منیر الدین احمد
تحفہ
اس کا خاوند اسے ہوائی اڈے پر چھوڑنے کے لئے آیا تھا اور اس روز اپنے معمول کے خلاف اس پر بے حد مہربان تھا ۔ اس نے رخصت کے وقت اسے بوسہ دیا تھا اور گلے بھی لگایا تھا ۔ وہ بے حد خوش تھی کہ لمبے عرصے کی کشیدگی کے بعد ان کے تعلقات میں خوشگوار تبدیلی آ گئی تھی ، بلکہ اس نے دل ہی دل میں یہ بھی سوچا تھا کہ سفر پر جانے کے ارادے کو ملتوی کر دے ۔ مگر ٹکٹ خریدا جا چکا تھا اور اس کے بوڑھے ماں باپ آدھے دن کا سفر کر کے اس کو لینے کے لئے ہوائی اڈے پر آئے ہوں گے ۔ اس لئے اس نے بھاری دل کے ساتھ خاوند کو الوداع کہا ۔ اس کے ماں باپ یہ جان کر بے حد خوش ہوئے کہ ان کی بیٹی اور داماد کے درمیان صلح صفائی ہو گئی تھی اور انہیں بیٹی کے اس ارادے پر کوئی اعتراض نہ تھا کہ وہ ایک ماہ تک ان کے ہاں قیام کرنے کی بجائے دو ہفتوں کے بعد واپس لوٹ جانا چاہتی تھی ۔ یہ بات بیٹی نے انہیں گھر پہنچ کر سوٹ کیس کھولتے ہوئے کہی تھی ۔اس کے خاوند نے ساس اور سسر کے لئے ایک پیکٹ بھی دیا تھا ۔ مگر اسے پتہ نہ تھا کہ اس میں کیا تحفہ دھرا تھا ۔ پیکٹ کو ماں کے حوالے کرتے ہوئے اس نے اسے فل الفور کھولنے کو کہا ، کیونکہ وہ جاننا چاہتی تھی کہ اس کے خاوند نے زندگی میں پہلی بار اپنے ساس سسر کو کیا تحفہ بھیجا تھا ۔ پیکٹ کھلنے پر پہلے تووہ سمجھ نہ سکی کہ اس کے خاوند نے اس کے ماں باپ کو ایک آلارم کلاک کیوں بھیجا تھا ۔ مگر باپ پہلی نظر میں ہی بھانپ گیا کہ پیکٹ دراصل ایک ٹائم بم تھا ، جسے ہوائی جہاز کے اترنے سے آدھ گھنٹہ قبل پھٹ جانا چاہیئے تھا۔ خوش قسمتی سے آلارم کلاک کسی خرابی کے سبب مقررہ وقت سے پہلے رک گیا تھا ۔ اس طرح اس کی بیٹی اور اس کے ساتھ جہاز کے سارے مسافروں اور عملہ کی جان بچ گئی تھی۔
تحفہ
اس کا خاوند اسے ہوائی اڈے پر چھوڑنے کے لئے آیا تھا اور اس روز اپنے معمول کے خلاف اس پر بے حد مہربان تھا ۔ اس نے رخصت کے وقت اسے بوسہ دیا تھا اور گلے بھی لگایا تھا ۔ وہ بے حد خوش تھی کہ لمبے عرصے کی کشیدگی کے بعد ان کے تعلقات میں خوشگوار تبدیلی آ گئی تھی ، بلکہ اس نے دل ہی دل میں یہ بھی سوچا تھا کہ سفر پر جانے کے ارادے کو ملتوی کر دے ۔ مگر ٹکٹ خریدا جا چکا تھا اور اس کے بوڑھے ماں باپ آدھے دن کا سفر کر کے اس کو لینے کے لئے ہوائی اڈے پر آئے ہوں گے ۔ اس لئے اس نے بھاری دل کے ساتھ خاوند کو الوداع کہا ۔ اس کے ماں باپ یہ جان کر بے حد خوش ہوئے کہ ان کی بیٹی اور داماد کے درمیان صلح صفائی ہو گئی تھی اور انہیں بیٹی کے اس ارادے پر کوئی اعتراض نہ تھا کہ وہ ایک ماہ تک ان کے ہاں قیام کرنے کی بجائے دو ہفتوں کے بعد واپس لوٹ جانا چاہتی تھی ۔ یہ بات بیٹی نے انہیں گھر پہنچ کر سوٹ کیس کھولتے ہوئے کہی تھی ۔اس کے خاوند نے ساس اور سسر کے لئے ایک پیکٹ بھی دیا تھا ۔ مگر اسے پتہ نہ تھا کہ اس میں کیا تحفہ دھرا تھا ۔ پیکٹ کو ماں کے حوالے کرتے ہوئے اس نے اسے فل الفور کھولنے کو کہا ، کیونکہ وہ جاننا چاہتی تھی کہ اس کے خاوند نے زندگی میں پہلی بار اپنے ساس سسر کو کیا تحفہ بھیجا تھا ۔ پیکٹ کھلنے پر پہلے تووہ سمجھ نہ سکی کہ اس کے خاوند نے اس کے ماں باپ کو ایک آلارم کلاک کیوں بھیجا تھا ۔ مگر باپ پہلی نظر میں ہی بھانپ گیا کہ پیکٹ دراصل ایک ٹائم بم تھا ، جسے ہوائی جہاز کے اترنے سے آدھ گھنٹہ قبل پھٹ جانا چاہیئے تھا۔ خوش قسمتی سے آلارم کلاک کسی خرابی کے سبب مقررہ وقت سے پہلے رک گیا تھا ۔ اس طرح اس کی بیٹی اور اس کے ساتھ جہاز کے سارے مسافروں اور عملہ کی جان بچ گئی تھی۔