تری بزم میں ہمیں تھے کہ دوانہ وار آئے

نمرہ

محفلین
تری بزم میں ہمیں تھے کہ دوانہ وار آئے
ترے آستاں سے اٹھے، تری رہ سنوار آئے

نہیں فرق انجمن میں تری اور اپنے گھر میں
وہاں بے قرار پہنچے، یہاں دل فگار آئے

ہمیں اپنی زندگی میں وہی چار دن بہت ہیں
جو ملے تھے اپنی خاطر، جو وہاں گزار آئے

یہ عجب ستم ظریفی ہے یہاں فراق میں بھی
جو ڈھلے امید کا دن، شب انتظار آئے

مری عمر میں رتوں کا یہ عجیب سلسلہ ہے
نہ خزاں پلٹ کے دیکھے، نہ دگر بہار آئے

یہ مری مسافتوں میں رہا اور ہی تسلسل
وہ جو راستے گزارے، وہی بار بار آئے

وہ وفا کا قرض ہم پر کہ عزیز تر تھا جاں سے
جب اٹھے تری گلی سے، اسے بھی اتار آئے

ہمیں رسم پیروی سے نہیں کچھ مناسبت جب
تو پھر ایسے باغیوں کا کہیں کیوں شمار آئے

مجھے بھی عطا ہو یزداں سے وہی سبک خرامی
کہ فلک پہ ماہ و انجم سے پرے غبار آئے

مجھے اجنبی ہی رکھا ہر اک عہد، ہر نگر میں
کبھی ہو مرا زمانہ، مرا بھی دیار آئے​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ واہ! بہت خوب! کیا بات ہے!!
نمرہ صاحبہ ، اچھی غزل ہے ۔ بہت داد آپ کے لئے ! شاید کچھ وقت اور توجہ اور دیتیں تو دو چار معمولی سی کمزوریاں جو نظر آرہی ہیں وہ بھی نہ ہوتیں ۔

ہمیں اپنی زندگی میں وہی چار دن بہت ہیں
جو ملے تھے اپنی خاطر، جو وہاں گزار آئے

-------- پہلے مصرع میں زمانۂ حال کا صیغہ درست نہیں ۔ مصرع ثانی سے مطابقت نہیں ہورہی ۔

یہ عجب ستم ظریفی ہے یہاں فراق میں بھی
جو ڈھلے امید کا دن، شب انتظار آئے

-------- فراق تو امید اور انتظار ہی کا نام ہے ۔ اس شعر کے نفسِ مضمون کو پھر دیکھ لیجئے ۔

مری عمر میں رتوں کا یہ عجیب سلسلہ ہے
نہ خزاں پلٹ کے دیکھے، نہ دگر بہار آئے

--------- یہاں عمر کا نہیں زندگی کا محل ہے

یہ مری مسافتوں میں رہا اور ہی تسلسل
وہ جو راستے گزارے، وہی بار بار آئے

-------- راستہ گزارنا درست محاورہ نہیں ۔

وہ وفا کا قرض ہم پر کہ عزیز تر تھا جاں سے
جب اٹھے تری گلی سے، اسے بھی اتار آئے

-------- واہ واہ واہ! کیا اچھا کہا ہے ! بہت خوب!

ہمیں رسمِ پیروی سے نہیں کچھ مناسبت جب
تو پھر ایسے باغیوں کا کہیں کیوں شمار آئے

-------- شمار آنا بھی کوئی محاورہ نہیں ہے ۔ کسی زمرے وغیرہ میں ’’شمار ہونا‘‘ درست ہے ۔

مجھے بھی عطا ہو یزداں سے وہی سبک خرامی
کہ فلک پہ ماہ و انجم سے پرے غبار آئے

--------- واضح نہیں کہ آپ فلک پر سے غبار آنے کی بات کر رہی ہیں یا فلک پر غبار آنے کی ۔ دوسری بات یہ کہ یہاں آپ کا مقصود غبار آنا نہیں بلکہ غبار اٹھنا ہے ۔

