سیما علی
لائبریرین
صحیح فرمایا آپ نے پروردگار آسانیاں عطا فرمائے آمینآسانیاں عطا فرمائے۔ آمین!
برداشت کی نہیں، آسانیوں کی دعا مانگا کریں۔
صحیح فرمایا آپ نے پروردگار آسانیاں عطا فرمائے آمینآسانیاں عطا فرمائے۔ آمین!
برداشت کی نہیں، آسانیوں کی دعا مانگا کریں۔
آمین الہی آمینسوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے
ہاں اس نظم کی صورت میں ہمیں شاعر نظر آتا ہے۔پہلے نظم کی بات ہو جائے۔
زبردست پہ ڈھیروں زبریں۔
الفاظ کا چناؤ ، کیفیات کا بیان، محسوسات کا عمدگی سے اظہار۔
یہ نظم نہیں ہے، نظم کی صورت میں ہمارے سامنے شاعر کھڑا ہے۔
یا ہم خود کو دیکھ رہے ہیں۔
اب اس دکھ کی طرف چلتے ہیں جو ہمیں بھی محسوس ہوتا ہے۔
جانے والوں کی طرح نہیں تو بہت حد تک ہم بھی محسوس کر سکتے ہیں۔
کیونکہ ہم بھی "پاکستان" ہیں۔
اپنی بیٹی سے چند دن پہلے کہہ رہی تھی کہ پاکستان اگر سانس لیتا، چلتا پھرتا ہوتا تو کیا سوچتا ہمارے بارے میں۔ ہم نے اس کا کیا حال کر دیا۔ کس قدر شرمندگی ہوتی ہے۔
سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے
الفاظ نہیں ہیں الفاظ ومعانی کا حسن بیان کرنے کو۔ترکِ وطن
مرہموں کی صورت میں زہر بھی ملے ہم کو
نشتروں کے دھوکے میں وار بھی ہوئے اکثر
منزلوں کی لالچ میں راستے گنوا ڈالے
رہبروں کی چاہت میں خوار بھی ہوئے اکثر
ہر فریب ِتازہ کومسکرا کے دیکھا تھا
دل کو عہدِ رفتہ کےطور ابھی نہیں بھولے
چشم ِخوش گما ں گرچہ تیرگی میں الجھی تھی
خواب دیکھنا لیکن ہم کبھی نہیں بھولے
چُور ہوگئے بازو اک نبر د ِ پیہم سے
دامن ِ رواداری ہاتھ سے نہیں چھوڑا
اک بھرم رہا جب تک اِس سفید پوشی کا
دردکی امانت سےہم نےمنہہ نہیں موڑا
سنگِ رہ گوارا تھے ، ہر سراب تھا منظور
رہزنوں سے تنگ آکر راستے بدل ڈالے
یوں نہیں کہ کھو بیٹھے ہم یقین ِ منزل کو
بس وہاں رسائی کے واسطے بدل ڈالے
دشتِ ترکِ الفت سے ہجر نےپکارا تھا
ہم تمام زنجیریں توڑ کر چلے آئے
کاروبارِ نقدِ جاں ، داستانِ حسن ِ و عشق
سب کو درمیاں میں ہم چھوڑ کر چلے آئے
کسبِ نان ِ سادہ میں دن کو کرلیا مصروف
شام ہم نے کر ڈالی وقفِ یادِ دلداراں
دل کو رکھ دیا ہم نے رہنِ آشنا دشمن
دھڑکنیں کسے کرتے نذر بعدِ دلداراں
اک تضادِ جسم و جاں ہے دیارِ ہجرت میں
کوبکو ہیں سرگرداں، موسموں کو گنتے ہیں
ہر نئے مسیحا سے باندھ کر امیدیں ہم
عہدِ زخم داری میں مرہموں کو گنتے ہیں
تہمتیں سہی ہم پر ہاں گریزپاِئی کی
سست گام ہیں مانا ، پر سفر تو جاری ہے
ہاں نہیں رہے شامل کارواں میں ہم ،لیکن
مرکزِ یقیں اب بھی آرزو ہماری ہے
دامنِ وفا گرچہ دھجیاں ہوا کب کا
جسم سے یہ پیراہن نوچ بھی نہیں سکتے
ہم جہاں نوردوں میں لاکھ عیب ہیں لیکن
گھر سے بے وفائی کا سوچ بھی نہیں سکتے
اگست ۲۰۱۵ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ظہیر احمد
پاکستان کا یہ حال کرنے میں ہم سب برابر کے شریک ہیں ۔ الزام کسی پر کم اور کسی پر زیادہ تو لگایا جاسکتا ہے لیکن یہ ایک اجتماعی جرم ہے ۔ معاشرہ افراد سے مل کر بنتا ہے چنانچہ معاشرے کو سیدھی سمت میں گامزن رکھنے کی کوشش کرنا ہر فرد کی ذمہ داری ہے ۔ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو اپنے کسی دوست یا رشتہ دار سے اس بنا پر قطع تعلق کرلیتے ہیں کہ وہ دھوکہ دہی، ملاوٹ یا حرام خوری میں مبتلا ہے ۔ ہم تو ایسے لوگوں کو علی الاعلان برا کہنے کی جرات بھی نہیں رکھتے۔ سو ایسی صورت میں معاشرے میں کرپشن نارمل بن جاتی ہے ۔ کرپشن نا انصافی اور ظلم کو جنم دیتا ہے ۔ اور نتیجہ پھر معاشرے کے زوال کی صورت میں نکلتا ہے۔یہ نظم نہیں ہے، نظم کی صورت میں ہمارے سامنے شاعر کھڑا ہے۔
