ترکی ڈرامہ ارتغرل، انجنیئر مرزا اور پروپیگنڈا

ابن آدم

محفلین
پی ٹی وی پر چلنے والے ارطغرل ڈرامے کے حوالے سے انجینئر مرزا (سوشل میڈیا کے مشہور مقرر) ترکوں کی عثمانی سلطنت کی کامیابیوں کو گہنانے کے لیے منگول سلطنت کی جہاں گیری کو بڑھا چڑھا کر بیان کر رہے ہیں۔ مرزا صاحب کے بقول ڈیڑھ سو سال تک منگول ناقابل شکست رہے ہیں۔ یہ بات تاریخی طور پر انتہائی درجہ میں غلط اور گمراہ کن ہے۔

چنگیز خان نے پہلی فتح اپنے آبائی علاقے میں غیر مسلموں کے ہی مقابلے میں سن ۱۲۰٦ میں حاصل کی اور اس نے خاقان کا لقب اختیار کرکے سلطنت کی نیو ڈالی۔ اس کے کچھ عرصے بعد خوارزم کی اسلامی سلطنت کی باری آئی تھی، اور پھر فتوحات کا سلسلہ چل نکلا۔
چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان کے دور میں عین جالوت (مقبوضہ فلسطین/موجودہ اسرائیل) کے مقام پر مصر کے ترک مملوک بیبرس کے ہاتھوں منگولوں کو جو شکست ہوئی، اور جس کا حوالہ مرزا صاحب نے بھی دیا ہے، وہ سن ۱۲٦۰کی بات ہے، گویا منگووں کی پہلی مقامی فتح اور اس پانسہ پلٹ شکست میں کل ۵۴ سالوں کا عرصہ ہے، جس کو مرزا صاحب نے اس ویڈیو میں بڑھا کر ڈیڑھ سو سال بیان کر دیا ہے۔

منگولوں کی طاقت کو مزید نمایاں کرنے کے لیے یہ بھی فرماتے ہیں کہ مصر اور شام کے علاقوں کو چھوڑ کر ساری اسلامی دنیا بشمول جنوبی ایشیا/ہندوستان منگولوں کے زیر نگیں تھی۔ یہ بات بھی تاریخی طور پر بالکل لغو ہے، خلجی سلطان علاؤالدین نے منگولوں کا ہندوستان میں داخلہ روک دیا تھا، اور وہ یہاں کوئی نمایاں پیش قدمی نہیں کر سکے، اور یہاں کی اسلامی حکومت مکمل طور پر برقرار رہی۔ اسی طرح بلاد مغرب یعنی لیبیا سے مراکش تک کا علاقہ اور موجودہ اسپین میں غرناطہ کی امارت بھی اس پر آشوب دور میں منگولوں کے قبضے میں نہیں آئے تھے بلکہ انکا اسلامی وجود برقرار رہا۔

شاید مرزا صاحب جیسے لوگوں کے لیے ہی میر انیس نے کہا ہوگا

تعریف میں چشمے کو سمندر سے ملا دوں
قطرے کو جو دوں آب تو گوہر سے ملا دوں
ذرّے کی چمک مہرِ منوّر سے ملا دوں
کانٹوں کو نزاکت میں گلِ تر سے ملا دوں

تیسری بات جو عباسی خلیفہ کے حوالے سے بیان کی، اس میں بھی اصل چیز مرزا صاحب گول ہی کر گئے۔ ہلاکو خان بغداد پر چڑھائی سے ہچکچا رہا تھا۔ کیونکہ ضعیف الاعتقاد ہونے کے باعث اس کا گمان تھا کہ اگر مسلمانوں کے خلیفہ کو نقصان پہنچایا گیا تو وہ خود آفت کا شکار ہو جائے گا۔ مرزا صاحب کے محبوب ایرانی مسلک سے تعلق رکھنے والا ہلاکو خان کا مشیر طوسی، اور اسی مسلک سے تعلق رکھنے والا عباسی وزیر اعظم ابن علقمی کی یقین دہانیوں پر ہلاکو خان نے ہمت کی اور بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجائی۔ ہلاکو خان تو اجڈ قوم سے تعلق رکھتا تھا۔ اسکا مقصد تو صرف دنیا فتح کرنا تھا، کتابوں کی اہمیت سے اسکا کیا لینا دینا تھا کہ ان کو جلانے میں کوئی دلچسپی بھی رکھتا۔ جن لائبریریوں کا نوحہ مرزا صاحب اس ویڈیو میں پڑھ رہے ہیں، وہ کس کے ایماء پر جلائی گئی ہونگی، اس کا خود اندازہ لگا لیجیے۔ جب ایرانی مسلک کے کندھوں پر سوار ہوکر خلافت کا خاتمہ ہوا تھا، تو وہ لائبریریاں بھی انہی کے اشاروں پر جلائی گئی ہونگی

