محمد وارث
لائبریرین
تذکرہ نویسی کی روایت اردو میں بہت پرانی ہے اور تذکرہ نگاروں کے ساتھ ساتھ کئی مشہور کلاسیکی شعراء نے بھی اپنے ہم عصر شعرا اور متقدمین کے تذکرے لکھے ہیں جیسے میر، مصحفی، شیفتہ وغیرہ۔ ان تذکروں میں شعراء کا کلام اور اس پر رائے کے ساتھ ساتھ شاعروں کے کسی قدر سوانح بھی آ گئے ہیں۔ اسی تذکرہ نویسی کی روایت میں ایک گراں قدر اور بیش بہا اضافہ مالک رام دہلوی کی "تذکرۂ معاصرین" ہے جسے اردو کے "زریں عہد" کا بہترین تذکرہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
دراصل یہ کتاب ایک طرح سے کتاب وفیات ہے جس میں مالک رام نے 1967ء سے 1977ء تک وفات پا جانے والی دو سو سے زائد شخصیات کا ذکر کیا ہے جن میں شاعر بھی ہیں اور ادیب بھی، محققین بھی ہیں اور ناقدین بھی۔ یعنی یہ وہ شخصیات ہیں جن کا کسی نے کسی حیثیت سے اردو سے گہرا تعلق رہا ہے اور یہ مالک رام کے ہم عصر تھے جن کے ساتھ مالک رام کے ذاتی تعلقات بھی تھے۔
مالک رام جب بھی کسی موضوع پر قلم اٹھاتے تھے تو اس موضوع کا حق ادا کر دیتے تھے، وہ انکی تصنیفات ہوں جیسے "ذکرِ غالب" اور "تلامذۂ غالب" یا انکی مرتب کردہ کتب جیسے غالب ہی کی "سبدِ چین" اور "گُلِ رعنا" یا انکے مقدمات اور حواشی جیسے مولانا ابوالکلام آزاد کی "غبارِ خاطر" اور "تذکرہ" پر، ان سب سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ وہ تحقیق کے میدان کے مرد تھے اور جرمن حکماء کی طرح جب تک کسی موضوع کا کلی احاطہ نہیں کر لیتے تھے تب تک اس موضوع پر قلم نہیں اٹھاتے تھے۔
اردو شعراء و ادبا کے کلام و کام کی تو بہت اشاعت ہوئی ہے لیکن ان کے سوانح و حالات اگر کبھی کسی کو ڈھونڈنے پڑ جائیں تو دانتوں پسینہ آ جاتا ہے لیکن آفرین ہے مالک رام مرحوم پر کہ سینکڑوں کتب و رسائل و جرائد و اخبارات کا عرق ریزی سے مطالعہ کرنے کے بعد اور مرحومین کے عزیز و اقارب و احباب سے خط و کتابت کرنے کے بعد انکے مستند اور مفصل حالات کو جمع کر دیا ہے۔ جن شعراء کے دواوین شائع ہو چکے تھے ان کے کلام کا انتخاب ان سے اور جن کے مجموعے نہیں تھے ان کے کلام کا انتخاب رسائل و جرائد و اخبارات کھنگال کر انکے سوانح کے ساتھ شامل کر دیا ہے اور انکی تصنیفات کا ذکر بھی کر دیا ہے۔ اندازِ تحریر انتہائی دلچسپ ہے اور سوانح اور انتخاب کے دریا کو چند صفحات کے کوزے میں یوں بند کیا ہے کہ تمام تفصیلات بکمال و تمام آ گئی ہیں۔
یہ کتاب دلّی سے 1972ء سے 1982ء کے درمیان چار جلدوں میں شائع ہوئی تھی اور جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ اس میں 1967ء سے 1977ء کے دوران وفات پانے والی شخصیات کا ذکر ہے جن کی ترتیب تاریخِ وفات کے لحاظ سے تھی لیکن اس کا پاکستانی ایڈیشن ترتیبِ نو کے ساتھ 2010ء میں شائع ہوا ہے اور چاروں جلدوں کو ایک ہی جلد میں یکجا کر دیا گیا ہے اور ترتیب الفبائی ہے جب کہ کتاب کے آخر میں تاریخِ وفات کے لحاظ سے ایک اشاریہ ضمیمے کے طور پر درج کر دیا گیا ہے۔ مالک رام ہر جلد کے شروع میں جو تعارف لکھتے تھے ان کو بھی اس کتاب کے شروع میں یکجا کر دیا گیا ہے جب کہ کتاب کے آخر میں دو مزید اشاریے شامل ہیں ایک اشخاص کا اور دوسرا کتب و رسائل کا۔ کتب میں اشاریے شامل کرنے کا مالک رام ضرور التزام کرتے تھے تا کہ بآسانی مطلوبہ معلومات حاصل ہوجائیں جبکہ دوسری طرف اردو کتب میں اس طرح کے اشاریے شامل کرنا ابھی بھی شاذ ہی ہے، کتاب کے شروع میں ڈاکٹر عارف نوشاہی کا ایک گراں قدر مقالہ "وفیات نویسی کی روایت-- عربی، فارسی، ترکی اور اردو میں" بھی شامل ہے۔
اس کتاب کی ابتدا کا واقعہ بھی دلچسپ ہے، پہلی جلد کے تعارف میں مالک رام کے اپنے الفاظ یوں ہیں۔۔۔۔
"بعض احباب کے تعاون سے 1966ء کے اواخر میں دلّی میں "علمی مجلس" کا قیام عمل میں آیا۔ اس سے اصلی مقصد یہ تھا کہ ہم لوگ کبھی کبھی مل بیٹھیں، جہاں کسی علمی یا تحقیقی موضوع پر تبادلۂ خیالات کیا جا سکے۔ بعد کو فیصلہ ہوا کہ مجلس اپنا رسالہ بھی شائع کرے چنانچہ اس فیصلے کے مطابق تماہی [سہ ماہی] "تحریر" 1967ء میں جاری کیا گیا، اسکی ترتیب میرے سپرد ہوئی۔ ابھی ایک ہی شمارہ شائع ہوا تھا کہ لکھنؤ میں میرزا جعفر علی خاں اثر کا انتقال ہو گیا، میرے ان کے برسوں کے تعلق تھے۔ جی میں آئی کہ ان کے مختصر حالات "تحریر" میں شائع کر دوں، ابھی ارادہ ہی کر رہا تھا کہ رفیق مارہروی کے بھی انتقال کی خبر موصول ہوئی، یہ بھی میرے ملنے والے تھے، میں نے خیال کیا کہ اچھا ان کے بھی سہی۔ بدقسمتی سے وہ تماہی ختم ہوتے ہوتے چار پانچ صاحب داغِ مفارقت دے گئے اور میں نے 1967ء کی دوسری تماہی کے شمارے میں ان سب کے مختصر حالات شائع کر دیے، یوں گویا "تحریر" میں وفیات کے مستقل باب کا اضافہ ہو گیا۔ یہ فیصلہ کسی بڑی ہی بُری گھڑی میں ہوا تھا، وہ دن اور آج کا دن، اس کے بعد شاید ہی کوئی تماہی ایسی گزری ہو جس میں کسی نہ کسی مرحوم کے حالات مجھے نہ لکھنا پڑے ہوں۔ جب خیال کرتا ہوں کہ ان پانچ برس میں ستّر سے زیادہ اہلِ علم و قلم ہم سے جدا ہو گئے ہیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔"
کتاب میں مذکور کچھ شخصیات۔۔۔۔
ابراہیم جلیس، اثرلکھنوی، امتیاز علی تاج، باقی صدیقی، بہزاد لکھنوی، جان نثار اختر، جعفر طاہر، جوش ملسیانی، حبیب اشعر دہلوی، حفیظ ہوشیارپوری، دیوان سنگھ مفتون، ڈاکٹر ذاکر حسین، ذوالفقار بخاری، رشید احمد صدیقی، رئیس احمد جعفری، ساغر صدیقی، سید سجاد ظہیر، سید علی عباس حسینی، سید محمد جعفری، سید مسعود حسین رضوی ادیب، سید وقار عظیم، شاہ معین الدین احمد ندوی، شاہد احمد دہلوی، شکیل بدایونی، شورش کاشمیری، شوکت سبزواری، شیخ محمد اکرام، عابد علی عابد، عندلیب شادانی، فرقت کاکوری، کرشن چندر، مجید امجد، مختار صدیقی، مخدوم محی الدین، مصطفیٰ زیدی، ملا واحدی، ممتاز شیریں، مولانا عبدالماجد دریابادی، مولانا غلام رسول مہر، ن م راشد، ناصر کاظمی، یوسف ظفر وغیرہ۔
