تدبیر و تقدیر از اشفاق احمد

یہ جو مرید ہوتے ہیں ان میں جو اچھے باصفا اور نوجوان مرید ہوتے ہیں، وہ بڑے طاقتور ہوتے ہیں۔ وہ اپنے مرشد گرو یا پیر سے بڑے سخت سوال پوچھتے ہیں۔
ایک روز ہم ڈیرے پر بیٹھے تھے کہ ایک اچھی پگڑی باندھنے والے شائستہ قسم کے مرید نے پوچھا کہ، " بابا جی، بات یہ ہے کہ انسان اپنی کوشش اور محنت سے کہیں نہیں پہنچتا، اس کے اوپر ایک خاص قسم کا کرم ہوتا ہے، اسے کوئی خاص چیز عطا کر دی جاتی ہے، پھر وہ اس اعلیٰ مقام پر فائز ہو جاتا ہے"۔
اس پر بابا جی نے کہا شاباش تم ٹھیک کہہ رہے، وہ شخص بات سن کر بہت ہی خوش ہوا۔ ایک دوسرا مرید یہ سب باتیں سن رہا تھا وہ ذرا تگڑا آدمی تھا، اس نے کہا کہ یہ بات غلط ہے۔
"انسان کو جو کچھ بھی ملتا ہے، اپنی جدوجہد سے ملتا ہے، اسے کچھ پانے کے لیے کوشش کرنی پڑتی ہے، اسے حکم کو ماننا پڑتا ہے، تعمیل کرنی پڑتی ہے"۔ اس نے کہا، "پیغمبروں کو بھی ایک مخصوص طریقہ پر چلنا پڑا، اور کوشش کرنی پڑی پھر جا کر ایک مقام ملا، ایسے ہی مقام نہیں ملا کرتے"۔ بابا جی نے، اسے بھی کہا کہ شاباش، تم بھی درست کہتے ہو۔
وہاں پر، ایک تیسرا مرید جو کہ لنگر کے برتن صاف کر رہا تھا، اسے یہ سن کر بہت عجیب لگا اور کہنے لگا، "بابا جی، آپ نے تو حد ہی کر دی۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ دونوں کی بات ٹھیک ہو، کسی ایک کی بات تو غلط ہونی چاہیے"۔
یہ سن کر بابا جی نے کہا، "شاباش، تم بھی ٹھیک کہتے ہو، یہ زندگی کی بات ہے، جو بندے کی پکڑ میں نہیں آتی اور یہ جس کی پکڑ میں آتی ہے، وہ اس کی سوچ، کوشش اور دانش کے رویے کے مطابق اس کے ہاتھوں میں بنتی رہتی ہے"۔
 
ویسے تو یہ تحریر اشفاق احمد صاحب کی ہے۔ تاہم مجھے یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ اس بات سے غیر متفق ہونے کی کیا وجہ ہے۔ آیا اعتراض اس پر ہے کہ پیغمبروں کو مخصوص طریقہ پر چلنا پڑا۔؟
کوئی بھی سنجیدہ تحریر جس کو آپ پیش کر رہے ہوتے ہیں کسی نہ کسی حد تک بندہ اسے اپنا رہا ہوتا ہے یا پسند کر رہا ہوتا ہےایسا میرا خیال ہے جو کہ غلط بھی ہو سکتا ہے۔ بہر حال مبہم اس لیے بات کی کہ بعض اوقات اشارہ ہی کافی ہوتا ہے
"پیغمبروں کو بھی ایک مخصوص طریقہ پر چلنا پڑا، اور کوشش کرنی پڑی پھر جا کر ایک مقام ملا، ایسے ہی مقام نہیں ملا کرتے"
اصل میں اللہ نے بندوں کو سب سے بلند مقام پر اگر فائز کیا تو وہ نبوت یا رسالت ہی ہے۔ اور نبوت یا رسالت یا تحریر کے الفاظ میں پیغمبر ہونا ایک کسبی شے نہیں ہے۔ کہ کوشش کرنےسے انسان اس مقام کو پا لے۔ یہ تو اللہ کی طرف سے عطا کردہ ہوتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اسے وہبی کہتے ہیں( میرے خیال میں)۔ یعنی کچھ چیزیں وہبی ہوتی ہیں کسبی نہیں۔ یعنی وہ اللہ کی طرف سے عنایئت کردہ ہوتی ہیں نہ کہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان ان کو کوشش کر کے پا لے۔ اور نبوت یا رسالت تو بہت بلند مقام ہیں۔ ولایت بھی کسبی نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالی اپنے نیک بندوں میں سے چن لیتا ہے۔
 

