حسان خان
لائبریرین
تری گلی سے پریشان و اشک بار آئے
لحد میں ہم دلِ بیمار کو اتار آئے
کبھی نہ ہوش میں ہم اے خیالِ یار آئے
کسی کے در پہ گئے جب اُسے پکار آئے
بنی ہے کیا دلِ بیتاب پر خدا جانے
کچھ آج اشک بھی آنکھوں سے بے قرار آئے
کمالِ عشق میں وہ اعتبار لے گئے ہم
عدم میں غل ہے کہ یکتائے روزگار آئے
ہماری خاک پڑی ہے تمہارے کوچے میں
ذرا نسیم سے کہہ دو نہ بار بار آئے
کمال شہرۂ الفت گراں بخاطر تھا
سبک ہوئے جو ہیں سب قبر میں اتار آئے
وہ عندلیب ہیں مر جائیں گر خزاں میں ہم
عدم سے خاک اڑاتی ہوئی بہار آئے
کہیں پہ چھوٹ گیا دل کہیں پہ رہ گئی روح
ہم اس قدر ترے کوچے سے بے قرار آئے
تمہارے کوچے میں جا کر کبھی نہ بہلا دل
خبر کے واسطے آنسو ہزار بار آئے
یہی نشان ہے خود رفتگانِ الفت کا
کہ نیند آئے اُسے جو سرِ مزار آئے
تمہارے وحشیوں میں ہیں وہ صاحبِ شہرت
ہمارے نام سے پتھر ہزار بار آئے
ہمارے بعد یہ ہے حال ہم صفیروں کا
اس آشیاں میں صدا دی اُدھر پکار آئے
زوالِ حسن میں روکا نہ پاسباں نے ہمیں
تری گلی کی طرف سے ہزار بار آئے
تڑپ کے برق بھی کہتی ہے تیرے نالوں سے
مری طرف نہ کوئی آہ کا شرار آئے
صبا نے دی ترے وحشی کی قبر پر جاروب
پئے طواف بگولے ہزار بار آئے
شبِ فراق میں آرام ہے دلا معیوب
میں خود تڑپنے لگوں جب تجھے قرار آئے
عجب نہیں ہے مرے سوزِ داغِ فرقت سے
زمین کو بھی پسینہ دمِ فشار آئے
خفا نہ ہو جو تمہاری گلی میں دفن ہوئے
ہزار بار سب آئے ہم ایک بار آئے
ریاضِ دہر میں ہم اپنی بے ثباتی پر
عرق عرق ہمہ تن مثلِ آبشار آئے
یہ رشک ہے ترے کوچے کے آنے والوں سے
ہوا کے ساتھ نہ ہرگز مرا غبار آئے
وہ نیند آئی کہ تا روزِ حشر سوئے ہم
نسیمِ آہ کے جھونکے جو پانچ چار آئے
یہ حرمتِ شبِ فرقت کی ہے تجھے تاکید
کبھی نہ خاک سوئے چشمِ انتظار آئے
نسیمِ آہ ہے اس کام پر فقط معمور
تری طرف سے نہ دل میں کبھی غبار آئے
تمام گردِ کدورت ہے قالبِ خاکی
عدم سے قلب پہ ہم لے کے یہ غبار آئے
وفورِ رحمتِ معبود اے تعشق دیکھ
امیدوارِ شفاعت گناہ گار آئے
(تعشق لکھنوی)
لحد میں ہم دلِ بیمار کو اتار آئے
کبھی نہ ہوش میں ہم اے خیالِ یار آئے
کسی کے در پہ گئے جب اُسے پکار آئے
بنی ہے کیا دلِ بیتاب پر خدا جانے
کچھ آج اشک بھی آنکھوں سے بے قرار آئے
کمالِ عشق میں وہ اعتبار لے گئے ہم
عدم میں غل ہے کہ یکتائے روزگار آئے
ہماری خاک پڑی ہے تمہارے کوچے میں
ذرا نسیم سے کہہ دو نہ بار بار آئے
کمال شہرۂ الفت گراں بخاطر تھا
سبک ہوئے جو ہیں سب قبر میں اتار آئے
وہ عندلیب ہیں مر جائیں گر خزاں میں ہم
عدم سے خاک اڑاتی ہوئی بہار آئے
کہیں پہ چھوٹ گیا دل کہیں پہ رہ گئی روح
ہم اس قدر ترے کوچے سے بے قرار آئے
تمہارے کوچے میں جا کر کبھی نہ بہلا دل
خبر کے واسطے آنسو ہزار بار آئے
یہی نشان ہے خود رفتگانِ الفت کا
کہ نیند آئے اُسے جو سرِ مزار آئے
تمہارے وحشیوں میں ہیں وہ صاحبِ شہرت
ہمارے نام سے پتھر ہزار بار آئے
ہمارے بعد یہ ہے حال ہم صفیروں کا
اس آشیاں میں صدا دی اُدھر پکار آئے
زوالِ حسن میں روکا نہ پاسباں نے ہمیں
تری گلی کی طرف سے ہزار بار آئے
تڑپ کے برق بھی کہتی ہے تیرے نالوں سے
مری طرف نہ کوئی آہ کا شرار آئے
صبا نے دی ترے وحشی کی قبر پر جاروب
پئے طواف بگولے ہزار بار آئے
شبِ فراق میں آرام ہے دلا معیوب
میں خود تڑپنے لگوں جب تجھے قرار آئے
عجب نہیں ہے مرے سوزِ داغِ فرقت سے
زمین کو بھی پسینہ دمِ فشار آئے
خفا نہ ہو جو تمہاری گلی میں دفن ہوئے
ہزار بار سب آئے ہم ایک بار آئے
ریاضِ دہر میں ہم اپنی بے ثباتی پر
عرق عرق ہمہ تن مثلِ آبشار آئے
یہ رشک ہے ترے کوچے کے آنے والوں سے
ہوا کے ساتھ نہ ہرگز مرا غبار آئے
وہ نیند آئی کہ تا روزِ حشر سوئے ہم
نسیمِ آہ کے جھونکے جو پانچ چار آئے
یہ حرمتِ شبِ فرقت کی ہے تجھے تاکید
کبھی نہ خاک سوئے چشمِ انتظار آئے
نسیمِ آہ ہے اس کام پر فقط معمور
تری طرف سے نہ دل میں کبھی غبار آئے
تمام گردِ کدورت ہے قالبِ خاکی
عدم سے قلب پہ ہم لے کے یہ غبار آئے
وفورِ رحمتِ معبود اے تعشق دیکھ
امیدوارِ شفاعت گناہ گار آئے
(تعشق لکھنوی)
آخری تدوین: