تخلیق یا ارتقاء

یاسر شاہ

محفلین
صحیح فرمایا۔ میں اس منطق کے حق میں بالکل نہیں ہوں کہ کسی نئی سائنسی دریافت، تھیوری وغیرہ کی بنیاد پر زمانہ سلف سے چلے آنے والی دینی تشریحات کو تبدیل کر دیا جائے۔ یا قدیم مذہبی نظریات میں دور جدید کے سائنسی نظریات ٹھونس کر ان میں باہم مطابقت پیدا کرنے کی بھونڈی سی کوشش کی جائے۔ اور اس کا جواز ان ”نئے مطالب“ کو بنایا جائے، جو سائنسی تحقیق سے حال ہی میں حاصل ہوئے ہوں۔
ایسا بار بار کرنے سے کئی خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ جیسے جدیدسائنسی نظریات کو مکمل پڑھنے، سمجھنے کی بجائے محض اس پر مطمئن ہو جانا کہ مذہب بھی تو وہی کہتا ہے جو سائنس کہہ رہی ہے۔

السلام علیکم !

واقعی ایسے لوگ بھی عجب کرتب دکھاتے ہیں - بگ بینگ تھیوری ہو یا نظریۂ بندر سب پا لیتے ہیں قرآن کے اندر -سچ کہا باوجود خیرخواہ ہونے کے یہ لوگ قرآن کے لئے بہت خطرناک ہیں -جیسے نادان دوست کہانی میں ریچھ اپنے مالک کے لئے -

یہ آپ کی تحریر پسند آئی -جس قدر میری معلومات ہے آپ اکثر و بیشتر تحاریر کاپی پیسٹ کرتے ہیں' آپ کا اپنا لکھا کم ہی ہوتا ہے -بس اب آپ کو یہی مشوره دوں گا اپنا لکھیں کاپی نہ ہی کریں تو اچھا ہے -ایک مزاحیہ سا قطعہ دیکھ لیجئے :


اپنے قدموں کی چاپ پیدا کر
اپنا ماحول آپ پیدا کر
جوتے میں ہر کسی کے پاؤں نہ ڈال
اپنے پیروں کا ناپ پیدا کر

یاسر
 

فرقان احمد

محفلین
قرآن پاک کی تفہیم کے حوالے سے عرض ہے کہ اسلاف کی آراء کی اہمیت مسلمہ ضرور ہے تاہم ان آراء کو ہر حوالے سے حتمی تصور کرلینا مناسب نہیں۔ مزید یہ کہ، مذہبی عقائد کی سائنسی تصورات کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے کی شعوری کوشش تبھی قابل قبول ہو سکتی ہے جب اس کی گنجائش موجود ہو تاہم زور زبردستی ایسا کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا ہے۔ فلسفہ، مذہب اور سائنس بظاہر حیات و کائنات کے سربستہ رازوں کو سمجھنے میں انسان کی مدد کرتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ فی زمانہ سائنس کا چلن ہے اس لیے مذہب سے جڑے ہوئے افراد کی زیادہ بات نہیں چلتی ہے اس لیے مذہب سے وابستہ جدید اذہان رکھنے والوں نے اپنے نظریات کی توثیق سائنس سے کرنے کی شعوری کوششیں شروع کی ہیں۔ کہیں کہیں تو یہ سب کچھ گوارا ہے تاہم ہر خیال اور ہر نظریے کو سائنس کی مدد سے ثابت کرنا کسی صورت مناسب طرز فکر نہیں۔ تاہم، جہاں اس بات کی واضح گنجائشیں موجود ہیں، وہاں اسلاف کے مروجہ نظریات سے رجوع کرنا خلافِ عقل نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
واقعی ایسے لوگ بھی عجب کرتب دکھاتے ہیں - بگ بینگ تھیوری ہو یا نظریۂ بندر سب پا لیتے ہیں قرآن کے اندر -سچ کہا باوجود خیرخواہ ہونے کے یہ لوگ قرآن کے لئے بہت خطرناک ہیں -
شدید متفق! اس طویل دھاگے میں ہمارا بیانیہ یہی ہے کہ جدید سائنسی نظریات کو قدیم مذہبی عقائد ونظریات کے ساتھ گتھم گتھا کرنا نہ صرف دین کی اپنی ساخت کو کمزور کرتا ہے۔ بلکہ جو مومنین سائنسی نظریات پڑھنے میں صحیح دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کو بھی دین ایمان کا ایشو بنا کر پوری سائنسی کمیونیٹی سے ہی بد دل کر دیتا ہے۔
کتنا اچھا ہوتا کہ اگر ہم مذہب اور سائنس کی ڈومین کو زبردستی باہم ملانے کی بجائے الگ الگ رکھ کر پڑھتے۔ تو اس قسم کے ٹکراؤ اور پیچیدہ مسائل جنم نہ لیتے۔
یہ آپ کی تحریر پسند آئی -
جزاک اللہ
 

جاسم محمد

محفلین
۔ مزید یہ کہ، مذہبی عقائد کی سائنسی تصورات کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے کی شعوری کوشش تبھی قابل قبول ہو سکتی ہے جب اس کی گنجائش موجود ہو تاہم زور زبردستی ایسا کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا ہے۔
کہیں تو یہ سب کچھ گوارا ہے تاہم ہر خیال اور ہر نظریے کو سائنس کی مدد سے ثابت کرنا کسی صورت مناسب طرز فکر نہیں۔ تاہم، جہاں اس بات کی واضح گنجائشیں موجود ہیں، وہاں اسلاف کے مروجہ نظریات سے رجوع کرنا خلافِ عقل نہیں۔
میری دانست میں دین و مذہب نے ایسی کوئی گنجائش فراہم نہیں کی جہاں اس کی حقانیت اور سچائی کو ثابت کرنے کیلئے سائنسی نظریات کا سہارا لینے کا کہا گیا ہو۔ دین و مذہب اپنے عقائد کے بل پوتے پر کئی ہزار سال سے مضبوط چٹان کی طرح کھڑے ہیں۔ جبکہ جدید سائنس کو آئے بمشکل 400 سال کا عرصہ گزرا ہے۔ اس لئے میرے مطابق مذہبی معاملات میں سائنس کا سہارا لینا دین کو کمزور کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
باقی جہاں تک سائنسی گنجائش نکالنے کی بات ہے تو اس کیلئے مزید وضاحت درکار ہوگی۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ بات درست ہے کہ فی زمانہ سائنس کا چلن ہے اس لیے مذہب سے جڑے ہوئے افراد کی زیادہ بات نہیں چلتی ہے اس لیے مذہب سے وابستہ جدید اذہان رکھنے والوں نے اپنے نظریات کی توثیق سائنس سے کرنے کی شعوری کوششیں شروع کی ہیں۔
کیا یہ بیان مذہبی اذہان کی جانب سے سائنسی اذہان کے سامنے اپنی بے بسی اور ہار کا ثبوت ہے؟ کیا یہ زیادہ بہتر نہ ہوگا کہ مذہبی اذہان اپنے سچے مذہب سے ایسے دلائل ڈھونڈ کر لائیں جس سے عوام مذہب کی طرف دوبارہ راغب ہو۔ بجائے اس کے کہ مذہب و سائنس کا ایک ملغوبہ سا پیش کر کے عوام کو مزید گمراہ کیا جائے؟
 

فرقان احمد

محفلین
میری دانست میں دین و مذہب نے ایسی کوئی گنجائش فراہم نہیں کی جہاں اس کی حقانیت اور سچائی کو ثابت کرنے کیلئے سائنسی نظریات کا سہارا لینے کا کہا گیا ہو۔ دین و مذہب اپنے عقائد کے بل پوتے پر کئی ہزار سال سے مضبوط چٹان کی طرح کھڑے ہیں۔ جبکہ جدید سائنس کو آئے بمشکل 400 سال کا عرصہ گزرا ہے۔ اس لئے میرے مطابق مذہبی معاملات میں سائنس کا سہارا لینا دین کو کمزور کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
باقی جہاں تک سائنسی گنجائش نکالنے کی بات ہے تو اس کیلئے مزید وضاحت درکار ہوگی۔
شاید آپ کو ہمارا مراسلہ ایک بار پھر پڑھنے کی ضرورت ہے۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
زمین پر ظہور زندگی و ارتقا سے متعلق اس بہترین مضمون کو ٹیکسٹ فارمیٹ میں یہاں پیش کر سکتے ہیں؟


زمین پر زندگی کا آغاز کیسے ہوا
بی بی سی کا ایک آرٹیکل
تحریر: Michael Marshall
ترجمہ: قدیر قریشی
نومبر 02، 2016
ابتدائیہ
زمین پر زندگی کا آغاز کیسے ہوا – شاید ہی کوئی سوال اس سے بڑا ہو – انسان کی تاریخ کے بیشتر حصے میں تقریباً ہر شخص کا یہی خیال تھا کہ زندگی کسی مافوق الفطرت ہستی کی مرہونِ منت ہے – اس کے علاوہ زندگی کی کوئی اور وضاحت ممکن ہی نہیں تھی
لیکن اب ایسا نہیں ہے – پچھلے سو سالوں میں کچھ سائنس دانوں نے زندگی کے آغاز کے اسرار سے پردہ اٹھانے کا بیڑا اٹھایا – ان میں سے کچھ نے تو اپنی لیبارٹری میں زندگی کو پیدا کرنے کی کوشش بھی کی
اگرچہ ابھی تک یہ کوششیں کامیاب نہیں ہوئیں لیکن اس دوران سائنس نے بہت ترقی کی ہے – آج زندگی کے آغاز پر تحقیق کرنے والے سائنس دان پُراعتماد ہیں کہ وہ درست راستے پر ہیں - ان کے کامیاب تجربات بھی اس اعتماد کی توثیق کرتے ہیں
یہ کہانی انسانوں کی اپنے آغاز کو دریافت کرنے کی کوشش کی کہانی ہے – یہ کہانی ہے اس محنت کی، اس لگن کی، اور اس ذہانت کی جس کی وجہ سے جدید سائنس نے حیرت انگیز ترقی کی ہے اور اس دوران عظیم دریافتیں کی ہیں – زندگی کے آغاز کی کھوج میں سائنس دانوں نے دنیا کا کونہ کونہ چھان مارا ہے – ان میں سے کچھ سائنس دانوں پر خدا بننے کی کوشش کا الزام لگا کر ان پر لعن طعن بی کی گئی جب کے کچھ دوسرے سائنس دانوں کو جابر حکمرانوں کے ظلم و ستم کا سامنا بھی کرنا پڑا
یہ کہانی زمین پر زندگی کے آغاز کی کہانی ہے
زمین پر زندگی ایک عرصے سے موجود ہے – ڈائنوسارز شاید ان انواع میں سب سے مشہور ہیں جو اب ناپید ہوچکی ہیں – ڈائنوسارز کی انواع کا آغاز اب سے تقریباً 25 کروڑ سال پہلے ہوا تھا – لیکن زندگی اس سے بھی بہت زیادہ پرانی ہے –
زمین پر سب سے پرانے فاسلز تقریباً ساڑھے تین ارب سال پرانے ہیں جو قدیم ترین ڈائنوسارز کے فوسلز سے 14 گنا زیادہ پرانے ہیں – لیکن فاسلز کا ریکارڈ شاید اس سے بھی پرانا ہو – مثال کے طور پر اگست 2016 میں سائنس دانوں کو 3.7 ارب سال پرانے فاسلز ملے جو کہ مائیکروبز یعنی جرثوموں کے فاسلز معلوم ہوتے ہیں – ان کی تصویر نیچے دی گئی ہے

