سورة طٰہٰ
کے معانی کی ترجمانی
از
سید ابو الاعلیٰ موددیؒ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
طٰہٰ، ہم نے یہ قرآن تم پر اس لیے نازل نہیں کیا ہے کہ تم مصیبت میں پڑ جاؤ۔ یہ تو ایک یاددہانی ہے ہر اس شخص کے لیے جو ڈرے۔ نازل کیا گیا ہے اُس ذات کی طرف سے جس نے پیدا کیا ہے زمین کوا ور بلند آسمانوں کو۔ وہ رحمان (کائنات کے) تختِ سلطنت پر جلوہ فرما ہے۔ مالک ہے اُن سب چیزوں کا جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور جو زمین و آسمان کے درمیان میں ہیں اور جو مٹی کے نیچے ہیں ۔ تم چاہے اپنی بات پکار کر کہو، وہ تو چُپکے سے کہی ہوئی بلکہ اس سے مخفی تر بات بھی جانتا ہے۔ وہ اﷲ ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں ، اس کے لیے بہترین نام ہیں ۔
اور تمہیں کچھ موسٰیؑ کی خبر بھی پہنچی ہے؟ جب کہ اس نے ایک آگ دیکھی اور اپنے گھر والوں سے کہا کہ ” ذرا ٹھیرو، مَیں نے ایک آگ دیکھی ہے، شاید کہ تمہارے لیے ایک آدھ انگارا لے آؤں ، یا اِس آگ پر مجھے ( راستے کے متعلق) کوئی رہنمائی مل جائے“
وہاں پہنچا تو پکارا گیا ” اے موسٰیؑ! میں ہی تیرا رب ہوں ، جوتیاں اتار دے۔ تو وادیِ مقدسِ طُوٰی میں ہے۔ اور میں نے تجھ کو چُن لیا ہے، سُن جو کچھ وحی کیا جاتا ہے۔ میں ہی اﷲ ہوں ، میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے، پس تو میری بندگی کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر۔ قیامت کی گھڑی ضرور آنے والی ہے۔ میں اُس کا وقت مخفی رکھنا چاہتا ہوں ، تا کہ ہر متنفّس اپنی سعی کے مطابق بدلہ پائے۔ پس کوئی ایسا شخص جو اُس پر ایمان نہیں لاتا اورا پنی خواہشِ نفس کا بندہ بن گیا ہے تجھ کو اُس گھڑی کی فکر سے نہ روک دے، ورنہ تو ہلاکت میں پڑ جائے گا....اور اے موسٰیؑ، یہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے“؟
موسٰیؑ نے جواب دیا ” یہ میری لاٹھی ہے، اس پر ٹیک لگا کر چلتا ہوں ، اس سے اپنی بکریوں کے لیے پتے جھاڑتا ہوں ، اور بھی بہت سے کام ہیں جو اس سے لیتا ہوں “۔
فرمایا ” پھینک دے اس کو موسٰیؑ“
اس نے پھینک دیا اور یکایک وہ ایک سانپ تھی جو دَوڑ رہا تھا۔
فرمایا ” پکڑ لے اس کو اور ڈر نہیں ، ہم اسے پھر ویسا ہی کر دیں گے جیسی یہ تھی۔ اور ذرا اپنا ہاتھ اپنی بغل میں دبا، چمکتا ہوا نکلے گا بغیر کسی تکلیف کے۔ یہ دوسری نشانی ہے۔ اس لیے کہ ہم تجھے اپنی بڑی نشانیاں دکھانے والے ہیں ۔ اب تو فرعون کے پاس جا، وہ سرکش ہو گیا ہے“۔
موسٰیؑ نے عرض کیا ” پروردگار، میرا سینہ کھول دے، اور میرے کام کو میرے لیے آسان کر دے اورمیری زبان کی گرہ سُلجھا دے تا کہ لوگ میری بات سمجھ سکیں ، اور میرے لیے میرے اپنے کنبے سے ایک وزیر مقرر کر دے۔ ہارون، جو میرا بھائی ہے۔ اُس کے ذریعہ سے میرا ہاتھ مضبُوط کر اور اس کو میرے کام میں شریک کر دے، تا کہ ہم خوب تیری پاکی بیان کریں اور خوب تیرا چرچا کریں ۔ تو ہمیشہ ہمارے حال پر نگران رہا ہے“۔
