ترکی کے ڈراموں کی بھرمار

شیزان

لائبریرین
السلام علیکم

اردو ون چینل پر ترکی کےایک سیریل" عشق ممنوع" جویقینآ پروڈکشن کے لحاظ سے بہترین ہوگا لیکن موضوع کے اعتبار سے بہت بولڈ تھا۔۔
اس کی کامیابی کے بعد روائتی بھیڑ چال کا شکار ہماری چینل انتظامیہ نے دھڑا دھڑ ترکی ڈرامہ سیریلز ٹیلی کاسٹ کرنا شروع کر دیئے ہیں۔
جن میں سرفہرست اردو ون پر" فاطمہ گل۔آخر میرا قصور کیا"
جیو ٹی وی پر "نور" اور
ایکسپریس انٹرٹینمنٹ پر "آسی" اور "مناھل اور خلیل" شامل ہیں۔

ان تمام ڈراموں کی ابتدائی اقساط دیکھنے کے بعد ایک بات جو شدت سے محسوس ہو رہی ہے کہ یہ ہمارے تہذیبی اور تمدنی روایات کے بالکل برعکس ہیں۔
بولڈ مناظراور ملبوسات۔ بولڈ موضوعات اور جدت پسند اسلام۔
حیرت ہوتی ہے کہ اس کلچر کو اسلامی کہنا بھی درست ہے یا نہیں۔؟؟؟
اور یہ سب وہاں کے نیشنل ٹی وی پر نشر ہوتا ہے۔
کیا یہ سب ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت ہو رہا ہے کہ ہمارے معاشرے میں بھی ایسے جدت پسند اسلام کو روشناس کروایا جائے یا صرف ٹی وی چینلز کے لئے کمائی کا ایک ذریعہ ہے۔۔؟؟
آپ کی کیا رائے ہے؟؟؟
 

نیلم

محفلین
وعلیکم اسلام ،
بھائی آج کل کے دور میں ہماری نیو جنریشن سے کون سی چیز دور رہ گئی ہے ،،نیٹ کیبل کے زریعے:)
ترکی بھی تمام ممالک کی طرح ویسٹ کلچر سے بہت امپریس ہے،،وہ چاہتا ہے کہ وہ بھی یورپ میں شامل ہوجائے:)
جب لوگ اپنے آپ سے اور اپنے کلچر سے شرمندہ ہونگے تو یہی کچھ ہوگا،،جو تربیت ہم دے رہے ہیں اپنے بچوں کو اور جو کچھ دیکھا رہے ہیں اُس کے بعد ہمیں کیا اُمید ہونی چایئے اُن سے،،محمد بن قاسم تو کوئی نہیں بنے گااب،،
اب تو بہلول اور شاہ رُخ خان یا ٹام کروز بنے گیں :D
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
وعلیکم اسلام ،
بھائی آج کل کے دور میں ہماری نیو جنریشن سے کون سی چیز دور رہ گئی ہے ،،نیٹ کیبل کے زریعے:)
ترکی بھی تمام ممالک کی طرح ویسٹ کلچر سے بہت امپریس ہے،،وہ چاہتا ہے کہ وہ بھی یورپ میں شامل ہوجائے:)
جب لوگ اپنے آپ سے اور اپنے کلچر سے شرمندہ ہونگے تو یہی کچھ ہوگا،،جو تربیت ہم دے رہے ہیں اپنے بچوں کو اور جو کچھ دیکھا رہے ہیں اُس کے بعد ہمیں کیا اُمید ہونی چایئے اُن سے،،محمد بن قاسم تو کوئی نہیں بنے گااب،،
اب تو بہلول اور شاہ رُخ خان یا ٹام کروز بنے گیں :D
یہ بہلول تو اک تاریخی نام ہے۔ اسکو کدھر ان میراثیوں میں گھسا دیا ہے۔ :eek:
رہی بات ڈراموں کی تو نیٹ سے ہر آدمی نہیں دیکھتا۔ لیکن چینلز پر اس طرح کی ثقافت کی ترویج زہر ہے۔ جو کہ رگوں میں سرایت کر کر آنیوالی نسلوں کو بالکل ہی اجاڑ دے گی۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بالکل ٹھیک کہا۔ ہمارے ہاں ٹی وی کا معیار انتہائی پست ہو گیا ہے۔