زمین کی کل عمر تقریباً ساڑھے چار ارب سال ہے
اگر ہم یہ فرض کریں کہ زندگی کا آغاز زمین پر ہی ہوا (جو کہ ایک معقول مفروضہ ہے کیونکہ ابھی تک زمین کے علاوہ کہیں اور زندگی کے آثار نہیں ملے) تو زندگی کا آغاز یقیناً زمین بننے کے بعد لیکن اوپر دیے گئے فاسلز کے بننے سے پہلے ہوا ہوگا
ان شواہد کی بنا پر ہم نہ صرف زندگی کے آغاز کے وقت کا تعین کر سکتے ہیں بلکہ اس بارے میں بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ زمین پر زندگی کی پہلی شکل کیسی رہی ہوگی – نیچے زندگی کے درخت کی ایک شبیہہ دی گئی ہے – اس میں زیادہ تر شاخیں صرف بیکٹٰیریا پر مشتمل ہیں جو کہ یک خلوی جانور ہیں

انیسویں صدی میں سائنس دانوں نے یہ دریافت کر لیا تھا کہ تمام زندگی خلیوں پر مشتمل ہے – خلیے زندگی کی بنیادی اکائی ہیں جو مختلف جسامت اور شکلوں کے ہوتے ہیں – خلیوں کی دریافت سب سے پہلے سترہویں صدی میں ہوئی جب جدید خوردبین ایجاد کی گئی – تاہم اس دریافت کے بعد سائنس دانوں کو پوری ایک صدی یہ جاننے میں لگی کہ یہ خلیے زندگی کی بنیاد ہیں
ممکن ہے کہ آپ یہ سمجھیں کہ انسان مچھلیوں اور ڈائنوسارز سے بالکل مختلف ہیں لیکن اگر آپ خوردبین سے مشاہدہ کریں تو انسان، مچھلیاں، اور تمام جانور خلیوں پر ہی مشتمل ہیں – اسی طرح پودے اور فنگس بھی خلیوں سے بنتے ہیں
لیکن دنیا میں سب سے زیادہ انواع مائیکروآرگنزمز کی ہیں جو صرف ایک خلیے پر مشتمل ہوتے ہیں – ان میں سب سے مشہور بیکٹیریا ہیں جو زمین پر ہر جگہ پائے جاتے ہیں
اپریل 2016 میں سائنس دانون نے زندگی کے درخت کی جدید ترین کاپی شائع کی جس میں دنیا میں اب تک دریافت کیے گئے تمام سپیشیز کو شامل کیا گیا ہے اور اس بارے میں بتلایا گیا ہے کہ کون سا جانور کس جانور سے ارتقاء پذیر ہوا - اس درخت کی تقریباً تمام شاخیں بیکٹیریا پر مشتمل ہیں – اس کے علاوہ اس درخت کی شکل سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ زندگی کا آغاز بھی ایک بیکٹیریم سے ہی ہوا – یعنی زندگی کی تمام انواع ایک بیکٹیریم سے ہی ارتقاء پذیر ہوئیں
اس کا مطلب یہ ہوا کہ زندگی کے آغاز کے مسئلے کو سرست طور پر یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ ہمیں اس خلیے کو صرف ان اجزاء کو استعمال کرتے ہوئے بنانا ہے جو زمین پر ساڑھے تین ارب سال پہلے میسر تھے
تو ایسا کرنا کتنا مشکل ہوسکتا ہے؟
پہلے تجربات
تاریخ کے بیشتر حصے میں میں اس بات کو ضروری نہیں سمجھا جاتا تھا کہ زندگی کے آغاز پر سوال اٹھایا جائے کیونکہ اس کا جواب ظاہراً ہر شخص پر عیاں تھا
سنہ 1800 سے پہلے اکثر لوگ روحیت (یعنی vitalism ) کے قائل تھے جس کے مطابق زندہ اشیاء میں کوئی مافوق الفطرت خاصیت تھی جو انہیں بے جان چیزوں سے ممتاز کرتی تھی – روحیت کا مخرج زیادہ تر مذہبی عقائد ہوا کرتے تھے – انجیلِ مقدس کے مطابق خدا نے زندگی کا سانس ڈال کر پہلا انسان بنایا - انسان کی لافانی روح بھی روحیت کی ہی ایک قسم ہے
اس مفروضے میں صرف ایک مسئلہ ہے – روحیت غلط ہے – انیسویں صدی کے آغاز میں ہی سائنس دانوں نے بہت سے ایسے مرکبات دریافت کر لیے تھے جو صرف زندگی کے ساتھ ہی منسوب تھے – ان میں سے ایک کیمیائی مرکب یوریا تھا جو کہ جانوروں کے پیشاب میں پایا جاتا ہے اور اسے 1799 میں دریافت کیا گیا تھا
اس وقت تک یہ تمام دریافتیں روحیت کے ساتھ ہم آہنگ تھیں کیونکہ صرف زندہ اجسام ہی یہ مرکبات بنانے کے اہل معلوم ہوتے تھے – گویا یہ ممکن تھا کہ زندہ اشیاء میں وہ مافوق الفطرت توانائی تھی جو انہیں یہ کیمیائی مرکبات بنانے کی قابلیت فراہم کرتی تھی
لیکن 1828 میں ایک جرمن کیمیا گر فریڈرک ووہلر نے ایک ایسے کیمیائی مرکب (امونیم سیانیٹ) سے یوریا بنانے کا طریقہ دریافت کر لیا جس کا حیاتیات سے دور دور کا کوئی واسطہ نہیں تھا – اس کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے بہت سے دوسرے سائنس دانوں نے بھی ایسے مرکبات بنانے شروع کر دیے جو اس سے پہلے صرف حیاتیات سے متعلق سمجھے جاتے تھے اور یہ واضح ہونے لگا کہ حیاتیات سے متعلق مرکبات میں کوئی مافوق الفطرت توانائی نہیں ہے کیونکہ وہ ایسے کیمیائی اجزاء سے بھی بنائے جاسکتے ہیں جن کا بذاتِ خود حیاتیات سے کوئی تعلق نہیں
یہ روحیت کے مفروضے پر ایک کاری ضرب تھی – لیکن لوگوں کے لیے صدیوں سے رائج تصورات کو خیرباد کہنا انتہائی مشکل ہوتا ہے – بہت سے لوگوں کے مطابق حیاتیاتی مرکبات کے بارے میں یہ کہنا کہ ان میں کوئی 'خاص' بات نہیں ہے زندگی کے مافوق الفطرت ہونے کے تصور کی خلاف ورزی تھا اور اس کا مطلب یہ تھا کہ جانوروں اور انسانوں کو صرف ایک مشین سمجھا جانے لگے گا – اس کے علاوہ یہ تصور انجیلِ مقدس کے بیانات کے صریحاً خلاف تھا
خود سائنس دان بھی روحیت کے تصور کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے – 1913 تک بھی ایک انگریز بائیوکیمسٹ بنجمن موور حیاتیاتی توانائی کے تصور کے پرچار میں مصروف تھا جو کہ روحیت کا ہی ایک نیا نام تھا – ہمارے معاشرے میں یہ تصور مختلف شکلوں میں اب بھی موجود ہے – مثال کے طور پر سائنس فکشن کی بہت سی کہانیوں میں کسی شخص کی حیاتیاتی توانائی کو چرا لیا جاتا ہے یا اس میں اضافہ کر دیا جاتا ہے –
1828 میں ہی سائنس دانوں کے پاس زندگی کے آغاز کے بارے میں ایسے مفروضات کی تلاش شروع کرنے کا جواز موجود تھا جو مافوق الفطرت تصورات سے پاک ہوں - لیکن کسی وجہ سے یہ کام شروع نہ ہوسکا اور اس کام کو کئی دہائیوں تک کوئی توجہ نہیں ملی – شاید جذباتی طور پر روحیت کو چھوڑ دینا ابھی ممکن نہیں ہوا تھا – اس کے بجائے انیسوی صدی میں حیاتیات کی سب سے بڑٰی کامیابی نظریہِ ارتقاء تھی جسے چارلس ڈارون نے پیش کیا تھا
ڈارون نے یہ نظریہ 1859میں اپنی کتاب 'انواع کا آغاز' میں پیش کیا جس میں اس نے تفصیل سے اس بات پر دلائی پیش کیے کہ کیسے زندگی کی تمام انواع ایک ہی جدِ امجد سے ارتقاء پذیر ہوئیں – اس نظریے کے مطابق تمام انواع عین اسی حالت میں کسی مافوق الفطرت ہستی نے نہیں بنائے جس حالت میں ہم انہیں آج دیکھتے ہیں بلکہ یہ تمام کروڑوں سال پہلے موجود انواع سے ارتقاء پذیر ہوئیں
یہ نظریہ ابتداء سے ہی بہت زیادہ متنازعہ ثابت ہوا کیونکہ یہ انجیل مقدس کے بیان کی نفی کرتا تھا – مشتعل عیسائیوں نے ڈارون اور اس کے نظریات پر زبردست حملے شروع کر دیے
ارتقاء کا نظریہ زندگی کے آغاز کے بارے میں خاموش ہے – ڈارون جانتا تھا کہ زندگی کے آغاز کا سوال انتہائی اہم ہے – لیکن اس کا کلیسا کے حکام سے مزید ٹکر لینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا شاید اسی لیے ڈارون نے اس مسئلے پر اپنی کتابوں میں کچھ نہیں لکھا – البتہ اپنے ایک خط میں ڈارون نے اس سوال کا ذکر کیا ہے – اس کے انداز سے صاف ظاہر ہے کہ ڈارون اس سوال کی اہمیت سے بخوبی واقف تھا
'لیکن اگر (اور یہ بہت بڑی 'اگر' ہے) ہم یہ تصور کریں کہ کسی جوہڑ میں امونیا، فاسفورس کے نمکیات، روشنی، حرارت، بجلی وغیرہ موجود ہوں تو کیمیائی تعاملات کے نتیجے میں لحمیات کے سالمے (یعنی پروٹین مالیکیولز) وجود میں آسکتے ہیں جو بعد میں مزید تعاملات سے پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے جائیں'
یعنی اگر پانی کے کسی جوہڑ میں سادہ نامیاتی (organic) مرکبات ہوں، ان پر مسلسل دھوپ پڑتی رہے اور کبھی کبھی بجلی کے کوندے بھی لپکتے رہیں تو یہ مرکبات مل کر روغنیات (lipids) اور لحمیات بنا سکتے ہیں جن میں ارتقاء کے عمل کا آغاز ہوسکتا ہے جو انہیں مزید پیچیدہ بناتا چلا جائے
اگرچہ یہ ایک مبہم سا خاکہ تھا لیکن آگے چل کر یہی تصور زندگی کے آغاز کا بنیادی مفروضہ بن گیا – اس مفروضے کا آغاز ایک غیر متوقع طور پر ہوا – شاید آپ سوچ رہے ہوں کہ اتنی جرات مندانہ آزاد خیالی صرف کسی آزاد اور جمہوری ملک مثلاً امریکہ ہی میں ممکن ہو لیکن در حقیقت زندگی کے آغاز سے متعلق پہلا مفروضہ روس جیسے ملک میں پیش کیا گیا جہاں ایک مطلق العنان حکمران تھا
