امجد علی راجا
محفلین
بیان اس کا غلط آیا "ترقی ہو رہی ہے"
منسٹر خود بھی شرمایا، ترقی ہو رہی ہے
لگایا ہم نے سرمایا، ترقی ہو رہی ہے
منسٹر بن گئے تایا، ترقی ہو رہی ہے
ہوئی نایاب سی این جی، ہوا پٹرول مہنگا
حکومت کا بیان آیا، ترقی ہو رہی ہے
ہوا بحران آٹے کا، ہوئی خوراک بہتر
پلاؤ سب نے ہے کھایا، ترقی ہو رہی ہے
مسلسل کھاؤ گے چینی تو ہو جائے گی شوگر
ذرا وقفہ ہے کروایا، ترقی ہو رہی ہے
ترقی کے لئے ہے لوڈ شیڈنگ بھی ضروری
یہ "یو پی ایس" جو ہے آیا ترقی ہو رہی ہے
جو فیشن شو ہوا کرتا تھا پیرس میں، دوبئی میں
یہاں وہ شو بھی کروایا، ترقی ہو رہی ہے
تجھے گھر کی پڑی ہے اور ہم نے ہر سِٹی میں
ہے "مونومنٹ" بنوایا، ترقی ہو رہی ہے
سوئس بینکوں میں کھاتا ہے ترقی کی علامت
نیا کھاتا ہے کھلوایا ترقی ہو رہی ہے
ہم اردو بھی جو ہیں لکھتے، تو انگلش میں ہیں لکھتے
زباں پر ہے زوال آیا، ترقی ہو رہی ہے
سنیں دشمن! جو کہتے ہیں زوال آنے لگا اب
ہے امریکہ نے فرمایا، ترقی ہو رہی ہے
ہمیں ملتی رہے امداد دنیا سے مسلسل
فقیری کو ہے اپنایا، ترقی ہو رہی ہے
وہ ہر دسویں مہینے باپ بنتا ہے مسلسل
اسی پر خوش ہے ہمسایہ ترقی ہو رہی ہے
استادِ محترم الف عین صاحب کا شکرگزار ہوں جنہوں نے اس غزل کی اصلاح فرما کر قابلِ اشاعت بنایا۔