ایک دن ایک ڈرامہ "قدوسی صاحب کی بیوہ" کے دو تین سین دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ بہت ہی واہیات اور بیہودہ زبان کا استعمال کیا گیا ہے اس ڈرامے میں اور ایسے ڈرامے مزاح کے طور پر بھی کم از کم مجھے پسند نہیں ہیں۔ کم از کم یہ طرزِ کلام شریف لوگوں کا شیوہ نہیں ہوتا۔
 

شیزان

لائبریرین
وعلیکم اسلام ،
بھائی آج کل کے دور میں ہماری نیو جنریشن سے کون سی چیز دور رہ گئی ہے ،،نیٹ کیبل کے زریعے:)
ترکی بھی تمام ممالک کی طرح ویسٹ کلچر سے بہت امپریس ہے،،وہ چاہتا ہے کہ وہ بھی یورپ میں شامل ہوجائے:)
جب لوگ اپنے آپ سے اور اپنے کلچر سے شرمندہ ہونگے تو یہی کچھ ہوگا،،جو تربیت ہم دے رہے ہیں اپنے بچوں کو اور جو کچھ دیکھا رہے ہیں اُس کے بعد ہمیں کیا اُمید ہونی چایئے اُن سے،،محمد بن قاسم تو کوئی نہیں بنے گااب،،
اب تو بہلول اور شاہ رُخ خان یا ٹام کروز بنے گیں :D

بےشک نیٹ کی وجہ سے کوئی چیز ڈھکی چھپی نہیں رہ گئی لیکن اس کے باوجود کتنے لوگ ہیں جو نیٹ استعمال کرتے ہیں۔۔
اور یہ ڈرامے تو روازنہ صرف ایک بار نہیں بلکہ کئی کئی بار ریپیٹ ٹیلی کاسٹ ہوتے ہیں۔۔ جنہیں خواتین اور بچے مختلف اوقات میں دیکھ لیتے ہیں اگر وہ گھر کے مکمل افراد کے ساتھ نہ بھی دیکھ پائیں تو۔۔

باقی بلاشبہ ہمارے ہاں بھی یورپ اور امریکن کلچر کو اپنانے ولے موجود ہیں لیکن کتنے پرسنٹ؟؟؟
 

شیزان

لائبریرین
یہ بہلول تو اک تاریخی نام ہے۔ اسکو کدھر ان میراثیوں میں گھسا دیا ہے۔ :eek:
رہی بات ڈراموں کی تو نیٹ سے ہر آدمی نہیں دیکھتا۔ لیکن چینلز پر اس طرح کی ثقافت کی ترویج زہر ہے۔ جو کہ رگوں میں سرایت کر کر آنیوالی نسلوں کو بالکل ہی اجاڑ دے گی۔


سو فیصد متفق
ایک سو ستر اقساط میں برائی کو دکھا کر آخری قسط میں کہا جائے کہ کاش میں نے یہ نہ کیا ہوتا تو اس کا اثر کتنا اور کس حد تک ہو گا۔۔ یہ سوچنے کی بات ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بالکل ٹھیک کہا۔ ہمارے ہاں ٹی وی کا معیار انتہائی پست ہو گیا ہے۔