سٹالن کے روس میں ہر چیز حکومت کے کنٹرول میں تھی – دیگر شعبوں کے علاوہ تعلیم کے شعبے پر بھی حکومت کا آہنی کنٹرول تھا – خاص طور پر سٹالن نے جینیات کی ریسرچ پر پابندی لگا رکھی تھی – جینیات کی جگہ ٹرافم لائسینکو نامی شخص (جو کہ ایک کاشتکار تھا) کے خیالات کو حکومتی سطح پر اجاگر کیا جاتا تھا – جینیات پر کام کرنے والے سائنس دانوں کو مجبور کیا جاتا تھا کہ وہ لائسنکو کے خیالات کو اجاگر کریں ورنہ انہیں بیگار کیمپ بھیج دیا جائے گا
اس گھٹن کے ماحول میں الیگزینڈر آپرین نے حیاتیات کی کیمسٹری پر ریسرچ جاری رکھی جو اس لیے ممکن تھا کہ وہ خود پکا کمونسٹ تھا – وہ لائسینکو کے خیالات کی تائید کرتا تھا اور اسے روس کا سب سے بڑا اعزاز 'آرڈر آف لینن' دیا گیا تھا – اس نے 1924 میں ایک کتاب لکھی جس کا نام تھا 'زندگی کا آغاز' – اس میں اس نے زندگی کے آغاز کے بارے میں اپنی آراء قلمبند کیں جو حیرت انگیز حد تک ڈارون کے خیالات سے ملتی جلتی تھیں
آپرین نے یہ تصور کرنے کی کوشش کی کہ زمین کے آغاز کے وقت یہاں پر کیا حالات تھے – زمین کی سطح انتہائی گرم تھی کیونکہ خلا سے لاکھوں شہابیے زمین پر بارش کی طرح برس رہے تھے – ان کے ٹکرانے سے پیدا ہونے والی حرارت کی وجہ سے زمین کی سطح پگھلی ہوئی چٹانوں پر مشتمل تھی جس میں ہزاروں قسم کے کیمیائی مرکبات شامل تھے بشمول کاربن کے مرکبات کے – جیسے جیسے سطحِ زمین کا درجہ حرارت کم ہوتا گیا ویسے ویسے ہوا میں موجود آبی بخارات بھی ٹھنڈے ہونے لگے اور یوں زمین پر طوفانی بارشوں کا آغاز ہوا – یہ پانی گہری چگہوں پر اکٹھا ہونے لگا جس کے نتیجے میں سمندر نمودار ہوئے جن کا پانی گرم تھا اور اس میں کاربن کے مرکبات کی بھرمار تھی
ان مرکبات کے آپس کے تعاملات سے مزید پیچیدہ سالمے وجود میں آئے – زندگی کے بنیادی سالمے مثلاً شکر اور امینو ایسڈز وغیرہ سب سمندر کے پانی میں معلق رہنے لگے – ان میں سے کچھ مرکبات آپس میں مل کر جھنڈ کی شکل میں اکٹھے رہنے لگے – بہت سے کیمیائی مرکبات پانی میں حل نہیں ہوپاتے جیسے پانی کے اوپر تیرتی تیل کی ایک تہہ – یہ مرکبات جب پانی کے اندر معلق ہوتے ہیں تو انتہائی چھوٹے کروں یا بلبلوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جنہیں coacervates (لعاب دار معلق بلبلے) کہا جاتا ہے – ان بلبلوں کا قطر 0.01 سینٹی میٹر تک ہوسکتا ہے – اگر ان بلبلوں کو خوردبین سے دیکھا جائے تو یہ حیرت انگیز حد تک زندہ خلیوں کی طرح معلوم ہوتے ہیں – یہ بلبلے پانی سے دیگر کیمیائی سالموں کو جذب کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں چنانچہ اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں کہ وہ کیمیائی مرکبات جو زندگی کی بنیاد ہیں ان بلبلوں میں اکٹھا ہونے لگیں
اس کے صرف پانچ سال بعد برطانوی سائنس دان ہالڈین نے آزادانہ طور پر وہی مفروضات پیش کیے جو روس میں آپرین نے کیے تھے – ہالڈین پہلے ہی نظریہِ ارتقاء کو ثابت کرنے کے لیے بہت سا کام کر چکا تھا – اس نے ڈارون کے نظریات کو اس وقت کی ابھرتی ہوئی سائنس یعنی جینیات سے ثابت کیا – آپرین کی طرح ہالڈین نے بھی یہی تصور پیش کیا کہ پانی میں نامیاتی سالموں کی تعداد وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جائے گی یہاں تک کہ یہ آب جوش کی طرح بن جائے گا – اس میں زندگی کے بنیادی کیمیائی اجزاء تیل کی جھلی سے بنے کروں میں مقید ہوجائیں گے
یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ دنیا کے تمام ماہرینِ حیاتیات میں سے صرف آپرین اور ہالڈٰین نے یہ مفروضہ پیش کیا – کسی مافوق الفطرت ہستی کی مدد کے بغیر زندہ اجسام کا وجود میں آ جانا ایک ناقابلِ یقین تصور محسوس ہوتا تھا – ڈارون کے ارتقاء کے نظریے کہ طرح یہ مفروضہ بھی گویا مذہبی سوچ سے انحراف کرنا تھا – لیکن روس کی لامذہبی حکومت کو اس پر اعتراض نہیں تھا کیونکہ حکومت زندگی کی مادی بنیادوں پر وضاحت کی خواہاں تھی
اس مفروضے کو آپرین-ہالڈین مفروضے کے نام سے جانا جانے لگا – اگرچہ یہ مفروضہ عقلی طور پر درست معلوم ہوتا تھا لیکن اس کے ساتھ ایک بہت بڑا مسئلہ تھا اور وہ یہ کہ اس کا کوئی ثبوت میسر نہیں تھا – ایک ربع صدی تک یہ مفروضہ بغیر کسی تجرباتی ثبوت کے امید و بیم کی حالت میں رہا
جب ہیرالڈ یورے نے زندگی کے آغاز کے بارے میں سوچنا شروع کیا اس وقت تک اسے 1934 کا کیمسٹری کا نوبل انعام مل چکا تھا اور اس نے ایٹم بم بنانے میں بھی نمایاں کردار انجام دیا تھا – دوسری جنگِ عظیم کے دوران وہ ایٹم بم بنانے کے لیے یورینیم 235 پر کام کر رہا تھا – جنگ کے بعد اس نے جوہری توانائی کی ٹیکنالوجی کو غیر فوجی کنٹرول میں رہنے کے لیے مہم بھی چلائی
اسے خلا میں موجود کیمسٹری میں بھی دلچسپی تھی اور وہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ نظامِ شمسی کی تشکیل کے دوران کیا کیمیائی تعاملات ہوئے اور ان سے کون سے مرکبات وجود میں آئے – ایک دن اپنے لیکچر میں اس نے واضح کیا کہ غالباً زمین کے آغاز کے دنوں میں زمین کی فضا میں آکسیجن موجود نہیں تھی – آکسیجن کی غیر موجودگی میں نامیاتی مرکبات کے تعاملات آسان ہوجاتے ہیں کیونکہ آکسیجن کی موجودگی میں کئی نامیاتی مرکبات فوراً ضائع ہوجاتے ہیں – اس کا ایک پی ایچ ڈی کا طالبِ علم سٹینلے ملر بھی لیکچر سن رہا تھا – لیکچر کے بعد اس طالبِ علم نے یورے سے پوچھا 'کیا ان مفروضات کو لیبارٹری میں پرکھا جاسکتا ہے؟' یورے کو شک تھا کہ لیبارٹری میں ایسا کرنا ممکن نہ ہوگا لیکن ملر نے اسے راضی کر لیا – یوں 1952 میں زندگی کے آغاز کے حوالے سے دنیا کے مشہور ترین تجربے کا آغاز ہوا
تجربہ بہت سادہ تھا – ملر نے کچھ شیشے کی صراحیاں لیں اور ان میں وہ چار مائع جات بھر لیے جو اس کے خیال میں زمین کے آغاز کے وقت فضا میں موجود تھے یعنی ابلتا ہوا پانی، ہائیڈروجن گیس، امونیا، اور میتھین – آسمانی بجلی کے کوندوں کا انتظام بجلی کے جھٹکوں کی مدد سے کیا گیا – ملر نے دیکھا کہ ایک دن بعد ہی صراحیوں میں پانی کا رنگ گلابی مائل ہوگیا اور ایک ہفتے کے اندر اندر گہرے سرخ رنگ کے مائع میں تبدیل ہوگیا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس میں بہت کے کیمیائی مرکبات پیدا ہوگئے ہیں
جب ملر نے ان مرکبات کا تجزیہ کیا تو اسے معلوم ہوا کہ اس میں دو امینو ایسڈز گلیسائن اور ایلانائن موجود تھے – امینو ایسڈز کو اکثر زندگی کے بنیادی مرکبات مانا جاتا ہے اور یہ لحمیات کے بنانے میں استعمال ہوتے ہیں جو ہمارے جسم کا نظام چلاتی ہیں – ملر نے زندگی کے بنیادی مرکبات کو لیبارٹری میں بنانے میں کامیابی حاصل کر لی تھی – ان نتائج کو 1953 میں سائنس کے انتہائی معتبر جریدے 'سائنس' میں شائع کیا گیا – یورے نے بڑے پن اور کمال بے غرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے (جو آج کل کے سائنس دانوں میں شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتی ہے) اس پیپر میں اپنا نام شامل نہیں کیا اور اس دریافت کا تمام سہرا ملر کے سر باندھا – اس کے باوجود اس تجربے کو آج تک ملر-یورے کے تجربے کے نام سے یاد کیا جاتا ہے
اس تجربے کی خوبی یہ ہے کہ فضا میں موجود بہت سادہ سے مرکبات سے زندگی کے پیچیدہ سالمے بن جانے کے مفروضے کو سچ ثابت کر دیا گیا – اگرچہ بعد میں مزید تحقیق سے معلوم ہوا کہ زمین کے آغاز کی فضا اس سے بہت مختلف تھی جس کا ملر اور یورے نے اندازہ لگایا تھا – تاہم اس تجربے سے یہ بنیادی اصول واضح ہوگیا کہ سادے نامیاتی مرکبات سے حیاتیاتی سالموں کا بن جانا عین ممکن ہے – یہ تجربہ اتنی اہمیت کا حامل تھا کہ عوام میں آج تک مقبول ہے
ملر کے تجربے کی کامیابی کے بعد بہت سے سائنس دانوں نے سادہ مرکبات سے حیاتیاتی سالمے بنانے کے ان گنت طریقے دریافت کر لیے – ایسا محسوس ہوتا تھا کہ زندگی کے آغاز کا پر اسرار مسئلہ حل ہونے ہی والا ہے – لیکن مزید تحقیق سے یہ دریافت ہوا کہ زندگی سائنس دانوں کے اندازے سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے – زندہ خلیات محض کیمیائی مرکبات کے تھیلے ہی نہیں ہیں بلکہ انتہائی پیچیدہ کیمیائی مشینیں ہیں – اچانک ایسا محسوس ہونے لگا کہ خلیوں کو مصنوعی طور پر بنانا سائنس دانوں کے اندازے سے کہیں زیادہ مشکل ہوگا
کرہ ارض پر حیات کے آغاز کے اسرار
