نمرہ
محفلین
تری بزم میں ہمیں تھے کہ دوانہ وار آئے
ترے آستاں سے اٹھے، تری رہ سنوار آئے
نہیں فرق انجمن میں تری اور اپنے گھر میں
وہاں بے قرار پہنچے، یہاں دل فگار آئے
ہمیں اپنی زندگی میں وہی چار دن بہت ہیں
جو ملے تھے اپنی خاطر، جو وہاں گزار آئے
یہ عجب ستم ظریفی ہے یہاں فراق میں بھی
جو ڈھلے امید کا دن، شب انتظار آئے
مری عمر میں رتوں کا یہ عجیب سلسلہ ہے
نہ خزاں پلٹ کے دیکھے، نہ دگر بہار آئے
یہ مری مسافتوں میں رہا اور ہی تسلسل
وہ جو راستے گزارے، وہی بار بار آئے
وہ وفا کا قرض ہم پر کہ عزیز تر تھا جاں سے
جب اٹھے تری گلی سے، اسے بھی اتار آئے
ہمیں رسم پیروی سے نہیں کچھ مناسبت جب
تو پھر ایسے باغیوں کا کہیں کیوں شمار آئے
مجھے بھی عطا ہو یزداں سے وہی سبک خرامی
کہ فلک پہ ماہ و انجم سے پرے غبار آئے
مجھے اجنبی ہی رکھا ہر اک عہد، ہر نگر میں
کبھی ہو مرا زمانہ، مرا بھی دیار آئے
ترے آستاں سے اٹھے، تری رہ سنوار آئے
نہیں فرق انجمن میں تری اور اپنے گھر میں
وہاں بے قرار پہنچے، یہاں دل فگار آئے
ہمیں اپنی زندگی میں وہی چار دن بہت ہیں
جو ملے تھے اپنی خاطر، جو وہاں گزار آئے
یہ عجب ستم ظریفی ہے یہاں فراق میں بھی
جو ڈھلے امید کا دن، شب انتظار آئے
مری عمر میں رتوں کا یہ عجیب سلسلہ ہے
نہ خزاں پلٹ کے دیکھے، نہ دگر بہار آئے
یہ مری مسافتوں میں رہا اور ہی تسلسل
وہ جو راستے گزارے، وہی بار بار آئے
وہ وفا کا قرض ہم پر کہ عزیز تر تھا جاں سے
جب اٹھے تری گلی سے، اسے بھی اتار آئے
ہمیں رسم پیروی سے نہیں کچھ مناسبت جب
تو پھر ایسے باغیوں کا کہیں کیوں شمار آئے
مجھے بھی عطا ہو یزداں سے وہی سبک خرامی
کہ فلک پہ ماہ و انجم سے پرے غبار آئے
مجھے اجنبی ہی رکھا ہر اک عہد، ہر نگر میں
کبھی ہو مرا زمانہ، مرا بھی دیار آئے