کلاسیکی موسیقی ترانہ - تعارف اور کولیکشن

محمد وارث

لائبریرین
ترانہ، برصغیر پاک و ہند کی کلاسیکی موسیقی میں گانے کا ایک خاص اور دلفریب انداز جس میں فارسی، عربی اور ہندی کے کچھ بے معنی الفاظ کی درمیانی (مدھ) اور تیز (دُرت)لے میں اس خوبصورتی کے ساتھ تکرار کی جاتی ہے کہ سماں بندھ جاتا ہے اور سننے والے مسحور ہو جاتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ ترانہ، گانے کا طریقہ اور اسکے بول دونوں، خاص امیر خسرو کی اختراع ہے، کچھ محقیقین کو اس میں اعتراض بھی ہے۔ لیکن شاید حقیقت یہی ہے کہ ترانہ امیر خسرو ہی کی ایجاد ہے اور اس صنف کو مقبول بھی امیر خسرو نے کیا ہے، اور پچھے سات سو سال سے برصغیر میں ترانہ گایا اور سنا جا رہا ہے، واضح رہے کہ ترانہ فارسی شاعری کی ایک صنف کا بھی نام ہے۔

ترانہ کی اختراع کے بارے میں ایک دلچسپ حکایت بھی چلی آ رہی ہے، جو موضوع ہی سہی لیکن دلچسپی سے خالی نہیں، کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ علاءالدین خلجی کے دربار میں موسقی کا ایک مقابلہ ہوا جس کے آخر میں صرف دو گائیک رہ گئے، ایک ہندو پنڈت اور دوسرے امیر خسرو۔ ہندو پنڈت نے جب دیکھا کہ حریف بہت سخت ہے اور یہ جانتے ہوئے کہ وہ سنسکرت نہیں جانتا، سنسکرت کے کچھ بھاری بھر کم الفاظ انتہائی تیز لے میں گائے، جواب میں امیر خسرو نے انہی سروں میں اور اسی لے کے ساتھ فارسی کے کچھ بے معنی الفاظ گائے اور درباریوں کا دل جیتتے ہوئے مقابلہ بھی جیت لیا اور یوں ترانہ ایجاد ہوا

یہ کہانی گھڑی ہوئی اور موضوع ہی سہی لیکن صنف ترانہ پر بہت خوبصورتی سے روشنی ڈالتی ہے۔ ترانہ نام ہی خالص تجریدی موسیقی کے تجربے کا ہے۔ ترانہ کے مقابلے میں دیگر کلاسیکی گائیکی کے جتنے بھی اوضاع ہیں جیسے خیال، دھرپد اور ٹپہ جو کہ دونوں اب بہت حد تک متروک ہو چکے ہیں، ٹھمری یا دادرا وغیرہ، ان سب میں با معنی الفاظ یا شاعری کو گایا جاتا ہے لیکن ترانہ میں شاعری کا عنصر سرے سے نکال ہی دیا گیا ہے اور خالص تجریدی موسیقی پر اس کی بنیاد رکھی گئی ہے تا کہ سننے والوں کا ذہن شاعری میں نہ بھٹکے اور ان کا دھیان صرف موسیقی میں رہے اور خالص موسیقی اور سروں سے لطف اندوز ہوں جب کہ بعض دفعہ تجرے کے طور پر ترانہ میں کچھ اشعار بھی گائے جاتے ہیں، جیسا کہ امیر خسرو ہی کا ایک ترانہ "یارِ من بیا بیا" ہے جس میں امیر خسرو کا ایک شعر بھی گایا جاتا ہے لیکن ایسی مثالیں چند ایک ہی ہیں اور زیادہ ترانے فقط بے معنی الفاظ پر مشتمل ہیں۔

جیسا کہ اوپر ذکر آیا ترانہ عموماً مدھ اور درت لے میں گایا جاتا ہے لیکن بلمپت یا دھیمی لے میں بھی ترانہ گایا جاتا ہے گو اسکی مثالیں خال خال ہی ہیں۔ ترانہ کو کسی بھی راگ میں علیحدہ بھی گایا جا سکتا ہے اور کسی خیال کے آخر میں بھی، ہر دوصورت میں یہ لطف سے خالی نہیں، لیکن چونکہ خیال اور اس میں بھی بڑا خیال کافی طویل ہوتا ہے لہذا علیحدہ سے گائے ہوئے ترانے آج کل زیادہ مقبول ہوتے ہیں۔