ایک دن ایک ڈرامہ "قدوسی صاحب کی بیوہ" کے دو تین سین دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ بہت ہی واہیات اور بیہودہ زبان کا استعمال کیا گیا ہے اس ڈرامے میں اور ایسے ڈرامے مزاح کے طور پر بھی کم از کم مجھے پسند نہیں ہیں۔ کم از کم یہ طرزِ کلام شریف لوگوں کا شیوہ نہیں ہوتا۔
میں نے خود زندگی میں صرف اک ڈرامہ دیکھا ہے۔ جو پی-ٹی-وی پر آتا تھا۔ پنجرہ کے نام سے۔ یہ ڈرامہ آصف علی پوتا کی تحریر تھی جو کہ صحافت کا بہت بڑا نام بھی ہیں۔ بقیہ نئے ڈراموں کے متعلق معلومات محفل سے ہی ملتی ہیں۔ ٹی-وی بھی نہیں میرے پاس۔ اس لیئے میں یہ بات ٹھوک بجا کر کہہ سکتا ہوں کہ انٹر نیٹ ان ڈراموں کی ترویج میں وہ کردار ادا نہیں کر سکتا جو چینلز کر رہے ہیں۔
اگر واقعی میں ایسی بات ہے تو یہ لمحہ فکریہ ہے۔ گورے اپنی اولادوں کے بارے میں تو اتنے حساس ہیں کہ ونڈوز 7 اور 8 میں ٹائم پروفائلز اور بچوں پر نظر رکھنے کے خصوصی پروگرام شامل ہیں۔ خیر یہ موضوع سے ہٹ جائے گی بات۔
لیکن واقعتاً ضرورت اس امر کی ہے کہ گھروں میں لوگ اپنے بچوں اور گھر والوں کو ایسے ڈراموں اور چینلز سے دور رکھیں۔ وگرنہ آنے والی نئی نسلیں رگوں میں جو خون لے کر جوان ہونگی وہ اظہر من الشمس ہے۔ اخلاقیات کا معیار کیا ہوگا۔ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ یہ موضوع بہت واشگاف الفاظ میں بیان کا تقاضا کرتا ہے جس کی محفل اور منتظمین متحمل نہیں ہو سکتے۔ لیکن ہر شخص کو اپنی ذمہ داریاں خود سمجھنی اور نباہنی ہونگی۔
 

شیزان

لائبریرین
اس وقت پاکستانی ٹی وی چینلز پر ڈائجسٹ میں لکھنے والی رائٹرز کی بھرمار ہے۔۔
اور خواتین بڑے ذوق و شوق سے اپنی پسندیدہ رائٹرز کے ڈرامے دیکھتی ہیں۔۔ ان میں اگرچہ وہی گھسے پٹے پرانے موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہوتا ہے لیکن ان موضوعات پر بات نہیں کی جاتی جو ایک فیملی ڈرامہ دیکھتے وقت شرمندگی کا باعث ہوں یا بولڈ کہلاتے ہوں۔ کیونکہ فلم میں آپ ریٹنگ کر سکتے ہیں کہ کس ایج گروپ کے لیے یہ مناسب ہے، ٹی وی پر نہیں۔
بلاشبہ ملبوسات کی حد تک پاکستانی ڈرامے بھی کافی ایڈوانس ہو چکے ہیں لیکن ابھی نوبت صرف جینز اور کرتے پر ہے۔
کل کلاں کو ترکی کی اس ثقافتی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے منی اسکرٹ اور سکرٹ کا استعمال پاکستانی ڈراموں میں عام ہوا تو اس کے ذمہ دار یہ ٹی وی چینلز اور پیمرا ہو گی۔
اگر بھارتی ثقافتی یلغار روکنے کے لیے پیمرا کے ذریعے بھارتی چینلز کو بند کیا جا سکتا ہے تو ان ترکش ڈراموں پر بھی پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔۔
باقی اپنی ذمہ داریوں کی حد والی بات بالکل درست ہے۔ ہر گھر کا ایک ماحول ہوتا ہے۔۔ اور اسے مینٹین رکھنا ہر بندے کی ذاتی ذمہ داری ہے۔۔
اچھائی برائی کی تمیز بچوں کو ابتدائی سالوں میں کرا دینا والدین کا فرض ہے۔۔ باقی عمر وہ اسی اچھے اور برے کے احساس کے تحت گزارتا ہے۔۔
 

سید ذیشان

محفلین
بالکل ٹھیک کہا۔ ہمارے ہاں ٹی وی کا معیار انتہائی پست ہو گیا ہے۔

ایک دن ایک ڈرامہ "قدوسی صاحب کی بیوہ" کے دو تین سین دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ بہت ہی واہیات اور بیہودہ زبان کا استعمال کیا گیا ہے اس ڈرامے میں اور ایسے ڈرامے مزاح کے طور پر بھی کم از کم مجھے پسند نہیں ہیں۔ کم از کم یہ طرزِ کلام شریف لوگوں کا شیوہ نہیں ہوتا۔

ویسے وہ ڈرامہ تو مجھے کافی مزاحیہ لگا ہے ;)
 