arifkarim

معطل
اصل میں اللہ نے بندوں کو سب سے بلند مقام پر اگر فائز کیا تو وہ نبوت یا رسالت ہی ہے۔ اور نبوت یا رسالت یا تحریر کے الفاظ میں پیغمبر ہونا ایک کسبی شے نہیں ہے۔ کہ کوشش کرنےسے انسان اس مقام کو پا لے۔ یہ تو اللہ کی طرف سے عطا کردہ ہوتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اسے وہبی کہتے ہیں( میرے خیال میں)۔ یعنی کچھ چیزیں وہبی ہوتی ہیں کسبی نہیں۔ یعنی وہ اللہ کی طرف سے عنایئت کردہ ہوتی ہیں نہ کہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان ان کو کوشش کر کے پا لے۔ اور نبوت یا رسالت تو بہت بلند مقام ہیں۔ ولایت بھی کسبی نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالی اپنے نیک بندوں میں سے چن لیتا ہے۔
اسکا کوئی حوالہ؟ یہ تو نہایت مضحکہ خیز بات ہو گی کہ چونکہ کئی صدیوں سے کوئی ولی اللہ، صالح شخص، مجدد اسلام، نبی اللہ نہیں آیا کیونکہ دنیا میں نیک بندے ختم ہوگئے ہیں۔ مطلب نیک بندے ہوں گے تو ان میں چناؤ ہوگا۔۔۔
 

نور وجدان

لائبریرین
کوئی بھی سنجیدہ تحریر جس کو آپ پیش کر رہے ہوتے ہیں کسی نہ کسی حد تک بندہ اسے اپنا رہا ہوتا ہے یا پسند کر رہا ہوتا ہےایسا میرا خیال ہے جو کہ غلط بھی ہو سکتا ہے۔ بہر حال مبہم اس لیے بات کی کہ بعض اوقات اشارہ ہی کافی ہوتا ہے

اصل میں اللہ نے بندوں کو سب سے بلند مقام پر اگر فائز کیا تو وہ نبوت یا رسالت ہی ہے۔ اور نبوت یا رسالت یا تحریر کے الفاظ میں پیغمبر ہونا ایک کسبی شے نہیں ہے۔ کہ کوشش کرنےسے انسان اس مقام کو پا لے۔ یہ تو اللہ کی طرف سے عطا کردہ ہوتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اسے وہبی کہتے ہیں( میرے خیال میں)۔ یعنی کچھ چیزیں وہبی ہوتی ہیں کسبی نہیں۔ یعنی وہ اللہ کی طرف سے عنایئت کردہ ہوتی ہیں نہ کہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان ان کو کوشش کر کے پا لے۔ اور نبوت یا رسالت تو بہت بلند مقام ہیں۔ ولایت بھی کسبی نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالی اپنے نیک بندوں میں سے چن لیتا ہے۔
سب عطا ہے. عطا کو دینے سے پہلے پرکھ لیا جاتا ہے. یا یہ کہ لوگوں کو دکھایا جاتا ہے یہ شخص چنا گیا کس وجہ سے چنا گیا ہے. نیک بندے سے ایک بات بتاؤن کچھ ولی اللہ پیدائشی تھی بابا بلھے شاہ نے بچپن میں کافیاں کہنء شرور کردیں تھیں. حضرت شاہ رکن عالم جو حضرت بہاؤ الدین زکریا کے پوتے تھے پیدائشی ولی تھی ..ایک دفعہ مسجد سے واپسی پہ جوتیاں الگ کرکے دو حصوں میں بانٹ رہے تھے پوچھنے پہ معلوم ہوا کہ وہ جنتی اور جہنمی کی جوتیاں علیحدہ کررہے تھے ابھی وہ بچے تھے حضرت شیخ عبد القادر جیلانی پیدائش کے بعد ہی روضے رکھا کرتے۔۔۔کس کو کیا رتبہ دینا کام اللہ کا اور اس رتبے کو حاصل کرنے میں کمال بندے کا