ترانہ میں جن بے معنی الفاظ کی بار بار تکرار ہوتی ہے ان میں سے کچھ نیچے درج کر رہا ہوں، یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے عام طور پر یہ سارے الفاظ انہتائی سہل اور ادا کرنے میں ثقیل نہیں ہیں، جیسے

او دانی
تو دانی
نادر دانی
تنن
درآ
تا نا
تا نی
تا نوم
توم
دھیم
رے
یعلا
یعلی
وغیرہ وغیرہ

کچھ موسیقاروں نے اوپر مندرج فارسی الفاظ کو معنی پہنانے کی بھی کوشش کی ہے جیسا کہ ان کا کچھ نہ کچھ مطلب نکالا بھی جا سکتا ہے لیکن یہ کوشش کچھ زیادہ کامیاب نہیں ہوئی اور اس کا حسن انہی بے معنی الفاظ کی تکرار ہی میں ہے وگرنہ جتنی دیر میں کوئی سننے والا کسی جملے کے معنی ڈھونڈنے کی کوشش کرے گا اتنی دیر میں گائیک کہیں سے کہیں پہنچ چکا ہوگا۔

ان بے معنی الفاظ کے ساتھ ساتھ ترانہ میں سرگم کے سروں کی خوبصورت تکرار اور کچھ سازوں مثلاً طبلہ، پکھاوج، ستار وغیرہ کے بول جیسے دھا، ترکٹ، تک، دِر دِر وغیرہ کی بھی تکرار کی جاتی ہے۔ گائیک کے منہ سے ساز کے بول اور ساز کی انہی بولوں کی آواز، ایک سماں باندھتے ہیں جسے ہوا میں گرہ باندھنے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

برصغیر میں تقریباً ہر کلاسیکی گائیک نے ترانہ بھی ضرور گایا ہے، انہی میں سے کچھ اپنی پسند کے اور جو یوٹیوب پر مل سکے ہیں یہاں شامل کر رہا ہوں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
سب سے پہلے میرے پسندیدہ گائیک استاد بڑے غلام علی خان صاحب مرحوم قصور گھرانہ کا ایک ترانہ راگ بھاگیشری میں۔

 

محمد وارث

لائبریرین
استاد فتح علی خان پٹیالہ گھرانہ کا ایک ترانہ، جو انہوں نے راگ درباری خیال گاتے ہوئے گایا ہے۔

 

محمد وارث

لائبریرین
ایک اور عظیم فنکار، استاد سلامت علی خان مرحوم، شام چوراسی گھرانہ، راگ سرسوتی میں ترانہ

 

محمد وارث

لائبریرین
کہا جاتا ہے کہ یہ ستار کے بول ہیں ۔
اور ان کو کہا جاتا ہے کہ یہ یا علی اور یا اللہ ہیں۔

آپ نے درست فرمایا لیکن یہ سارے ستار کے بول نہیں ہیں، دا، را، رے، درآ، درے، دِر دِر وغیرہ ستار کے بول ہیں۔ یعلا اور یعلی کے متعلق بھی آپ نے درست کہا، یہ یا اللہ اور یا علی کے مخفف کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
---- پنڈت روی شنکر کا ترتیب دیا ہوا ایک اور ترانہ، رائل البرٹ ہال، لندن 1974ء۔ اس میں جگل بندی کے خوبصورت مظاہرے بھی شامل ہیں

 

فرخ منظور

لائبریرین

محمد وارث

لائبریرین

محمد وارث

لائبریرین
شام چوراسی گھرانہ کا ایک اور چراغ، استاد لطافت علی خان، اپنے والدِ مرحوم استاد سلامت علی خان کا نام روشن کرتے ہوئے، ایک خوبصورت ترانہ

 
Top