سید ذیشان

محفلین
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ہالی وڈ کی فلموں کے چینل جیسے کہ HBO، Star movies وغیرہ بھی کیبل پر آتے ہیں۔ ان میں اور ترکی سوپ ڈراموں میں کیا فرق ہے۔ اس پر روشنی ڈالئے۔ نیز مثال دے کر اور ڈائاگرام بنا کر واضح کریں۔ (20 نمبر)
 

مقدس

لائبریرین
میرے خیال میں تو دیکھنے والے خاصے سمجھدار ایج گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ کیا ان کے لیے اور ان کی فیملی کے اچھا ہے۔ اور دیکھنے پر مجبور تو کسی کو بھی نہیں کیا جا سکتا ناں۔۔ تو صرف میڈیا پر الزام کیوں؟ کیا ہماری تربیت، ہماری تعلیم اتنی بھی نہیں کہ ہم اچھے اور برے میں تمیز کر سکیں
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
میرے خیال میں تو دیکھنے والے خاصے سمجھدار ایج گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ کیا ان کے لیے اور ان کی فیملی کے اچھا ہے۔ اور دیکھنے پر مجبور تو کسی کو بھی نہیں کیا جا سکتا ناں۔۔ تو صرف میڈیا پر الزام کیوں؟ کیا ہماری تربیت، ہماری تعلیم اتنی بھی نہیں کہ ہم اچھے اور برے میں تمیز کر سکیں
خوبصورت بات کی مقدس نے۔ لیکن اکثر ہوتا یہ ہے کہ ٹی-وی کا ریموٹ بچوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ ماں امور خانہ داری میں مصروف تو باپ دفتر میں الجھا ہوا۔ نتیجہ یہ کہ بچے کچھ بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اسی لیئے میں نے کہا کہ ہر آدمی کو اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونا پڑے گا۔ لیکن بات یہ ہے کہ بری چیزوں پر دسترس اتنی آسان بھی نہیں ہونی چاہیئے۔ اور گھر کے منتظمین کو گھر کے اندر کچھ اصول وضع کرنے چاہیئے۔
 

سید ذیشان

محفلین
خوبصورت بات کی مقدس نے۔ لیکن اکثر ہوتا یہ ہے کہ ٹی-وی کا ریموٹ بچوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ ماں امور خانہ داری میں مصروف تو باپ دفتر میں الجھا ہوا۔ نتیجہ یہ کہ بچے کچھ بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اسی لیئے میں نے کہا کہ ہر آدمی کو اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونا پڑے گا۔ لیکن بات یہ ہے کہ بری چیزوں پر دسترس اتنی آسان بھی نہیں ہونی چاہیئے۔ اور گھر کے منتظمین کو گھر کے اندر کچھ اصول وضع کرنے چاہیئے۔

اسی وجہ سے parental lock جیسی چیزیں استعمال ہوتی ہیں :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اسی وجہ سے parental lock جیسی چیزیں استعمال ہوتی ہیں :)
لیکن اس شعور کو عوامی سطح پر اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں عام طور پر شہروں کے لوگ بھی اس سے ناواقف ہیں۔ دیہی علاقے کو تو زیربحث لایا ہی نہیں جس سکتا۔ :)
 

مقدس

لائبریرین
خوبصورت بات کی مقدس نے۔ لیکن اکثر ہوتا یہ ہے کہ ٹی-وی کا ریموٹ بچوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ ماں امور خانہ داری میں مصروف تو باپ دفتر میں الجھا ہوا۔ نتیجہ یہ کہ بچے کچھ بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اسی لیئے میں نے کہا کہ ہر آدمی کو اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونا پڑے گا۔ لیکن بات یہ ہے کہ بری چیزوں پر دسترس اتنی آسان بھی نہیں ہونی چاہیئے۔ اور گھر کے منتظمین کو گھر کے اندر کچھ اصول وضع کرنے چاہیئے۔
ہم تو کبھی بھی آلاؤڈ نہیں تھے بھیا کہ ریمورٹ ہمارے ہاتھ میں ہوتا۔۔ بچوں کے لیے پروگرامز کا تعین پیرنٹس کرتے ہیں، بچے خود نہیں۔۔ اب تو ٹی وی پر بھی پیرنٹل کنٹرول ہوتا ہے بھیا۔۔ اب تو اور بھی آسان ہو گیا ہے
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہم تو کبھی بھی آلاؤڈ نہیں تھے بھیا کہ ریمورٹ ہمارے ہاتھ میں ہوتا۔۔ بچوں کے لیے پروگرامز کا تعین پیرنٹس کرتے ہیں، بچے خود نہیں۔۔ اب تو ٹی وی پر بھی پیرنٹل کنٹرول ہوتا ہے بھیا۔۔ اب تو اور بھی آسان ہو گیا ہے
بہنا میں یہی بات اوپر کر رہا تھا کہ یہاں پاکستان میں ابھی پیرنٹل کنٹرول کے متعلق آگہی کی شدید ضرورت ہے۔ :) ویسے میں خود مخالف ہوں کہ ریموٹ بچوں کے ہاتھ میں ہو۔ ہمارے دور میں تو صرف پی-ٹی- وی چلتا تھا۔ اور اس پر میچز کے دوران بھی سگریٹ کی ڈبی کی تصویر دیکھا کرتے تھے۔ :cry:
 