فرمایا ”دیا گیا جو تو نے مانگا اے موسٰیؑ، ہم نے پھر ایک مرتبہ تجھ پر احسان کیا۔ یاد کر وہ وقت جبکہ ہم نے تیری ماں کو اشارہ کیا، ایسا اشارہ جو وحی کے ذریعہ سے ہی کیا جاتا ہے کہ اس بچے کو صندوق میں رکھ دے اور صندوق کو دریا میں چھوڑ دے۔ دریا اسے ساحل پر پھینک دے گا اور اسے میرا دشمن اور اس بچے کا دشمن اٹھا لےگا۔ مَیں نے اپنی طرف سے تجھ پر محبت طاری کر دی اور ایسا انتظام کیا کہ تو میری نگرانی میں پالا جائے۔ یاد کر جبکہ تیری بہن چل رہی تھی، پھر جا کر کہتی ہے، ” مَیں تمہیں اُس کا پتہ دُوں جو اِس بچے کی پرورش اچھی طرح کرے“؟ اس طرح ہم نے تجھے پھر تیری ماں کے پاس پہنچا دیا تا کہ اُس کی آنکھ ٹھنڈی رہے اور وہ رنجیدہ نہ ہو۔اور (یہ بھی یاد کر کہ) تو نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا، ہم نے تجھے اِس پھَندے سے نکالا اور اور تجھے مختلف آزمائشوں سے گزارا اور تو مَدیَن کے لوگوں میں کئی سال ٹھیرا رہا۔ پھر اب ٹھیک اپنے وقت پر تو آگیا ہے اے موسٰیؑ۔ میں نے تجھ کو اپنے کام کا بنا لیا ہے۔ جا ، تُو اور تیرا بھائی میری نشانیوں کے ساتھ۔ا ور دیکھو، تم میری یاد میں تقصیر نہ کرنا۔ جاؤ تم دونوں فرعون کے پاس کہ وہ سرکش ہو گیا ہے۔ اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا، شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے“۔
دونوں نے عرض کیا ” پروردگار، ہمیں اندیشہ ہے کہ وہ ہم پر زیادتی کرے گا یا پِل پڑے گا“۔
فرمایا ” ڈرو مت، میں تمہارے ساتھ ہوں ، سب کچھ سُن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں ۔ جاؤ اس کے پاس اور کہو کہ ہم تیرے رب کے فرستادے ہیں ، بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کے لیے چھوڑ دے اور ان کو تکلیف نہ دے۔ ہم تیرے پاس تیرے رب کی نشانی لے کر آئے ہیں او ر سلامتی ہے اُس کے لیے جو جو راہِ راست کی پیروی کرے۔ ہم کو وحی سے بتایا گیا ہے کہ عذاب ہے اُس کے لیے جو جھُٹلائے اور منہ موڑے“۔
فرعون نے کہا ” اچھا ، تو پھر تم دونوں کا رب کون ہے اے موسٰیؑ“؟
موسٰیؑ نے جواب دیا ”ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اُس کی ساخت بخشی ، پھر اس کو راستہ بتایا“۔
فرعون بولا” اور پہلے جو نسلیں گزر چکی ہیں ان کی پھر کیا حالت تھی“؟
موسٰیؑ نے کہا ” اُس کا علم میرے رب کے پاس ایک نوشتے میں محفوظ ہے۔ میرا رب نہ چُوکتا ہے نہ بھُولتا ہے“۔....وہی جس نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا، اور اُس میں تمہارے چلنے کو راستے بنائے، اور اوپر سے پانی برسایا، پھر اُس کے ذریعہ سے مختلف اقسام کی پیداوار نکالی۔ کھاؤ اور اپنے جانوروں کو بھی چَراؤ۔ یقینًا اِس میں بہت سی نشانیاں ہیں عقل رکھنے والوں کے لیے۔ اِسی زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیا ہے، اِسی میں ہم تمہیں واپس لے جائیں گے اور اسی سے تم کودوبارہ نکالیں گے۔