1950 کی دھائی تک سائنسدان اس دیرینہ مفروضے سے بڑی حد تک انحراف کر چکے تھے کہ حیات مافوق الفطرت ہستیوں کی ودیعت کردہ ایک نعمت ہے اور اس کی بجائے وہ اس امکان پرانتہائی سنجیدگی کے ساتھ تحقیق کرنے میں کوشاں تھے کہ حیات کرہ ارض پر خود رو اور قدرتی عمل کے ذریعے ظہور پزیر ہوئی ہے - اس امکانی نظریے کو ملر کے عملی تجربات سے مزید تقویت ملی.
ایک طرف ملر زندگی کے مادہ کو آغاز سے بنانے کی کوشش میں سرگرداں تھے تو دوسری طرف دیگر سائنسدان جینز کی ماھیت معلوم کرنے کی جستجو میں مصروف تھے
اس دور میں کئی حیاتیاتی سالمات معلوم تھے مثال کے طور پر شکر ،لحمیات ،چکنائی اور نیو کلیائی ترشے جیسا کہ ڈی این اے - یہ بات کہ ڈی این اے ہمارے خلیات کے جینز بردار سالمے ہیں آج کے دور میں ایک معمول کا علم سمجھی جاتی ہے مگر 1950 کی دھائی میں یہ بات حیاتیاتی ماہرین کے لئے ایک حیرت ا نگیز انکشاف سے کم نہ تھی - لحمیات اپنی ساخت میں پیچیدہ ہوتے ہیں، سائنسدانوں کا خیال تھا کہ یہ لحمیات ہی دراصل جینز ہوتی ہیں .
1952 میں وا شنگٹن کے کارنیگی انسٹیٹیوٹ کے الفریڈ ہرشے اور مارتھا چیز نے یہ مفروضہ غلط ثابت کر دیا - انہوں نے وائرسز کا مطا لعہ کیا - وائرسز صرف ڈی این اے اور لحمیات پر مشتمل ہوتے ہیں - تولید کے لئے ان کو کسی بیکٹریا سے اتصال کرنا ہوتا ہے - انہوں نے دریافت کیا کہ اس اتصال کے دوران صرف ڈی این اے بیکٹریا کے خلیہ میں داخل ہوتا ہے لحمیات باہر ہی رہ جاتی ہیں جس سے یہ بات واضح ہو کر سامنے آ گئی کہ دراصل ڈی این اے ہی موروثی مادہ ہے لحمیات نہیں .
اس دریافت سے ڈی این اے کی ساخت معلوم کرنے کا ایک سلسلہ انتہائی شد و مد سے شروع ہو گیا اور اگلے برس کیمبرج یونیورسٹی کے فرانسس کرک، جیمز واٹسن اور کسی قدر کم اعتراف شدہ روزلنڈ فرینکلن کو اس میں کامیابی نصیب ہوئی - اسے بیسویں صدی کی عظیم ترین سائنسی دریافتوں میں سے ایک قرار دیا گیا - خلیات کے اندر پائے جانے والے اس سالمے کی غیر معمولی پیچیدگی اور اہمیت نے مآخذ زندگی کی تحقیق کو ایک نئی جہت عطا کی
کرک اور واٹسن نے یہ دریافت کیا کہ ڈی این اے ایک دو پایۂ پیچ دار سیڑھی کی مانند ہے سیڑھی کا ہر پایۂ جس سالمے سے بنا ہے اس کو نیو کلیو ٹا ئیڈ کہتے ہیں - اس ساخت کی دریافت سے یہ امر آشکار ہوا کہ خلیات ڈی این اے کی نقول تیار کرکے انہیں اگلی نسلوں میں منتقل کرتے ہیں
بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اس دو پایۂ پیچ دار سیڑھی کو ایک زپ کی طرح کھولا جا سکتا ہے جس سے جینیاتی رموز ظاہر ہو تے ہیں جو چار جینیاتی بیسز کے سلسلے پر مشتمل ہوتے ہیں - یہ اس پیچدار سیڑھی کاپائیدان بناتے ہیں - سیڑھی کا ایک پایۂ کا ٹکڑا اور اس سے جڑی نیوکلیائی بیسز ایک سانچے کی طرح ڈی این اے کی نقل تیار کرنے کے کام آتا ہے
اسی طریق کار کے تحت حیات کے آغاز سے لے کر موجودہ دور تک، جینز والدین سے ان کی اولاد میں منتقل ہوتی چلی آ رہی ہیں - آپ کی جینز ایک جدِ امجد بیکٹریا سے نسل در نسل منتقل ہوتی ہوئی آپ تک پہنچی ہے اور ہر مرحلے پر یہ اسی طریقے سے منقول و منتقل ہوئی تھی جیسا کہ کرک اور واٹسن نے دریافت کیا - کرک اور واٹسن کی یہ دریافت 1953 میں حیاتیات کے عالمی مستند جریدے دی نیچر میں شائع ہوئی – آنے والے برسوں میں حیاتیاتی کیمیا کے ماہرین اس جستجو میں رہےکہ ڈی این اے میں کیا معلومات محفوظ ہوتی ہیں اور خلیات اس معلومات کا کیا استعمال کرتے ہیں - پہلی مرتبہ حیات کے ان دقیق ترین سربستہ رازوں سے پردہ اٹھا یا جا رہا تھا
پھر سائنسدانوں پر یہ آشکار ہوا کہ در اصل ڈی این اے ایک ہی فعل انجام دیتا ہے اور وہ یہ کہ یہ خلیات کو لحمیات یعنی پروٹینز بنانے کی ہدایت جاری کرتا ہے - یہ لحمیاتی سالمے خلیات کے لازمی افعال سرانجام دینے پر مامور ہوتے ہیں - ان لحمیاتی سالموں کے بغیر آپ خوراک ہضم نہیں کر سکتے، آپ کا دل دھڑک نہیں سکتا حتیٰ کہ آپ سانس بھی نہیں لے سکتے
مگر ڈی این اے سے لحمیات بنانے کا یہ عمل بے حد دقیق اور پیچیدہ ثابت ہوا - مآخذ زندگی پر کام کرنے والے سائنسدانوں کے لئے یہ مسئلہ درد سر ثابت ہوا کیونکہ ایسی پیچیدہ شے کے آغاز کی وضاحت پیش کرنا آسان نہیں تھا
لحمیات سلسلہ وار مخصوص ترتیب میں جڑے اما ئینو ایسڈ کی زنجیر کا نام ہے - اما ئینو ایسڈکی یہ زنجیر ان لحمیات کی سہ جہتی ساخت کا تعین کرتی ہے اور اس سہ جہتی ساخت سے لحمیات کے فعل کا تعین ہوتا ہے - یہ تمام معلومات ڈی این اے میں بیسز کی سلسلہ وار ترتیب میں مضمر ہوتی ہے چناچہ جب خلیے کو مخصوص لحمیات درکار ہوتی ہے تو وہ ڈی این اے میں موجود متعلقہ جینز سے اما ئینو ایسڈ کی سلسلہ وار ترتیب کی معلومات حاصل کر لیتا ہے - ڈی این اے ایک قیمتی اور طویل سالمہ ہے جو خلیات میں ایک طے شدہ حالت میں پایا جاتا ہے اسی لئے ڈی این اے پر کندہ معلومات پہلے آر این اے میں نقل ہوتی ہیں - اگر ڈی این اے کی مثال ایک لا ئیبریری کی ہے تو آر این اے کاغذ کا وہ ٹکڑا ہے جس پر آپ کتاب میں سے مطلوبہ پیرایہ دیکھ کر نقل کرتے ہیں - آر این ے سیڑھی کے ایک پائے اور اس سے جڑے پائیدان سے مشابہ ہوتا ہے
آر این اے پر منقول معلومات سے انجام کار لحمیات بنانے کا عمل ایک بے حد صریح سالمے رائبوسوم میں عمل میں آتا ہے - یہ عمل ہر زندہ خلیے میں وقوع پزیر ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ سادہ ترین خلیے بیکٹریا میں بھی! اور یہ زندگی کے قائم رہنے کے لئے اسی طرز کا لازم فعل ہےجیسا کہ کھانا اور سانس لینا - مآخذ زندگی کی پیش کی جانے والی کسی بھی توضیح کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ ڈی این اے آر این اے اور رائبوسوم پر مشتمل اس پیچیدہ مثلث کا وجود میں آکر فعال ہونا کیونکر ممکن ہوا
اچانک آوپا رن اور ھلڈین کا تصور بیحد سادہ اور کم قابل قبول لگنے لگا اور ملر کا تجربہ بھی کم مستند. جو در ا صل تخلیق زندگی کے سوال کا حتمی جواب ہونے کی بجانے ایک طویل سفر کا پہلا قدم ثابت ہوا
ڈی این اے آر این اے بناتا ہے اور آر این اے لحمیات اور یہ عمل سب ایک لپڈ کے تھیلے میں ملفوف ہوتا ہے - آپ یہ سب دیکھ کر یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ایسے کسی نامیاتی مرکب کی دریافت جو یہ سب یک بیک بنا دے بظاہر ایک انتہائی محال امر نظر آتا ہے
لیزلی اورگل وہ پہلا شخص تھا جس نے اس معمے کا حل تلاش کرنا شروع کیا اس نے پہلے اس پیچیدہ مسئلے کو سادہ حصوں میں تقسیم کیا - اس نے تجویز کیا کہ حیات کے ابتدائی خلیات میں ڈی این اے اور لحمیات موجو د ہی نہیں تھے بلکہ یہ صرف آر این اے پر مشتمل تھے - اس تصور کے قابل عمل ہونے کے لئے یہ لازمی تھا کہ آر این اے سالمے انتہائی متنوع ہوتے اور اپنی نقول تیار کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوتے - مآخذ حیات کا آر این اے نظریہ بے حد موثر ثابت ہوا جس سے سائنسی حلقوں میں ایسی بحث کا آغاز ہوا جو آج تک جاری ہے - اس نظریے کے ذریعے اورگل یہ تجویز کر رہے تھےکہ حیات کا سب سے اہم پہلو افزائش نسل ہے جو اس کے ہر دوسرے فعل سے مقدم ہے - گویا حیات کا سب سے پہلا وجود میں آنے والا فعل افزائش نسل تھا - دوسرے لفظوں میں وہ نہ صرف حیات کے آغاز کی وضاحت پیش کر رہے تھے بلکہ حیات کی تعریف بیان کر رہے تھے - کئی حیاتیاتی ماہرین اورگل کے اس " پہلے افزائش نسل " کے نظریے سے متفق نظر آئے - ڈارون کے نظریہ ارتقا میں بھی افزائش نسل کو مرکزی حیثیت حاصل ہے - کسی جاندار کی کامیابی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ وہ اپنےبعد اپنی اولاد چھوڑ جاتا ہے یا نہیں
لیکن حیات کے دوسرے افعال بھی ہوتے ہیں جو اتنے ہی اہم قرار دیے جا سکتے ہیں - سب سے واضح مثال کے طور پر نظام ارتحال یعنی میٹابولزم (metabolism) کو لیجیے : اپنے ماحول سے توانائی حاصل کرنے کے بعد اسے اپنی ز ندگی کو برقرار رکھنے کے لئے استعمال کرنے کی صلاحیت کو ارتحال کہتے ہیں - کئی حیاتیاتی ماہرین کے نزدیک ارتحال ہی زندگی کا بنیادی فعل ہے جس کے بغیر زندگی ممکن نہیں - افزائش نسل تو زندگی کے برقرار رہنے کے بعد ہی ممکن ہو سکتی ہے
1960 کے بعد سائنسدان دو گروہوں میں بٹ گئے ایک گروہ ارتحال کو اور دوسرا افزائش کو مقدم سمجھتا
