ترجمے کا اعجاز

عاطف بٹ

محفلین
۔۔۔ جب چند برس بعد عزیزم خالد احمد نے مجھے بتایا کہ ایک پنجابی شاعر اسیر عابد نے ’دیوانِ غالب‘ کو پنجابی شاعری میں منتقل کرنے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے تو مجھے مسرت کی بجائے خدشہ محسوس ہوا کہ پنجابی میں منتقل ہو کر کہیں مرزا غالب کے ساتھ زیادتی نہ ہوجائے۔ میں سوچتا تھا کہ اسیر عابد نے غالب کے مثلاً اس شعر کے ساتھ کیا سلوک کیا ہوگا:
دل نہیں ورنہ دکھاتا تجھ کو داغوں کی بہار
اس چراغاں کا کروں کیا، کارفرما جل گیا​
کچھ عرصے کے بعد میں نے اسیر عابد کے تراجم میں سے اس شعر کا ترجمہ بطور خاص تلاش کیا اور جب یہ ترجمہ پڑھا تو دم بخود رہ گیا کہ مرزا غالب کے اس بڑے شعر کو اسیر عابد نے کچھ اس طرح پنجابی کا جامہ پہنایا ہے کہ اگر غالب زندہ ہوتا اور اسے پنجابی سے بھی شد بد ہوتی تو یہ ترجمہ سن کر وہ اسیر عابد کو سینے سے لگا لیتا۔ ترجمہ یہ تھا:
دل ہندا تے آپے تینوں بلدے داغ وکھاندا
میں ایہہ دیوے کتھے بالاں، بالن والا بلیا​
(اسیر عابد کے ’دیوانِ غالب‘ کے منظوم پنجابی ترجمے پر احمد ندیم قاسمی کے دیباچے سے اقتباس)
 

تلمیذ

لائبریرین
شراکت کا شکریہ، بٹ جی۔ٖ
غالب کی ایک اورمشہور غزل کا صوفی تبسم مرحوم نے بھی بے مثال ترجمہ کیاہے۔ (میرے شوق دا نئیں اعتبار تینوں، آجا وکھ میرا انتظار آجا) اور غلام علی نے گاکر اسے امر بنا دیا ہے۔
 

جیہ

لائبریرین
حال ہی میں دیوان غالب کا پشتو منظوم ترجمہ منظر عام پر آیا ہے. ان شاء اللہ تبصرہ شامل محفل کروں گی
 
پروفیسر اسیر عابد کا غالب کا منظوم ترجمہ پڑھنے کا لطف ہی کچھ اور ہے
غالب جیسے دقیق اور مشکل پسند شاعر کا انہوں نے جسطرح ترجمہ کیا ہے وہ انہی کا خاصہ ہے
 
نقش فریادی ہےکس کی شوخئ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

کاؤکاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا

جذبۂ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا

آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا

بس کہ ہوں غالب، اسیری میں بھی آتش زیِر پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا

پنجابی ترجمہ
از اسیر عابد

چتر کوکدا اے، چتر کار کیہڑے کھیکھن گُنھیا وِچ تحریر سائیں
چولے کاغذی ساریاں مورتاں دے بے دسّیاں بے تقصیر سائیں

کار کار نہ پُچھ اکلاپیاں دی پتھر جِند نوں سِک عذاب اندر
شاموں فجر اڈیکدے کڈھ لئیے دُدھ نہر پہاڑ نوں چِیر سائیں

سدّھر اتھری شوق شہادتاں دی مقناطیس وانگوں کھچ ماردی اے
سینے وِچ تلوار دے ساہ اوکھا کڈّھی چھاتیوں دھار شمشیر سائیں

سُرتاں ہو ہشیار چالاک بھانویں جال کناں دے لکھ وچھان پیّاں
پنچھی غیب دا اپنی گل وِچلی، نہیں پھڑکدے وچ تقریر سائیں

غالب پینکھڑاں وچ نہ رہواں پَیراں ہیٹھ چواتیاں بجھّیاں نیں
کُنڈل سیکیا وال ہے سنگلی دا جیہڑی سنگلی اساں اسیر سائیں

چتر: نقش، تصویر
چترکار: مصور، نقاش
پینکھڑاں: پاؤں باندھنے کی زنجیر یا رسّی
عاطف بٹ تلمیذ
 

عاطف بٹ

محفلین
پروفیسر اسیر عابد کا غالب کا منظوم ترجمہ پڑھنے کا لطف ہی کچھ اور ہے
غالب جیسے دقیق اور مشکل پسند شاعر کا انہوں نے جسطرح ترجمہ کیا ہے وہ انہی کا خاصہ ہے
متفق علیہ!
اسیر صاحب کو اللہ غریقِ رحمت کرے کہ انہوں نے ’دیوانِ غالب‘ اور ’بالِ جبریل‘ کے منظوم پنجابی تراجم سے حقیقتاً ہر دو زبانوں کی بےمثال خدمت انجام دی ہے۔
 

تلمیذ

لائبریرین
بہت اعلی۔ خصوصاً یہ شعر:
کاؤکاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا
۔۔
کار کار نہ پُچھ اکلاپیاں دی پتھر جِند نوں سِک عذاب اندر
شاموں فجر اڈیکدے کڈھ لئیے دُدھ نہر پہاڑ نوں چِیر سائیں

شراکت کا شکریہ، جناب۔
 
Top