ہم نے فرعون کو اپنی سب ہی نشانیاں دکھائیں مگر وہ جھٹلائے چلا گیا اور نہ مانا۔ کہنے لگا ” اے موسٰیؑ، کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے ہم کوہمارے ملک سے نکال باہر کرے؟ اچھا، ہم بھی تیرے مقابلے میں ویساہی جادُو لاتے ہیں ۔ طے کر لے کب اور کہاں مقابلہ کرنا ہے۔ نہ ہم اِس قَراردار سے پھریں گے نہ تو پھریو۔ کھُلے میدان میں سامنے آ جا“
موسٰیؑ نے کہا ”جشن کا دن طے ہوا،ا ور دن چڑھے لوگ جمع ہوں “۔
فرعون نے پلٹ کر اپنے سارے ہتھکنڈے جمع کیے اور مقابلے میں آ گیا۔
موسٰیؑ نے (عین موقع پر گروہِ مقابل کو مخاطب کر کے )کہا” شامت کے مارو، نہ جھُوٹی تہمتیں باندھو اﷲ پر، ورنہ وہ ایک سخت عذاب سے تمہارا ستیاناس کر دے گا۔ جھُوٹ جس نے بھی گھڑا وہ نامراد ہوا“
یہ سُن کر اُن کے درمیان اختلاف رائے ہو گیااور وہ چپکے چپکے باہم مشورہ کرنے لگے۔ آخر کار کچھ لوگو ں نے کہا کہ ” یہ دونوں تو محض جادُوگر ہیں ۔ اِن کا مقصد یہ ہے کہ اپنے جادُو کے زور سے تم کو تمہاری زمین سے بے دخل کر دیں اور تمہارے مثالی طریقِ زندگی کا خاتمہ کر دیں ۔اپنی ساری تدبیریں آج اکٹھی کر لو اور اَیکا کر کے میدان میں آؤبس یہ سمجھ لو کہ آج جو غالب رہا وہی جیت گیا“
جادوگر بولے”موسٰی ، تم پھینکتے ہو یا پہلے ہم پھینکیں “؟
موسٰیؑ نے کہا ” نہیں ، تم ہی پھینکو“۔
یکایک اُن کی رسّیاں اوراُن کی لاٹھیاں اُن کے جادُو کے زور سے موسٰیؑ کودَوڑتی ہوئی محسوس ہونے لگیں ،ا ور موسٰیؑ اپنے دل میں ڈر گیا۔ ہم نے کہا ”مت ڈر، تو ہی غالب رہے گا۔پھینک جو کچھ تیرے ہاتھ میں ہے، ابھی اِن کی ساری بناوٹی چیزوں کو نگلے جاتا ہے۔ یہ جو کچھ بنا کر لائے ہیں یہ تو جادو گر کا فریب ہے،ا ور جادوگر کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا، خواہ کسی شان سے وہ آئے“۔آخر کو یہی ہُوا کہ سارے جادُوگر سجدے میں گرا دیے گئے اور پُکار اُٹھے ”مان لیاہم نے ہارون اور موسٰیؑ کے رب کو“۔
فرعون نے کہا ” تم ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اس کی اجازت دیتا؟ معلوم ہو گیا کہ یہ تمہارا گُرو ہے جس نے تمہیں جادُوگری سکھائی تھی، اچھا ، اب میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کٹواتا ہوں اور کھجور کے تنوں پر تم کو سُولی دیتا ہوں ۔ پھر تمہیں پتہ چل جائے گا کہ ہم دونوں میں سے کس کا عذاب زیادہ سخت اور دیرپا ہے“ (یعنی میں تمہیں زیادہ سخت سزا دے سکتا ہوں یا موسٰی)۔
