یاسر بھائی ، اس موضوع پر تو کئی دفعہ متعدد دھاگوں میں تفصیلاً گفتگو ہوچکی ہے ۔ اب تکرار کی ہمت نہیں ۔
مختصراً یہ کہ اردو ایک باقاعدہ الگ اور منفرد زبان ہے۔ اس کی اپنی شناخت ہے ۔ اگر ہم ایسا نہیں مانیں گے تو پھر کون مانے گا ۔ یہ اصول تو طے ہوچکا کہ لفظ خواہ کسی زبان سے آیا ہو جب اردو میں آگیا تو پھر اس پر قواعد و ضوابط اردو ہی کے لاگو ہوں گے ۔اس کے معنی ، محلِ استعمال ، املا اور تلفظ سب کے سب اہلِ اردو سے لئے جائیں گے ۔ اگر عربی اور فارسی سے درآمدہ الفاظ کے معانی ، محلِ استعمال ، املا اور تلفظ کو انہی زبانوں کے مطابق مانا جائے تو پھر بہت ہی بڑے بڑے مسائل پیدا ہوجائیں گے ۔ اردو تو پھر اردو نہیں رہے گی، مذاق بن جائے گی ۔
متنازع امور میں جب تک کسی اتھارٹی کو نہ مانا جائے تب تک زبان کا ایک معیار مقرر نہیں ہوسکے گا ۔ اس سے آئندہ نسلوں کے لئے اردو سیکھنا اور اپنانا مشکل تر ہوتا جائے گا ۔ اس کے کچھ مشاہدات تو ہم موجودہ عہد ہی میں کررہے ہیں ۔
زبان کی ترویج اور ترقی میں املا ( اوررسم الخط) کی حیثیت بنیادی ہے ۔ املا کو معیاری بنانے کے لئے املا نامہ کو حکم بنانا اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے ۔ املا نامہ کئی دہائیوں کی لسانی تحقیق اور متعدد ماہرینِ لسانیات کی تجاویز کا نچوڑ ہے ۔ یعنی کوزے میں دریا ہے ۔ ہمزہ کے بارے میں تفصیل سے لکھنے کا اب نہ وقت ہے اور نہ جی چاہ رہا ہے ۔ کوئی مخصوص سوال ہو تو بات ہوسکتی ہے ۔ فی الحال آپ املا نامہ کا یہ باب دیکھ لیجیے ۔ پانچ منٹ لگیں گے ۔ آپ زیادہ بور نہیں ہوں گے ۔
ہمزہ - املا نامہ
اردو میں رؤف اور عبدالرؤف کو ہمیشہ سے اسی طرح لکھا گیا ہے ۔ اب رؤوف اور عبدالرؤوف کےعربی املا پر اصرار کرنے سے کیا حاصل ۔ اردو ایک الگ زبان ہے ۔ اس کا اپنا املا ہے ۔ فارسی میں آزمایش اور فرمایش لکھتے ہیں لیکن اردو میں آزمائش اور فرمائش۔ فارسی میں صدای دل اور بوی گل لیکن اردو میں صدائے دل اور بوئے گل ۔ وغیرہ وغیرہ
یہ کھٹی املی بہت میٹھی لگے گی بھائی ۔ بس اس کو محبت اور چاہت سے دیکھنے کی ضرورت ہے