ناشر۔ الفتح پبلی کیشنز، راولپنڈی
صفحات - 1060
قیمت - 1500 روپے (میری نظر میں قیمت انتہائی زیادہ ہے لیکن 40 فیصد رعایت نے کچھ تلافی ضرور کی)۔
کتاب کی بارے میں مزید تفصیلات ناشر کی اس ویب سائٹ پر ملاحظہ کیجیے۔
دراصل یہ کتاب ایک طرح سے کتاب وفیات ہے جس میں مالک رام نے 1967ء سے 1977ء تک وفات پا جانے والی دو سو سے زائد شخصیات کا ذکر کیا ہے جن میں شاعر بھی ہیں اور ادیب بھی، محققین بھی ہیں اور ناقدین بھی۔ یعنی یہ وہ شخصیات ہیں جن کا کسی نے کسی حیثیت سے اردو سے گہرا تعلق رہا ہے اور یہ مالک رام کے ہم عصر تھے جن کے ساتھ مالک رام کے ذاتی تعلقات بھی تھے۔
مالک رام جب بھی کسی موضوع پر قلم اٹھاتے تھے تو اس موضوع کا حق ادا کر دیتے تھے، وہ انکی تصنیفات ہوں جیسے "ذکرِ غالب" اور "تلامذۂ غالب" یا انکی مرتب کردہ کتب جیسے غالب ہی کی "سبدِ چین" اور "گُلِ رعنا" یا انکے مقدمات اور حواشی جیسے مولانا ابوالکلام آزاد کی "غبارِ خاطر" اور "تذکرہ" پر، ان سب سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ وہ تحقیق کے میدان کے مرد تھے اور جرمن حکماء کی طرح جب تک کسی موضوع کا کلی احاطہ نہیں کر لیتے تھے تب تک اس موضوع پر قلم نہیں اٹھاتے تھے۔
اردو شعراء و ادبا کے کلام و کام کی تو بہت اشاعت ہوئی ہے لیکن ان کے سوانح و حالات اگر کبھی کسی کو ڈھونڈنے پڑ جائیں تو دانتوں پسینہ آ جاتا ہے لیکن آفرین ہے مالک رام مرحوم پر کہ سینکڑوں کتب و رسائل و جرائد و اخبارات کا عرق ریزی سے مطالعہ کرنے کے بعد اور مرحومین کے عزیز و اقارب و احباب سے خط و کتابت کرنے کے بعد انکے مستند اور مفصل حالات کو جمع کر دیا ہے۔ جن شعراء کے دواوین شائع ہو چکے تھے ان کے کلام کا انتخاب ان سے اور جن کے مجموعے نہیں تھے ان کے کلام کا انتخاب رسائل و جرائد و اخبارات کھنگال کر انکے سوانح کے ساتھ شامل کر دیا ہے اور انکی تصنیفات کا ذکر بھی کر دیا ہے۔ اندازِ تحریر انتہائی دلچسپ ہے اور سوانح اور انتخاب کے دریا کو چند صفحات کے کوزے میں یوں بند کیا ہے کہ تمام تفصیلات بکمال و تمام آ گئی ہیں۔
یہ کتاب دلّی سے 1972ء سے 1982ء کے درمیان چار جلدوں میں شائع ہوئی تھی اور جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ اس میں 1967ء سے 1977ء کے دوران وفات پانے والی شخصیات کا ذکر ہے جن کی ترتیب تاریخِ وفات کے لحاظ سے تھی لیکن اس کا پاکستانی ایڈیشن ترتیبِ نو کے ساتھ 2010ء میں شائع ہوا ہے اور چاروں جلدوں کو ایک ہی جلد میں یکجا کر دیا گیا ہے اور ترتیب الفبائی ہے جب کہ کتاب کے آخر میں تاریخِ وفات کے لحاظ سے ایک اشاریہ ضمیمے کے طور پر درج کر دیا گیا ہے۔ مالک رام ہر جلد کے شروع میں جو تعارف لکھتے تھے ان کو بھی اس کتاب کے شروع میں یکجا کر دیا گیا ہے جب کہ کتاب کے آخر میں دو مزید اشاریے شامل ہیں ایک اشخاص کا اور دوسرا کتب و رسائل کا۔ کتب میں اشاریے شامل کرنے کا مالک رام ضرور التزام کرتے تھے تا کہ بآسانی مطلوبہ معلومات حاصل ہوجائیں جبکہ دوسری طرف اردو کتب میں اس طرح کے اشاریے شامل کرنا ابھی بھی شاذ ہی ہے، کتاب کے شروع میں ڈاکٹر عارف نوشاہی کا ایک گراں قدر مقالہ "وفیات نویسی کی روایت-- عربی، فارسی، ترکی اور اردو میں" بھی شامل ہے۔
