دوست
محفلین
نعمان کے کہنے پر یہ پوسٹ لکھ رہا ہوں چونکہ ان کے خیال میں ایک عدد پالیسی کا ہونا ضروری ہے۔ چناچہ میں یہاں اپنا نکتہ نظر بیان کروں گا آپ کو کوئی اعتراض ہو، تجویز ہو تو جواب میں مطلع کردیجے گا اسی طرح مل ملا کر ایک عدد پالیسی تشکیل دئیے لیتے ہیں۔
اردو ترجمہ کرتے وقت میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ ہماری ترجیح اردو ہے اور اس کے بعد سلیس اردو ۔ اگر سلیس اردو نہیں تو اردو اور اگر اردو بھی نہیں تو رومن انگریزی۔
سادہ سی پالیسی میرے خیال میں۔
ترجمہ کرنے کی دو اقسام ہیں ایک معنوی دوسرا تمثیلی۔ اس کی مثال یہ لے لیںکا سکن کا معنوی ترجمہ کھال ہوگا اور تمثیلی ترجمہ کینچلی۔ تمثیلیں گھڑنا اردو والوں کی پرانی عادت ہے اس لیے کہیں نہ کہیں تمثیلی ترجمے بھی آہی جاتے ہیں جیسے مقتدرہ کا سرور کو پیشکار کردینا۔
چونکہ صارفین انگریزی استعمال کرنے کے عادی ہیں اس لیے جب وہ اردو دیکھیں گے تو پہلے ان کا ذہن اسے انگریزی میں بدلے گا پھر وہ اسے سمجھیں گے یہ کم از کم کچھ عرصہ تک چلے گا۔ اس صورت میں معنوی ترجمے کے فوائد نظر آتے ہیں کہ صارف ٹھک سے انگریزی معنوں تک پہنچ کر مطلب جان لے گا بعد میں پھر عادت ہوجائے گی اور اجنبیت محسوس نہ ہوگی۔
تمثیلی ترجمے کا مسئلہ یہ ہے کہ پہلی نظر میں اگر سرور کی جگہ پیشکار لکھا ہے تو عدالت کا خیال آئے گا پھر گھوم پھر کر پتا چلے گا اوہو یہ تو سرور ہے۔ صارف کو اس سلسلے میں مشکلات کچھ زیادہ ہوسکتی ہیں لیکن یاد رہے یہ بھی چند بار کی الجھن ہوگی پھر سب ٹھیک ہوجائے گا۔
چناچہ میرا خیال ہے معنوی ترجمے کو فوقیت دی جائے لیکن جہاں معنوی ترجمہ لمبا ہوجائے یا عجیب سا لگے جیسا سکن کے لیے کھال کم از کم مجھے تو قصائی اور بکرا یاد آجاتا ہے اور اس کی کھال ( یخ۔۔ )۔ اس لیے میں نے کینچلی کا تجویز کیا تھا۔ اگرچہ اس میں بھی سانپ میاں موجود ہیں لیکن دو تین بار ہی صارف کی نظروں میں سانپ میاں ناچیںگے چوتھی بار سکن کا لفظ آنے پر یاہو پیغامبر ہی ناچے گا یہ گارنٹی ہے۔
اب بات کرتے ہیں عجیب و غریب ہونے کی۔ واقعی نعمان کا خدشہ بجا ہے کہ اردو میں ترجمہ کرنے پر ناک کہیں اور کان کہیں لگ رہا ہے۔ نئی نئی اور عجیب و غریب اصطلاحات الفاظ اور کہیں کا لفظ کہیں لگ رہا ہے۔
میں کچھ مثالوں سے وضاحت کرنا چاہوں گا کہ یہ سب ہمیں کیوں عجیب و غریب لگ رہا ہے اور اسے نظر انداز کیوں کرنا ہوگا۔