مجھے اجنبی ہی رکھا ہر اک عہد، ہر نگر میں
کبھی ہو مرا زمانہ، مرا بھی دیار آئے

-------- اچھا خیال ہے ۔ یہاں آپ نے عہد کا عین گرادیا ہے ۔ عین کو الف کی طرح گرانا عموماً ٹھیک نہیں سمجھا جاتا ۔ لیکن کئی بڑے شاعروں کے ہاں عین کے ادغام کی مثالیں مل جاتی ہیں ۔ محبی سرور عالم راز سرور صاحب نے ایک پورا مضمون اس موضوع پر لکھ رکھا ہے ۔ کبھی ان کی ویب گاہ ( سرورعالم راز ڈاٹ کام) پر جانا ہو تو ضرور پڑھئے گا ۔
مجموعی طور پر اچھی غزل ہے ۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ!
 

نوید ناظم

محفلین
واہ واہ! بہت خوب! کیا بات ہے!!
نمرہ صاحبہ ، اچھی غزل ہے ۔ بہت داد آپ کے لئے ! شاید کچھ وقت اور توجہ اور دیتیں تو دو چار معمولی سی کمزوریاں جو نظر آرہی ہیں وہ بھی نہ ہوتیں ۔

ہمیں اپنی زندگی میں وہی چار دن بہت ہیں
جو ملے تھے اپنی خاطر، جو وہاں گزار آئے

-------- پہلے مصرع میں زمانۂ حال کا صیغہ درست نہیں ۔ مصرع ثانی سے مطابقت نہیں ہورہی ۔

یہ عجب ستم ظریفی ہے یہاں فراق میں بھی
جو ڈھلے امید کا دن، شب انتظار آئے

-------- فراق تو امید اور انتظار ہی کا نام ہے ۔ اس شعر کے نفسِ مضمون کو پھر دیکھ لیجئے ۔

مری عمر میں رتوں کا یہ عجیب سلسلہ ہے
نہ خزاں پلٹ کے دیکھے، نہ دگر بہار آئے

--------- یہاں عمر کا نہیں زندگی کا محل ہے

یہ مری مسافتوں میں رہا اور ہی تسلسل
وہ جو راستے گزارے، وہی بار بار آئے

-------- راستہ گزارنا درست محاورہ نہیں ۔

وہ وفا کا قرض ہم پر کہ عزیز تر تھا جاں سے
جب اٹھے تری گلی سے، اسے بھی اتار آئے

-------- واہ واہ واہ! کیا اچھا کہا ہے ! بہت خوب!

ہمیں رسمِ پیروی سے نہیں کچھ مناسبت جب
تو پھر ایسے باغیوں کا کہیں کیوں شمار آئے

-------- شمار آنا بھی کوئی محاورہ نہیں ہے ۔ کسی زمرے وغیرہ میں ’’شمار ہونا‘‘ درست ہے ۔

مجھے بھی عطا ہو یزداں سے وہی سبک خرامی
کہ فلک پہ ماہ و انجم سے پرے غبار آئے

--------- واضح نہیں کہ آپ فلک پر سے غبار آنے کی بات کر رہی ہیں یا فلک پر غبار آنے کی ۔ دوسری بات یہ کہ یہاں آپ کا مقصود غبار آنا نہیں بلکہ غبار اٹھنا ہے ۔

مجھے اجنبی ہی رکھا ہر اک عہد، ہر نگر میں
کبھی ہو مرا زمانہ، مرا بھی دیار آئے

-------- اچھا خیال ہے ۔ یہاں آپ نے عہد کا عین گرادیا ہے ۔ عین کو الف کی طرح گرانا عموماً ٹھیک نہیں سمجھا جاتا ۔ لیکن کئی بڑے شاعروں کے ہاں عین کے ادغام کی مثالیں مل جاتی ہیں ۔ محبی سرور عالم راز سرور صاحب نے ایک پورا مضمون اس موضوع پر لکھ رکھا ہے ۔ کبھی ان کی ویب گاہ ( سرورعالم راز ڈاٹ کام) پر جانا ہو تو ضرور پڑھئے گا ۔
مجموعی طور پر اچھی غزل ہے ۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ!
تری بزم میں ہمیں تھے کہ دوانہ وار آئے
ترے آستاں سے اٹھے، تری رہ سنوار آئے
جی کیا اس مطلع میں ایطا نہیں؟
 
Top