شیزان

لائبریرین
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ہالی وڈ کی فلموں کے چینل جیسے کہ HBO، Star movies وغیرہ بھی کیبل پر آتے ہیں۔ ان میں اور ترکی سوپ ڈراموں میں کیا فرق ہے۔ اس پر روشنی ڈالئے۔ نیز مثال دے کر اور ڈائاگرام بنا کر واضح کریں۔ (20 نمبر)
بھائی جی! انگلش چینلز کو ہر وقت گھر گھر نہیں دیکھا جا رہا ہوتا۔ پھر لوکل لینگوئیج نہ ہونے کی بنا پر بھی چوبیس گھنٹے ان کو نہیں دیکھا جاتا۔۔ ترکی کے ڈرامے اردو زبان میں ڈب ہو کر نشر کئے جاتے ہیں اور بچہ بچہ ان کو دیکھ اور سمجھ رہا ہوتا ہے۔۔
باقی ڈائیا گرام اور مثال تو آپ خود ہی دے ڈالیئے۔ میں پچاس نمبر دوں گا۔;)
 

شمشاد

لائبریرین
میرے خیال میں تو دیکھنے والے خاصے سمجھدار ایج گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ کیا ان کے لیے اور ان کی فیملی کے اچھا ہے۔ اور دیکھنے پر مجبور تو کسی کو بھی نہیں کیا جا سکتا ناں۔۔ تو صرف میڈیا پر الزام کیوں؟ کیا ہماری تربیت، ہماری تعلیم اتنی بھی نہیں کہ ہم اچھے اور برے میں تمیز کر سکیں
تعلیم ہے ہی نہیں۔

اور میڈیا نے تو پیسے بنانے ہیں اور اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے یہ کچھ بھی کرتے رہتے ہیں۔
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
اس طرح کے جتنے بھی غیر ملکی ڈرامے دکھائے جائیں گے ان سے ہماری ہر چیز بہر حال ضرور متاثر ہوگی
ثقافت ۔۔۔شرم و حیا ۔۔عزت و ناموس کا جنازہ نکل جائے گا ۔۔۔
یہ چیزیں بہت ہی غیر محسوس طریقے سے اثر کرتی ہیں اور پتا بھی نہیں چلتا کب آپ کے خون میں سرایت کر جاتی ہیں ۔۔۔
ٹین ایجز کے لیئے یہ سب دیکھنا تو جیسے زہرِ قاتل ہوگا کیونکہ ان کی عمر سب سے زیادہ متاثر ہونے کی ہوتی ہے
ہر چمکتی چیز انہیں سونا لگتی ہے۔۔۔
باقی رہ گئے بڑے تو ظاہر ہے وہ دیکھیں گے تو بچوں کو کیسے منع کر سکیں گے۔۔۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اب ٹی وی پر تو ہر ایک کی رسائی ہے۔۔۔روکنا محال ۔۔سمجھانا مشکل ترین کام ہوگیا ہے تو پھر آگاہی پھیلانے کی شدید ضرورت ہے
پر پہلو کی اچھائی اور برائی ۔۔تربیت۔۔اور اپنے اقدار کی وضاحت اگر بڑے کرتے رہیں تو یہ واہیات چیزیں اس قدر اثر نہیں ڈالیں گی۔۔
 
Top