جہاں تک بات عارف بھائی کی وہ کہتے کوئی نبی نہیں آی۔ ..۔وہ آئے گا بھی نہیں ..۔ان کے بعد سلسلہ ولیوں سے چلنا ہ۔ ..۔ اب اللہ تعالی نے فرمایا تھا کہ ہزار صدی بعد ایک بندہ ایسا آئے گا جو اسلام زندہ کردے گاز۔۔پہلے صدی کے مجدد حضرت عمر بن عبد العزیز ہے جو خلفائے راشدین میں شمار کیے جاتے حضرت عمر کے پوتے تھ ..۔اس صدی کے مجدد ۔۔۔شیخ احمد سرہندی ہیں جن کو مجدد الف ثانی بھی کہا جاتا ہے ..۔
ولی بڑے آئیں ہیں اور موجود بھی ہے موتی کون پاتا پہچان کون کر پاتا ہے وہ قدرت ہے.
 
کوئی بھی سنجیدہ تحریر جس کو آپ پیش کر رہے ہوتے ہیں کسی نہ کسی حد تک بندہ اسے اپنا رہا ہوتا ہے یا پسند کر رہا ہوتا ہےایسا میرا خیال ہے جو کہ غلط بھی ہو سکتا ہے۔ بہر حال مبہم اس لیے بات کی کہ بعض اوقات اشارہ ہی کافی ہوتا ہے

اصل میں اللہ نے بندوں کو سب سے بلند مقام پر اگر فائز کیا تو وہ نبوت یا رسالت ہی ہے۔ اور نبوت یا رسالت یا تحریر کے الفاظ میں پیغمبر ہونا ایک کسبی شے نہیں ہے۔ کہ کوشش کرنےسے انسان اس مقام کو پا لے۔ یہ تو اللہ کی طرف سے عطا کردہ ہوتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اسے وہبی کہتے ہیں( میرے خیال میں)۔ یعنی کچھ چیزیں وہبی ہوتی ہیں کسبی نہیں۔ یعنی وہ اللہ کی طرف سے عنایئت کردہ ہوتی ہیں نہ کہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان ان کو کوشش کر کے پا لے۔ اور نبوت یا رسالت تو بہت بلند مقام ہیں۔ ولایت بھی کسبی نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالی اپنے نیک بندوں میں سے چن لیتا ہے۔

میرے خیال میں اس پوسٹ میں ایسی کوئی چیز ہی موجود ہی نہیں جس پر وہبی اور کسبی کی بحث شروع کی جاسکے۔ اور وہ بھی اس خاص موضوع سے متعلق جو آپ نے فرمایا۔
در اصل اقتباس میں دیکھیں تو اشفاق احمد کسی ایک رائے پر توقف نہیں اختیار کرتے۔ یعنی نہ وہ اس کے قائل محض ہیں کہ سب کچھ وہبی ہے۔ نہ اس کے کہ سب کچھ کسبی ہے۔ بلکہ آخری بات جو انہوں نے کہی اس سے یہ نتیجہ نکل رہا ہے کہ اشفاق احمد در اصل ان دونوں کے درمیان ہیں۔ وہ کسی ایک طرف نہیں جارہے کہ ان پر کوئی بات کہی جاسکے۔
بابا جی، بات یہ ہے کہ انسان اپنی کوشش اور محنت سے کہیں نہیں پہنچتا، اس کے اوپر ایک خاص قسم کا کرم ہوتا ہے، اسے کوئی خاص چیز عطا کر دی جاتی ہے، پھر وہ اس اعلیٰ مقام پر فائز ہو جاتا ہے