اس کتاب کی ابتدا کا واقعہ بھی دلچسپ ہے، پہلی جلد کے تعارف میں مالک رام کے اپنے الفاظ یوں ہیں۔۔۔۔
"بعض احباب کے تعاون سے 1966ء کے اواخر میں دلّی میں "علمی مجلس" کا قیام عمل میں آیا۔ اس سے اصلی مقصد یہ تھا کہ ہم لوگ کبھی کبھی مل بیٹھیں، جہاں کسی علمی یا تحقیقی موضوع پر تبادلۂ خیالات کیا جا سکے۔ بعد کو فیصلہ ہوا کہ مجلس اپنا رسالہ بھی شائع کرے چنانچہ اس فیصلے کے مطابق تماہی [سہ ماہی] "تحریر" 1967ء میں جاری کیا گیا، اسکی ترتیب میرے سپرد ہوئی۔ ابھی ایک ہی شمارہ شائع ہوا تھا کہ لکھنؤ میں میرزا جعفر علی خاں اثر کا انتقال ہو گیا، میرے ان کے برسوں کے تعلق تھے۔ جی میں آئی کہ ان کے مختصر حالات "تحریر" میں شائع کر دوں، ابھی ارادہ ہی کر رہا تھا کہ رفیق مارہروی کے بھی انتقال کی خبر موصول ہوئی، یہ بھی میرے ملنے والے تھے، میں نے خیال کیا کہ اچھا ان کے بھی سہی۔ بدقسمتی سے وہ تماہی ختم ہوتے ہوتے چار پانچ صاحب داغِ مفارقت دے گئے اور میں نے 1967ء کی دوسری تماہی کے شمارے میں ان سب کے مختصر حالات شائع کر دیے، یوں گویا "تحریر" میں وفیات کے مستقل باب کا اضافہ ہو گیا۔ یہ فیصلہ کسی بڑی ہی بُری گھڑی میں ہوا تھا، وہ دن اور آج کا دن، اس کے بعد شاید ہی کوئی تماہی ایسی گزری ہو جس میں کسی نہ کسی مرحوم کے حالات مجھے نہ لکھنا پڑے ہوں۔ جب خیال کرتا ہوں کہ ان پانچ برس میں ستّر سے زیادہ اہلِ علم و قلم ہم سے جدا ہو گئے ہیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔"
کتاب میں مذکور کچھ شخصیات۔۔۔۔
ابراہیم جلیس، اثرلکھنوی، امتیاز علی تاج، باقی صدیقی، بہزاد لکھنوی، جان نثار اختر، جعفر طاہر، جوش ملسیانی، حبیب اشعر دہلوی، حفیظ ہوشیارپوری، دیوان سنگھ مفتون، ڈاکٹر ذاکر حسین، ذوالفقار بخاری، رشید احمد صدیقی، رئیس احمد جعفری، ساغر صدیقی، سید سجاد ظہیر، سید علی عباس حسینی، سید محمد جعفری، سید مسعود حسین رضوی ادیب، سید وقار عظیم، شاہ معین الدین احمد ندوی، شاہد احمد دہلوی، شکیل بدایونی، شورش کاشمیری، شوکت سبزواری، شیخ محمد اکرام، عابد علی عابد، عندلیب شادانی، فرقت کاکوری، کرشن چندر، مجید امجد، مختار صدیقی، مخدوم محی الدین، مصطفیٰ زیدی، ملا واحدی، ممتاز شیریں، مولانا عبدالماجد دریابادی، مولانا غلام رسول مہر، ن م راشد، ناصر کاظمی، یوسف ظفر وغیرہ۔
ناشر۔ الفتح پبلی کیشنز، راولپنڈی
صفحات - 1060
قیمت - 1500 روپے (میری نظر میں قیمت انتہائی زیادہ ہے لیکن 40 فیصد رعایت نے کچھ تلافی ضرور کی)۔
کتاب کی بارے میں مزید تفصیلات ناشر کی اس ویب سائٹ پر ملاحظہ کیجیے۔