اسی ویڈیو میں آگے جاکر مرزا صاحب نے ترکوں کی جنگوں کو منگولوں کی جنگوں سے کمتر دکھانے کے لیے اپنے اصل بغض کی وضاحت بھی اشاروں میں کردی کہ ترکوں کا تعلق حنفی فقہ سے تھا۔ مرزا صاحب کو شاید یہ نہیں معلوم کہ انہی کا بیاان کردہ مملوک سلطان بیبرس بھی حنفی ترک ہی تھا جس نے منگولوں کے سیلاب کو روکا تھا۔ باقی ایشیائے کوچک کا علاقہ (موجودہ ترکی)، قسطنطنیہ کا شہر جسکا ذکر احادیث میں بھی ہے اور مشرقی یورپ بالخصوص بوسنیا، البانیا، بلغاریہ، کوسووو، مقدونیہ وغیرہ کے کئی علاقے اگر آج اسلام سے منور ہیں، تو وہ محض انہی ترکوں ہی کی وجہ سے ہیں جنکو نیچا دکھانے کے لیے منگولوں کی جنگی قوت کے لیے مبالغہ آرائی سے کام لے رہے تھے۔ یہ بھی ترکوں کی عثمانی خلافت ہی تھی کہ جسکی مزاحمت کے باعث مغربی طاقتیں اسرائیل کی نیو نہیں رکھ سکی تھیں۔ کیا یہ سب یکھتے ہوئے یہ مانا جا سکتا ہے کہ ترکوں نے منگولوں کی طرح محض سلطنت کی توسیع کے لیے جنگیں کیں؟ کیا ایسی قوم کی جنگوں کا موازنہ منگولوں سے صرف اس لیے کرنا جائز بنتا ہے کہ اس کا تعلق آپ کے پسندیدہ مسلک سے نہیں تھا؟

کچھ عرصہ قبل محمد بن قاسمؒ کے حوالے سے بھی موصوف فرماچکے ہیں کہ وہ سندھ دراصل سادات کا قتل کرنے آیا تھا۔ ترکوں سے یہاں بغض اگر حنفی ہونے کے باعث تھا، تو محمد بن قاسمؒ سے بغض بنو امیہ کا کماندار ہونے کی وجہ سے تھا۔ واقعہ کربلا کے محض بتیس سال بعد سندھ فتح ہو گیا تھا، خدا معلوم اس دوران مدینہ منورہ میں مقیم امام زین العابدینؒ کی ایسی کونسی اولاد پیدا ہوئی جو جنم کے ساتھ ہی مستور رہی اور پھر جوان ہو کر سندھ بھی پہنچ گئی اور اتنی با اثر بھی ہوگئی کہ محمد بن قاسمؒ کو انکی بیخ کنی کے لیے سندھ آنا پڑا لیکن تاریخ پھر بھی ان مبینہ سادات کے ذکر سے خالی رہ گئی اور ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے مصداق مرزا صاحب کو اپنے حق میں واحد گواہی جی ایم سید ٹائپ کے تیرہ سو سال بعد کے سیدوں کی ہی ملی۔ جس طرح منگولوں کے چون سال کے عرصے کو مرزا صاحب اپنے بغض میں ڈیڑھ سو سال بنا گئے، اسی طرح وہاں بھی بتیس سال کو سوا سو سال سمجھ کر کربلا اور فتح سندھ میں تین نسلوں کا فرق سمجھے بیٹھے ہونگے۔

جو لوگ تاریخ کے بنیادی جمع تفریق سے اس درجہ نابلد ہیں، وہ ہمیں جنگ جمل اور جنگ صفین کی "درست" تاریخ اور عوامل سے بزعم خود اگاہ کر رہے ہوتے ہیں۔



انجنیئر مرزا کا ارتغرل پر کلپ
 
مدیر کی آخری تدوین:
یہ پیغام مدیر کی منظوری کا منتظر ہے اور عام صارفین کی نظروں سے مخفی ہے۔

اس لڑی میں ایسی کیا خاص بات ہے۔ یا میرے پیغام میں کوئی قابلِ اعتراض لفظ ہے؟
 

ابن آدم

محفلین
یہ پیغام مدیر کی منظوری کا منتظر ہے اور عام صارفین کی نظروں سے مخفی ہے۔

اس لڑی میں ایسی کیا خاص بات ہے۔ یا میرے پیغام میں کوئی قابلِ اعتراض لفظ ہے؟
شکریہ بتانے کا،
امید ہے کہ فورم کے ایڈمنسٹریٹر اس بارے ضرور مطلع کریں گے
 

ابن آدم

محفلین
EZ438CeXkAImLx5
 
Top