمام پڑوسی آہستہ آہستہ کھسکنے لگے۔