فرخ منظور
لائبریرین
تخلیق
کتنے جاں سوز مراحل سے گذر کر ہم نے
اس قدر سلسلۂ سود و زیاں دیکھے ہیں
رات کٹتے ہی بکھرتے ہوئے تاروں کے کفن
جُھومتی صبح کے آنچل میں نہاں دیکھے ہیں
جاگتے ساز ، دمکتے ہوئے نغموں کے قریب
چوٹ کھائی ہوئی قسمت کے سماں دیکھے ہیں
ڈوبنے والوں کے ہمراہ بھنور میں رہ کر !
دیکھنے والوں کے انداز ِ بیاں دیکھے ہیں
مدتوں اپنے دلِ زار کا ماتم کرکے
خود سے بڑھ کر بھی کئی سوختہ جاں دیکھے ہیں
موت کو جن کے تصوّر سے پسینہ آجائے
زیست کے دوش پہ وہ بارِ گراں دیکھے ہیں
تب کہیں جا کے ان اشعار کے گہوارے میں
اک بصیرت کے ہمکنے کے نشاں دیکھے ہیں
مصطفیٰ زیدی
(روشنی)
کتنے جاں سوز مراحل سے گذر کر ہم نے
اس قدر سلسلۂ سود و زیاں دیکھے ہیں
رات کٹتے ہی بکھرتے ہوئے تاروں کے کفن
جُھومتی صبح کے آنچل میں نہاں دیکھے ہیں
جاگتے ساز ، دمکتے ہوئے نغموں کے قریب
چوٹ کھائی ہوئی قسمت کے سماں دیکھے ہیں
ڈوبنے والوں کے ہمراہ بھنور میں رہ کر !
دیکھنے والوں کے انداز ِ بیاں دیکھے ہیں
مدتوں اپنے دلِ زار کا ماتم کرکے
خود سے بڑھ کر بھی کئی سوختہ جاں دیکھے ہیں
موت کو جن کے تصوّر سے پسینہ آجائے
زیست کے دوش پہ وہ بارِ گراں دیکھے ہیں
تب کہیں جا کے ان اشعار کے گہوارے میں
اک بصیرت کے ہمکنے کے نشاں دیکھے ہیں
مصطفیٰ زیدی
(روشنی)