اسی دوران ایک گروہ بھی سامنے آیا جن کا کہنا تھاکہ سب سے پہلے ایک احاطہ، ظرف یاحد کا ہونا ضروری ہے جس کے اندر یہ تمام افعال انجام پا سکیں ان کو محیط کیے بغیر یہ افعال بے معنی ہو کر رہ جائیں گے - موجودہ دور تک ان تینوں نظریات کے حامیوں کے درمیان بحث جاری ہے
اورگل کی مرہون منت " آر این اے نظریے" کو کافی مقبولیت حاصل ہوئی پھر 1980 میں ایک اور حیرت انگیز دریافت نے اس نظریے کو مزید تقویت بخشی
خود سے تقسیم ہونے والے پہلے مالیکیول کی تلاش
1960 کی دہائی کے بعد زندگی کی ابتدا کی کھوج کرنے والے سائنس دان تین گروہوں میں بٹ گیئے - کچھ کا خیال تھا کہ زندگی کی ابتدا سادہ خلیوں سے ہوئی - دوسروں کا خیال تھا کہ زندگی کی ابتدا کا پہلا مرحلہ توانائی بنانا تھا جبکہ ایک اور گروہ کے خیال میں زندگی کی ابتدا ڈی این اے اور اسکی تقسیم کے عمل سے ہوئی - ان میں سے آخر الذکر گروہ نے یہ سمجھنےکی کوشش شروع کی کہ پہلا خود سے تقسیم ہونے والا مالیکیول کس ساخت کا رہا ہوگا - اس ضمن میں آر این اے ایک اہم امیدوار تھا
1960 کی دہائی میں ہی کچھ سائنس دانوں کا خیال تھا کہ آر این اے زندگی کا ماخذ ہے - خصوصاً آر این اے کچھ ایسے تعاملات کر سکتا ہے جو ڈی این اے نہیں کر سکتا - چونکہ ڈی این اے (جو کہ دو کڑیوں پر مشتمل ہے) کے برعکس یہ زنجیر کی ایک ہی کڑی پر مشتمل ہے اسلیے یہ مختلف شکلوں میں تہہ ہو سکتا ہے
آر این اے کی ایک کڑی اور اسکا تہہ ہوجانا وہ خصوصیات ہیں جو کہ پروٹینز میں بھی موجود ہیں - انہی کی بدولت پروٹینز (جو کہ امینو ایسڈز سے بنتی ہیں) بہت سے حیرت انگیز کام کر سکتی ہیں جن میں سے ایک کیمیائی تعاملات کی رفتار کو بڑھانا ہے - ایسی پروٹینز کو ہم ''خامرہ'' یا enzyme کہتے ہیں
ایسے بہت سے خامرے ہماری آنتوں میں بھی پاے جاتے ہیں جہاں وہ خوراک کے پیچیدہ مالیکیولز کو سادہ مالیکیولز میں توڑتے ہیں - ان خامروں کے بغیر ہمارا زندہ رہنا ناممکن ہے
لزلی آرگل اور فرانسس کرک کو شبہ تھا کہ چونکہ آر این اے پروٹین کی طرح تہہ ہو سکتا ہے اس لیے یہ ممکن ہے کہ یہ خامرے بھی بنا سکے - اگر یہ شبہ درست ثابت ہوا تو آر این اے زندگی کی ابتدا کا پہلا مالیکیول ہو سکتا ہے جو ڈی این اے کی طرح انفارمیشن بھی ذخیرہ کر سکے اور خامروں کی طرح کیمیائی تعاملات کو بھی چلا سکے
اگرچہ یہ ایک عمدہ خیال تھا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ پوری ایک دہائی تک اس کے حق میں کوئی ثبوت نہیں مل رہا تھا
تھامس کیچ امریکی ریاست آئیووا میں پیدا ہوئے - بچپن میں آپ چٹانوں اور نمکیات میں دلچسپی رکھتے تھے - جب آپ جونیئر سکول میں پہنچے تو آپ مقامی ماہرین ارضیات سے نمکیات اور انکے ارضیاتی نمونوں کے بارے میں جاننے کے مشتاق تھے
لیکن بڑے ہو کر آپ حیاتیاتی کیمیا کے ماہر بنے جس میں آر این اےپر تحقیق آپ کا خاص موضوع تھی
1980کی دہائی کے اوائل میں ڈاکٹر کیچ اور معاون سائنس دان کولوراڈو یونیورسٹی میں ایک یک خلوی جاندار ''ٹیٹرا ہائمنا تھرمو فلا '' پر تحقیق کر رہے تھے . کیچ نے مشاہدہ کیا کہ کبھی کبھار اس جاندار کا آر این اے یوں باقی حصوں سے الگ ہو جاتا تھا جیسے کسی نے بڑی نفاست سے قینچی سے کاٹ دیا ہو
جب کیچ کی ٹیم نے خلیے میں سے ایک ایک کر کے ایسے تمام خامرے اور مالیکیول نکال دیے جو آر این اے کو کاٹنے کا کام کر سکتے تھے تب بھی آر این اے کا ایک حصہ خود سے کٹتا رہا - انہوں نے دنیا کا پہلا آر این اے خامرہ دریافت کر لیا تھا جو خود کو باقی کے آر این اے سے کاٹ کر علیحدہ کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا - کیچ نے اپنی دریافت کو 1982 میں ایک سائنسی جریدے میں چھاپا - اگلے ہی برس سائنس دانوں کی ایک اور ٹیم نے ایسا ہی ایک اور آر این اے خامرہ دریافت کر لیا جس کو اب ''رائبوزائم '' کا نام دیا گیا
اتنی قلیل مدت میں دو رائبوزائمز کی دریافت سے شنید پڑتی تھی کہ خلیوں میں ایسے اور مالیکیول بھی موجود ہوں گے - یہ دریافتیں اس خیال کو تقویت دے رہی تھیں کہ زندگی کی ابتداء آر این اے سے ہوئی
اس مفروضے کو نام ہارورڈ یونیورسٹی کے والٹر گلبرٹ نے دیا - گلبرٹ پیشے کے لحاظ سے ماہر طبیعات تھے لیکن مالیکیولر حیاتیات میں دلچسپی رکھتے تھے - آپ انسانی ڈی این اے کی نقشہ کشی کا خیال پیش کرنے والی اولین آوازوں میں سے بھی تھے
1986میں سائنسی جریدے ''نیچر'' میں لکھے ایک مضمون میں آپ نے خیال پیش کیا کہ زندگی کی ابتدا ''آر این اے ورلڈ '' سے ہوئی
گلبرٹ کے خیال میں ارتقاء کے ابتدائی مراحل میں آر این اے مالیکیولز نے کیمیائی تعاملات کے ذریعے خود کو ایک ترتیب سے جوڑنا سیکھا - آر این اے کے مختلف ٹکڑوں کی کاٹ چھانٹ سے زیادہ بڑے اور پیچیدہ مالیکیول بنتے چلے گئے - بالاخر یہ پیچیدہ مالیکیول پروٹینز اور خامروں کی شکل اختیار کر گئے جو اتنے کامیاب ثابت ہوئے کہ انہوں نے آر این اے مالیکیولز کے ساتھ تعاملات کر کے ابتدائی زندگی کی بنیاد رکھی
آر این اے ورلڈ پیچیدہ زندگی کی ابتدا کی ایک بہت نفیس توجیہ ہے جو درجنوں پیچیدہ مالیکیولوں کی بجائے ایک ہی مالیکیول کا تصور پیش کرتی ہے جو بہت سے مختلف کام سرانجام دے سکتا ہے
2000 میں ان خیال کو مضبوط ثبوتوں کی مدد سے مزید تقویت ملی
تھامس سٹیٹز نے تیس برس تک زندہ اشیا میں موجود مالیکیولز کی ساخت کا مشاہدہ کیا تھا - 1990 میں انہوں نے اپنی توجہ اپنی زندگی کے سب سے بڑے چیلنج یعنی رائبو سوم کی ساخت کو سمجھنے پر مرکوز کی - ہر زندہ خلیے میں رائبوسوم موجود ہوتا ہے - یہ خلوی عضو آر این اے سے معلومات لے کر انکی روشنی میں امینو ایسڈز کی لڑی بناتا ہے جسے ہم پروٹین کہتے ہیں - ہمارے بدن کے زیادہ تر حصے رائبوسوم کی وجہ سے ہی تشکیل پاتے ہیں
اس وقت تک سائنس دانوں کو یہ معلوم تھا کہ رائبوسوم میں آر این اے موجود ہوتا ہے لیکن2000 میں سٹیٹز نے رائبوسوم کا ایک تفصیلی عکس شائع کیا جس میں دکھایا گیا کہ آر این اے رائبوسوم کے کیمیائی تعاملات کو کنٹرول کرنے والے حصے میں موجود ہوتا ہے
یہ ایک انتہائی اہم دریافت تھی کیونکہ رائبوسوم ارتقائی طور پر انتہائی قدیم اور زندگی برقرار رکھنے کیلیےایک بنیادی مالیکیول ہے - آر این اے کو رائبوسوم کے بنیادی جز کے طور پر دریافت کرنے سے ''آر این اے ورلڈ '' کےمفروضے کو مزید تقویت ملی
آر این اے ورلڈ مفروضے کے حامی اس دریافت پر خوشیاں منا رہے تھے اور ڈاکٹر سٹیٹز کو انکی دریافت پر 2009 میں نوبل پرائز بھی ملا - لیکن اسکے بعد سے اس مفروضے پر شبہات اٹھنے شروع ہوگیے – ان میں سے دو اعتراض یہ تھے کہ کیا واقعی آر این اے اپنے تمام کیمیائی تعاملات خود سے سرانجام دے سکتا ہے؟ اور کیا ابتدائی زمین میں یہ مالیکیول بن سکتا تھا؟
گلبرٹ کے مفروضے کو تیس برس ہونے کو آئے - ہمارے پاس اس بارے میں ابھی تک ایسے ٹھوس شواہد موجود نہیں کہ آر این اے اپنے تمام کیمیائی تعاملات از خود انجام دے سکتا ہے - یہ ایک انتہائی ہر فن مولا قسم کا مالیکیول ہے لیکن شاید اتنا بھی نہیں – اس مفروضے پر سب سے اہم اعتراض یہ تھا کہ اگر زندگی کی ابتدا واقعی آر این اے سے ہوئی تو آر این اے کو خود سے تقسیم ہونے کے قابل ہونا چاہیے
لیکن ابھی تک ہمیں کوئی ایسا آر این اے یا ڈی این اے نہیں ملا جو خود سے تقسیم ہو سکے - اس عمل کے لیے انہیں بہت سے خامرے اور مالیکیولز چاہیئں جو کہ آر این اے کی کاپی بنا سکیں- چنانچہ ١٩٨٠ کی دہائی کے آخر میں کچھ ماہرین حیاتیات نے ایک نیا کام شروع کیا - انہوں نے ایک ایسے آر این اے مالیکیول کی تعمیر شروع کی جو خود سے تقسیم ہو سکے
ایسے لوگوں میں ہارورڈ میڈیکل سکول کے جیک زوسٹاک ایک نمایاں نام ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اس کام کا بیڑا اٹھایا - چھوٹی عمر میں آپ کیمیا میں اتنی دلچسپی رکھتے تھے کہ آپ نے گھر کے تہہ خانے میں ایک لیبارٹری بنا رکھی تھی
1980کی دہائی کی ابتدا میں زوسٹاک نے پہلی مرتبہ دریافت کیا کہ ہماری جینز ہمیں بڑھاپے سے کس طرح بچاتی ہیں - اس ابتدائی تحقیق کے نتیجے میں بالاخر آپ کو 2009 میں طب اور فزیالوجی کا مشترکہ نوبل پرائز ملا - لیکن جلد ہی آپ کی توجہ کیچ کے آر این اے خامروں پر مرکوز ہوگئی - ''میرے خیال میں یہ انتہائی دلچسپ تحقیق تھی اور اصولا ایسا ممکن ہے کہ آر این اے خود سے اپنی نقلیں بنا سکے"