عام زندگی میں دیکھیے ہم زمین پر ہی کیوںچلتے ہیں آسمان پر کیوںنہیں، ذرا کمپیوٹر سے اٹھ کر باہر دیکھیں بڑی بڑی گاڑیاں ایویں دوڑی بھاگی پھر رہی ہیں۔ چلیں اگر آپ کی طرف رات ہے تو ذرا کھڑکی میں سے چاند کو دیکھیں یہ صدیوں سے یہیں کیوں ہے کہیں چلا کیوں نہیں گیا، چند سال پہلے اگر آپ بچے تھے تو اب جوان کیوں ہیں۔ کیا یہ عجیب و غریب نہیں؟؟؟ اب آپ کہیں گے شاکر پاغل ہوگیا ہے ان چیزوں کا بھلا ترجمے سے کیا تعلق۔ لیکن میں تعلق بھی بیان کرتا ہوں ان چیزوں کو چھوڑیں کمپیوٹر میں ہی بات کرلیتے ہیں ڈیسکٹاپ شاید پہلی آنے والی سکرین ہی کہلاتی ہے اب ڈیسکٹاپ ہی کیوں اس سے مراد تو کسی میز کی اوپر والی سطح ہے جبکہ کمپیوٹر میں ڈیسکٹاپ کیسے ہوگیا۔ سسٹم ٹاپ جیسی کوئی چیز ہونی چاہیے تھی۔ اب آپ کا یقینًا اعتراض ہوگا کہ اوئے بے عقل اس سے مراد ہے کہ کمپیوٹر ڈیسک پر پڑا ہے۔ تو تمثیل ہوگئی ناں۔ تھوڑا سا کمپرومائز انگریز نے بھی کیا ہے ناں۔ بعد میں اسے عادت پڑ گئی اور ڈیسکٹاپ ہی رائج ہوگیا یہ حال بقیہ اصطلاحات کا اور ان عوامل کا ہے جن کا میں نے ذکر کیا۔ یعنی مانوسیت۔ ہمیں سب کچھ روٹین لگتی ہے جو ہم اپنے اردگرد دیکھتے ہیں، اس میں حیرت کی اور عجیب و غریب والی کوئی بات ہی نہیں بھئی سب ہی زمین پر چلتے ہیں ، گاڑیاں دوڑیں گی نہیں تو اور کیا اڑیں گی، اور چاند کہاں جائے گا زمین کو چھوڑ کر زمین کا سیٹلائٹ ہے یار یہ، کمپیوٹر کی ابتدائیے کے بعد پہلی سکرین کو ڈیسکٹاپ ہی کہیں گے، ہم ان سب کے عادی ہوچکے ہیں۔ حالانکہ ان میں بھی بے شمار ایسی چیزیں ہیں جو عجیب و غریب کے معنوں پر پورا اترتی ہیں خود ہمارا زمین پر چلنا اور چاند کا زمین سے دور نہ جاسکنا یعنی کشش ثقل ایک لمبا چوڑا موضوع ہے کسی سائنسدان سے پوچھیں جو سر پکڑ کر بیٹھے ہیں کہ یہ کیا شے بنا دی گئی ہے جسے لوگ کشش ثقل کہہ کر پرے آرام سے بیٹھ جاتے ہیں اگر اسمیں ذرا سی کمی بیشی ہوجاتی تو کیا ہوتا، اگر یہ ایسی نہ ہوتی جیسی ہے تو کیا ہوتا وغیرہ وغیرہ۔
تو عزیزان من اتنی لمبی چوڑی تمہید کا صرف اتنا مقصد تھا کہ آپ کو باور کرایا جائے کہ ہمیں صرف اردو ترجمہ عجیب و غریب اس لیے لگتا ہے کہ ہم اس کے عادی نہیں جس کے ہم عادی ہیں وہ چاہے جتنا بھی عجیب و غریب ہو ہمیں محسوس ہی نہیں ہوتا۔ تو نتیجہ یہ نکلا کہ یہ عجیب و غریب اور اعتراضات کی بیماری تب ہی رفع ہوگی جب ہم اردو ترجمے والے پروگرام استعمال کریں گے پھر ہمارے لیے یہ ایسے ہی ہوگا جیسے اب ہم انگریزی پروگرام استعمال کرتے ہیں، جیسے بس میں سکول کالج، دفتر چلے جاتے ہیں ، جیسے اپنے پیروں پر چلتے ہیں۔
