متلاشی
محفلین
ایک تازہ غزل اصلاح کے لئے پیشِ خدمت ہے۔
تری یاد دل میں بسا کے چلے
ترا نام لب پر سجا کے چلے
بچا کچھ نہیں ہے مرے پاس اب
دل و جان سب ہی لٹا کے چلے
ملا درد جو بھی ترے عشق میں
وہ سینے میں اپنے چھپا کے چلے
کیا تم سے جو وعدۂِ عشق تھا
وہی قول پھر ہم نبھا کے چلے
رہی زندگی بھر وہی ضد مری
کبھی سر نہ اپنا جھکا کے چلے
جئے جو تو سر کو اُٹھا کے جئے
چلے گر تو گردن کٹا کے چلے
صدا پھر رہے گا یہ احساں مرا
مئے عشق سب کو پلا کے چلے
بھلا نہ سکے گا زمانہ مجھے
اسے خوں کے آنسو رلا کے چلے
اندھیروں کے ویراں نگر میں نصر
دیے عشق کے ہم جلا کے چلے
14-10-11
تری یاد دل میں بسا کے چلے
ترا نام لب پر سجا کے چلے
بچا کچھ نہیں ہے مرے پاس اب
دل و جان سب ہی لٹا کے چلے
ملا درد جو بھی ترے عشق میں
وہ سینے میں اپنے چھپا کے چلے
کیا تم سے جو وعدۂِ عشق تھا
وہی قول پھر ہم نبھا کے چلے
رہی زندگی بھر وہی ضد مری
کبھی سر نہ اپنا جھکا کے چلے
جئے جو تو سر کو اُٹھا کے جئے
چلے گر تو گردن کٹا کے چلے
صدا پھر رہے گا یہ احساں مرا
مئے عشق سب کو پلا کے چلے
بھلا نہ سکے گا زمانہ مجھے
اسے خوں کے آنسو رلا کے چلے
اندھیروں کے ویراں نگر میں نصر
دیے عشق کے ہم جلا کے چلے
14-10-11