تعریف:-
تراویح جمع ہے ترویحہ کی۔ ترویحہ بمعنی آرام کرنا، یعنی نماز تراویح میں ہر چار رکعت کے بعد بیٹھ کر آرام کر لیتے ہیں اس لئے اس نماز کو تراویح کہتے ہیں۔
حکم :-
ماہ رمضان المبارک میں بیس رکعتیں نماز تراویح پڑھنا مردوں اور عورتوں کے حق میں بالاجماع سنت مؤکدہ ہے، اور یہ سنت مؤکدہ عین ہے کیونکہ اکثر خلفائے راشدین اور عامۃ الصحابہ الکرام نے اس پر ہمیشگی کی ہے اور اس کے بعد سے آج تک علمائے کرام بلا انکار متفق چلے آ رہے ہیں۔ تراویح حضورﷺ کی سنت ہے، اور بعضوں کے نزدیک حضرت عمررضی اللہ عنہ کی سنت ہے، پہلا قول اصح ہے۔ پس اگر ایک شخص بھی ترک کرے گا تو وہ ترکِ سنت کا گناہ گار ہوگا اور مکروہ کا مرتکب ہوگا۔
یہ نماز دس سلاموں کے ساتھ مسنون ہے، یعنی دو دو رکعتوں کی نیت کرے اور ہر چار رکعت کے بعد بیٹھ کر آرام کرے اس طرح اس نماز میں پانچ ترویحے ہوتے ہیں اگر جماعت کے ساتھ پانچ ترویحوں پر زیادتی کرے تو مکروہ ہے۔

وقت:-
اس کا وقت صحیح قول کی بنا پر عشا کے بعد سے طلوعِ فجر تک ہے یہی جمہور کا مذہب ہے۔ خواہ وتروں سے پہلے پڑھے یا بعد میں دونوں طرح جائز ہے لیکن وتروں سے پہلے پڑھنا افضل ہے۔ اگر تراویح اور وتر پڑھنے کے بعد ظاہر ہو گیا کہ نماز عشا بغیر وضو کے پڑھی تھی اور تراویح اور وتر وضو سے پڑھے یا کوئی اور وجہ معلوم ہوئی جس سے صرف عشا کی نماز فاسد ہوئی تو عشا کے ساتھ تراویح کا بھی اعادہ کرے اس لئے کہ تراویح عشا کے تابع ہے۔ یہ قول امام ابو حنیفہ ؒ کا ہے۔ وتر کا اعادہ نہ کرے کہ وتر اپنے وقت میں عشا کا تابع نہیں اور عشا کی نماز کا اس پر مقدم کرنا ترتیب کی وجہ سے واجب ہے اور بھولنے کے عذر سے ترتیب ساقط ہو جاتی ہے پس اگر بھول کر نمازِ وتر نمازِ عشا سے پہلے پڑھ لی تو صحیح ہو جائے گی اور تراویح اگر عشا سے پہلے پڑھ لی تو صحیح نہ ہوگی اس لئے کہ تراویح کا وقت عشا کے ادا ہونے کے بعد ہے پس جو تراویح نماز عشا سے پہلے ادا کی اس کا شمار تراویح میں نہ ہوگا۔ اور صاحبین کے نزدیک تراویح کے وتر بھی منجملہ عشا کی نماز کے ہیں پس ان کا وقت عشا کی نماز ادا کرنے کے بعد شروع ہوتا ہے تو اس لئے اگر بھول کربھی عشا کی نماز سے پہلے پڑھ لے تو تراویح کی طرح صاحبین کے نزدیک ان کا اعادہ بھی واجب ہوگا ۔۔۔۔حاصل یہ ہے کہ وتر کے اعادہ میں اختلاف ہے اور تراویح اور عشا کی سنتوں کے اعادہ میں اگر وقت باقی ہو تو اختلاف نہیں بلکہ بالاتفاق اعادہ کرے۔۔۔۔ تراویحؔ میں تہائی رات تک یا آدھی رات تک تاخیر کرنا مستحب ہے آدھی رات کے بعد اس کو ادا کرنے میں اختلاف ہے اور اصح یہ ہے کہ مکروہ نہیں بلکہ بعض کے نزدیک مستحب اور افضل ہے اس لئے کہ یہ قیام اللیل ہے لیکن جس کو فوت ہونے کا خوف ہو تو اس کے لئے احسن یہ ہے کہ تاخیر نہ کرے۔​
 
جزاک اللہ

ویسے بھی ماہ رمضان کی آمد آمد ہے۔


جی اسی نیت سے ٹائپ کیا ہے۔ تراویح سے متعلق مسائل کو بھی ٹائپ کرنا ہے ابھی۔

تراویح کی رکعات پر اتفاق. اچھا!


جی اہلسنت والجماعت (حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی) کا تو اتفاق ہی ہے۔ :)
 

شمشاد

لائبریرین
ایک حدیث ہے جس کا مفہوم اس طرح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین رات تراویح کی نماز پڑھائی تھی۔

پہلی رات مختصر، دوسری رات ذرا لمبی اور تیسری رات بہت لمبی۔ اصحابہ کرام فرماتے ہیں کہ ہمیں خدشہ ہوا کہ صبح کی لکیر کا سفید دھاگا نمودار ہو جائے گا۔
 
ایک حدیث ہے جس کا مفہوم اس طرح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین رات تراویح کی نماز پڑھائی تھی۔

پہلی رات مختصر، دوسری رات ذرا لمبی اور تیسری رات بہت لمبی۔ اصحابہ کرام فرماتے ہیں کہ ہمیں خدشہ ہوا کہ صبح کی لکیر کا سفید دھاگا نمودار ہو جائے گا۔


بے شک ایسا ہی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ۲۳ سالہ نبوت میں محض چھ دن نماز تراویح ادا فرمائی ہے۔ یعنی تین دن ایک سال۔ اور تین دن دوسرے سال۔
اس لئے یہ تو ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح ادا فرمائی اور یہ ان کی سنت ہے۔ البتہ مروجہ تراویح یعنی بیس رکعت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رائج فرمائی۔ اور جب سے تمام مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ بیس رکعت تراویح با جماعت ادا کرنا سنت ہے۔ اور تارک اس سنت کا گنہگار ہوگا۔
کیونکہ صحابی (خصوصاً خلفائے راشدین) کی سنت بھی سنت ہے جنکو دانتوں سے پکڑ لینے کا حکم ہے۔ ۔
ابوادؤد، ترمذی، ابن ماجہ، دارمی، مسند احمد

پھر اجماع سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ مروجہ تراویح یعنی بیس رکعت پر خیر القرون میں بھی عمل تھا اور اس کے بعد سے مستقل عمل چلتا چلا آ رہا ہے۔ کسی نے اس صورت پر کبھی اختلاف نہیں کیا۔ ہاں اختلاف یہ ضرور ہوا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تراویح کی رکعت کا کونسا عدد ثابت ہے۔ تو اسلاف میں جمہور کا مذہب یہ ہے کوئی عدد ثابت نہیں۔ :)
 
Top