تری تصویر میں بند آنکھیں بنا دیں میں نے ۔ غزل اصلاح کے لئے

ایک غزل اصلاح کے لئے پیش کر رہا ہوں ۔
بحر رمل مثمن مخبون محذوف
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
استاد محترم جناب الف عین سر سے اصلاح کی درخواست ہے دیگر احباب کے مشوروں اور تبصروں کا بھی منتظر ہوں۔؎
*******............********............********
جب بھی ہم سوئے تو اک خواب کے اندر جاگے
خواب میں بھیگتے پھرتے ہوئے باہر جاگے

اس کی دوشیزگی چپکے سے جوانی میں ڈھلی
بہتے دریا ہُوئے خاموش، سمندر جاگے

تری تصویر میں بند آنکھیں بنا دیں میں نے
منتظر ہوں یہ کُھلیں اور کوئی منظر جاگے

منجمد کر کے ہر اک خواب کو لے آئے ہیں
اب تناؤ میں نہ آئینگے کہ شب بھر جاگے

اب کہاں لوگ، مقیّد جو روایات میں تھے
آج کے ذہن میں تو سرکشی گھر گھر جاگے

جب کرن فکر کی ان سخت مسائل پہ گری
کتنے پہلو ہوئے روشن نئے مُظہَر جاگے

سوچ کے زاویے بدلو، نئی راہیں نکلیں
ہٹ کے جس قوم نے سوچا تو مقدر جاگے

مار ڈالے نہ ہمیں، وقت دِکھا کر شیشہ
رات بھر ہاتھ میں کاشف، لئے پتھر جاگے
*******............********............********
 

الف عین

لائبریرین
تعمال کرو یا سرکشی کی نشست بدلو۔ت استعمال کرو یا اس کی نشست بدلنے کی سوچوارے یہ کیسے رہ گئی میری نظروں سے؟؟؟

اس کی دوشیزگی چپکے سے جوانی میں ڈھلی
بہتے دریا ہُوئے خاموش، سمندر جاگے

سمندر بھی چپکے سے !! استعارہ تو ہنگامے کا ہے اس لئے ’چپکے سے‘ کا محل نہیں۔
اب کہاں لوگ، مقیّد جو روایات میں تھے
آج کے ذہن میں تو سرکشی گھر گھر جاگے

دوسرا مصرع رواں نہیں لگ رہا۔ سرکشی کی ی کا اسقاط بھی اچھا نہیں، یا تو بغاوت لفظ استعمال کرو یا سرکشی کی نشست بدل دو۔
باقی درست ہے میرے خیال میں۔
 
تعمال کرو یا سرکشی کی نشست بدلو۔ت استعمال کرو یا اس کی نشست بدلنے کی سوچوارے یہ کیسے رہ گئی میری نظروں سے؟؟؟

اس کی دوشیزگی چپکے سے جوانی میں ڈھلی
بہتے دریا ہُوئے خاموش، سمندر جاگے

سمندر بھی چپکے سے !! استعارہ تو ہنگامے کا ہے اس لئے ’چپکے سے‘ کا محل نہیں۔
اب کہاں لوگ، مقیّد جو روایات میں تھے
آج کے ذہن میں تو سرکشی گھر گھر جاگے

دوسرا مصرع رواں نہیں لگ رہا۔ سرکشی کی ی کا اسقاط بھی اچھا نہیں، یا تو بغاوت لفظ استعمال کرو یا سرکشی کی نشست بدل دو۔
باقی درست ہے میرے خیال میں۔
جزاک اللہ سر۔
اس کی دوشیزگی جس دن سے جوانی میں ڈھلی
بہتے دریا ہوئے خاموش، سمندر جاگے !
یہ کیسا ہے ؟
دوسرا شعر کی درستی میں شاید وقت لگے !
شکریہ
 

حنیف خالد

محفلین
جناب کاشف اسرار احمد صاحب بہت اچھی غزل ہے۔
چند چیزیں مجھے سمجھ نہیں آئیں، اساتذہ ہی رہنمائی فرمائیں گے ۔ بندہ صرف سمجھنا چاہتا ہے۔
جب بھی ہم سوئے تو اک خواب کے اندر جاگے
خواب میں بھیگتے پھرتے ہوئے باہر جاگے

اس کی دوشیزگی چپکے سے جوانی میں ڈھلی
بہتے دریا ہُوئے خاموش، سمندر جاگے

تری تصویر میں بند آنکھیں بنا دیں میں نے
منتظر ہوں یہ کُھلیں اور کوئی منظر جاگے
پہلے شعر کے پہلے مصرع میں آپ نے "ہم" جمع کا صیغہ استعمال کیا، اور تیسرے شعر کے پہلے مصرع میں "میں" واحد کا صیغہ استعمال کیا ۔
اسی طرح دوسرے شعر میں "
اس کی " یعنی غائب کا صیغہ استعمال کیا، اور تیسرے شعر میں "تری " حاضر کا صیغہ استعمال کیا۔
کیا یہ سب
شتر گربہ نہیں ہے؟
 

الف عین

لائبریرین
جناب کاشف اسرار احمد صاحب بہت اچھی غزل ہے۔
چند چیزیں مجھے سمجھ نہیں آئیں، اساتذہ ہی رہنمائی فرمائیں گے ۔ بندہ صرف سمجھنا چاہتا ہے۔
جب بھی ہم سوئے تو اک خواب کے اندر جاگے
خواب میں بھیگتے پھرتے ہوئے باہر جاگے

اس کی دوشیزگی چپکے سے جوانی میں ڈھلی
بہتے دریا ہُوئے خاموش، سمندر جاگے

تری تصویر میں بند آنکھیں بنا دیں میں نے
منتظر ہوں یہ کُھلیں اور کوئی منظر جاگے
پہلے شعر کے پہلے مصرع میں آپ نے "ہم" جمع کا صیغہ استعمال کیا، اور تیسرے شعر کے پہلے مصرع میں "میں" واحد کا صیغہ استعمال کیا ۔
اسی طرح دوسرے شعر میں "
اس کی " یعنی غائب کا صیغہ استعمال کیا، اور تیسرے شعر میں "تری " حاضر کا صیغہ استعمال کیا۔
کیا یہ سب
شتر گربہ نہیں ہے؟
ایک ہی شعر میں اگر ایسا ہو تو اسے شتر گربہ کہتے ہیں۔ الگ الگ اشعار میں علیحدہ علیحدہ صیغے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
 
Top