جادُوگروں نے جواب دیا ”قسم ہے اُس ذات کی جس نے ہمیں پیدا کیا ہے، یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ ہم روشن نشانیاں سامنے آ جانے کے بعد بھی (صداقت پر ) تجھے ترجیح دیں ، تُو جو کچھ کرنا چاہے کر لے۔ تو زیادہ سے زیادہ بس اِسی دُنیا کی زندگی کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ ہم تو اپنے رب پر ایمان لے آئے تا کہ وہ ہماری خطائیں معاف کر دے اور اس جادوگر ی سے، جس پر تو نے ہمیں مجبُور کیا تھا، درگزر فرمائے۔ اﷲ ہی اچھا ہے اور وہی باقی رہنے والا ہے“۔....حقیقت یہ ہے کہ جو مجرم بن کر اپنے رب کے حضور حاضر ہو گا اُس کے لیے جہنم ہے جس میں وہ نہ جیے گا نہ مرے گا۔ اور جو اس کے حضور مومن کی حیثیت سے حاضر ہو گا، جس نے نیک عمل کیے ہوں گے ، ایسے سب لوگوں کے لیے بلند درجے ہیں ، سدا بہار باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ جزا ہے اُس شخص کی جو پاکیزگی اختیار کرے۔
ہم نے موسٰیؑ پر وحی کی کہ اب راتوں رات میرے بندوں کو لے کر چل پڑ، اور اُن کے لیے سمندر میں سے سُوکھی سڑک بنا لے، تجھے کسی کے تعاقب کا ذرا خوف نہ ہو اور نہ (سمندر کے بیچ سے گزرتے ہوئے ) ڈر لگے۔
پیچھے سے فرعون اپنے لشکر لے کر پہنچا اور پھر سمندر اُن پر چھا گیا جیسا کہ چھا جانے کا حق تھا۔فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ ہی کیا تھا، کوئی صحیح راہنمائی نہیں کی تھی۔
اے بنی اسرائیل، ہم نے تم کوتمہارے دشمن سے نجات دی، اور طور کے دائیں جانب تمہاری حاضری کے لیے وقت مقرر کیا اور تم پر من وسلوٰی اُتارا۔....کھاؤ ہمارادیا ہوا پاک رزق اور اسے کھا کر سر کشی نہ کرو، ورنہ تم پر میرا غضب ٹوٹ پڑے گا۔ اور جس پر میرا غضب ٹوٹا وہ پھر گر کر ہی رہا۔ البتہ جو توبہ کر لے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے، پھر سیدھا چلتا رہے، اُس کے لیے میں بہت درگزر کرنے والا ہوں ۔
اور کیا چیز تمہیں اپنی قوم سے پہلے لے آئی موسٰیؑ؟
اُس نے عرض کیا ” وہ بس میرے پیچھے آ ہی رہے ہیں ۔ میں جلدی کر کے تیرے حضور آگیا ہوں اے میرے رب، تاکہ تو مجھ سے خوش ہو جائے“۔
فرمایا ” اچھا، تو سنو، ہم نے تمہارے پیچھے تمہاری قوم کو آزمائش میں ڈال دیا اور سامری نے انہیں گمراہ کر ڈالا“۔
موسٰی سخت غصّے اوررنج کی حالت میں اپنی قوم کی طرف پلٹا۔ جا کر اُس نے کہا ”اے میری قوم کے لوگو، کیا تمہارے رب نے تم سے اچھے وعدے نہیں کیے تھے؟ کیا تمہیں دن لگ گئے ہیں ؟ یا تم اپنے رب کا غضب ہی اپنے اوپر لانا چاہتے تھے کہ تم نے مجھ سے وعدہ خلافی کی“؟