تو بھائیو اتنے لمبے چوڑے بے معنی سے خطبے کا نتیجہ یہ ہے کہ خدارا اردو کو طعنے مت دیں اگر ہال آف مررز کا ترجمہ ایوان آئینہ کردیا گیا ہے تواس میں اردو کا کیا قصور ہال کو ایوان اور مرر کو آئینہ ہی تو کہتے ہیں اردو میں۔ مسئلہ ترجمے میں نہیں مسئلہ ہم میں ہے ہم عادی نہیں جب عادی ہوجائیں گے آنکھوں پر مانوسیت کی عینک چڑھ جائے گی تب سب ٹھیک لگے گا۔ اس لیے عزیزان من تھوڑا صبر کیجیے اردو پر آنکھیں نہ نکالیے اگر اس کے بولنے والے اتنے چنگے ہوتے تو اس میں بھی انگریزی کی طرح اصطلاحات بن رہی ہوتیں لیکن اس کی بدقسمتی اس کو دو طرح کے لوگ ہی ملے یا تو نشے میں ٹُن فلسفی ادیب اور شعراء جنھوں نے محبوب کو قبر سے نکال نکال کر اس پر شعر لکھے یا پھر میرے جیسے جو اس کو شاعری کی زبان ہونے کے طعنے دیتے رہے۔ دوسری زبانوں کی فصاحت کے گن گاتے رہے۔ہمیں یہ دونوں روشیں چھوڑنی ہیں ہمیںاردو میں اصطلاحات بنانی ہیں تب ہی بات بنے گی معیارات قائم کرنے ہیں خود سے قائم نہیں ہونگے۔ اردو جو ہے جیسی ہے سامنے ہے، اسی میں سے گوہر مقصود نکالنا ہوگا ہمارے لیے آسمان سے اردو کی کوئی نئی قسم نہیں اترے گی۔ اگر دل نہیں مانتا تو منافقت چھوڑیں اور اللہ کا نام لے کر جو ہے جیسے ہے چلنے دیں۔
وسلام
اردو ترجمہ کرتے وقت میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ ہماری ترجیح اردو ہے اور اس کے بعد سلیس اردو ۔ اگر سلیس اردو نہیں تو اردو اور اگر اردو بھی نہیں تو رومن انگریزی۔
سادہ سی پالیسی میرے خیال میں۔
ترجمہ کرنے کی دو اقسام ہیں ایک معنوی دوسرا تمثیلی۔ اس کی مثال یہ لے لیںکا سکن کا معنوی ترجمہ کھال ہوگا اور تمثیلی ترجمہ کینچلی۔ تمثیلیں گھڑنا اردو والوں کی پرانی عادت ہے اس لیے کہیں نہ کہیں تمثیلی ترجمے بھی آہی جاتے ہیں جیسے مقتدرہ کا سرور کو پیشکار کردینا۔
چونکہ صارفین انگریزی استعمال کرنے کے عادی ہیں اس لیے جب وہ اردو دیکھیں گے تو پہلے ان کا ذہن اسے انگریزی میں بدلے گا پھر وہ اسے سمجھیں گے یہ کم از کم کچھ عرصہ تک چلے گا۔ اس صورت میں معنوی ترجمے کے فوائد نظر آتے ہیں کہ صارف ٹھک سے انگریزی معنوں تک پہنچ کر مطلب جان لے گا بعد میں پھر عادت ہوجائے گی اور اجنبیت محسوس نہ ہوگی۔
