ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
ترکِ وطن
مرہموں کی صورت میں زہر بھی ملے ہم کو
نشتروں کے دھوکے میں وار بھی ہوئے اکثر
منزلوں کی لالچ میں راستے گنوا ڈالے
رہبروں کی چاہت میں خوار بھی ہوئے اکثر
ہر فریب ِتازہ کومسکرا کے دیکھا تھا
دل کو عہدِ رفتہ کےطور ابھی نہیں بھولے
چشم ِخوش گما ں گرچہ تیرگی میں الجھی تھی
خواب دیکھنا لیکن ہم کبھی نہیں بھولے
چُور ہوگئے بازو اک نبر د ِ پیہم سے
دامن ِ رواداری ہاتھ سے نہیں چھوڑا
اک بھرم رہا جب تک اِس سفید پوشی کا
دردکی امانت سےہم نےمنہہ نہیں موڑا
سنگِ رہ گوارا تھے ، ہر سراب تھا منظور
رہزنوں سے تنگ آکر راستے بدل ڈالے
یوں نہیں کہ کھو بیٹھے ہم یقین ِ منزل کو
بس وہاں رسائی کے واسطے بدل ڈالے
دشتِ ترکِ الفت سے ہجر نےپکارا تھا
ہم تمام زنجیریں توڑ کر چلے آئے
کاروبارِ نقدِ جاں ، داستانِ حسن ِ و عشق
سب کو درمیاں میں ہم چھوڑ کر چلے آئے
کسبِ نان ِ سادہ میں دن کو کرلیا مصروف
شام ہم نے کر ڈالی وقفِ یادِ دلداراں
دل کو رکھ دیا ہم نے رہنِ آشنا دشمن
دھڑکنیں کسے کرتے نذر بعدِ دلداراں
اک تضادِ جسم و جاں ہے دیارِ ہجرت میں
کوبکو ہیں سرگرداں، موسموں کو گنتے ہیں
ہر نئے مسیحا سے باندھ کر امیدیں ہم
عہدِ زخم داری میں مرہموں کو گنتے ہیں
تہمتیں سہی ہم پر ہاں گریزپاِئی کی
سست گام ہیں مانا ، پر سفر تو جاری ہے
ہاں نہیں رہے شامل کارواں میں ہم ،لیکن
مرکزِ یقیں اب بھی آرزو ہماری ہے
دامنِ وفا گرچہ دھجیاں ہوا کب کا
جسم سے یہ پیراہن نوچ بھی نہیں سکتے
ہم جہاں نوردوں میں لاکھ عیب ہیں لیکن
گھر سے بے وفائی کا سوچ بھی نہیں سکتے
اگست ۲۰۱۵ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ظہیر احمد
مرہموں کی صورت میں زہر بھی ملے ہم کو
نشتروں کے دھوکے میں وار بھی ہوئے اکثر
منزلوں کی لالچ میں راستے گنوا ڈالے
رہبروں کی چاہت میں خوار بھی ہوئے اکثر
ہر فریب ِتازہ کومسکرا کے دیکھا تھا
دل کو عہدِ رفتہ کےطور ابھی نہیں بھولے
چشم ِخوش گما ں گرچہ تیرگی میں الجھی تھی
خواب دیکھنا لیکن ہم کبھی نہیں بھولے
چُور ہوگئے بازو اک نبر د ِ پیہم سے
دامن ِ رواداری ہاتھ سے نہیں چھوڑا
اک بھرم رہا جب تک اِس سفید پوشی کا
دردکی امانت سےہم نےمنہہ نہیں موڑا
سنگِ رہ گوارا تھے ، ہر سراب تھا منظور
رہزنوں سے تنگ آکر راستے بدل ڈالے
یوں نہیں کہ کھو بیٹھے ہم یقین ِ منزل کو
بس وہاں رسائی کے واسطے بدل ڈالے
دشتِ ترکِ الفت سے ہجر نےپکارا تھا
ہم تمام زنجیریں توڑ کر چلے آئے
کاروبارِ نقدِ جاں ، داستانِ حسن ِ و عشق
سب کو درمیاں میں ہم چھوڑ کر چلے آئے
کسبِ نان ِ سادہ میں دن کو کرلیا مصروف
شام ہم نے کر ڈالی وقفِ یادِ دلداراں
دل کو رکھ دیا ہم نے رہنِ آشنا دشمن
دھڑکنیں کسے کرتے نذر بعدِ دلداراں
اک تضادِ جسم و جاں ہے دیارِ ہجرت میں
کوبکو ہیں سرگرداں، موسموں کو گنتے ہیں
ہر نئے مسیحا سے باندھ کر امیدیں ہم
عہدِ زخم داری میں مرہموں کو گنتے ہیں
تہمتیں سہی ہم پر ہاں گریزپاِئی کی
سست گام ہیں مانا ، پر سفر تو جاری ہے
ہاں نہیں رہے شامل کارواں میں ہم ،لیکن
مرکزِ یقیں اب بھی آرزو ہماری ہے
دامنِ وفا گرچہ دھجیاں ہوا کب کا
جسم سے یہ پیراہن نوچ بھی نہیں سکتے
ہم جہاں نوردوں میں لاکھ عیب ہیں لیکن
گھر سے بے وفائی کا سوچ بھی نہیں سکتے
اگست ۲۰۱۵ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ظہیر احمد