انہوں نے جواب دیا ” ہم نے آپ سے وعدہ خلافی کچھ اپنے اختیار سے نہیں کی، معاملہ یہ ہُوا کہ لوگوں کے زیورات کے بوجھ سے ہم لَد گئے تھے اور ہم نے بس اُن کو پھینک دیا تھا“....پھر اس طرح سامری نے بھی کچھ کر ڈالا اور ان کے لیے ایک بچھڑے کی مورت بنا کر نکال لایا جس میں سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی۔ لوگ پکار اٹھے ” یہی ہے تمہار ا خدا اور موسٰی کا خدا، موسٰی اسے بھول گیا“۔ کیا وہ نہ دیکھتے تھے کہ نہ وہ اُن کی بات کا جواب دیتا ہے اور نہ ان کے نفع و نقصان کاکچھ اختیار رکھتا ہے؟
ہارون ؑ (موسٰیؑ کے آنے سے )پہلے ہی ان سے کہہ چکا تھا کہ ”لوگو، تم اِس کی وجہ سے فتنے میں پڑ گئے ہو، تمہارا رب تو رحمٰن ہے، پس تم میری پیروی کرو اور میری بات مانو“۔ مگر اُنہوں نے اس سے کہہ دیا کہ ” ہم تو اسی کی پرستش کرتے رہیں گے جب تک کہ موسٰی واپس نہ آجائے“۔
موسٰیؑ( قوم کو ڈانٹنے کے بعد ہارون کی طرف پلٹا اور) بولا ”ہارون، تم نے جب دیکھا تھا کہ یہ گمراہ ہو رہے ہیں تو کس چیز نے تمہارا ہاتھ پکڑا تھا کہ میرے طریقے پر عمل نہ کرو؟ کیا تم نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی“؟
ہارون ؑ نے جواب دیا ”اے میری ماں کے بیٹے، میری داڑھی نہ پکڑ، نہ میرے سر کے بال کھینچ، مجھے اِس بات کا ڈر تھا کہ تو آ کر کہے گا تم نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی اور میری بات کا پاس نہ کیا“۔
موسٰیؑ نے کہا ”اور سامری، تیرا کیا معاملہ ہے“؟
اس نے جواب دیا ”میں نے وہ چیز دیکھی جواِن لوگوں کو نظر نہ آئی، پس میں نے رسُول کے نقشِ قدم سے ایک مٹھی اُٹھالی اور اُس کو ڈال دیا۔ میرے نفس نے مجھے کچھ ایسا ہی سُجھایا“۔
موسٰیؑ نے کہا ” اچھا تو جا، اب زندگی بھر تجھے یہی پکارتے رہنا ہے کہ مجھے نہ چھونا۔ اور تیرے لیے بازپُرس کا ایک وقت مقرر ہے جو تجھ سے ہر گز نہ ٹلے گا۔اور دیکھ اپنے اِس خدا کو جس پر تو ریجھا ہُوا تھا، اب ہم اسے جلا ڈالیں گے اور ریزہ ریزہ کر کے دریا میں بہا دیں گے۔ لوگو، تمہارا خدا تو بس ایک ہی اﷲ ہے جس کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے، ہر چیز پر اُس کا علم حاوی ہے“۔
اے محمد، ا س طرح ہم پچھلے گزرے ہوئے حالات کی خبریں تم کو سُناتے ہیں ، اور ہم نے خاص اپنے ہاں سے تم کو ایک ”ذِکر“(درسِ نصیحت) عطا کیا ہے۔جو کوئی اِس سے منہ موڑے گا وہ قیامت کے دن سخت بارِ گناہ اُٹھائے گا ، اور ایسے سب لوگ ہمیشہ اس کے وبال میں گرفتار رہیں گے، اور قیامت کے دن اُن کے لیے (اِس جرم کی ذمہ داری کا بوجھ) بڑا تکلیف دہ بوجھ ہو گا، اُس دن جبکہ صُور پھُونکا جائے گا اور ہم مجرموں کو اِس حال میں گھیر لائیں گے کہ ان کی آنکھیں (دہشت کے مارے) پتھرائی ہوئی ہوں گی، آپس میں چُپکے چُپکے کہیں گے کہ دُنیا میں مشکل ہی سے تم نے کوئی دس دن گزارے ہوں گے“.... ہمیں خوب معلوم ہے کہ وہ کیا باتیں کر رہے ہوں گے (ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ) اُس وقت ان میں سے جوزیادہ سے زیادہ محتاط اندازہ لگانے والا ہوگاوہ کہے گا کہ نہیں ، تمہاری دنیا کی زندگی بس ایک دن کی تھی۔
