ساغر نظامی ترے نام پر نوجوانی لُٹادی - ساغر نظامی

کاشفی

محفلین
غزل
(ساغر نظامی)
ترے نام پر نوجوانی لُٹادی
جوانی نہیں زندگانی لُٹادی
یہاں عشرتِ زندگانی لُٹادی
وہاں دولتِ جاودانی لُٹادی
تقاضہ، تقاضہ، مقدّر، مقدّر
جوانی نے خود ہی جوانی لُٹادی
بہ ہر کو بہارے، بہ ہر سو نگارے
نگاہوں نے اپنی جوانی لُٹادی
یہ اک روز مٹتی، یہ اک روز لُٹتی
یہ اک چیز تھی آنی جانی لُٹادی
جوانی کے لُٹنے کا غم ہو تو کیوں ہو
جوانی تھی فانی، جوانی لُٹادی
خرد کو یہ ضد تھی نہ لٹتی یہ دولت
اسی ضد پہ ہم نے جوانی لُٹادی
وہ گلیاں ابھی تک حسیں و جواں ہیں
جہاں ہم نے اپنی جوانی لُٹادی
محبّت میں ہم اور کیا کچھ لُٹاتے
متاعِ غرورِ جوانی لُٹادی
جوانی نے بڑھ کر محبّت کو لوٹا
محبّت نے ہنس کر جوانی لُٹادی
درِ خُمستاں سے جوانی ملی تھی
درِ خمستاں پر جوانی لُٹادی
جو مل جائے تو عمرِ رفتہ سے پوچھوں
یونہی لُٹ گئی یا جوانی لُٹادی
جو ساقی نے ہنس کر کبھی جام بخشا
تو ساغر نے اُٹھ کر جوانی لُٹادی
 
Top