میرے خیال میں ہمارے پیش نظر کسی بھی تحریر کا بنیادی نکتۂ نظر ہونا چاہیے تاکہ بات کی تہہ تک پہنچا جاسکے۔ باقی نہ اشفاق صاحب معصوم عن الخطا ہیں نہ ہم۔

والسلام۔
 
اسکا کوئی حوالہ؟ یہ تو نہایت مضحکہ خیز بات ہو گی کہ چونکہ کئی صدیوں سے کوئی ولی اللہ، صالح شخص، مجدد اسلام، نبی اللہ نہیں آیا کیونکہ دنیا میں نیک بندے ختم ہوگئے ہیں۔ مطلب نیک بندے ہوں گے تو ان میں چناؤ ہوگا۔۔۔
آپ تو اس معاملہ میں نرے جاہل محذ ہیں ۔ سو اس معاملہ میں آپ کی رائے آپ کی جہالت کی نمائندہ ہے۔
 

arifkarim

معطل
آپ تو اس معاملہ میں نرے جاہل محذ ہیں ۔ سو اس معاملہ میں آپ کی رائے آپ کی جہالت کی نمائندہ ہے۔

میرے سوال کا جواب اوپر دیا جا چکا ہے۔ محض کسی دوسرے کو جاہل کہہ دینے سے وہ شخص جاہل نہیں ہو جاتا :)

جہاں تک بات عارف بھائی کی وہ کہتے کوئی نبی نہیں آی۔ ..۔وہ آئے گا بھی نہیں ..۔ان کے بعد سلسلہ ولیوں سے چلنا ہ۔ ..۔ اب اللہ تعالی نے فرمایا تھا کہ ہزار صدی بعد ایک بندہ ایسا آئے گا جو اسلام زندہ کردے گاز۔۔پہلے صدی کے مجدد حضرت عمر بن عبد العزیز ہے جو خلفائے راشدین میں شمار کیے جاتے حضرت عمر کے پوتے تھ ..۔اس صدی کے مجدد ۔۔۔شیخ احمد سرہندی ہیں جن کو مجدد الف ثانی بھی کہا جاتا ہے ..۔

متفق!
 
میرے خیال میں ہمارے پیش نظر کسی بھی تحریر کا بنیادی نکتۂ نظر ہونا چاہیے تاکہ بات کی تہہ تک پہنچا جاسکے۔ باقی نہ اشفاق صاحب معصوم عن الخطا ہیں نہ ہم۔
والسلام۔
میرا با لکل بھی ارادہ بحث کا نہیں تھا نہ ہے لیکن جس جملہ پہ میں نے غیر متفق کہا ۔ اس پہ بابا جی کی طرف سے ٹھیک ہے کی سند دکھائی جا رہی تھی۔ کہ تم نے بھی ٹھیک کہا۔ جو کہ درست نہیں۔ اس لیے کہہ دیا۔
ہر شخص طریقت کو سمجھنے کی لیاقت نہیں رکھتا۔ اور طریقت تو طریقت یہاں تو شریعت کو سمجھنے کی لیاقت بھی ڈھونڈے نہیں ملتی۔
اور اشفاق احمد صاحب اچھے اور سمجھدار اور نیک انسان تھے اس میں کوئی شک کی بات نہیں۔
لیکن پھر وہی کہوں گا
کہ خاصاں دی گل عاماں اگے نئیں مناسب کرنی
 