یہ لوگ تم سے پُوچھتے ہیں کہ آخر اُس دن یہ پہاڑ کہاں چلے جائیں گے؟ کہو کہ میرا رب ان کو دُھول بنا کر اُڑا دے گا اور زمین کو ایسا ہموار چٹیل میدان بنا دے گا کہ اس میں تم کوئی بَل اور سَلوَٹ نہ دیکھو گے....اس روز سب لوگ منادی کی پکار پر سیدھے چلے آئیں گے، کوئی ذرا اکڑ نہ دکھا سکے گا۔ اور آوازیں رحمان کے آگے دب جائیں گی، ایک سر سراہٹ کے سوا تم کچھ نہ سنو گے۔ اُس روز شفاعت کارگر نہ ہو گی، اِلّا یہ کہ کسی کو رحمان اس کی اجازت دے اور اس کی بات سننا پسند کرے.... وہ لوگوں کا اگلا پچھلاسب حال جانتا ہے اور دُوسروں کو اس کا پورا عِلم نہیں ہے ....لوگوں کے سر اُس حی ّ و قیّوم کے آگے جھک جائیں گے۔ نامراد ہو گا جو اُس وقت کسی ظلم کا بارِگناہ اُٹھائے ہوئے ہو۔ اور کسی ظلم یا حق تلفی کا خطرہ نہ ہوگا اُس شخص کو جو نیک عمل کرے اور اِس کے ساتھ وہ مومن بھی ہو۔
اور اے محمد، اِسی طرح ہم نے اِسے قرآنِ عربی بنا کر نازل کیا ہے اور اس میں طرح طرح سے تنبیہات کی ہیں شاید کہ یہ لوگ کج روی سے بچیں یا ان میں کچھ ہوش کے آثار اِس کی بدولت پیدا ہوں ۔
پس بالا و برتر ہے اﷲ، پادشاہِ حقیقی۔
اور دیکھو، قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کیا کرو جب تک کہ تمہاری طرف اُس کی وحی تکمیل کو نہ پہنچ جائے، اور دُعا کرو کہ اے پروردگار مجھے مزید علم عطا کر۔
ہم نے اِس سے پہلے آدم کو ایک حکم دیا تھا، مگر وہ بھُول گیا اور ہم نے اُس میں عزم نہ پایا۔ یاد کرو و ہ وقت جبکہ ہم نے فرشتوں سے کہا تھا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ وہ سب تو سجدہ کر گئے، مگر ایک ابلیس تھا کہ انکار کر بیٹھا۔ اس پر ہم نے آدمؑ سے کہا کہ " دیکھو،یہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے، ایسا نہ ہو کہ یہ تمہیں جنت سے نکلوا دےاور تم مصیبت میں پر جاؤ۔ یہاں تو تمہیں یہ آسائشیں حاصل ہیں کہ نہ بھوکے ننگے رہتے ہو، نہ پیاس اور دھوپ تمہیں ستاتی ہے"۔ لیکن شیطان نے اس کو پھُسلایا۔ کہنے لگا " آدم، بتاؤں تمہیں وہ درخت جس سے ابدی زندگی اور لازوال سلطنت حاصل ہوتی ہے"؟ آخر کار وہ دونوں (میاں بیوی) اُس درخت کا پھَل کھا گئے۔ نتیجہ یہ ہُوا کہ فورًا ہی ان کے ستِر ایک دوسرے کے آگے کھُل گئے اور لگے دونوں اپنے آپ کو جنّت کے پتّوں سے ڈھانکنے۔ آدمؑ نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور راہِ راست سے بھٹک گیا۔پھر اُس کے رب نے اُسے برگزیدہ کیا اور اس کی توبہ قبول کر لی اور اسے ہدایت بخشی۔ اور فرمایا "تم دونوں (فریق، یعنی انسان اورشیطان) یہاں سے اتر جاؤ۔ تم ایک دُوسرے کے دشمن رہو گے۔اب اگر میری طرف سے تمہیں کوئی ہدایت پہنچے تو جو کوئی میری اُس ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ بھٹکے گا نہ بد بختی میں مُبتلا ہو گا۔