یا ہم خود کو دیکھ رہے ہیں۔
اب اس دکھ کی طرف چلتے ہیں جو ہمیں بھی محسوس ہوتا ہے۔
جانے والوں کی طرح نہیں تو بہت حد تک ہم بھی محسوس کر سکتے ہیں۔
کیونکہ ہم بھی "پاکستان" ہیں۔
اپنی بیٹی سے چند دن پہلے کہہ رہی تھی کہ پاکستان اگر سانس لیتا، چلتا پھرتا ہوتا تو کیا سوچتا ہمارے بارے میں۔ ہم نے اس کا کیا حال کر دیا۔ کس قدر شرمندگی ہوتی ہے۔
سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے
اس کے چہرے پہ مسکراہٹ اور حزن کی ملی جلی کیفیات ہیں۔ ایک دکھ ان حالات کا جو وطن پہ اور اس پہ گزرے۔۔۔ ایک مسکراہٹ اس زندگی کی جو وہاں خوشیوں کے ہنڈولے میں گزری۔
ایک غم کی بدلی موجودہ سماجی اور سیاسی ماحول کی اور ایک اطمینان ان خوش خبریوں پہ جو اگرچہ کبھی کبھی سننے کو ملتی ہیں لیکن الحمدللہ ابھی بھی ملتی ہیں۔(@محمداحمد بھائی، @محمد تابش صدیقی ، @سیما علی اور مجھ ناچیز کو پاکستان میں دیکھ کر بھی)
الحمدللّٰہ ! میں کبھی مایوس نہیں ہوتا ۔ بہت زیادہ آپٹی مسٹ ہوں ۔ اس کا اردو متبادل قلم پر نہیں آرہا ۔ اللّٰہ کریم پاکستان کو ضرور اندھیروں سے نکالیں گے ۔ پچھلے چند سالوں میں امید کی نئی کرنیں پھوٹتی نظر آئی ہیں ۔ نئی نسل ( کہ جسے جین زی کہا جارہا ہے) سے بہت امیدیں ہیں ۔ اللّٰہ کرے تمام پرانے کھوسٹ مفاد پرست سیاستدان جلد ازجلد منظر نامے سے رخصت ہوں اور پڑھی لکھی حقیقت پسند عمل پرست قیادت سامنے آئے ۔ایک پریشانی ان خدشات پہ جو مستقبل کے حوالے سے ڈراتے ہیں اور ایک تبسم ان خوابوں کی تعبیر کے لیے جو شاعر کی طرح ہر محب وطن پاکستانی کے دل میں ہیں۔
بہت شکریہ ، نوازش! بہت ممنون ہوں ۔نظم اچھی ہے اور تارکین وطن سے ایسے خیالات آنے بھی ہیں لیکن دیگر مبصرین کے برخلاف اپنے ایک تہائی صدی کے جذبات کی کوئی جھلک دکھائی نہ دی۔ ظاہر ہے ظہیر میرے خیالات و جذبات پر شاعری کرنے سے تو رہے ذکر صرف اس لئے کیا کہ یہ نظم آفاقی ہے بھی کہ پورتوریکن بھی ایسے بات کرتے سنے ہیں اور نہیں بھی کہ مختلف لوگ مختلف جذبات رکھتے ہیں۔
آپ کوشش تو کریں نا ، عبید بھائی ! یہ کیا بات ہوئی کہ الفاظ نہیں مل رہے ۔ بھئ الفاظ ادھر ادھر سے مستعار لے لیں لیکن داد ضرور دیں مجھے ۔ ورنہ دیکھ لیں میں پاکستان آیا تو پھر آپ کے درس میں نہیں بیٹھوں گا ۔الفاظ نہیں ہیں الفاظ ومعانی کا حسن بیان کرنے کو۔
لاجواب!
چُور ہوگئے بازو اک نبر د ِ پیہم سے
دامن ِ رواداری ہاتھ سے نہیں چھوڑا
اک بھرم رہا جب تک اِس سفید پوشی کا
دردکی امانت سےہم نےمنہہ نہیں موڑا
یوں نہیں کہ کھو بیٹھے ہم یقین ِ منزل کو
بس وہاں رسائی کے واسطے بدل ڈالے
نین بھائی ، وطن چھوڑے اب اکتیس بتیس سال ہوگئے ۔ چھوڑتے وقت جو حالات تھے آج پاکستان اس سے زیادہ بری صورتحال سے دوچار ہے ۔ اس وقت تو امید ہوتی تھی کہ ملک اس بھنور سے نکل آئے گا ، کچھ دیر اندھیرا رہے گا لیکن نئی صبح ضرور طلوع ہوگی۔ اب تو وہ امید بھی دم توڑ رہی ہے ۔ اللہ رحم کرے !بہت ہی دلگیر نظم ہے۔۔۔ میرے اور آپ جیسے لوگ ہر مصرعہ میں نظر آتے ہیں۔۔۔ اک اک مصرعہ پڑھتا گیا اور ہر مصرعہ میں کوئی چہرہ ابھرتا ڈوبتا رہا۔۔۔۔ ظہیراحمدظہیر بھائی! اللہ آپ کو خوش رکھے۔۔۔
یہ دیکھیں یہ میں ہوں
یہ دیکھیں یہ آپ ہیں۔۔۔ ۔
بہت شکریہ ، نوازش ! ممنون ہوں شکیل بھائی ! اللہ کریم آپ کو خوش رکھے ۔بہت ہی پرتاثیر کلام ماشا اللہ