تمثیلی ترجمے کا مسئلہ یہ ہے کہ پہلی نظر میں اگر سرور کی جگہ پیشکار لکھا ہے تو عدالت کا خیال آئے گا پھر گھوم پھر کر پتا چلے گا اوہو یہ تو سرور ہے۔ صارف کو اس سلسلے میں مشکلات کچھ زیادہ ہوسکتی ہیں لیکن یاد رہے یہ بھی چند بار کی الجھن ہوگی پھر سب ٹھیک ہوجائے گا۔
چناچہ میرا خیال ہے معنوی ترجمے کو فوقیت دی جائے لیکن جہاں معنوی ترجمہ لمبا ہوجائے یا عجیب سا لگے جیسا سکن کے لیے کھال کم از کم مجھے تو قصائی اور بکرا یاد آجاتا ہے اور اس کی کھال ( یخ۔۔ )۔ اس لیے میں نے کینچلی کا تجویز کیا تھا۔ اگرچہ اس میں بھی سانپ میاں موجود ہیں لیکن دو تین بار ہی صارف کی نظروں میں سانپ میاں ناچیںگے چوتھی بار سکن کا لفظ آنے پر یاہو پیغامبر ہی ناچے گا یہ گارنٹی ہے۔
اب بات کرتے ہیں عجیب و غریب ہونے کی۔ واقعی نعمان کا خدشہ بجا ہے کہ اردو میں ترجمہ کرنے پر ناک کہیں اور کان کہیں لگ رہا ہے۔ نئی نئی اور عجیب و غریب اصطلاحات الفاظ اور کہیں کا لفظ کہیں لگ رہا ہے۔
میں کچھ مثالوں سے وضاحت کرنا چاہوں گا کہ یہ سب ہمیں کیوں عجیب و غریب لگ رہا ہے اور اسے نظر انداز کیوں کرنا ہوگا۔
عام زندگی میں دیکھیے ہم زمین پر ہی کیوںچلتے ہیں آسمان پر کیوںنہیں، ذرا کمپیوٹر سے اٹھ کر باہر دیکھیں بڑی بڑی گاڑیاں ایویں دوڑی بھاگی پھر رہی ہیں۔ چلیں اگر آپ کی طرف رات ہے تو ذرا کھڑکی میں سے چاند کو دیکھیں یہ صدیوں سے یہیں کیوں ہے کہیں چلا کیوں نہیں گیا، چند سال پہلے اگر آپ بچے تھے تو اب جوان کیوں ہیں۔ کیا یہ عجیب و غریب نہیں؟؟؟ اب آپ کہیں گے شاکر پاغل ہوگیا ہے ان چیزوں کا بھلا ترجمے سے کیا تعلق۔ لیکن میں تعلق بھی بیان کرتا ہوں ان چیزوں کو چھوڑیں کمپیوٹر میں ہی بات کرلیتے ہیں ڈیسکٹاپ شاید پہلی آنے والی سکرین ہی کہلاتی ہے اب ڈیسکٹاپ ہی کیوں اس سے مراد تو کسی میز کی اوپر والی سطح ہے جبکہ کمپیوٹر میں ڈیسکٹاپ کیسے ہوگیا۔ سسٹم ٹاپ جیسی کوئی چیز ہونی چاہیے تھی۔ اب آپ کا یقینًا اعتراض ہوگا کہ اوئے بے عقل اس سے مراد ہے کہ کمپیوٹر ڈیسک پر پڑا ہے۔ تو تمثیل ہوگئی ناں۔ تھوڑا سا کمپرومائز انگریز نے بھی کیا ہے ناں۔ بعد میں اسے عادت پڑ گئی اور ڈیسکٹاپ ہی رائج ہوگیا یہ حال بقیہ اصطلاحات کا اور ان عوامل کا ہے جن کا میں نے ذکر کیا۔ یعنی مانوسیت۔ ہمیں سب کچھ روٹین لگتی ہے جو ہم اپنے اردگرد دیکھتے ہیں، اس میں حیرت کی اور عجیب و غریب والی کوئی بات ہی نہیں بھئی سب ہی زمین پر چلتے ہیں ، گاڑیاں دوڑیں گی نہیں تو اور کیا اڑیں گی، اور چاند کہاں جائے گا زمین کو چھوڑ کر زمین کا سیٹلائٹ ہے یار یہ، کمپیوٹر کی ابتدائیے کے بعد پہلی سکرین کو ڈیسکٹاپ ہی کہیں گے، ہم ان سب کے عادی ہوچکے ہیں۔ حالانکہ ان میں بھی بے شمار ایسی چیزیں ہیں جو عجیب و غریب کے معنوں پر پورا اترتی ہیں خود ہمارا زمین پر چلنا اور چاند کا زمین سے دور نہ جاسکنا یعنی کشش ثقل ایک لمبا چوڑا موضوع ہے کسی سائنسدان سے پوچھیں جو سر پکڑ کر بیٹھے ہیں کہ یہ کیا شے بنا دی گئی ہے جسے لوگ کشش ثقل کہہ کر پرے آرام سے بیٹھ جاتے ہیں اگر اسمیں ذرا سی کمی بیشی ہوجاتی تو کیا ہوتا، اگر یہ ایسی نہ ہوتی جیسی ہے تو کیا ہوتا وغیرہ وغیرہ۔
تو عزیزان من اتنی لمبی چوڑی تمہید کا صرف اتنا مقصد تھا کہ آپ کو باور کرایا جائے کہ ہمیں صرف اردو ترجمہ عجیب و غریب اس لیے لگتا ہے کہ ہم اس کے عادی نہیں جس کے ہم عادی ہیں وہ چاہے جتنا بھی عجیب و غریب ہو ہمیں محسوس ہی نہیں ہوتا۔ تو نتیجہ یہ نکلا کہ یہ عجیب و غریب اور اعتراضات کی بیماری تب ہی رفع ہوگی جب ہم اردو ترجمے والے پروگرام استعمال کریں گے پھر ہمارے لیے یہ ایسے ہی ہوگا جیسے اب ہم انگریزی پروگرام استعمال کرتے ہیں، جیسے بس میں سکول کالج، دفتر چلے جاتے ہیں ، جیسے اپنے پیروں پر چلتے ہیں۔
تو بھائیو اتنے لمبے چوڑے بے معنی سے خطبے کا نتیجہ یہ ہے کہ خدارا اردو کو طعنے مت دیں اگر ہال آف مررز کا ترجمہ ایوان آئینہ کردیا گیا ہے تواس میں اردو کا کیا قصور ہال کو ایوان اور مرر کو آئینہ ہی تو کہتے ہیں اردو میں۔ مسئلہ ترجمے میں نہیں مسئلہ ہم میں ہے ہم عادی نہیں جب عادی ہوجائیں گے آنکھوں پر مانوسیت کی عینک چڑھ جائے گی تب سب ٹھیک لگے گا۔ اس لیے عزیزان من تھوڑا صبر کیجیے اردو پر آنکھیں نہ نکالیے اگر اس کے بولنے والے اتنے چنگے ہوتے تو اس میں بھی انگریزی کی طرح اصطلاحات بن رہی ہوتیں لیکن اس کی بدقسمتی اس کو دو طرح کے لوگ ہی ملے یا تو نشے میں ٹُن فلسفی ادیب اور شعراء جنھوں نے محبوب کو قبر سے نکال نکال کر اس پر شعر لکھے یا پھر میرے جیسے جو اس کو شاعری کی زبان ہونے کے طعنے دیتے رہے۔ دوسری زبانوں کی فصاحت کے گن گاتے رہے۔ہمیں یہ دونوں روشیں چھوڑنی ہیں ہمیںاردو میں اصطلاحات بنانی ہیں تب ہی بات بنے گی معیارات قائم کرنے ہیں خود سے قائم نہیں ہونگے۔ اردو جو ہے جیسی ہے سامنے ہے، اسی میں سے گوہر مقصود نکالنا ہوگا ہمارے لیے آسمان سے اردو کی کوئی نئی قسم نہیں اترے گی۔ اگر دل نہیں مانتا تو منافقت چھوڑیں اور اللہ کا نام لے کر جو ہے جیسے ہے چلنے دیں۔
وسلام