اور جو میرے "ذِکر"(درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اُس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہو گی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اُٹھائیں گے"_____وہ کہے گا "پروردگار، دُنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا، یہاں مجھے اندھا کیوں اُٹھایا"؟ اللہ تعالٰی فرمائے گا " ہاں، اِسی طرح تو ہماری آیات کو ، جبکہ وہ تیرے پاس آئی تھیں، تُو نے بھُلا دیا تھا۔ اُسی طرح آج تُو بھُلایا جا رہا ہے"____اِس طرح ہم حد سے گزرنے والےاور اپنے رب کی آیات نہ ماننے والےکو (دُنیا میں) بدلہ دیتے ہیں، اور آخرت کا عذاب زیادہ سخت اور زیادہ دیرپا ہے۔
پھر کیا اِن لوگوں کو (تاریخ کے اس سبق سے) کوئی ہدایت نہ ملی کہ اِن سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں جن کی (برباد شدہ) بستیوں میں آج یہ چلتے پھرتے ہیں؟ درحقیقت اِس میں بہت سی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو عقلِ سلیم رکھنے والے ہیں۔
اگر تیرے رب کی طرف سےپہلے ایک بات طے نہ کر دی گئی ہوتی اور مُہلت کی ایک مدّت مقرّر نہ کی جا چکی ہوتی توضرور اِن کا بھی فیصلہ چکا دیا جاتا۔پس اے محمدؐ، جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں اُن پر صبر کرو، اور اپنے رب کی حمد و ثنا کے ساتھ اُس کی تسبیح کرو سُورج نکلنے سے پہلےاور غروب ہونے سے پہلے، اور رات کے اوقات میں بھی تسبیح کرو اور دن کے کناروں پر بھی، شاید کہ تم راضی ہو جاؤ۔ اور نگاہ اُٹھا کر بھی نہ دیکھو دُنیوی زندگی کی اُس شان و شوکت کو جو ہم نے اِن میں سے مختلف قِسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے۔ وہ تو ہم نے انہیں آزمائش میں ڈالنے کےلیے دی ہے، اور تیرے رب کا دیا ہوا رزقِ حلال ہی بہتر اور پائندہ تر ہے۔اپنے اہل و عیال کو نماز کی تلقین کرو اور خود بھی اس کے پابند رہو۔ ہم تم سےکوئی رزق نہیں چاہتے، رزق تو ہم ہی تمہیں دے رہے ہیں۔ اور انجام کی بھلائی تقوٰی ہی کے لیے ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ شخص اپنے رب کی طرف سے کوئی نشانی (معجزہ) کیوں نہیں لاتا؟ اور کیا ان کے پاس اگلے صحیفوں کی تمام تعلیمات کا بیانِ واضح نہیں آ گیا؟ اگر ہم اُس کے آنے سے پہلے اِن کو کسی عذاب سے ہلاک کر دیتے تو پھر یہی لوگ کہتے کہ اے ہمارے پروردگار، تو نے ہمارے پاس کوئی رسول کیوں نہ بھیجا کہ ذلیل و رسوا ہونے سے پہلے ہی ہم تیری آیات کی پیروی اختیار کر لیتے۔ اے محمدؐ، ان سے کہو، ہر ایک انجام کار کے انتظار میں ہے، پس اب منتظر رہو، عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کون سیدھی راہ چلنے والے ہیں اور کون ہدایت یافتہ ہیں۔