1980میں کیچ نے ایک ایسا آر این اے خامرہ دریافت کر لیا جو دس کڑیوں (نیوکلیوٹائیدز) پر مشتمل اپنا چھوٹا سا آر این اے بنا سکتا تھا - زوسٹاک اپنی لیبارٹری میں مزید آر این اے خامرے بنا کر اس دریافت میں بہتری لانا چاہتے تھے - ان کی ٹیم نے مختلف بے ترتیب کڑیوں کے آر این اے مالیکیولز بنائے تا کہ وہ یہ جان سکیں کہ ان میں سے کونسی ترتیب کیمیائی تعاملات کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے - پھر انہوں نے ایسی ترتیب کو چن کر اور نفیس بنا کر ان پر دوبارہ تجربات کیے
ایسے دس مختلف مراحل کے بعد زوسٹاک کی ٹیم ایک ایسا آر این اے خامرہ بنانے مین کامیاب ہوگئی جو کیمیائی تعاملات کو فطری رفتار سے ستر لاکھ گنا زیادہ تیز رفتار پر چلا سکتا تھا - یوں انہوں نے یہ ثابت کیا کہ آر این اے خامرے بے حد طاقتور ہوسکتے ہیں - لیکن اتنا طاقتور خامرہ بھی اپنی کاپی نہیں بنا سکتا تھا - یوں لگتا تھا جیسے زوسٹاک کی ٹیم کو کسی بڑی رکاوٹ کا سامنا ہے
اس ضمن میں اگلی بڑی پیش رفت 2001 میں زوسٹاک کے سابقہ طالبعلم اور کیمبرج میں میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ڈیوڈ بارٹل نے کر کے دکھائی - بارٹل نے ''آر 18''کے نام سے ایک آر این اے خامرہ بنایا جو ایک مقررہ پیٹرن کے مطابق آر این اے زنجیر کے سرے پر کڑیاں (نیوکلیوٹائیدز) جوڑ سکتا تھا - دوسرے لفظوں میں یہ ایک منظم طریقے سے آر این اے کی زنجیر بنا سکتا تھا
اگرچہ یہ مالیکیول اپنی نقل نہیں بنا سکتا تھا لیکن اس کی خصوصیات اس مطلوبہ مالیکیول سے ملتی جلتی تھیں جو خود اپنی نقل تیار کر سکے - ''آر 18'' مالیکیول کی زنجیر میں 189 نیوکلیوٹائیدز جڑے ہوئے تھے جن میں یہ ایک مخصوص نظم سے 11 مزید نیوکلیوٹائیدز (یعنی کل لمبائی کا 6 فیصد ) خود بخود جڑ سکتے تھے - اس سے یہ امید بندھی کے مزید معمولی تبدیلیوں کی بدولت شائد یہ اپنی 189 نیوکلیوٹائیدز پر مبنی مکمل کاپی بھی بنا لے
سب سے اہم کوشش 2011 میں کیمبرج یونیورسٹی میں مالیکیولر بائیولوجی کی لیبارٹری میں فلپس ہولیگر نے کی - ان کی ٹیم نے نظر ثانی شدہ آر 18 بنایا جس کو انہوں نے ''ٹی سی 19 زی '' کا نام دیا - یہ اپنے 95 نیوکلیوٹائیڈز کی نقل بنا سکتا تھا جو کہ اسکی کل لمبائی کا 48 فیصد اور آر 18 سے کہیں زیادہ ہے - لیکن یہ بھی 100 فیصد نہیں تھا
ایک متبادل کوشش کیلی فورنیا کے سکرپس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے جیرالڈ جوائس نے کی - 2009 میں انہوں نے ایک ایسا آر این اے خامرہ بنایا جو کہ بلواسطہ طور پر اپنی نقل بنا سکتا تھا - یہ خامرہ آر این اے کے دو چھوٹے ٹکڑوں کو جوڑ کر ایک علیحدہ خامرہ بناتا تھا جو آر این اے کے دو مزید ٹکڑوں کو جوڑ کر مطلوبہ خامرہ بنا سکتا تھا
خام مواد کی موجودگی میں یہ کیمیائی تعامل لامتناہی مدت تک جاری رہ سکتا تھا لیکن اس میں خامرہ صرف درست آر این اے کڑی کی موجودگی میں ہی کام کر سکتا تھا جو کہ جوائس اور لنکن کو الگ سے بنانی پڑتی تھی
جو سائنس دان آر این اے ورلڈ مفروضےکو تسلیم نہیں کرتے ان کی نظر میں اپنی کاپی بنا سکنے والے آر این اے کی غیر موجودگی اس مفروضے کے لیے موت کا پیغام ہے- یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آر این اے زندگان کی ابتدا کی صلاحیت نہیں رکھتا
اس مفروضے کی مزید خامی یوں اجاگر ہوئی کہ کیمیا دان لیبارٹری میں آر این اے کو خام مواد سے نہیں بنا پائے –اگرچہ ڈی این اے کی نسبتآر این اے ایک سادہ مالیکیول ہے لیکن اسکو شروع سے بنانا انتہائی مشکل ثابت ہوا ہے - اس میں بنیادی مسئلہ نیوکلیوٹائید کے دو بنیادی اجزاء ''شوگر'' اور ''بیس'' کا ہے - ان دونوں کو علیحدہ علیحدہ بنانا تو ممکن ہے لیکن ان کو جوڑنا انتہائی مشکل ثابت ہو رہا ہے
اس خامی کو 1990 کی دہائی کے اوائل میں ہی بھانپ لیا گیا تھا اور اسی وجہ سے بہت سے ماہرین حیاتیات نے کہنا شروع کر دیا تھا کہ 'آر این اے ورلڈ ' مفروضہ درست نہیں ہو سکتا - اسکی بجائے ممکن ہے کہ ابتدائی زمین میں کوئی ایسا مالیکیول موجود تھا جو آر این اے سے بھی سادہ تھا اور اس وقت موجود خام مال سے خود بخود بن سکتا تھا – ایسا مالیکیول تقسیم ہو کر اپنی کاپیاں بنا سکتا تھا اور اس نے بعد میں آر این اے اور ڈی این اے جیسے پیچیدہ مالیکیولز کو جنم دیا
ڈنمارک کی کوپن ہیگن یونیورسٹی کے پیٹر نیلسن نے 1991 میں ایک ایسے ہی ممکنہ مالیکیول کو پیش کیا - یہ دراصل ڈی این اے مالیکیول کی ایک نظر ثانی شدہ شکل تھی - نیلسن نے مالیکیول میں ''بیسز '' کو اپنی فطری شکل میں رکھا یعنی ''اے - ٹی - سی - جی'' لیکن مالیکیول کی ریڑھ کی ہڈی کیلیے شوگر کی جگہ ''پولی امائیڈ'' کا انتخاب کیا - انہوں نے اس مالیکیول کو ''پولی امائیڈ نیوکلک ایسڈ'' یا ''پی این اے'' کا نام دیا - اب اس مالیکیول کو پیپٹائڈ نیوکلک ایسڈ کہا جاتا ہے
پی این اے کو اب تک فطری طور کہیں نہیں پر نہیں پایا گیا لیکن یہ ڈی این اے کی طرح کی خصوصیات رکھتا ہے - اسکی ایک کڑی ڈی این اے کی کڑی کی جگہ بھی لے سکتی ہے اور یہ ڈی این اے کی طرح کنڈلی بنا کر دوہری سیڑھی کی شکل بھی اختیار کر سکتا ہے
اسٹینلے ملر اس سے بہت متاثر ہوئے - وہ آر این اے ورلڈ مفروضے کے بارے میں شبہات کا شکار تھے اس لیے انہیں محسوس ہوا کہ اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ پی این اے زمین پر پہلا جینیاتی مالیکیول ہو
سنہ2000 میں انہوں نے اس بارے میں ٹھوس شواہد مہیا کیے - اس وقت وہ ستر برس کے ہو چکے تھے اور کچھ عرصۂ قبل ہی فالج کا شکار ہوے تھے جس نے انھیں بعد میں نرسنگ ہوم تک محدود کر دیا. انہوں نے اپنے کلاسک تجربے کو دہرایا (جس کا ذکر باب اول میں ہو چکا ہے ) لیکن اس مرتبہ انہوں نے میتھین - نائٹروجن - امونیا اور پانی کا استعمال کیا اور ان سے پی این اے کی ریڑھ کی ہڈی بنا کر دکھائی
اس سے اس تصور کو تقویت ملتی ہے کہ ابتدائی زمین میں آر این اے کی نسبت پی این اے کے بننے کے امکانات زیادہ ہیں - کچھ دوسرے کیمیا دانوں نے اس ضمن میں کچھ دوسرے نیوکلک ایسڈز بحیثیت امیدوار پیش کیے
سن 2000 میں البرٹ ایشن موسر نے ''تھریوز نیوکلک ایسڈ'' (ٹی این اے) بنایا - یہ بنیادی طور پر ڈی این اے کی طرح کا مالیکیول ہےلیکن اسکی ریڑھ کی ہڈی میں ایک مختلف شوگر جڑی ہوئی ہے- ٹی این اے کی کڑیاں بھی لپٹ کر دوہری سیڑھی بنا سکتی ہیں اور آر این اے سے انفارمیشن ٹی این اے میں اور ٹی این اے سے آر این اے میں کاپی کر سکتی ہیں - اس کے علاوہ ٹی این اے تہہ ہو کر پیچیدہ اشکال بھی بنا سکتا ہے اور پروٹین سے بھی جڑ سکتا ہے - اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آر این اے کی طرح ٹی این اے بھی بطور خامرہ کام کر سکتا ہے
اسی طرح 2005 میں ایرک میگرز نے گلیکول نیوکلک ایسڈ بنایا جو کہ دوہری اشکال بنا سکتا ہے
ان میں سے ہر مالیکیول کے حامی موجود ہیں– کم از کم ہر مالیکیول کو بنانے والے اپنے ایجاد کردہ مالیکیول کی حمایت ضرور کرتے ہیں - لیکن فطرت میں ان کے وجود کا کہیں کوئی ثبوت نہیں - چنانچہ اگر ابتدائی زندگی نے ان کو استعمال بھی کیا تو اس نے کسی مرحلے پر ان کو ترک کر کے آر این اے اور ڈی این اے کا استعمال شروع کر دیا ہوگا
ان سب دریافتوں کا نتیجہ نکلا کہ 2000 کی دہائی کے درمیان میں آر این اے ورلڈ مفروضے کے حامی تذبذب کا شکار تھے-
ایک طرف تو آر این اے کے خامروں کا خوش آئند وجود تھا جن میں رائبوسم بھی شامل ہیں –دوسری طرف اپنی کاپی بنا سکنے والا آر این اے کبھی نہیں ملا اور نہ ہی یہ معلوم ہو سکا کہ ابتدائی زمین میں آر این اے خود سے کیسے بنا - متبادل نیوکلک ایسڈز ان میں سے بعدالذکر الجھن کو تو شاید حل کر دیں لیکن ابھی تک ایسا کوئی ثبوت نہیں مل پایا جس سے ظاہر ہو کہ یہ ابتدائے آفرینش میں فطری طور پر پائے جاتے تھے - یہ ایک بہت بڑا مسئلہ تھا
فطری نتیجہ یہ اخذ ہوتا تھا کہ آر این اے ورلڈ کا مفروضہ اپنی نفاست کے باوجود درست نہیں ہو سکتا
اسی دوران 1980 کی دہائی سے ایک حریف مفروضہ پروان چڑھ رہا تھا - اس کے حامیوں کے خیال میں زندگی کی ابتدا آر این اے - ڈی این اے یا کسی جینیاتی مواد سے نہیں ہوئی بلکہ زندگی توانائی کو ذخیرہ کرنے کی خصلت سے شروع ہوئی
 

سید عمران

محفلین
زمین کی سطح پگھلی ہوئی چٹانوں پر مشتمل تھی جس میں ہزاروں قسم کے کیمیائی مرکبات شامل تھے بشمول کاربن کے مرکبات کے – جیسے جیسے سطحِ زمین کا درجہ حرارت کم ہوتا گیا ویسے ویسے ہوا میں موجود آبی بخارات بھی ٹھنڈے ہونے لگے
ہوا میں اتنی مقدار میں پانی کہاں سے آیا کہ سات عظیم الشان سمندر بن گئے؟؟؟
طالب علمانہ سوال!!!
 

زہیر عبّاس

محفلین
ہوا میں اتنی مقدار میں پانی کہاں سے آیا کہ سات عظیم الشان سمندر بن گئے؟؟؟
طالب علمانہ سوال!!!
آپرین نے یہ تصور کرنے کی کوشش کی کہ زمین کے آغاز کے وقت یہاں پر کیا حالات تھے –
اگرچہ اس طرح سمندر بننے کا مفروضہ غلط ہوسکتا ہے تاہم اہم بات سمندر کے بننے کے مفروضے کی نہیں پانی اور اس میں کاربن کے مرکبات بننے کی ہے۔ چاہئے سمندر شہابیوں سے بنے ہوں یا دم دار تاروں کی بارش سے۔ اہم بات زمین پر پانی اور اس میں بننے والے مرکبات کی ہے۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
کیا واقعی ان دونوں چیزوں سے اتنا پانی بن سکتا ہے؟؟؟

زمین کی خلقت کے عنوان سے ڈسکوری چینل کے ایک پروگرام کا ترجمہ کیا تھا۔ اس میں زمین پر سمندروں کے بننے کا ذکر کچھ یوں ہے:

زمین برف اور بخارات سے ڈھکنے کے بجائے بہتے ہوئے مائع پانی سے ڈھکی ہوئی ہے۔مگر یہ بہتا ہوا پانی ضرور کہیں اور سے آیا ہے۔ نوزائیدہ دنیا تو بہت ہی زیادہ خشک تھی۔ پانی حاصل کرنے کے لئے ہماری زمین کو دوبارہ سے مصیبت جھیلنی تھی۔

