محمد عبدالرؤوف
لائبریرین
استاد صاحب
ترے خیال کی مہک لیے لیے جدھر چلی
میں چل پڑا ہوں اپنے لب سیے سیے، جدھر چلی
گلی گلی دیار دل کی جھوم جھوم ہی گئی
تو ساغرِ حیات کو لیے لیے جدھر چلی
وہ کوئی شعلہ تھا کہ وہ ہوائے یادِ یار تھی
جلا گئی، بجھا گئی دیے دیے، جدھر چلی
تری ہنسی کے ساز سے، مرے ہوئے بھی جی اٹھے
تو لب پہ سازِ زندگی لیے لیے جدھر چلی
نسیمِ یادِ یار بھی اُڑا اُڑا گئی مجھے
کہ جیسے آندھیوں میں خس لیے لیے جدھر چلی
ترے نفس نفس سے ہی ہزار پھول کھل اٹھے
چمن میں تو لبوں کو وا کیے کیے جدھر چلی
میں چل پڑا ہوں اپنے لب سیے سیے، جدھر چلی
گلی گلی دیار دل کی جھوم جھوم ہی گئی
تو ساغرِ حیات کو لیے لیے جدھر چلی
وہ کوئی شعلہ تھا کہ وہ ہوائے یادِ یار تھی
جلا گئی، بجھا گئی دیے دیے، جدھر چلی
تری ہنسی کے ساز سے، مرے ہوئے بھی جی اٹھے
تو لب پہ سازِ زندگی لیے لیے جدھر چلی
نسیمِ یادِ یار بھی اُڑا اُڑا گئی مجھے
کہ جیسے آندھیوں میں خس لیے لیے جدھر چلی
ترے نفس نفس سے ہی ہزار پھول کھل اٹھے
چمن میں تو لبوں کو وا کیے کیے جدھر چلی
آخری تدوین: