محمد علم اللہ
محفلین
عمران شاہد بھنڈر
آئیڈیالوجی کو خیالات کی سائنس کہا گیا ہے مگر اس کی حقیقت کو تاریخ اور تعقل سے منقطع کر کے نہیں سمجھا جا سکتا۔ آئیڈیالوجی اس حوالے سے حقیقت ہے کہ یہ انسانی تجربات سے ذہن میں منعکس ہوتی ہوئی تجربات پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس کی جڑیں انسانوں کے مابین مادی تعلقات، پیداواری عمل اور طبقات کے کردار میں پیوست ہوتی ہیں۔ آئیڈیالوجی خواہ کتنی ہی قدیم کیوں نہ ہو، وہ متحرک سماجی عمل سے تضاد میں آ کر خود کو تبدیل کرنے پر مجبور ہوتی ہے، بصورتِ دیگر تضادات کی شدت جنگوں اور دہشت گردی کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ آئیڈیالوجی انسانوں کے مابین حقیقی اور مادی تعلقات کا اظہار ہوتی ہے۔ سیکولر ازم، عقلیت پسندی، ہیومن ازم، تصوف اور مذہب وغیرہ کو آئیڈیالوجی کی مثالوں کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ لبرل حضرات مذہب کو تو آئیڈیالوجی تصور کرتے ہیں اور اسے سماجی عمل سے متصادم بھی سمجھتے ہیں، تاہم اپنے نظریات کو آئیڈیالوجی کی بجائے سائنس گردانتے ہیں، جو کہ ایک باطل تصور ہے۔ آئیڈیالوجی ان خیالات پر مشتمل ہوتی ہے جن کے تحت اس کے ماننے والے اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ اگر خیالات کا مربوط اور منطقی نظام نہ ہو تو اپنے سے مخالف نظریہ رکھنے والوں کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی شخص مذہب پر یقین رکھتا ہے تو وہ مسجد ، مندر یا چرچ میں جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص متصوفانہ فکر کے تحت ’’حقیقتِ عظمیٰ‘‘ کا قائل ہے تو وہ صوفیا کی تعلیمات پر توجہ دیتا ہے یا خانقاہوں کا رخ کرتا ہے۔اگر کوئی فن کار ہے تو اپنی اسی آئیڈیالوجی کو اپنے فن کا حصہ بناتا ہے۔
وہ ان خیالات کو اپنی آئیڈیالوجی سمجھنے کی بجائے فن کی خصوصیت سمجھنے لگتا ہے، جو کہ درست نہیں ہے۔ اگرچہ فن و ادب اور آئیڈیالوجی کے درمیان انتہائی پیچیدہ اور گنجلک رشتہ پایا جاتا ہے، تاہم اس کے باوجود جمالیات، علمیات اور سائنس کے مابین امتیاز قائم کرنا ضروری ہے۔ فرانسیسی فلسفی لوئی التھیوسے کے مطابق آرٹ ایک مخصوص ہیئت میں ’’ایک مخصوص طریقے سے ہمیں دکھاتا ہے، ادراک کراتا ہے اور محسوس کراتا ہے۔‘‘ تاہم یہ اشیاء کا اس طرح علم فراہم نہیں کرتا جیسا کہ سائنس مہیا کرتی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ سائنس کا ’’معروض‘‘ اس ’’معروض‘‘ سے الگ ہوتا ہے، جو آرٹ کا موضوع ہوتا ہے۔ اپنی کتاب ’’لینن اور فلسفہ‘‘ میں التھیوسے وضاحت کرتا ہے کہ ’’آئیڈیالوجی تمام انسانی سرگرمی میں رچی ہوئی ہے، یہ انسانی وجود کے بسر کیے ہوئے تجربات کے مشابہ ہے۔ یہ بسر کیے ہوئے تجربات پہلے ہی سے حقیقتِ محض سے دیے ہوئے نہیں ہوتے، بلکہ حقیقی کے ساتھ آئیڈیالوجی کے بے ساختہ بسر کیے ہوئے تجربات سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘ یعنی آرٹ صرف اس علاقے ہی سے تعلق نہیں رکھتا جہاں آرٹ کی اجارہ داری ہوتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آرٹ اور سائنس ایک ہی معروض سے تعلق رکھتے ہیں۔ سائنس اس ہیئت سے تعلق رکھتی ہے جس میں علم کا امکان پیدا ہوتا ہے، جب کہ آرٹ ایک مختلف ہیئت میں اسی معروض کو موضوع بناتا ہے۔ ان نکات کی وضاحت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ متخیلہ کا حقیقی سے ارتباط، یعنی بسر کیے ہوئے تعلقات کے ساتھ ربط ہی سے فن پارہ وجود میں آتا ہے، جب کہ فن پارے میں مضمر جمالیاتی اثر ہی سے آئیڈیالوجی کے ساتھ ایک فاصلہ قائم رہتا ہے۔
یہ ایک ایسا فلسفہ ہے کہ جس سے باطنیت کے تصور کو زک پہنچتی ہے۔ باطن میں کوئی ایسی باطنیت نہیں ہوتی کہ جس پر منعکس کر کے کسی ایسے معنی کو وجود میں لایا جا سکے کہ جو سماج میں موجود لوگوں کے لیے بامعنی ہو۔ نہ ہی باطنیت کوئی ایسی ’شے فی الذات‘ ہے جو خود میں خود کے ذریعے تکمیل کی سطح پر پہنچتی ہے۔ معنی کی تخلیق کے حوالے سے باطنیت کی حتمیت کو تسلیم کرنے کا مطلب آئیڈیالوجی کی دنیا میں داخل ہونا ہے۔ باطن کی خود انعکاسی کا تصور معروض سے ارتباط کے تصور کو مخفی رکھتا ہے۔ یہ باطنیت پسندوں کی ایسی آئیڈیالوجی ہے جو معروض سے ارتباط کے اس تضاد کو ظاہر تسلیم کرنے سے گریزاں ہے کہ جس کے بغیر معنی کے مفہوم کی تشکیل نہیں کی جا سکتی۔ فن کاروں کا خود کو ’خالق‘ کہلوانے کا تصور مذہب سے مستعار ہے۔ یہ تصور حقیقت میں فنکاروں کی آئیڈیالوجی ہے، جو کسی بھی فن پارے میں موجود تضادات کو مخفی رکھنے کے لیے تراشی جاتی ہے۔ یہاں تک کے وہ نقاد کو بھی یہ مشورہ دیتے ہیں کہ اسے صرف فن کار کی منشا کو دریافت کرے، یعنی نقاد خود کو ’تخلیق کار‘ میں ’مدغم‘ کر کے ادب میں وحدت الوجود کو پروان چڑھائے۔ فن کے خود مختارانہ اور خود کفیل کردار کو سامنے رکھا جائے تو اس دعوے میں کوئی سچائی دکھائی نہیں دیتی ۔ ’خود کفالت سے میری مراد ساختیات کے فنی تصور سے نہیں، بلکہ فن کے مارکسی تصور سے ہے۔ کوئی بھی فن کار جب خود کو ’تخلیق کار‘ کہتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنے نقطۂ نظر کو ثابت کر رہا ہوتا ہے۔
حقیقت میں ایسا دعویٰ کر کے وہ اپنی ’آئیڈیالوجی‘ کا اظہار کرتا ہے۔ اس کا ناقد کو فن پارے میں مضمر تضادات، شگافوں اور روزنوں کو عیاں کرنے کے رجحان کو ترک کرنے کا مشورہ دینا، صرف اس لیے کہ وحدت الوجود کا قضیہ حل ہو جائے، اس کی نظریاتی خواہش سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ ’تخلیق‘ یا ’تخلیق کار‘ جیسی اصطلاحات حقیقت میں ’ہیومنسٹ‘ فلسفوں کی عطا ہیں، جب کہ ہیومن ازم ہمیشہ ہی سے بورژوازی کی آئیڈیالوجی رہی ہے، جس کی حقیقت کو عیاں کرنا بہت ضروری ہے۔ اگر اس کی کوئی صورت باقی رہے تو ہر صورت میں فن کی خود مختارانہ حیثیت کو چیلنج درپیش رہتا ہے۔ ناقد کی جداگانہ شناخت کا تصور فنی و ادبی متون کی خود کفالت کے تصور سے جڑا ہوا ہے۔ اگر ہیومنسٹ نقطۂ نظر کے تحت آرٹ کی جانچ پرکھ ہوتی ہے تو ’’جمالیاتی بے ساختگی‘‘ کے تعقلات لازمی طور پر آرٹ کی آئیڈیالوجی سے الگ شناخت قائم نہیں ہونے دیتے، کیونکہ جس علم کی تشکیل ہوتی ہے وہ انھی تعقلات کے احاطے میں آتا ہے، جو آئیڈیالوجی کی وضاحت کرتے ہیں۔ اُردو میں روایتی ناقد ’تخلیق‘ کے ان متعین تاریخی جمالیاتی پیرائیوں سے انحراف کرتے ہیں، جن کے بغیر فن کی ’تخلیق‘ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، جب کہ ادب و شاعری میں کوئی بھی رجحان ہمیشہ ادب و شاعری کی تاریخ جو کہ سماجی عمل سے انتہائی پیچیدگی میں جڑی ہوتی ہے، کہ جبر سے الگ ہو کر وجود میں آ ہی نہیں سکتا۔ ہر نوع کی فنی ہیئت ازل سے موجود نہیں ہے، بلکہ ادبی و سماجی ارتقا کا نتیجہ ہے۔ روایتی ناقد فن کی ’تخلیق‘ کے تصور کے تحت نہ صرف فن کی روایتی انداز میں تشریح کرتے ہیں بلکہ وہ تنقید کے حقیقی کردار سے بھی انحراف کرتے ہیں۔ اس فکر کے حامل لوگ بعد ازاں فن پارے کو ’کھولنے‘ کے عمل میں بھی آئیڈیالوجی کے غالب کردار سے نجات حاصل نہیں کر پائے۔ فن پارے کو ’کھولنے‘ کا عمل اگر تنقید کے روایتی تصور کے تابع ہو، جس کے تحت ناقد کا واحد مقصد مصنف یا ’’خالق‘‘ کی منشا کو دریافت کر کے اس سے ہم آہنگ ہونا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ناقد اسی آئیڈیالوجی کے تابع ہو رہا ہے، جو پہلے ہی سے مصنف کی منشا میں شامل ہے۔ اس سے جو علم وجود میں آتا ہے وہ فن پارے میں تضادات، روزنوں اور شگافوں کو نشان زد کرنے والا اور فن پارے کی آزادانہ حیثیت کی تصدیق کرنے والا نہیں ہے، بلکہ حقیقت میں اس آئیڈیالوجی کا اظہار ہے جو فن پارے کی آزادانہ حیثیت پر یلغار کرتی ہے۔ شعری یا ادبی متن ایک سماج کی مانند تشکیل پاتا ہے۔ سماج کی تشکیل میں جتنا کردار ایک فرد کا ہوتا ہے، اتنا ہی شعری یا ادبی متن کی تشکیل میں شاعر یا ادیب کا ہوتا ہے۔
ماخوز از :http://www.express.pk/story/237385/
آئیڈیالوجی کو خیالات کی سائنس کہا گیا ہے مگر اس کی حقیقت کو تاریخ اور تعقل سے منقطع کر کے نہیں سمجھا جا سکتا۔ آئیڈیالوجی اس حوالے سے حقیقت ہے کہ یہ انسانی تجربات سے ذہن میں منعکس ہوتی ہوئی تجربات پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس کی جڑیں انسانوں کے مابین مادی تعلقات، پیداواری عمل اور طبقات کے کردار میں پیوست ہوتی ہیں۔ آئیڈیالوجی خواہ کتنی ہی قدیم کیوں نہ ہو، وہ متحرک سماجی عمل سے تضاد میں آ کر خود کو تبدیل کرنے پر مجبور ہوتی ہے، بصورتِ دیگر تضادات کی شدت جنگوں اور دہشت گردی کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ آئیڈیالوجی انسانوں کے مابین حقیقی اور مادی تعلقات کا اظہار ہوتی ہے۔ سیکولر ازم، عقلیت پسندی، ہیومن ازم، تصوف اور مذہب وغیرہ کو آئیڈیالوجی کی مثالوں کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ لبرل حضرات مذہب کو تو آئیڈیالوجی تصور کرتے ہیں اور اسے سماجی عمل سے متصادم بھی سمجھتے ہیں، تاہم اپنے نظریات کو آئیڈیالوجی کی بجائے سائنس گردانتے ہیں، جو کہ ایک باطل تصور ہے۔ آئیڈیالوجی ان خیالات پر مشتمل ہوتی ہے جن کے تحت اس کے ماننے والے اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ اگر خیالات کا مربوط اور منطقی نظام نہ ہو تو اپنے سے مخالف نظریہ رکھنے والوں کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی شخص مذہب پر یقین رکھتا ہے تو وہ مسجد ، مندر یا چرچ میں جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص متصوفانہ فکر کے تحت ’’حقیقتِ عظمیٰ‘‘ کا قائل ہے تو وہ صوفیا کی تعلیمات پر توجہ دیتا ہے یا خانقاہوں کا رخ کرتا ہے۔اگر کوئی فن کار ہے تو اپنی اسی آئیڈیالوجی کو اپنے فن کا حصہ بناتا ہے۔
وہ ان خیالات کو اپنی آئیڈیالوجی سمجھنے کی بجائے فن کی خصوصیت سمجھنے لگتا ہے، جو کہ درست نہیں ہے۔ اگرچہ فن و ادب اور آئیڈیالوجی کے درمیان انتہائی پیچیدہ اور گنجلک رشتہ پایا جاتا ہے، تاہم اس کے باوجود جمالیات، علمیات اور سائنس کے مابین امتیاز قائم کرنا ضروری ہے۔ فرانسیسی فلسفی لوئی التھیوسے کے مطابق آرٹ ایک مخصوص ہیئت میں ’’ایک مخصوص طریقے سے ہمیں دکھاتا ہے، ادراک کراتا ہے اور محسوس کراتا ہے۔‘‘ تاہم یہ اشیاء کا اس طرح علم فراہم نہیں کرتا جیسا کہ سائنس مہیا کرتی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ سائنس کا ’’معروض‘‘ اس ’’معروض‘‘ سے الگ ہوتا ہے، جو آرٹ کا موضوع ہوتا ہے۔ اپنی کتاب ’’لینن اور فلسفہ‘‘ میں التھیوسے وضاحت کرتا ہے کہ ’’آئیڈیالوجی تمام انسانی سرگرمی میں رچی ہوئی ہے، یہ انسانی وجود کے بسر کیے ہوئے تجربات کے مشابہ ہے۔ یہ بسر کیے ہوئے تجربات پہلے ہی سے حقیقتِ محض سے دیے ہوئے نہیں ہوتے، بلکہ حقیقی کے ساتھ آئیڈیالوجی کے بے ساختہ بسر کیے ہوئے تجربات سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘ یعنی آرٹ صرف اس علاقے ہی سے تعلق نہیں رکھتا جہاں آرٹ کی اجارہ داری ہوتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آرٹ اور سائنس ایک ہی معروض سے تعلق رکھتے ہیں۔ سائنس اس ہیئت سے تعلق رکھتی ہے جس میں علم کا امکان پیدا ہوتا ہے، جب کہ آرٹ ایک مختلف ہیئت میں اسی معروض کو موضوع بناتا ہے۔ ان نکات کی وضاحت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ متخیلہ کا حقیقی سے ارتباط، یعنی بسر کیے ہوئے تعلقات کے ساتھ ربط ہی سے فن پارہ وجود میں آتا ہے، جب کہ فن پارے میں مضمر جمالیاتی اثر ہی سے آئیڈیالوجی کے ساتھ ایک فاصلہ قائم رہتا ہے۔
یہ ایک ایسا فلسفہ ہے کہ جس سے باطنیت کے تصور کو زک پہنچتی ہے۔ باطن میں کوئی ایسی باطنیت نہیں ہوتی کہ جس پر منعکس کر کے کسی ایسے معنی کو وجود میں لایا جا سکے کہ جو سماج میں موجود لوگوں کے لیے بامعنی ہو۔ نہ ہی باطنیت کوئی ایسی ’شے فی الذات‘ ہے جو خود میں خود کے ذریعے تکمیل کی سطح پر پہنچتی ہے۔ معنی کی تخلیق کے حوالے سے باطنیت کی حتمیت کو تسلیم کرنے کا مطلب آئیڈیالوجی کی دنیا میں داخل ہونا ہے۔ باطن کی خود انعکاسی کا تصور معروض سے ارتباط کے تصور کو مخفی رکھتا ہے۔ یہ باطنیت پسندوں کی ایسی آئیڈیالوجی ہے جو معروض سے ارتباط کے اس تضاد کو ظاہر تسلیم کرنے سے گریزاں ہے کہ جس کے بغیر معنی کے مفہوم کی تشکیل نہیں کی جا سکتی۔ فن کاروں کا خود کو ’خالق‘ کہلوانے کا تصور مذہب سے مستعار ہے۔ یہ تصور حقیقت میں فنکاروں کی آئیڈیالوجی ہے، جو کسی بھی فن پارے میں موجود تضادات کو مخفی رکھنے کے لیے تراشی جاتی ہے۔ یہاں تک کے وہ نقاد کو بھی یہ مشورہ دیتے ہیں کہ اسے صرف فن کار کی منشا کو دریافت کرے، یعنی نقاد خود کو ’تخلیق کار‘ میں ’مدغم‘ کر کے ادب میں وحدت الوجود کو پروان چڑھائے۔ فن کے خود مختارانہ اور خود کفیل کردار کو سامنے رکھا جائے تو اس دعوے میں کوئی سچائی دکھائی نہیں دیتی ۔ ’خود کفالت سے میری مراد ساختیات کے فنی تصور سے نہیں، بلکہ فن کے مارکسی تصور سے ہے۔ کوئی بھی فن کار جب خود کو ’تخلیق کار‘ کہتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنے نقطۂ نظر کو ثابت کر رہا ہوتا ہے۔
حقیقت میں ایسا دعویٰ کر کے وہ اپنی ’آئیڈیالوجی‘ کا اظہار کرتا ہے۔ اس کا ناقد کو فن پارے میں مضمر تضادات، شگافوں اور روزنوں کو عیاں کرنے کے رجحان کو ترک کرنے کا مشورہ دینا، صرف اس لیے کہ وحدت الوجود کا قضیہ حل ہو جائے، اس کی نظریاتی خواہش سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ ’تخلیق‘ یا ’تخلیق کار‘ جیسی اصطلاحات حقیقت میں ’ہیومنسٹ‘ فلسفوں کی عطا ہیں، جب کہ ہیومن ازم ہمیشہ ہی سے بورژوازی کی آئیڈیالوجی رہی ہے، جس کی حقیقت کو عیاں کرنا بہت ضروری ہے۔ اگر اس کی کوئی صورت باقی رہے تو ہر صورت میں فن کی خود مختارانہ حیثیت کو چیلنج درپیش رہتا ہے۔ ناقد کی جداگانہ شناخت کا تصور فنی و ادبی متون کی خود کفالت کے تصور سے جڑا ہوا ہے۔ اگر ہیومنسٹ نقطۂ نظر کے تحت آرٹ کی جانچ پرکھ ہوتی ہے تو ’’جمالیاتی بے ساختگی‘‘ کے تعقلات لازمی طور پر آرٹ کی آئیڈیالوجی سے الگ شناخت قائم نہیں ہونے دیتے، کیونکہ جس علم کی تشکیل ہوتی ہے وہ انھی تعقلات کے احاطے میں آتا ہے، جو آئیڈیالوجی کی وضاحت کرتے ہیں۔ اُردو میں روایتی ناقد ’تخلیق‘ کے ان متعین تاریخی جمالیاتی پیرائیوں سے انحراف کرتے ہیں، جن کے بغیر فن کی ’تخلیق‘ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، جب کہ ادب و شاعری میں کوئی بھی رجحان ہمیشہ ادب و شاعری کی تاریخ جو کہ سماجی عمل سے انتہائی پیچیدگی میں جڑی ہوتی ہے، کہ جبر سے الگ ہو کر وجود میں آ ہی نہیں سکتا۔ ہر نوع کی فنی ہیئت ازل سے موجود نہیں ہے، بلکہ ادبی و سماجی ارتقا کا نتیجہ ہے۔ روایتی ناقد فن کی ’تخلیق‘ کے تصور کے تحت نہ صرف فن کی روایتی انداز میں تشریح کرتے ہیں بلکہ وہ تنقید کے حقیقی کردار سے بھی انحراف کرتے ہیں۔ اس فکر کے حامل لوگ بعد ازاں فن پارے کو ’کھولنے‘ کے عمل میں بھی آئیڈیالوجی کے غالب کردار سے نجات حاصل نہیں کر پائے۔ فن پارے کو ’کھولنے‘ کا عمل اگر تنقید کے روایتی تصور کے تابع ہو، جس کے تحت ناقد کا واحد مقصد مصنف یا ’’خالق‘‘ کی منشا کو دریافت کر کے اس سے ہم آہنگ ہونا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ناقد اسی آئیڈیالوجی کے تابع ہو رہا ہے، جو پہلے ہی سے مصنف کی منشا میں شامل ہے۔ اس سے جو علم وجود میں آتا ہے وہ فن پارے میں تضادات، روزنوں اور شگافوں کو نشان زد کرنے والا اور فن پارے کی آزادانہ حیثیت کی تصدیق کرنے والا نہیں ہے، بلکہ حقیقت میں اس آئیڈیالوجی کا اظہار ہے جو فن پارے کی آزادانہ حیثیت پر یلغار کرتی ہے۔ شعری یا ادبی متن ایک سماج کی مانند تشکیل پاتا ہے۔ سماج کی تشکیل میں جتنا کردار ایک فرد کا ہوتا ہے، اتنا ہی شعری یا ادبی متن کی تشکیل میں شاعر یا ادیب کا ہوتا ہے۔
ماخوز از :http://www.express.pk/story/237385/