یہ اس زمانے کی بات ہی جب سورج کو روشن ہوئے صرف ٥٠ کروڑ سال ہی ہوئے تھے۔آج سے ٤ ارب سال پہلے اس زمین پر جس پر حضرت انسان کو قدم رکھنا تھا وہاں اس کے پڑوس میں تازہ تازہ چاند بنا تھا اوروہ خود ایک صحرائے بے آب کی مانند تھی۔فلکیات کی دنیا میں یہ خیال سب سے زیادہ حیرت انگیز ہے کہ جن عوامل کے تحت زمین وجود میں آئی تھی اس کے نتیجے میں زمین کو گرم اور خشک ہی پیدا ہونا تھا ۔ شروع میں یہاں پر پانی نہیں تھا۔ جیسے ہی سیارہ زمین وجود میں آئی تھی ویسے ہی سورج کی زبردست تپش نے پانی کو بخارات بنا کر اڑا دیا تھا۔ سورج سے دور درجہ حرارت کافی ٹھنڈا تھا لہٰذانظام شمسی کے بیرونی حصّے میں برف اور پانی دم دار ستاروں اور سیارچوں میں جمع تھا جبکہ سورج سے قریب نوزائیدہ دنیا خشک تھی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیا ہوا جس سے ایسی تبدیلی آگئی کہ اب ہماری دنیا میں ایسا حیرت انگیز اور شاندارمسلسل رواں دواں پانی کا چکر موجود ہے۔ غالب امکان یہ ہے کہ زمین پر پانی کہیں باہر سے ہی آیا تھا۔

اگر ہمیں ایک ایسا نظام شمسی چاہئے جہاں کافی سارا پانی موجود ہو تو اس کے لئے اس نظام میں موجود پانی کو باہری حصّے سے اندرونی حصّے کی طرف لانا ہوگا اور یہ کام دمدار ستاروں اور سیارچوں کی مدد سے ہی کیا جاسکتا ہے۔

دم دار تارے اور برفیلے سیارچوں میں پانی کی زبردست مقدار محفوظ تھی مگر وہ اس وقت نوزائیدہ زمین سے کروڑں میل دوری پر تھے ۔ اس وقت کچھ ایساواقعہ رونما ہواہوگا جس نے نظام شمسی اور زمین پر کافی کچھ تبدیل کردیاتھا۔ اس واقع میں سیارچوں اور دم دار تاروں کوکسی چیز نے پورے نظام شمسی میں اچھال دیا تھا۔ مشتری ، زحل،نیپچون اور یورینس نےمل کر نظام شمسی میں بھونچال مچا دیا تھا۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب نظام شمسی بہت زیادہ جوان تھا۔ لہٰذا جس طرح نوجوانی میں لڑکے لڑکیاں اپنی من مانی کرتے ہوئے ہلا گلا کرتے ہیں بالکل اسی طرح سے ان سیاروں نے بھی کیا۔

نوزائیدہ سیاروں کو اپنے مداروں میں ابھی پائیدار استحکام نہیں ملا تھا۔ ان کے بدلتے مداروں کی وجہ سے مشتری اور زحل ایک پیچیدہ سےعمل میں محو رقص ہوگئے تھے۔ جب بھی زحل سورج کے گرد ایک چکر پورا کرتا تو مشتری سورج کے گرد دو چکر مکمل کرتا تھا۔ لہٰذا وہ ہمیشہ ایک مخصوص جگہ پرپہنچ کر ایک دوسرے کے آگے پیچھے موجود ہوتے تھا۔ ہر دفہ قوّت ثقل انہیں ایک ہی سمت میں دھکیل دیتی تھی۔ پہلے انہوں نے اپنے مداروں کو اور پھر بعد میں پورے نظام شمسی کواتھل پتھل کردیا۔ پورا نظام درہم برہم ہوگیا ۔

سیاروں کی طوفان بدتمیزی شروع ہوچکی تھی۔ اس تمام افراتفری کے دوران نیپچون اور یورینس نے اپنے مدار ایک دوسرے سے بدل لئے تھے۔ زحل اور آگے کی طرف دوڑ پڑا۔ ان دیوہیکل سیاروں نے ارب ہا سیارچوں اور دم دار تاروں کو نئے مداروں میں دھکیل دیا ۔ جن میں سے کئی نے زمین کا رخ کرلیا تھا ۔

سیارچے اور دم دار تارے پورے نظام شمسی میں پھیل گئے جس میں سے کچھ زمین اور چاند سے جا ٹکرائے ۔

کونیاتی میزائلوں نے زمین پر بمباری شروع کردی تھی ۔

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ زمین کا ہر انچ حصّہ ان دمدار تاروں یا سیارچوں سے ہونے والے تصادموں کی زد میں آیا ہوگا۔ظاہر سی بات ہے کہ اس وقت زمین رہنے کی جگہ توبالکل نہیں ہوگی۔

یہ بمباری ایک ارب سال تک اس وقت تک چلی جب تک ان گیسی دیو سیاروں نے اپنے مداروں میں استحکام حاصل نہیں کرلیا تھا جس سے نظام شمسی میں بھی دوبارہ سکون ہوگیا تھا۔خود زمین پر بھی بنیادی تبدیلی رونما ہوگئی تھی ۔ ان دمدار ستاروں میں چٹانی پتھروں کے علاوہ جمع ہوا پانی برف کی صورت میں موجود تھا۔ ہمیں معلوم ہے کہ دم دار ستارے برف سے بنے ہوتے ہیں یہ برف کی گندی گیندوں کی مانند ہوتے ہیں جبکہ سیارچے بھی زمین پر برف اور پانی لانے کا سبب بنے ہیں۔ ہمارے بھرے ہوئے سمندر اسی کونیاتی طوفان کے مرہون منّت ہیں۔

جب آپ اگلی دفہ پانی پئیں تو یاد رکھیے گا کہ آپ دم دار ستارے یا سیارچے کا جوس پی رہے ہیں۔

مکمل مضمون کے لئے یہ ربط دیکھئے۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
دو متضاد باتیں لگ رہی ہیں!!!
میرے پیارے بھائی!
اگر آپ پورے جملے کو سیاق و سباق کے ساتھ پڑھیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ ایسا کوئی تضاد اس میں موجود نہیں ہے۔ سب سے پہلے یہ سمجھ لیجئے کہ زمین مختلف مراحل میں بنی ہے۔ ایسا نہیں تھا کہ زمین یکدم وجود میں آگئی۔ مرحلہ بہ مرحلہ بنی ہے۔ لنک میں دیا ہوا پورا مضمون ملاحظہ کیجئے تو بہتر طور پر سمجھ سکیں گے۔
شروع میں یہاں پانی نہیں تھا کا مطلب ہے کہ جب زمین چھوٹے سیارچوں کے تصادم سے بنی اور انتہائی گرم اور پگھلی ہوئی حالت میں تھی تو اس وقت یہاں پر سمندروں اور دریاؤں کی صورت میں پانی نہیں تھا البتہ زمین مختلف اجزاء سے مل کر بنی ہے۔ لہٰذا بنتے وقت اس میں پانی بھی موجود تھا۔ لیکن فضا کے نہ ہونے کی وجہ سے اس کے سطح پر موجود جو بھی پانی تھا وہ اڑ گیا تھا۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
بعد میں فضا خود بخود بن گئی اور پانی بھی دوبارہ آگیا؟؟؟
بھائی آپ مضمون مکمل پڑھیں گے تو آپ کو آپ کے سوالات کے جوابات مل جائیں گے۔
زمین کی فضا آتش فشاں کے پھٹنے سے نکلنی والی گیسوں سے بنی جو زمین کے بننے کے پہلے ارب برس تک زبردست انداز سے پھٹتے رہے۔
وہ پانی جس سے سمندر اور دریا بنے ہیں ان کے بارے میں پہلے ہی بتادیا گیا ہے کہ وہ دم دار ستاروں اور شہابیوں کے ذریعہ زمین پر آیا۔
 

سید عمران

محفلین
کائنات کے کھربوں سیاروں میں سے صرف ایک پر ہی اتنی منظم منصوبہ بندی کیوں نظر آتی ہے؟؟؟
کسی اور سیارے پر کیکر کا کانٹا بھی نہ اُگ سکا!!!
 

زہیر عبّاس

محفلین
ائنات کے کھربوں سیاروں میں سے صرف ایک پر ہی اتنی منظم منصوبہ بندی کیوں نظر آتی ہے؟؟؟
کسی اور سیارے پر کیکر کا کانٹا بھی نہ اُگ سکا!!!
نظام شمسی کے سیاروں کی حد تک تو بات ٹھیک ہے۔ باقی کھربوں سیاروں کا آپ کو کیسے معلوم کہ وہاں ایسا کچھ کیوں نہیں ہوا۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہوا میں اتنی مقدار میں پانی کہاں سے آیا کہ سات عظیم الشان سمندر بن گئے؟؟؟
کائنات کے کھربوں سیاروں میں سے صرف ایک پر ہی اتنی منظم منصوبہ بندی کیوں نظر آتی ہے؟؟؟
کونسی منصوبہ بندی؟ صرف ہمارے نظام شمسی کے اور بہت سے سیاروں اور چاندوں پر زمین سے کہیں زیادہ پانی موجود ہے۔
5b02dabc1ae6621d008b4830-1536-2049.jpg

اس لئے آپ سے بار بار کہا جا رہا ہے کہ برائے مہربانی سائنس پڑھیں۔ اور اسی کی زبان میں یہاں بات چیت کریں۔
 

فرقان احمد

محفلین
کونسی منصوبہ بندی؟ صرف ہمارے نظام شمسی کے اور بہت سے سیاروں اور چاندوں پر زمین سے کہیں زیادہ پانی موجود ہے۔
5b02dabc1ae6621d008b4830-1536-2049.jpg

اس لئے آپ سے بار بار کہا جا رہا ہے کہ برائے مہربانی سائنس پڑھیں۔ اور اسی کی زبان میں یہاں بات چیت کریں۔
ماورائے ارض مائع پانی تو غالباََ صرف زمین پر ہی موجود ہے؛ اس کے علاوہ پانی کی کوئی قسم ہے تو کیا وہ نظام حیات کے لیے ناگزیر تصور کی جا سکتی ہے؟ کسی اور سیارے یا چاند پر ہنوز ماورائے ارض مائع پانی کا سراغ نہ مل سکا ہے۔
 
Top