میرے سوال کا جواب اوپر دیا جا چکا ہے۔ محض کسی دوسرے کو جاہل کہہ دینے سے وہ شخص جاہل نہیں ہو جاتا
آپ کی اپنی رائے اس بارے میں گواہی دے رہی ہے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو آپ ایک بات کو دھیان میں رکھا کریں کہ
Question or objection
میں فرق ہوتا ہے اور سوال کرنے کے کچھ آداب بھی ہوتے ہیں۔
 

x boy

محفلین
یہ بھی صحیح کہ ہم متفق ہو یا نہ ہو۔
خود اس پیر کو دیکھ لو، جو زیادہ تر گدہ نشین ہوتے ہیں ایک کے بعد دوسرے کو ملتی چلی جاتی ہے جدی پشتی سے چلتے چلتے، لیکن جو ان میں پہلا ہوگا
اس نے اس منصب کو پانے کے لئے انتھک کوشش کی ہوتی، جو لنگر کے برتن صاف کررہا تھا وہ اسطرح صحیح کہ وہ سوچتا ہے دونوں باتیں کیسے ایک جیسی ہوسکتے ہے۔
 

arifkarim

معطل
خود اس پیر کو دیکھ لو، جو زیادہ تر گدہ نشین ہوتے ہیں ایک کے بعد دوسرے کو ملتی چلی جاتی ہے جدی پشتی سے چلتے چلتے، لیکن جو ان میں پہلا ہوگا
کیا اسلام میں گدی نشینی کی اجازت ہے؟ قرون اولیٰ کے وقتوں میں پیر فقیر ہوتے تھے؟
 

نور وجدان

لائبریرین
یہ بھی صحیح کہ ہم متفق ہو یا نہ ہو۔
خود اس پیر کو دیکھ لو، جو زیادہ تر گدہ نشین ہوتے ہیں ایک کے بعد دوسرے کو ملتی چلی جاتی ہے جدی پشتی سے چلتے چلتے، لیکن جو ان میں پہلا ہوگا
اس نے اس منصب کو پانے کے لئے انتھک کوشش کی ہوتی، جو لنگر کے برتن صاف کررہا تھا وہ اسطرح صحیح کہ وہ سوچتا ہے دونوں باتیں کیسے ایک جیسی ہوسکتے ہے۔
مجھے لنگر کی بات سے ایک بات یاد آئی۔ جب حضرت بہاؤ الدین الزکریا ملتانی لنگر چلاتے تھے .. چشتیہ سلسلہ کے برعکس اپنے عہد کے امراء اور بادشاہ ِ وقت سے۔ملتے تھے ان کی عطا کردہ جاگیر بھی بطور تحفتا قبول کرتے تھے نقشبندیہ سلسلے کے یہ بزرگ ظاہر میں ہمیں ظاہریت سے متاثر ہونے کا تاثر دیتے تھے ..۔۔۔ حقیقت میں یہی تو لنگر لگواتے اور خود فاکہ کش ..۔۔ ان کے آگے انکے بیٹے نے گدی سنبھالی تو ساری جائیداد بیچ ڈالی ..۔پوچھا گیا کیوں بیچ ڈالی ..۔ کہا۔میرے بابا دنیا اور نفس کو قابو میں رکھتے تھے اور میں کبھی خود کو نفس پہ حاوی پاتا ہوں کبھی برابر ..۔ یہ تھی قدر ..۔جو اللہ نے عطا کی اور انہوں نے استعمال کیا ..۔۔
 

arifkarim

معطل
ان کے آگے انکے بیٹے نے گدی سنبھالی تو ساری جائیداد بیچ ڈالی ..۔پوچھا گیا کیوں بیچ ڈالی ..۔ کہا۔میرے بابا دنیا اور نفس کو قابو میں رکھتے تھے اور میں کبھی خود کو نفس پہ حاوی پاتا ہوں کبھی برابر ..۔ یہ تھی قدر ..۔جو اللہ نے عطا کی اور انہوں نے استعمال کیا ..۔۔
ایسے لوگ آج کہاں ملتے ہیں :(
 
Top