مصطفیٰ زیدی تخلیق ۔ مصطفیٰ زیدی

فرخ منظور

لائبریرین
تخلیق

کتنے جاں سوز مراحل سے گذر کر ہم نے
اس قدر سلسلۂ سود و زیاں دیکھے ہیں

رات کٹتے ہی بکھرتے ہوئے تاروں کے کفن
جُھومتی صبح کے آنچل میں نہاں دیکھے ہیں

جاگتے ساز ، دمکتے ہوئے نغموں کے قریب
چوٹ کھائی ہوئی قسمت کے سماں دیکھے ہیں

ڈوبنے والوں کے ہمراہ بھنور میں رہ کر !
دیکھنے والوں کے انداز ِ بیاں دیکھے ہیں

مدتوں اپنے دلِ زار کا ماتم کرکے
خود سے بڑھ کر بھی کئی سوختہ جاں دیکھے ہیں

موت کو جن کے تصوّر سے پسینہ آجائے
زیست کے دوش پہ وہ بارِ گراں دیکھے ہیں

تب کہیں جا کے ان اشعار کے گہوارے میں
اک بصیرت کے ہمکنے کے نشاں دیکھے ہیں

مصطفیٰ زیدی

(روشنی)



 

فرخ منظور

لائبریرین
تخلیق

کتنے جاں سوز مراحل سے گذر کر دل نے
کس قدر پیچ و خمِ سود و زیاں دیکھے ہیں

کتنے گرداب نظر آئے ہیں دَف کے نزدیک
کتنے بھونچال سرِ آبِ رواں دیکھے ہیں

گونجتے ساز، برستے ہوئے نغموں کے قریب
دل کو تھامے ہوئے اربابِ مغاں دیکھے ہیں

ڈوبنے والوں کے ہمراہ بھنور میں رہ کر !
لبِ ساحل کے ضیا بار مکاں دیکھے ہیں

جام کے رنگ میں پائی ہے لہو کی سرخی
کاہ کے دوش پہ سو کوہِ گراں دیکھے ہیں

مدتوں اپنے دلِ زار کا ماتم کرکے
خود سے بڑھ کر بھی کئی سوختہ جاں دیکھے ہیں

سنسناتے ہوئے ذرّات کے رخساروں پر
تند سورج کے طمانچوں کے نشاں دیکھے ہیں

موت کو جن کے تصوّر سے پسینہ آجائے
سینۂ زیست میں وہ زخم نہاں دیکھے ہیں

تب کہیں جا کے ان اشعار کے گہوارے میں
اک بصیرت کے ہمکنے کے نشاں دیکھے ہیں

مصطفیٰ زیدی

(قبائے ساز)

 
Top